متحد ہو تو بدل ڈالو نظامِ گلشن
انسان مختلف اعضا سے مل کر بنا ہے۔اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہر عضو دوسرے عضو سے اپنی خصوصیت و کیفیت کے اعتبار سے ممتاز و جداگانہ ہے بلکہ ایک دوسرے کی ضد ہے۔مگر اعضا کا اتفاق و اتحاد وجود و تشخص کی بقا اور اس کو پر کشش اور طاقت ور بنانے کے لیے نا گزیر ہے۔
اسی طرح کا اتفاق و اتحاد ہم مسلمانوں میں ہونا چاہئے ،اتفاق و اتحاد کی پرسکون فضا میں زندگی گزر بسر ہونی چاہیے،ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا خیر خواہ ہونا چاہیے ، ایک دوسرے کے جذبات و احساسات ،علم و عمر اور احترام نفس کا پاس و لحاظ رکھنا ضروری ہے۔عموما دیکھا جاتا ہے ایک دوسرے کے نظریات کا احترام نہ کرنے کی وجہ سے اختلافات و مناقشات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہوجاتا ہے۔
اختلاف و انتشار کی ایسی ہوائیں چلی ہیں کہ اتفاق و اتحاد اور خیر خواہی کی ساری وادیاں ویران ہوگئ ہیں۔ایک گھر کے لوگ ایک گھر میں رہنے کے باوجود ایک دوسرے سے متنفر ہیں۔پڑوسی ایک دوسرے سے نالاں و گریاں ہیں ۔پورا معاشرہ ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔اخلاقی قدریں اس قدر تباہ و برباد ہوگئ ہیں کہ ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنا اور عزت نفس کو تار تار کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیاجاتا ہے۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں جتنی محنت کی جارہی ہے اتنی محنت اپنی شخصیت کو سنوارنے اور اپنی عادتوں کو سدھارنے میں صرف کی جاتی تو آج ہمیں یہ خون کا آنسو نہیں رونا پڑتا ¡
معاصرین علماء اپنے اکابرین کی عزت وقار کو مجروح کرنے کی مہم سوشل میڈیا چھیڑ رکھی ہیں۔آئے دن کسی نہ کسی بڑے عالم دین کی کردار کشی کرنے والی دلخراش تحریر و تقریر نظروں سے دوچار ہوتی رہتی ہے۔ہمیں چاہیے کہ اکابرین علماء کے فضل و کمال کا اعتراف کرتے ہوئے معاصرین علماء کے علم و فضل کا احترام بجا لائیں¡¡¡
ایک حکایت ذیل میں نقل کی جارہی ہے شاید کہ ہمعصروں کے لیے سرمہ بصیرت ثابت ہو ۔
*معاصرین کا اکرام*
نام ور محدث ابو بکر ابن عیاش کا بیان ہے کہ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے بھائی کا انتقال ہوگیا تو ہم لوگ ان کے لیے تعزیت کے لیے گئے۔پوری مجلس علما مشائخ سے بھری ہوئی تھی۔اسی حالت ميں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ بھی مع اپنے تلامذہ کے وہاں پنہچے ۔جب حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو دیکھا تو آپ مسند چھوڑ کر کھڑے ہوگئے اور بڑی گرم جوشی کے ساتھ معانقہ کیا اور پھر آپ کو اپنی مسند میں بٹھا کرخوب مودب ہوکر بیٹھ گئے۔جب امام اعظم ابو حنیفہ چلے گئے تو میں نے حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ اللہ سے عرض کیا کہ حضرت ¡
آج آپ کے یہی طرز عمل مجھ کو اور میرے ساتھیوں کو بے حد ناگوار گزرا کہ آپ نے امام اعظم ابو حنیفہ کی تعظیم میں بہت مبالغہ کیا۔حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تمہیں کیوں ناپسند ہوا ؟
امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ ایک جلیل القدر صاحب علم ہیں۔میں ان کی تعظیم کے لیے کیوں نہ کھڑا ہوتا؟
اگر ان کے علم کی تعظیم کے لیے نہ کھڑا ہوتا تو ان کی فقہ کے لیے اٹھتا تو ان کے تقوی کے لیے اٹھتا اگر ان کے تقوی کے لیے نہیں اٹھتا تو ان کے سن وسال کے کھڑا ہوتا حضرت ابو بکر ابن عیاش رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو سفیان رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ کو اس طرح خاموش کردیا کہ میں لاجواب ہو کر رہ گیا۔
نتیجہ :_الله اکبر کتنا نورانی و بابرکت دور تھا کہ اس مقدس دور کے علماء حق اخلاص وللہیت کے مجسمہ تھے۔ آج علماء کا باہمی تباغض و تحاسد دیکھ کر زندگی سے نفرت ہونے لگتی ہے ۔کاش اپنی زندگی میں ہم بھی وہ رحمت والا دور دیکھتے ¡ مگر افسوس ہم ایسے زمانے میں پیدا ہوئے ۔
چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بروں میں ۔
پیاروں میں محبت ہے نہ،یاروں میں وفا ہے۔
(روحانی حکایات)
اگر ہم باہم متفق نہیں ہوئے اور ایک دوسرے کا احترام کرنا نہیں سیکھیں تو دشمنوں کی سازشیں اور اور ہمارے حریفوں کی شیطانی چالیں ہمیں چاروں طرف سے گھیر لے گیں اور ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے کف افسوس ملتے رہ جائیں گے ¡
اینٹ چاہے جتنی بھی مضبوط ہو اگر وہ منتشر و مختلف ہو تو اسے کوئی بھی ادھر ادھر اٹھا کر پھینک دے گا ،مگر وہی اینٹیں اگر دیوار کے ساتھ چن دی جائیں تو اب اسے توڑ نے کے لیے بلڈوزروں کی ضرورت ہوگی ۔اتفاق و اتحاد سے کمزور بھی طاقت ور بن جاتا ہے اور اختلاف و انتشار سے طاقت پارہ پارہ ہوجاتی ہے۔ حدیث شریف میں ہے ایک مومن دوسرے مومن کے لیے دیوار کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو قوت دیتا ہے(بخاری شریف)
خدارا ¡ انا کی تسکین اور تھوڑی سی شہرت کی خاطر اختلاف و انتشار کا زہر نہ پھیلایا جائے ،اختلافی ناگ کا سر کچل دیا جائے ،اتحاد کی فضا ہموار کی جائے اسی میں ملت کی فلاح و بہبودی کا راز مضمر ہے ۔
متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن
منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہو
0 Comments