Yaad E Huzoor Ashraful Auliya / یادِ حضور اشرف الاولیاء

Yaad E Huzoor Ashraful Auliya / یادِ حضور اشرف الاولیاء

چودھویں صدی کی ایک عبقری شخصیت خانوادہ اشرفیہ کے چشم وچراغ, مرشد کامل, حضرت اشرف الاولیاء ابوالفتح سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمۃ کی ذات بابرکات ہے
Yaad E Huzoor Ashraful Auliya / یادِ حضور اشرف الاولیاء

🌹*قسط اول یادحضوراشرف الاولیاء*🌹
 21 ذوالقعدہ بسلسلہ یوم عرس پاک زبدۃالسالکین، قدوۃ العارفین، رئیس المتکلمین، سلطان المناظرین، زینۃ الاتقیاء، اشرف الاولیاء حضرت علامہ ومولانا ابوالفتح سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی جیلانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
 
*زینت الاصفیا اشرف الاولیاء*
*سید الاذکیا اشرف الاولیاء*
*تو ہے آقا مرا میں ہوں خادم ترا*
*دے تصدق ذرا اشرف الاولیاء*
چودھویں صدی کی ایک عبقری شخصیت خانوادہ اشرفیہ کے چشم وچراغ, میرے مرشد کامل, حضرت اشرف الاولیاء ابوالفتح سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمۃ والرضوان.
 آپ ایک عالم باعمل, صوفی باصفا, 
کامل مرشد ہدایت اور رہنمائے طریقت تھے, آپ کی ذات تنہا ایک انجمن تھی, آپ کا وجود نہ جانے کتنی انجمنوں کے لئے شمع فروزاں, نہ جانے کتنے جسم کے مریضوں نے آپ سے دوائے شفا پائی, آپ فیوض و بر کات کے سر چشمہ تھے۔
*ولادت باسعادت:*
26 ربیع الثانی 1346ھ مطابق 23 اکتوبر 1927ء کو علم و عرفان والے گھرانے میں کچھوچھہ مقدسہ میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی, جس دن آپ کی ولادت پاک ہوئی اسی روز موضع پہلام, سمری بختیار پور, ضلع سہرسہ (بہار) میں سنی دیوبندی مناظرہ میں مسلسل تین روز مناظرہ کے بعد اہل سنت والجماعت کو فتح مبین اور دیوبندیوں کو شکست فاش ملی تھی۔
جب آپ کے والد گرامی حضور تاج الاصفیا اور حضور محدث اعظم ہند رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہما فتح کا پرچم لہراتے ہوئے کچھوچھہ مقدسہ پہونچے اور سلطان المناظرین بحرالعلوم حضرت سید احمد اشرف علیہ الرحمہ کو فتح مبین کی خوشخبری سنائی تو آپ علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا کہ:
*"اسی تاریخ کو آپ کے یہاں شہزادے تشریف لائے ہیں اور کامیابی کا چاند طلوع ہوا ہے"*۔
اور پھر حضور سلطان المناظرین علیہ الرحمہ نے اپنے بھتیجے کو گود میں لیا اور پیشانی کو بوسہ دیتے ہوئے برجستہ ارشاد فرمایا:
*"یہ میرا ہمشکل ہے, اس کی آمد سعید ہے اور مجھے لگتا ہیکہ اس کی ولادت کی برکت ہےکہ مناظرہ میں اہلسنت والجماعت کو فتح مبین حاصل ہوئی ہے"*۔
پھر آپ نے حضور اشرف الاولیاء کا تاریخی نام *"ابوالفتح سید محمد مجتبیٰ اشرف"* تجویز فرمایا جسکے اعداد "1346" نکلتے ہیں۔
آپ کو *"ابوالفتح"* اسی مناظرہ پہلام میں فتح وکامیابی کی مناسبت سے کہا جاتا ہے۔
(ماخوذ ۔ اشرف الاولیا حیات وخدمات)
 سبحان اللہ سبحان اللہ! آپ کے پیدائش کی برکت سے اہل سنت کو کامیابی ملی اور تاعمر اہل خبیث ان سے تھراتے ہی رہے, کسی بدبخت کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ وہ آپ کے جمال پرانوار کی تاب لاسکے اور دلائل کا جواب دے سکے
🌹 *قسط دوم یاد حضور اشرف الاولیاء*🌹
21 ذوالقعدہ بسلسلہ یوم وصال پاک
حضور اشرف الاولیاء حضرت علامہ و مولانا ابوالفتح سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی جیلانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
*قسط دوم*
*سب سے اعلیٰ سب سے اولیٰ مرتبہ سادات کا*
*سب سے بہتر سب سے برحق راستہ سادات کا*
                   -------------------------
*عالی نسب:*
حضور اشرف الاولیاء ابوالفتح سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمۃ والرضوان کا سلسلہ نسب پچیس واسطوں سے شہباز لامکانی غوث صمدانی حضور سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی غوث الاعظم دستگیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اڑتیس واسطوں سے دونوں عالم کے مالک ومختار سید ابرار واخیار حضور اکرم نور مجسم ﷺ تک پہونچتا ہے جس کا اجمالی خاکہ حسب ذیل ہے۔
