اشکوں کا مری آنکھ سے طوفان اٹھا ہو یہ درد ترے شہر کی الفت سے عطا ہو

اشکوں کا مری آنکھ سے طوفان اٹھا ہو یہ درد ترے شہر کی الفت سے عطا ہو

"بر تظمین کلام استاذ زمن"

اشکوں کا مری آنکھ سے طوفان اٹھا ہو
یہ درد ترے شہر کی الفت سے عطا ہو
یہ حال مرا سارا جہاں دیکھ رہا ہو
دل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو
سینے پہ تسلی کو ترا ہاتھ دھرا ہو

مجرم کی طرح آپ کے قدموں پہ پڑا ہو
ہونٹو پہ فقط صلی علی صلی علی ہو
ہوجائے اگر ایسا تو نہ پوچھو کہ کیا ہو
گر وقت اجل سر تری چوکھٹ پہ جھکا ہو
جتنی ہوں قضا ایک ہی سجدے میں ادا ہو

محبوب خدا احمد مختار کچھ ایسا
مطلب وہ یتیموں کا طرفدار کچھ ایسا
یعنی مرے آقا کا ہے دربار کچھ ایسا
آتا ہے فقیروں پہ انہیں پیار کچھ ایسا
خود بھیک دیں اور خود کہیں منگتےکا بھلا ہو

جو چاند کے ٹکڑے کرے سورج کو پھرا دے
جو گالیاں سن کر بھی دعاؤں پہ دعا دے
اک دودھ کے پیالے میں 72 کو پلادے
منگتا تو ہے منگتا کوئ شاہوں میں دکھا دے
جس کو مرے سرکار سے ٹکڑا نہ ملا ہو

اعمال بھی دینے لگیں جس وقت گواہی 
چہرے پہ گناہوں کے سبب چھائے سیاہی
مجرم کی اگر آپ کریں پشت پناہی
ڈھونڈا ہی کریں صدر قیامت کے سپاہی
وہ کس کو ملے جو ترے دامن میں چھپا ہو

جو کچھ ہو عطا وہ مری حاجت سے سوا ہو
منہ مانگی مرادوں سے تسلی مری کیا ہو
جب سر ترے دربار کی چوکھٹ سے لگا ہو
میں کیوں کہوں مجھ کو یہ عطا ہو وہ عطا ہو
وہ دو کہ ہمیشہ مرے گھر بھر کا بھلا ہو

مولانا حسن رضا خاں بریلوی

"""""""""""""""""""""""
اگر اچھا لگے تو‌کم از کم ایک مرتبہ سبحان اللہ ماشاءاللہ کمینٹ باکس میں لکھ کر سینڈ کر دیں شکریہ

Post a Comment

2 Comments