:سوال
اگر کوئی سنی آپنے آپ کو وہابی کہے تو اس کے لئے کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ برکاتہ
علمائے کرام کی بارگاہ میں ایک سوال عرض ہے کی اگر کوئی سنی یہ کہے کہ میں وہابی ہوں پھر کچھہ دن کے بعد کہے کہ میں سنی ہوں اسی طرح بار بار کرتا ہے اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے اور کہا کر تا ہے میں توبہ کیا کرتاہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسولہ الأمين
وعليكم السلام ورحمة اللہ وبركاته
:الجواب بعونه تعالى عز وجل
لگتا ہے زید وہابی کی حقیقت کو نہیں جانتا ہے اسی طرح سنیت کے بابت عقیدہ مظبوط و مستحکم نہیں ہے اسی لئے اپنے آپ کو کبھی سنی کہتا ہے کبھی وہابی کہتا ہے مزید توبہ بھی کرتا ہے ۔
اگر زید بوجہ جہالت یوں بکتا ہے کہ میں وہابی ہوں اور عقائد وہابیہ کے بابت کچھ علم نہیں تو اس پر توبہ لازم و ضروری ہے ۔
اور اگر عقائد وہابیہ کا عالم ہے اور انکی کفریہ عبارت سے واقف ہے اور عمدا کہتا ہے پھر خارج از اسلام ہے اس پر توبہ و استغفار اور تجدید ایمان و نکاح ضروری ہے نئے مہر و شرعی گواہ کے ساتھ ساتھ۔
اسے حکمت سے نصیحت کی جائے اور دیابنہ و وہابیہ کی عقائد باطلہ اور انکی کفریہ عبارت حسام الحرمین سے بتایا جائے اگر انکار کرے تو فبہا اور اگر درست مانے پھر کافر و مرتد ہے اس کی جنازہ طعام و کلام جائز نہیں ہے ۔
یاد رہے کہ جب تک انکی عبارت اور انکی کفریہ عقائد کی تصدیق نہ کرے کفر کا حکم نہیں لگا یا جا سکتا ہے جبکہ دیگر ضروریات دینیہ کا منکر نہ ہوں۔
کیونکہ شارح بخاری رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں ان کے عقائد باطلہ کے عدم علم کی وجہ سے دیہات کے دیابنہ و وہابیہ من حیث الجماعت کافر و مرتد نہیں ۔
١/ جیسا کہ شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
دیوبندی عوام جو دیوبندی بزرگوں کی کفریہ عبارات سے باخبر نہیں ہے اور انکی ظاہری حالت کو دیکھ کر یا کسی اور وجہ سےان کو اپنا بزرگ اور پیشوا مانتے ہیں وہ کافر نہیں ہیں۔ مفتی شریف الحق امجدی صاحب مزید لکھتے ہیں زیادہ تر دیوبندی عوام اسی طرح کے ہیں ۔
(فتاوی شارح بخاری ،جلد سوم ،ص ۳۳۰ ناشر دائرۃ البرکات ،گھوسی ،ضلع مئو ،جون ۲۰۱۳)
٢/ ملک العلما، بہاری، حضرت محمد ظفر الدین قادری برکاتی رضوی شاگرد و خلیفہ ،اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
,محمد بن عبد الوھاب و اسماعیل دہلوی کے عقائد کفریہ نہ تھے اگرچہ بعض اقوال شان اسلام سے بہت گرے ہوئے ہیں مگر التزام کفر نہ ہونے کی وجہ سے محققین و محتاطین علمائے کرام نے ان دونوں اور ان کے ہم خیالوں کی تکفیر نہ کی ،
,صرف گمراہ اور بدمذہب کہا ,,,,کافر کا یہ مطلب ہے کہ ضروریات دین میں سے کسی بات کا منکر ہے اس شخص کو نئے سرے سے کلمہ پڑھ کر مسلمانوں میں شامل ہونا چاہئے اور اپنے عقائد و خیالات سے بری ہونا چاہئے ,اور بدمذہب کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص دائرہ اسلام میں ہے مگر اس کے خیالات مطابق عقیدہ اہلسنت نہیں ,اسے اپنے خیال سے توبہ کرنا چاہئے ,
(فتاوی ملک العلما کتاب السیر صفحہ ۲۲۹ )