1. اشرف الاولیاء سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی جیلانی 
2. بن تاج الاصفیا سید مصطفیٰ اشرف 
3. بن محبوب ربانی سید محمد علی حسین المعروف بہ اعلیٰحضرت اشرفی میاں 
4. بن سید سعادت علی 
5. بن سید قلندر علی 
6. بن سید تراب علی 
7. بن سید نواز اشرف 
8. بن سید محمد غوث 
9. بن سید جمال الدین
10. بن سید عزیزالرحمان
11. بن سید محمد عثمان
12. بن سید ابو الفتح زندہ پیر
13. بن سید محمد اشرف
14. بن سید محمد حسن اشرف
15. بن سید عبدالرزاق نورالعین پاک
16. بن سید عبدالغفور حسن
17. بن سید ابو العباس احمد
18. بن سید بدرالدین حسن
19. بن سید علاء الدین
20. بن سید شمس الدین
21. بن سید سیف الدین
21. بن سید ظہیرالدین 
22. بن سید ابو نصر
23. بن سید ابوصالح عمادالدین
24. بن سید ابوبکر عبدالرزاق
25. بن غوث الاعظم محبوب سبحانی سید محی الدین عبدالقادر جیلانی
26. بن سید ابو صالح موسیٰ جنگی دوست
27. بن سید ابو عبداللہ 
28. بن سید یحییٰ زاہد
29. بن سید محمد
30. بن سید ابو داؤد
31. بن سید موسیٰ ثانی
32. بن سید عبد اللہ ثانی
33. بن سید موسیٰ
34. بن سید عبد اللہ محض
35. بن امام سید حسن مثنیٰ
36. بن سیدنا امام حسن مجتبیٰ
37. جگر گوشہ رسول سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا و رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین-
38. آقائے نامدار روحی فداہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ -
(جاری ہے)

🌹 *قسط سوم یاد حضور اشرف الاولیاء*🌹
 
*جب آتا ہے میرے دل میں خیال مجتبیٰ اشرف*
*نظر میں رقص کرتاہے جمال مجتبیٰ اشرف*
*چمکتا چاند سا چہرہ جبیں رشک قمر جن کی*
*کوئی کس طرح لائے گا مثال مجتبیٰ اشرف*
                      --------------------------
         *حلیۂ مبارکہ:*
حضور اشرف الاولیاء ابوالفتح حضرت سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ کا نقش سراپا یہ ہے۔
وجیہ وشکیل دراز قد, ہزاروں میں ممتاز و نمایاں, رنگ گورا, سر بڑا گول, بال سیاہ, چہرہ گول روشن وتابناک نور برستا ہوا, جسے دیکھ کر خدا یاد آجائے, پیشانی روشن کشادہ جس پر سعادت کے آثار نمایاں, پلکیں گھنیں ہالہ نما, آنکھیں بڑی بڑی خوبصورت, ہونٹ پتلے پتلے گلابی رنگ لئے ہوئے, دندان مبارک چھوٹے چھوٹے ہموار, صاف و شفاف, وقت تبسم موتیوں کی لڑی کی طرح, ناک متوسط قدرے اٹھی ہوئی, کان متناسب قدرے درازی لئے ہوئے, ریش مبارک مشروع گھنی اور گول, رخسار آفتابی۔
چہرے پر رعب و جلال, گردن معتدل, سینہ مبارک صاف اور فراخ, دستہائے مبارک نرم و نازک لمبے لمبے سخاوت و فیاضی میں ضرب المثل, کلائیاں چوڑیں, ہتھیلیاں بھری ہوئیں نرم وگداز, گفتگو متوسط آواز, آواز شیریں, رفتار صوفیانہ, لباس و وضع میں سادگی, سر پر خاندانی کلاہ اور کبھی مخصوص تاج خاندانی, الحاصل خاندانی جاہ و جلال شان و شوکت حسن و جمال کا مجموعہ۔
آپ کے حسن سراپا کو دیکھ کر دل پکار اٹھتا تھاکہ: یا رسول اللہﷺ 
*تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا*
*تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا*
*بسم اللہ خوانی:* خانوادۂ اشرفیہ کا دستور ہیکہ ہر نومولود بچے کو چھٹی کے دن ہاتھ میں قلم دیاجاتا ہے اور بسم اللہ لکھوایا جاتا ہے۔ معمول کے مطابق آپ کے جد امجد ہم شبیہ غوث اعظم, مجدد سلسلہ اشرفیہ حضرت علامہ الشاہ سید محمد علی حسین اشرفی جیلانی المعروف بہ اعلیٰحضرن اشرفی میاں قدس سرہ نے آپ کے ہاتھ میں قلم دیا اور بسم اللہ خوانی کی نیک رسم ادا کی, بعدہ حضور اشرف الاولیا کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور فرمایا: "*میرے اس پوتے کے ذریعہ دین اسلام اور سلسلہ اشرفیہ کو کافی فروغ حاصل ہوگا اور یہ کثیرالفیوض بزرگ بنےگا۔"*
*تعلیم و تربیت:* جب حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ کی عمر 4 سال 4 ماہ 4 دن کی ہوئی تو حسب دستور خاندانی آپ کے والد ماجد تاج الاصفیا حضرت سید مصطفیٰ اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ نے کچھوچھہ مقدسہ میں قائم "مدرسہ اشرفیہ" میں آپ کا داخلہ کر وایا.
