نیک خاتون I عورت نعمت و رحمت کا مجموعہ ہوتی ہے

نیک خاتون I عورت نعمت و رحمت کا مجموعہ ہوتی ہے


  عورت نعمت و رحمت کا مجموعہ ہوتی ہے ۔ اس کے اندر تڑپتے دلوں کو راحت اور ٹمٹماتی آنکھوں کو جلابخشنے کی صلاحیت ہوتی ہے ،قدرت نے اس کی تخلیق مرد کی وحشت کو دور کرنے لئے ضرور کیا ہے لیکن اس سے مستفاد و منتفع ہونے کے لیے مضبوط قوانین بھی بنادیاہے جن کے حدود میں رہ کر مرد عورت سے ہر طرح کے جائز معاملات میں مدد لے سکتا ہے اور اپنی زندگی کوخوبصورت بنا سکتا ہے ۔ ہاں اگر مرد حیوانیت کا روپ دھارن کرلے اور ناجائز طریقہ سے اپنی ناپاک خواہشات کی تکمیل کا عورت کو ذریعہ بنائے تو ایسوں پر خدا کی لعنت کے سوا کچھ نہیں کہ اس نے مورنی جیسی موہنی صورت والیوں کا راز سر بستہ سمجھا ہی نہیں ۔ ۔۔۔۔ آج کے دور میں بھی مجنوں کم نہیں تو لیلیٰ بھی کم نہیں ہر کوئی اسیر زلف یار نظر آتا ہے ۔ دلوں میں اپنی محبوبہ کے لیے مکر وفریب کے ستونوں پر خوبصورت محل سجانے کی ناپاک کوشش کرتا ہے ۔ماضی میں بھی ایسے دیوانوں کی کمی نہیں رہی ہے جو اسلام کی مہذب پاکیزہ ترین شہزادیوں کو اپنے دام تزویر میں پھنسانے کی سعی نہ کیاہو لیکن ہاں ایسے نام نہاد دیوانوں کو ماضی کی خوبصورت و خوب سیرت دوشیزائیں اور خواتین منٹوں میں راہ راستہ پر لاکر کھڑی کر دی ہیں اور ایک خدا کی محبت سے ان کے دلوں کو جگمگاچکی ہیں اس کی ہی ایک کڑی یہ واقعہ جسے اہل تصوف نے باب الخوف کے ذریعہ ہم تک پہنچایا ہے ۔
بتاتے ہیں کہ ایک طیبہ نامی نیک خاتون تھی وہ صورت و سیرت میں لا ثانی تھی محاسن اسلام سے اس کا وجود جگمگ کرتاتھا اور اس کا قلب خوف خدا سے معمور تھا وہ طیبہ و طاھرہ تھی ،حقیقت میں وہ اسم بامسمیٰ تھی ۔زمانہ کے گرد آلود ہواؤں سے وہ ضرور محفوظ تھی ، کسی کی آوارہ نگاہ ابھی تک اس کو قید نہ کرسکی تھی ۔ لیکن نہ جانے کب اور کیسے ایک جوان نے اس کی دید کا شرف حاصل کرلیا اور اس ایک دید نے اس کو اس کی محبت کا اسیر بنادیا ، جوان اس کی محبت میں کھویا کھویا رہنے لگا اور ہر لمحہ اس سے قریب ہونے کی ہر ممکن کوشش کرتا لیکن کامیابی کا حصول اسے دور تک نظر نہیں آتا ۔دل میں "طیبہ " کی محبت شباب پر تھی اور رہ رہ کر جوش مارتی تھی اور حالت یہ تھی کہ یہ اس سے بہت دور فراق کی زندگی کے تلے دبا ہوا تھا ۔جوان معاشرہ کی حد بندیوں کی وجہ سے دل میں جلتے ہوئے آگ کی چنگاریوں کو باہر پھینکنے سے بھی قاصر و مجبور تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جوان "طیبہ" کی یاد میں دیوانہ بن چکاتھا جب کہ " طیبہ " خدا کی یاد میں مشغول تھی اور اس کا دل خشیت الٰہی سے پر تھا ، شیطانی وسوسوں سے اس کا نہاں خانہ صاف و شفاف تھا ۔ اسی اثناء میں ایک قافلہ کی معیت میں کسی دوسرے شہر جانے کا " طیبہ " کا پروگرام بن گیا ۔ یہ خبر بھی سوار بر گوش اس دیوانہ تک پہنچ جاتی ہے ۔دیوانہ بغیر تھوڑا سا وقت گنوائے فرط مسرت سے رخت سفر باندھتا ہے اور قافلہ کے ساتھ دوسرے شہر کے لیے روانہ ہوجاتا ہے ۔ قافلہ چلتے چلتے جنگل سے گزرنے والا راستہ میں داخل ہوجاتا ہے اور ادھر دن ڈھل کر وقت مغرب ہوجا تا ہے ۔۔ رفتہ رفتہ رات کی گھٹا ٹوپ تاریکی روئے زمین پر پھیل گئی اہل قافلہ رات کی سیاہی اور جنگلی راستہ میں آگے کا سفر کرنا غیر مناسب جانا اور ایک کشادہ محفوظ و مامون مقام پڑاؤ ڈال دیا ۔ جوان بھی ایک کنارہ پر خیمہ زن ہوتا ہے اور اپنے مقصد حیات کی تکمیل کو قریب دیکھ کر مسرت سے آہیں بھرتا ہے ۔ 
جب اہل قافلہ خورد ونوش سے فارغ ہوئے تو ان پر نیند کا خمار ظاہر ہونے لگا ۔ سفر کی تھکاوٹ سے وہ چور تھے پھر کیا تھا دیکھتے دیکھتے سارا قافلہ محو خواب تھا ۔ پر جوان اب تک جاگ رہاتھا اور اس کی آنکھوں پر نیند کا خمار بھی نہ تھا اور نہ سفر کی تھکان کا اس پر کوئی اثر تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی جائے پناہ سے اٹھتا ہے اور آہستہ آہستہ " طیبہ " کے خیمہ کے قریب آتا ہے اور طیبہ طیبہ کہ کر پکارتا ہے طیبہ پر شاید ابھی تک نیند غلبہ نہیں ہوا تھا یا وہ کوئی وظیفہ میں مشغول تھی ۔ وہ نوجوان کہتا ہے " طیبہ ! میں تم سے پیار کرنے لگا ہوں ۔ایک عرصہ سے تیرے عشق کی آگ میرے سینہ میں جل رہی ہے میں تیری محبت میں گرفتار ہوچکا ہوں اور آج تو تیری محبت ہی یہاں تک کھینچ لائی ہے اب دیر نہ کرو ، میری محبت قبول کرو ۔۔ میری طیبہ ! جوان اپنے جنون میں زبان پر جو آیا کہتا گیا ۔۔۔۔۔۔ جاؤ قافلہ والوں کو دیکھو کوئی جاگ تو نہیں رہا ہے طیبہ نے مختصر لفظوں میں کہا ۔ جوان ۔۔ خوشی سے پھولے نہ سمایا ۔خوشی سے مچلنے لگا اور قافلہ کا جائزہ لے کر آہیں بھرتے ہوئے طیبہ کے قریب آتا ہے اور کہتا ہے ۔ کیاخوب سارا قافلہ گہری نیند سورہا ہے ۔ تیرا کیا خیال ہے ،کیا خدا بھی سورہا ہے ؟ طیبہ نے اس جوان سے برجستہ کہا ۔ اتنا کہنا تھا کہ جوان کا جسم خوف خدا سے لرزنے لگا جوان ہکلاتے ہوئے اتنا ہی بول پاتا ہے َلاسِنَةٌوَلَانَومٌ ،، یہ تم کیا کہ رہی ہو خدا کو نہ تو اونگھ آتی ہے اور نہ نیند ۔۔۔۔۔۔ تو پھر خدا تو دیکھ رہا ہے ۔ قافلہ والے سورہے ہیں تو کیا ہوا ۔ طیبہ نے اس کو پھٹکارا ۔۔۔۔جوان دل سے نادم ہوا اور اپنی غلطی سے توبہ کرکے بارگاہ رب العزت میں مغفرت کا طالب ہوا ۔ آہ کیا خوب کسی نے کہا ہے ؂ 
جن کی آنکھوں میں سدا شرم و حیا رہتی ہے ۔ 
ان کے قدموں تلے جنت کی ضیا رہتی ہے 

Post a Comment

0 Comments