٣/ اعلی حضرت رضی اللہ عنہ نے دیابنہ و وہابیہ کو پہچاننے کا آسان فارمولہ عطا فرمایا ہے کہ اسے حسام الحرمین کی عبارت دیکھا یا جائے یا پڑھ کر سنا یا جا ئے اگر قبول کر لے فبہا اور اگر قبول نہ کریں پس یہ عقدہ عیاں ہے کہ اصلی ہے۔
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
ایسی جگہ تو یہ سوال کرنا چاہیے کہ رشید احمد گنگوہی و اشرف علی تھانوی و قاسم نانوتوی اور محمود حسن دیوبندی و خلیل احمد انبیٹھی اور ان سب سے گھٹ کر ان کے امام اسمعیل دہلوی اور ان کی کتابوں براہین قاطعہ وتحذیر الناس وحفظ الایمان و تقویۃ الایمان و ایضاح الحق کو کیسا جانتے ہو اور ان لوگوں کی نسبت علمائے حرمین شریف نے جو فتوے دیئے ہیں انہیں باطل سمجھتے ہو یا حق مانتے ہو اور اگر وہ ان فتوؤں سے اپنی ناواقفی ظاہر کرے تو بریلی مطبع اہلسنت سے حسام الحرمین منگالیجئے اور دکھائیے اگر بکشادہ پیشانی تسلیم کرے کہ بیشک علمائے حرمین شریفین کے یہ فتوے حق ہیں تو ثابت ہوگا کہ دیوبندیت کا اُس پر کچھ اثر نہیں ورنہ علمائے حرمین شریفین کا وہی فتوٰی ہے کہمن شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفر ۔
جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ اس وقت آ پ کو ظاہر ہوجائے گا کہ جو شخص اللہ و رسول کو گالیاں دینے والوں کو کافر نہ جاننا درکنار علمائے دین واکابر مسلمین جانے وہ کیونکر مسلمان، پھر مسئلہ عرس وفاتحہ و فرعی مسائل ہے ،
(2)حسام الحرمین مکتبہ نبویہ لاہور ص ۱۳)
(فتاوی رضویہ ج 29 ص 33 دعوت اسلامی )
٤/ *ایک ملت کے سوا سب جہنم میں جائیں گے* ‘
اس کی تشریح میں ملا علی قاری لکھتے ہیں :
ان باطل فرقوں میں سے جو حد کفر کو پہنچ گئے وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اور جو فرقے بدعات سئیہ کے معتقد ہیں اور انہوں نے کسی کفر کا ارتکاب نہیں کیا وہ دوزخ میں داخل ہونے کے مستحق ہیں الا یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے۔ (مرقات ج ١ ص ٢٤٨‘ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ‘ ملتان ‘ ١٣٩٠ ھ)
٥/ مصنف تفسیر تبیان القران رحمة الله عليه فرماتے ہیں
جن مسائل اعتقادیہ میں ان فرقوں کو شبہات واقع ہوئے اور انہوں نے دلائل سے اپنی رائے کو حق سمجھا ‘ اور ان شبہات کو دور کرنے کے لئے علماء اہل سنت نے جو دلائل پیش کیے ہیں وہ ان تک نہیں پہنچ سکے وہ اس حکم میں داخل نہیں ہیں یا جن لوگوں تک وہ دلائل پہنچ گئے لیکن ان دلائل سے ان کا شرح صدر نہیں ہوسکا اور ہنوز ان کے شہبات باقی رہے ‘ وہ بھی معذور ہیں لیکن جن لوگوں پر حجت تمام ہوگئی اور وہ محض کج بحثی اور ہٹ دھرمی سے اپنے باطل موقف پر ڈٹے رہے تو اگر ان کا موقف کسی کفر کو مستلزم ہے تو وہ دائما دوزخ میں رہیں گے ‘ اور اگر ان کا موقف کسی گمراہی کو مستلزم ہے تو وہ دوزخ میں دخول کے مستحق ہیں الا یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے ‘ مثلا جو شیعہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی الوہیت کے متعقد ہیں ‘ یا جو وحی لانے میں حضرت جبرائیل کی خطاء کے قائل ہیں یا جو حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) پر قذف (تہمت) لگاتے ہیں یا جو حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ ) کی صحابیت کا انکار کرتے ہیں ‘ یا