بعدہ حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ نے اعلیٰ تعلیم کے لئے مبارک پور یو پی کا رخت سفر باندھا اور وہاں باغ فردوس الجامعۃ الاشرفیہ میں داخلہ لیا جس کی سنگ بنیاد آپ کے جد امجد ہم شبیہ غوث اعظم محبوب ربانی اعلیٰحضرت اشرفی میاں علیہ الرحمتہ والرضوان نے رکھی تھی اور تا حیات آپ اس کے سر براہ اعلیٰ رہے, اور آ ج بھی وہاں ان کا فیض جاری ہے۔ عالم اسلام کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں ہاں بالذات یا بالواسطہ اشرفی فیضان نہ پہنچاہو۔
حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ خانوادہ اشرفیہ کے پہلے فرد تھے جنہوں نے الجامعۃ الاشرفیہ میں داخلہ لیا جب یہ خبر جلالۃ العلم حافظ ملتحضرت علامہ عبدالعزیز اشرفی علیہ الرحمہ کو ہوئی تو آپ نے قصبہ مبارک پور میں اعلان کیا کہ:
 *"اے مبارک پور کے خوش عقیدہ مسلمانو! حضور تشرفی میاں کے عقیدتندو! تم خوش نصیب ہو تمہاری قسمت کا ستارہ عروج پر ہیکہ تمہارے یہاں نبیرہ اعلیٰحضرت ابوالفتح سید محمد مجتبیٰ اشرف تعلیم حاصل کر نے کے لئے تشریف لا رہے ہیں, چلو اپنے مخدوم زادے کے استقبال کے لئے چلو اور اپنے محسن ومربی کے پوتے کا شایان شان استقبال کرو"۔*
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی اس آواز پر کثیر تعداد میں عقیدتمند جمع ہوگئے, قصبہ مبارک پور میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی, شوق دید میں سبھی منتظر نظر آنے لگے, حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ: *"سٹھیاؤں اسٹیشن چلو وہیں سے نعرہائے تکبیر ورسالت اور فیضان مخدوم سمناں کی چھاؤں میں مخدوم زادے کو لےآئیں گے اور ساتھ ہی مخدومی فیضان سے بھی مستفیض ہوتے رہینگے۔"*
تاریخ نے ایسا پہلی بار دیکھا تھاکہ حافظ ملت جیسی جلیل القدر شخصیت اپنے شاگرد (خاص) کے استقبال کے لئے خود تشریف لے گئے تھے, جب حضور اشرف الاولیاء ٹرین سے اترے تو پورا خطہ *"آل رسول"* اور *"فیضان مخدوم سمناں"* کے نعروں سے گونج اٹھا, دست بوسی اور قدمبوسی کے لئے منتظرین پروانوں کی طرح ٹوٹ پڑے سب سے پہلے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ آپ سے بغل گیر ہوئے اور آپ کو سینے سے لگایا,
آپ نے اپنےوقت کے جلیل القدر اساتذہ کی تربیت میں مروجہ تمام علوم و فن میں مہارت حاصل کی,
آپ کے جلیل القدر اساتذہ کرام:
حضرت مفتی عبدالرشید ناگپوری
حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی اشرفی
حضرت مولانا آل حسن سنبھلی
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ
مولانا عبد المصطفیٰ اعظمی
مولانا عبد المصطفی ازہری
مولانا عبد الرؤف بلیاوی
مولانا سلیمان اشرف بھاگلپوری
مولانا شمس الحق
مولانا علی احمد 
رحمۃ اللہ علیہم اجمعین
حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ اساتذہ کرام کی نگاہ میں کافی محبوب ومقبول تھے۔ اساتذہ کرام انہیں عموماً *"سید صاحب"*
سے مخاطب کیا کرتے تھے۔
بحیثیت استاذ آپ بھی ان کی تعظیم وتوقیر میں کوئی تقصیر نہیں ہونے دیتے تھے اور تاحیات بڑے فخر سے اپنے ان استذۂ کرام کا اسم گرامی لیتے اور اپنی مجلسوں میں ان اساتذۂ کرام کی شفقت ومحبت کا برملا ذکر فرمایا کرتے تھے۔
