قبرستان میں لائٹ لگانا کیسا ہے؟

قبرستان میں لائٹ لگانا کیسا ہے؟

 « احــکامِ شــریعت » 

-----------------------------------------

قبرستان میں چراغ جلانا، لائٹ، ٹیوب لائٹ، ایل ای ڈی بلب لگانا کیساہے ؟


  کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ قبرستان میں لائٹ وغیرہ کا جیسے کہ ایل ای ڈی بلب وغیرہ لگانا کیسا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔

سائل: محمد ذوالفقار

-------------------------------------------------------------


:الجواب بعون الملک الوہاب

صورت مستفسرہ میں قبرستان میں اگر روشنی کی ضرورت ہو تو چراغ جلانا، ٹیوب لائٹ، ایل ای ڈی بلب کے ذریعہ روشنی کرنا جائز ہے۔ قبر راستہ کے کنارے پر ہے تو اُس پر اس لئے روشنی کردینا کہ کسی کو ٹھوکر نہ لگے یا خبر پاکر فاتحہ پڑھے تو جائز ہے یا کوئی شخص شب میں کسی مسلمان کی قبر پر گیا وہاں کچھ قرآن وغیرہ دیکھ کر پڑھنا چاہتا ہے ان صورتوں میں قبرستان میں روشنی کرنا جائز ہے ـ اگر اِن میں سے کوئی بھی بات نہیں تو چراغ جلانا، بلب وغیرہ لگانا فضول خرچی اور اسراف ہے لہٰذا منع۔

عام مسلمانوں کی قبروں پر ضرورتاً اولیاء اللہ کی مزارات پر اظہار عظمت کے لئے چراغ وغیرہ روشن کرنا جائز ہے۔


امام علامہ عارف باللہ سیدی عبدالغنی بن اسمٰعیل بن عبدالغنی نابلسی قدسنا اللہ بسرہ القدسی کتاب مستطاب حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ مطبع مصری جلد دوم صفحہ ۴۲۹/ میں فرماتے ہیں۔

قال الوالد رحمه اللہ تعالى فى شرحه على شرح الدرر من مسائل متفرقة اخراج الشموع الى القبور بدعة واتلاف مال كذا فى البزازية وهذا كله اذا خلا عن فائدة واما اذا كان موضع القبور مسجدا او على طريق او كان هناك احد جالس او كان قبر ولى من ا لاوليا٫ او عالم من المحققين تعظيما لروحه المشرقة على تراب جسده كاشراق الشمس على الارض اعلاما للناس انه ولى ليتبركوا به و يدعوالله تعالى عنده فيستجاب لهم فهو امر جائز لا منع منه والاعمال بالنيات۔

یعنی والد رحمۃ اللہ تعالیٰ نے حاشیہ درر وغرر میں فتاویٰ بزازیہ سے نقل فرمایا کہ قبروں کی طرف شمعیں لےجانا بدعت اور مال ضائع کرنا ہے، یہ سب اس صورت میں ہے کہ بالکلی فائدہ سے خالی ہو ، اور اگر موضع قبور میں مسجد ہے ، یا قبور سر راہ ہیں ، یا وہاں کوئی شخص بیٹھا ہے، یا مزار کسی ولی اللہ یا محققین علماء میں سے کسی عالم کا ہے وہاں شمعیں روشن کریں، اُن کی روح مبارک کی تعظیم کے لئے جو اپنے بدن کی خاک پر ایسی تجلی ڈال رہی ہے جیسے آفتاب زمین پر، تاکہ اس روشنی کرنے سے لوگ جانیں کہ یہ ولی کا مزار پاک ہے تاکہ اس سے تبرک حاصل کریں اور وہاں اللہ عزوجل سے دعا مانگیں کہ اُن کی دعا قبول ہو تو یہ امر جائز ہے اس سے اصلاً ممانعت نہیں، اور اعمال کا مدار نیت پر ہےـ


:پھر فرماتے ہیں

روى ابو داؤد والترمذى عن ابن عباس رضى الله تعالى عنهما ان رسوالله صلى الله تعالى عليه وسلم لعن زائرات القبور والمتخذين عليها المساجد والسرج اى الذين يوقدون السرج على القبور عبثا من غير فائدة كما ذكرنا۔

ابوداؤد اور ترمذی نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قبروں پر جانے والی عورتوں اور قبروں پر مسجدیں بنانے والوں اور چراغ رکھنے والوں پر لعنت فرمائی یعنی اُن لوگوں پر جو کسی فائدہ کے بغیر قبروں پر چراغ جلاتے ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے ـ 

*( 📗فتاویٰ رضویہ جلد ۹/ صفحہ ۴۹۰/)*

        تفسیر روح البیان پارہ ۱۰/ سورۂ توبہ زیر آیت انما يعمر مساجد الله میں ہے

وكذا ايقاد القناديل والشمع عند قبورالاوليا٫ والصلحا٫ للاجلال للاوليا٫ فالمقصد فيها مقصد حسن ونذر الزيت والشمع للاوليا٫ يوقد عند قبورهم تعظيما لهم ومحبة فيهم جائزا لاينبغى النهى عنه ـ 


یعنی اسی طرح اولیاء صالحین کی قبروں کے پاس قندیلیں اور موم بتیاں جلانا ان کی عظمت کے لئے چونکہ اس کا مقصد ہے لہٰذا جائز ہے اور اولیاء کے لئے تیل اور موم بتی نذر ماننا تاکہ اُن کی عزت کے اظہار کے لئے اُن کی قبور کے پاس جلائی جائیں جائز ہے۔ اس سے منع نہ کرنا چاہیئے۔

(📗 ماخوذ جاء الحق حصہ اول صفحہ ۲۸۶/)


واللہ اعلم بالصواب


🌹تصدیقات🌹


الجواب صحیح والمجیب نجیح فقط سید شمس الحق برکاتی مصباحی۔


الجواب صحيح والمجيب نجيح فقط جلال الدین احمد امجدی رضوی نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند خادم جامعہ قادریہ رضویہ ردرور منڈل ضلع نظام آباد تلنگانہ الھند۔

Post a Comment

0 Comments