جو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد تین یا چھ صحابہ کے علاوہ سب صحابہ مرتد ہوگئے تھے یہ سب کافر ہیں ‘ اور جو خلفاء ثلاثہ کو مفضول کہتے ہیں یا ان پر سب کرتے ہیں (گالی دیتے ہیں) وہ کافر نہیں ہیں ‘ لیکن وہ بدترین فسق اور گمراہی میں مبتلا ہیں ‘ اسی طرح جن لوگوں نے اپنی کتابوں میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں صریح کفریہ عبارات لکھیں وہ کافر ہیں اور جو لوگ ان عبارات پر مطلع ہوگئے اور ان پر وجہ کفر منکشف ہوگئی لیکن وہ مذہبی تعصب اور ہٹ دھرمی سے ان عبارات کو صحیح کہتے ہیں وہ بھی کافر ہیں ‘ لیکن جو لوگ ان عبارات پر مطلع نہیں ہیں یا ان پر وجہ کفر منکشف نہیں ہوئی اس لئے وہ تکفیر نہیں کرتے ‘ تاہم اس قاعدہ سے وہ لوگ مستثنی ہیں جن کی تکفیر پر پوری ملت اسلامیہ کا اجماع ہے ‘ جیسے مرزائیہ کا قادیانی گروپ اور لاہوری گروپ یا اور کوئی ایسا فرقہ جس کی تکفیر پر پوری ملت اسلامیہ متفق ہو اور اس کی تکفیر واضح اور غیر مشتبہ ہو۔
٦/ (امام احمد رضا قادری (رحمةالله عليه) لکھتے ہیں
ان کے کفر میں شک ہی کرے تو خود کافر ‘ جب کہ انکے خبث اقوال پر مطلع ہو۔ (فتاوی رضویہ ج ٣ ص ٢٥٣‘ مطبوعہ سنی درالاشاعت ‘ لائل پور)
٧/ علامہ سید احمد سعید
کاظمی قدس سرہ العزیز لکھتے ہیں : ہم کسی دیوبند یا لکھنووالے کو کافر نہیں کہتے ‘ ہمارے نزدیک صرف وہی لوگ کافر ہیں جنہوں نے معاذ اللہ ‘ اللہ تعالیٰ کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ومحبوبان ایزدی کی شان میں صریح گستاخیاں کیں ‘ اور باوجود تنبیہ شدید کے انہوں نے گستاخیوں سے توبہ نہیں کی ‘ نیز وہ لوگ جو ان کی گستاخیوں کو حق سمجھتے ہیں اور گستاخیاں کرنے والوں کو اھل حق ‘ مومن ‘ اپنا مقتداء اور پیشوا مانتے ہیں اور بس ‘ ان کے علاوہ ہم نے کسی مدعی اسلام کی تکفیر نہیں کی ‘ ایسے لوگ جن کی ہم نے تکفیر کی ہے اگر ان کو ٹٹولا جائے تو وہ بہت قلیل اور معدودافراد ہیں ‘ ان کے علاوہ نہ کوئی دیوبند کا رہنے والا کافر ہے نہ لیگی نہ ندوی ‘ ہم سب مسلمانوں کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ (مقالات کا ظمی ج ٢ ص ٢٥٩۔ ٢٥٨)
اور بعض اعتقادی مسائل میں شبہ کی وجہ سے اختلاف کرتے ہیں مثلا علم غیب اور تصرف میں ذاتی اور عطائی کا فرق نہیں کرتے یا بدعت حسنہ کا انکار کرتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نور کا اطلاق نہیں کرتے یا استمداد اور ندائے غیر اللہ کو ناجائز کہتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کی وسعت ‘ آپ کے معجزانہ تصرفات اور آپ کے علمی ‘ روحانی اور بعض مواقع پر حسی نورانیت کے قائل ہیں ‘ آپ کی حیات کے معتقد ہیں اور قبر انور پر آپ سے شفاعت طلب کرنے اور یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہنے کے معتقد ہیں، ان پر کفر کا حکم نہیں ہے ‘ ان مسائل میں اختلاف محض فروعی ہے جیسے بعض امورائمہ ثلاثہ کے نزدیک ناجائز ہیں اور امام ابوحنفیہ کے نزدیک جائز ہیں یا اس کے برعکس۔:(فتاوی رضویہ ج ٣ ص ٢٥٣‘ مطبوعہ سنی درالاشاعت ‘ لائل پور)
(تفسیر تبیان القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرة
آیت نمبر 113)
والله ورسوله أعلم بالصواب
0 Comments