دورطالب علمی میں ہی حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کو آپ کی حسن کارکردگی, تبلیغی خدمات اور قائدانہ صلاحیتوں پر اعتماد ویقین ہوگیا تھا۔ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ اطراف و مضافات کے جلسے جلوس میں اکثر آپ کو اپنے ساتھ رکھتے اور کبھی کبھی اپنا نائب بناکر چند طلبہ کے ساتھ تنہا بھیج دیا کرتے تھے۔ (ماخوذ۔ اشرف الاولیا حیات وخدمات)
(جاری ہے)
🌹 *قسط چہارم یاد حضور اشرف الاولیاء*🌹

*اے رشک قمر اے نور سحر اتنا توکرم کرنا مجھ پر*
*آجانا تصور میں میرے جب دل ہو پریشاں تیرے لئے*
*ایّام طفولیت میں نبی کونین سلطان دارین ﷺ اور بزرگان دین کی زیارت پاک سے مشرف ہونا۔*
حضور اشرف الاولیاء قدس سرہ کی ذات ستودہ صفات ان خوش نصیب افراد میں ہیں جن کو اپنی آنکھوں سے حضور اکرم نور مجسم ﷺ, حضور غوث الاعظم دستگیر, سلطان الہند خواجہ خواجگان خواجہ غریب نواز اور غوث العالم محبوب یزدانی مخدوم سلطان سید اوحد الدین اشرف جہانگیر سمنانی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے۔
حضور اشرف الاولیاء حضرت سید ابوالفتح محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ کے بچپن اورلڑکپن کا زمانہ تھا، آپ کے جد امجد حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کی طبیعت سخت علیل تھی، مسلسل علالت کی وجہ سے آپ میں اٹھ کر بیٹھنے کی سکت بھی نہ تھی، خانوادہ کے سبھی لوگ عیادت اور تیمارداری میں مصروف تھے، چھوٹے چھوٹے بچے دادا جان کو مرض میں مبتلا دیکھ کر خدمت میں لگے ہوۓ تھے، جن میں حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ بھی تھے، اتنے میں حضور اعلیٰحضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ پر جلال کی کیفیت طاری ہوگئی، اورعوام وخاص سبھی کو فوراً حجرہ خالی کرنے کا حکم دیا، حکم سنتے ہی سبھی حجرے سے باہر ہو گئے، لیکن حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ جہاں تھے وہیں رہے، دادا جان رحمتہ اللہ علیہ نے دوبارہ آپ کو مخاطب کیا اور باہر جانے کا حکم دیا تو آپ مچل گئے اور عرض کرنے لگے *"میں یہیں رہونگا اس حالت میں آپ کو چھوڑ کر با ہر ہرگز نہ جاؤں گا"۔*
اپنے نو عمر پوتے کی زبان سے یہ محبّت اور دَرد بھرا جُملہ سُن کر آپ کو رحم آگیا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا : *"اگر باہر جانا نہیں چاہتے ہو تو میری چارپائی کے نیچے چُھپ جاؤ"۔*
آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ چارپائی کے نیچے چُھپ گئے اور غور سے دیکھنے لگے کہ آخر آج خلاف معمول ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
جب تنہائی ہو گئی تو آپ (رحمتہ اللہ علیہ) نے دیکھا کچھ با رونق شخصیتیں ظاہرہوئیں جن کی آمد پر اعلیٰحضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ اپنے بستر علالت سے اٹھ کر از خود کھڑے ہوگئے، اور آنے والوں کی نہایت ہی مؤدب انداز میں تعظیم وتوقیر بجا لاۓ، پھر اعلیٰحضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ اور آنے والے معزز حضرات کے درمیان گفت وشنید کا سلسلہ جاری ہوا جو بہت دیر تک جاری رہا، اعلیٰحضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ عربی زبان میں گفتگو کر رہے تھے، پھر اچانک وہ مکرّم شخصیتیں غائب ہوگئیں اور آپ آنسوؤں کے ساتھ اپنے بستر علالت پر لیٹ گئے-
جب یہ پُربہار وپُرنور سَماں ختم ہوا تو جدّ امجد علیہ الرحمہ نے آپ کو باہر نکلنے کی اجازت دی۔
تب آپ نے اپنے دادا جان سے عرض کی:
 *"حضور آپ میں تو کھڑے ہونے کی طاقت نہیں تھی، آخر یہ بزرگ کون تھے جن کی تعظیم کے لئے آپ کھڑے ہوگئے اورکافی دیر تک ان سے عربی زبان میں بات چیت کی"۔*
 تو دادا جان محبوب ربانی علیہ الرحمہ نے آپ سے فرمایا:
*"چپ رہو، چپ رہو، ابھی ابھی جن بزرگوں کو تم نے دیکھا ہے ان میں حضور پر نور شافع یوم النشور سید عالم روحی فداہ ﷺ، محبوب سبحانی حضور غوث الاعظم دستگیر، حضور خواجہ خواجگان خواجہ غریب نواز وحضور محبوب یزدانی سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) ہیں جوتشریف لاۓ تھے، بھلا ان عظیم ہستیوں کی آمد پر میں اپنے بستر پر کیسے لیٹا رہتا۔ دیکھو! میری زندگی میں اس واقعہ کو کسی سے بیان مت کرنا ورنہ گونگے ہوجاؤگے"-*
اس طرح حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ سرکار دو عالم روحی فداہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے ساتھ ساتھ ان بزرگان دین کی زیارت سے بھی مشرّف ہوئے اور جد امجد حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد اس واقعہ کو اپنے اہل خاندان اور مریدین ومتوسلین سے بیان فرمایا- سننے والوں کا بیان ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنی حیات ظاہری میں گاہ بگاہ اس واقعہ کو بیان فرماتے اور جب بھی اس واقعہ کو بیان فرماتے، بیان کرتے ہوئے اشک بار ہو جاتے- (اشرف الاولیا حیات وخدمات)
(جاری ہے)

🌹*قسط پنجم یادِ حضور اشرف الاولیاء*🌹
                                   
بیعت وخلافت:* حضور اشرف الاولیاء حضرت ابوالفتح سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمتہ والرضوان جب سن بلوغ کو پہونچے تو آپ کے باطنی کمالات اور اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے آپ کو اسی وقت آپ کے جد امجد حضور مخدوم الاولیاء ہمشبیہ غوث الاعظم محبوب ربّانی سید علی حسین اشرفی المعروف بہ اعلیٰحضرت اشرفی میاں علیہ الرحمتہ والرضوان نے سلسلہ عالیہ قادریہ چشتیہ نقشبندیہ اشرفیہ میں آپ کو بیعت کیا اور اجازت و خلافت عطا فرمائی۔

پھر حسب روایات خاندانی ودستور خانقاہی اپنے والد ماجد مخدوم المشائخ تاج الاصفیاء پیر طریقت رہبر راہ شریعت حضرت علامہ سید شاہ مصطفیٰ اشرف اشرفی جیلانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے تمام سلاسل حقہ ماذونہ خصوصا سلاسل اربعہ مشہورہ کی اجازت وخلافت مع تاج وجبّہ مرحمت فرمائی اور جملہ اوراد و وظائف اور اعمال خاندانی خصوصاً دعائے حیدری، دعائے سیفی، دعائے بشمخ، دعائے الف اور حزب البحر وغیرہ کی اجازت مرحمت فرمائی اور آپ کو اپنا جانشین و قائم مقام ولی عہد نامزد فرمایا-
*تبلیغ و اشاعت:* آپ کی فراغت شعبان المعظم ١٣٦٦ھ میں "دارالعلوم اہلسنت مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم" سے امتیازی نمبروں سے ہوئی۔ آپ کا شمار الجامعتہ الاشرفیہ کے قابل فخر فرزندوں میں ہوتا ہے۔
چونکہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے دور طالب علمی میں ہی آپ کی علمی جلالت اور تدریسی دسترس کو محسوس کرلیا تھا لہذا فراغت کے سال ہی آپ نے حضور اشرف الاولیا سے تدریسی خدمات کی خواہش ظاہر کی, آپ نے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی خواہش پر عمل کرتے ہوئے بحیثیت معین المدرسین دارالعلوم اشرفیہ کی درس گاہ کو زینت بخشی۔
 آپ دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور میں مسند درس وتدریس پر رونق افروز تھے مگر ابھی سال بھی پورا نہ ہو پایا تھا کہ والد محترم حضور تاج الاصفیاء علیہ الرحمہ کے مشاغل ومصروفیات اور کارہاۓ تبلیغ کی وسعتوں کے مدّ نظر تدریسی خدمات سے آپ کو علیٰحدگی اختیار کرنی پڑی اور تبلیغی خدمات کی جانب زمام زندگی کو موڑنا پڑا-
جماعت اہلسنت کی تبلیغ واشاعت اور اپنے والد گرامی کے مشن کے فروغ میں مصروف ہو گئے، دین مصطفوی ﷺ کی نشر واشاعت اور مسلک اہلسنت و جماعت کے فروغ وارتقا کے لئے ایشیا و یوروپ کے مختلف ممالک اور ہندوستان کے مختلف صوبوں کا آپ نے دورہ کیا، یوں تو آپ کا فیضان پوری ملّت اسلامیہ کے لئے عام تھا لیکن بنگال، بہار، اڑیسہ، آسام، گجرات، یوپی، ایم پی، مہاراشٹر، راجستھان، پنجاب، کرناٹک، آندھراپردیش، سکّم اور بیرون ہند بھوٹان, بنگلہ دیش، پاکستان، سعودیہ، انگلینڈ وغیرہ کے مسلمان آپ سے زیادہ فیضیاب ہوئے-
کہیں دین محمدی ﷺ کی حفاظت کیلئے مدرسے قائم کئے- کہیں اپنے معبود حقیقی کے آگے سر بسجود ہونے اوراظہار بندگی کیلئے مسجدوں کی تعمیر فرمائی کہیں تصفیہ قلب اور تزکیہ نفس کیلئے خانقاہوں کی تعمیر کی، اور اگر کہیں دین اسلام اور مذھب اہل سنت و الجماعت کو کسی نے اپنے اعتراضات کا نشانہ بنایا اور انگشت نمائی کی تو ان سے مقابلہ کر کے دشمنان دین کو خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔
جس سے ہزارہا لوگ اپنے باطل عقائد اور غلط نظریات سے تائب ہوکر اہل حق کے جھرمٹ میں آگئے-
حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ کے تبلیغی دورے کا خاص مقصد مسلک اہلسنّت والجماعت کی نشر واشاعت اور مخدومی مشن کا فروغ و ارتقا تھا-
*ہندوستان کے مختلف صوبے بالخصوص صوبہ بنگال و بہار، سکّم اورآسام و بھوٹان میں آج جو سنیت کی چہل پہل نظر آرہی ہے اور مسلک اہلسنّت وجماعت کے فلک شگاف نعرے بلند ہو رہے ہیں اس میں حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمتہ والرضوان کی قربانیوں کا زیادہ حصّہ شامل ہے-*
بیل گاڑی، رکشا، وین اور پیدل چل کر مسلسل دیہاتوں کا سفر کر کے گاؤں گاؤں، قریہ قریہ پہنچ کر دین وسنیت کیلئے جو قربانی آپ نے پیش کی ہے وہ ہمارے لئے نمونہ عمل ہے-
آپ نے اپنی تبلیغ کے ذریعہ بہت سے بدعقیدوں کو سنی صحیح العقیدہ بنایا دین سے بھٹکے ہوئے مسلمانوں میں دین اسلام کی شمع فروزاں کی اور بعض وہ مساجد ومدارس جو برسوں سے بدمذہبوں کے تسلّط میں تھے، اپنی کوشش اور حکمت عملی سے سنیوں کے حوالے کیا- سبحان اللہ!
*شریعت میں طریقت میں سخاوت میں شجاعت میں*
*کوئی ثانی نہیں ملتا ہمارے پیر ومرشد کا*
(جاری ہے)
🌹 *قسط ششم یاد حضور اشرف الاولیاء*🌹
     
*مرشد میرا تو نور نبی کا جمال ہے*
*مرشد کا ہو خیال تو اچھا خیال ہے*
*نورانی شخصیت اورخلقِ خدا کا اژدحام*
حضوراشرف الاولیاء علیہ الرحمہ جس شہر، قصبہ اور گاؤں میں رونق افروز ہوتے تھے وہاں دیوانوں کا ایک میلہ سا لگ جاتا تھا، شوق دیدار میں لوگ ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے، آپ کی مقدس اور دلکش صورت دیکھ کر ہر چہار جانب سے لوگ بیعت کیلئے ٹوٹے پڑتے تھے جدھر سے گزرتے تھے ان راستوں سے چلنا دشوار ہوجاتا تھا۔
 بچے، بوڑھے، جوان، مرد وعورت سبھی آپ کی زیارت کیلئے بیقرار رہتے تھے، جگہ جگہ لوگ قدم بوسی کیلئے کھڑے رہتے تھے- جہاں بھی تشریف لے جاتے دیوانے پروانوں کی مانند منڈلاتے ہوئے نظر آتے، جس جگہ بھی آپ کا ورود مسعود ہوتا وہاں روحانیت کا عجیب سماں بندھ جاتا اور روحانیت کے برقی اثرات سے لوگوں کے دلوں پر آپ کا قبضہ ہوجاتا تھا، جو ایک بار آپ کی زیارت کرلیتا وہ ہمیشہ کیلئے عاشق زار بن جاتا، آپ کے مقدّس جسم میں برقی لہریں دوڑا کرتی تھیں، آنکھوں میں انوار الہٰی کی بجلیاں کوندا کرتی تھیں، دور سے مجسّم شعلہ طور نظر آتے اور قریب سے فراوانی انوار کے سبب چہرے پر نظر جمانا مشکل ہوتا، کسی کو آنکھ ملانے کی جرات نہ ہوتی تھی، جبیں پر وہ رعب ودبدبہ تھا کہ جسے دیکھ کر بڑے سے بڑا تھرّا جاۓ۔
 قریب سے روزانہ فیضیاب ہونے والے بھی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے ایک بار ضرور کانپ جاتے تھے، چہرہ کی نورانیت کا عالم یہ تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ نور کی برسات ہورہی ہے اور حاضرین اس میں مست ہوکر نہارہے ہیں، جہاں بھی ہوتے آپ کا نورانی چہرہ مجمع میں ممتاز وسربلند نظر آتاتھا-
ہرخاص وعام آپ کے باطنی کمالات کا قائل تھا، دنیا کی عظیم شخصیتیں آپ کی روحانی طاقت کی معترف تھیں-
آپ نے اپنے قلب و نظر کے اثرات سے اشاعت اسلام کا خوب خوب کام کیا، اپنی قوّت باطنی سے لوگوں کے جذبات کو پلٹا، خیالات کو بدلا، احساسات اور رجحانات کو تبدیل کیا اور اپنی بےپناہ روحانیت کے زور سے لوگوں کی سوچ کا دھارا روح اسلام کی طرف موڑدیا، ہزاروں غیرمسلم آپ کے فیوض وبرکات سے مستفیض ہوئے اور سینکڑوں بد عقیدہ مسلمان آپ کی صورت زیبا کو دیکھ کر اور آپ کی سیرت وکردار سے متاثر ہوکر بدعقیدگی سے تائب ہوئے-
ناچیز (راقم الحروف) نے بھی خود بارہا ایسا پُرمسرّت نظارہ دیکھا ہیکہ میرے مشفق وکرم فرما مرشد برحق حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ جہاں بھی تشریف لے جاتے لوگ جمال جہاں تاباں کو دیکھ کر پروانوں کی مانند منڈلانے لگتے تھے۔
ایک مرتبہ میرے والد گرامی مولانا محمد خالد حسین اشرفی (اللہ رب العزت ان کو جنت الفردوس میں حضور اشرف الالیاء کا پڑوس اور کروٹ کروٹ سکون نصیب فرمائے) نے قصبہ آسند ضلع بھیلواڑہ (راجستھان) میں دعوت و تبلیغ دین کیلئے حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں التجا پیش کی, حضرت نے فوراً قبول فرمالیا اور بعد عرس سلطان الہند خواجہ خواجگان علیہ الرحمہ کا وقت دیدیا۔
الحمدللہ! جب حضور اشرف الاولیاء آسند تشریف لائے تو پروگرام میں ایک کثیر مجمع نے شرکت کی اور جب حضرت کا سب نے دیدار کیا تو اکثر وبیشتر کی زبان سے برجستہ یہ جملہ نکلا کہ: *"سبحان اللہ! پیر ہوں تو ایسے"۔* 
اور بعد پروگرام ایک کثیر تعداد حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت سے سرفراز ہوئی۔ صبح تک بیعت ہونے والوں کی قطار لگی رہی- سبحان اللہ!  (جاری ہے)
🌹 *قسط ہفتم یاد حضور اشرف الاولیاء*🌹

*زیارت حرمین شریفین:* حضور اشرف الاولیاء ابوالفتح حضرت سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ کو حج بیت اللہ کی دولت اور زیارت حرمین شریفین کی سعادت بھی نصیب ہوئی- آپ نے اپنی زندگی میں چار حج اور دو عمرہ کئے جس کی تفصیل یہ ہے:
*پہلا حج* – ١٩٥٢ میں آپ اپنے والدین کریمین کو حرمین شریفین کی زیارت کیلئے رخصت کرنے ممبئی تشریف لے گئے، ممبئی میں حج کے ایک معلّم جن کا نام علی بلجو تھا مدینہ شریف سے آئے تھے اور وہ آپ کے جد امجد حضور اعلی حضرت اشرفی میاں رحمتہ اللہ علیہ کے مرید تھے، ان سے آپ کی ملاقات اور عربی زبان میں بات چیت ہوئی، وہ آپ کی عربی دانی اور عربی زبان میں گفتگو سے اتنے متاثر ہوئے کہ آپ کو بھی حج بیت اللہ کیلئے ساتھ میں لے جانے پر مصر ہوگئے، آپ نے سفر کی تیّاری مکمل نہ ہونے کا عذر پیش کیا لیکن انہوں نے سفرکی تمام تر ذمہ داریاں اپنے ذمہ لیں اور والدین کریمین کے ہمراہ آپ کو بھی حج بیت اللہ کیلئے ساتھ لے گئے-
*دوسرا حج* – یہ حج ١٩٦٥ میں آپ نے اپنے والدین کریمین کے ہمراہ نیز مخدومہ رحمتہ اللہ علیہا اور اپنے دو شہزادے حضرت سید محمد علاء الدین حسن اشرف اشرفی جیلانی شہید رحمتہ اللہ علیہ اور حضور تاج الاولیاء سید محمد جلال الدین اشرف اشرفی جیلانی مد ظلہ النورانی (جانشین حضور اشرف الاولیاء) کے ساتھ ادا فرمایا-
*تیسرا حج* – یہ حج آپ نے بنگال و بہار اور راجستھان کے کچھ عقیدت مند مریدین کے ساتھ ١٩٧٥ میں ادا فرمایا-
*چوتھا حج* – یہ حج بھی آپ نے اپنے چند مریدین با اخلاص کے جھرمٹ میں ١٩٨٣ میں ادا فرمایا جو بہت دنوں سے آپ کی معیت میں سفر حج کی سعادت کیلئے مچل رہے تھے-
یہ آپ کی زندگی کا آخری حج تھا جس میں آپ گنبد خضریٰ کی جالیوں کو پکڑ کر خوب روۓ، آنسوؤں سے ریش مبارک اور جسم اقدس تَر بَتر ہوگیا تھا-
*عمرہ* – رمضان المبارک کے موقع سے آپ نے دونوں عمرہ کئے-
*خلفاء ومریدین:*
حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ کو بیعت وخلافت کے سلسلے میں رجسٹر رکھنے کی عادت نہیں تھی اس لئے خلفاء ومریدین کی صحیح تعداد نہیں بتائی جا سکتی تاہم آپ کے مریدین کی تعداد تقریبا ساڑھے تیرہ لاکھ 1300000 بتائی جاتی ہے، اجازت وخلافت دینے میں تو آپ بہت زیادہ محتاط تھے جب تک آپ کو کسی کے عقیدہ و عمل کے بارے میں اطمینان کامل نہیں ہوجاتا اس وقت تک خلافت عطا نہیں فرماتے، آپ کی عادت کریمہ تھی کہ خلافت عطا کرنے کے بعد اس اہم منصب اور عظیم ذمہ داری کو صحیح طریقہ سے سنبھالنے کی سخت تاکید فرماتے اور عمل و کردار کے ذریعے اس نعمت میں نکھار لانے کی ہدایت فرماتے-
یوں تو بیرون ہند میں آپ کے خلفاء کی تعداد بے شمار ہے لیکن صاحب *"اشرف الاولیاء- حیات و خدمات"* کے مطابق درج ذیل خلفاء ہیں جن کے اسماۓ گرامی ہیں:
* شیخ طریقت، تاج الاولیاء حضرت علامہ ڈاکٹر سید شاہ جلال الدین اشرف (قادری میاں) اشرفی جیلانی مد ظلہ النورانی (جانشین حضور اشرف الاولیاء)
* پیرطریقت حضرت علامہ ومولانا سید شاہ خالد اشرف اشرفی جیلانی مد ظلہ النورانی (جانشین حضور اشرف العلماء)
* گل گلزار اشرفیت حضرت مولانا سید شاہ نظام اشرف اشرفی جیلانی (شہزادہ حضور اشرف العلماء)
* صوفی با صفا مرحوم حضرت مولانا اکمل حسین اشرفی، سربیلہ، سہرسہ (بہار)
* حضرت علامہ و مولانا مفتی عبدالقدوس صاحب اشرفی مصباحی، شیخ الحدیث دارالعلوم شیخ احمد کھٹو، گجرات
* خطیب بنگال مرحوم مولانا انیس القادری، کلکتہ، بنگال
* حضرت مولانا قاری رضی اللہ چترویدی صاحب, دیوریا (یو پی)
* حضرت مولانا اکبر علی رضوی اشرفی صاحب، دارالعلوم اسحاقیہ جودھپور، راجستھان
* حضرت قاری اطہر علی صاحب، دارالعلوم محمدیہ، ممبئی، مہاراشٹر
* جناب محمد یعقوب صاحب اشرفی، پونہ، مہاراشٹر
* جناب مرحوم جان محمد اشرفی، کلکتہ، بنگال۔

Post a Comment

0 Comments