اسلامی سوال وجواب I اسلامک ٹیچر پروڈکشن I ٹیچر پروڈکشن Islamic Questions & answer II

اسلامی سوال وجواب I اسلامک ٹیچر پروڈکشن I ٹیچر پروڈکشن Islamic Questions & answer II

*رسولﷺکے پانچ نام*

🔹 *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میرے پانچ نام ہیں۔ میں محمد، احمد اور ماحی ہوں (یعنی مٹانے والا ہوں) کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں کہ تمام انسانوں کا (قیامت کے دن) میرے بعد حشر ہو گا اور میں عاقب ہوں یعنی خاتم النبین ہوں۔ میرے بعد کوئی نیا پیغمبر دنیا میں نہیں آئے گا۔*🔹

📗«صحیح بخاری-3532»   


  *📝”سـلسـلہ اســلامی سـوال و جـواب“*


کیا سلام کہتے وقت کسی عالم/ بزرگ یا پیر کیلئے جھکنا* جائز ہے۔۔۔؟

*یا کسی نیک آدمی کو تعظیمی سجدہ کرنا کیسا ہے۔۔۔؟*


*📝"جـــــــــــواب:-الحمدُلِلّٰه“*


*کچھ لوگ پیروں، بزرگوں کیلئے جھکنے اور سجدہ تعظیمی کو جائز قرار دیتے ہیں،*

*جبکہ یہ قطعاً ❌ جائز نہیں،آئیے شرعی نقطہ نظر سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا اسلام ہمیں اس بارے میں کیا حکم دیتا ہے،*


🌷انس بن مالک رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ﷺ ہمارا آدمی اپنے بھائی سے یا اپنے دوست سے ملتا ہے تو کیا وہ اس کے سامنے جھکے۔۔۔؟

آپ ﷺ نے فرمایا:”نہیں“

اس نے پھر پوچھا: کیا وہ اس سے چمٹ جائے اور اس کا بوسہ لے۔۔۔؟

آپ ﷺ نے فرمایا:”نہیں“

اس نے پھر پوچھا: تو کیا وہ اس کا ہاتھ پکڑے اور مصافحہ کرے۔۔۔؟

آپ ﷺ نے فرمایا:”ہاں“

(”بس اتنا ہی کافی ہے“)

امام ترمذی کہتے ہیں:

*"یہ حدیث"حسن"ھے،*

*("سنن ترمذی:حدیث نمبر:2728")*


*🌻🌹”ضروری وضاحت“🌹🌻*


*”اس حدیث میں جو معانقہ یعنی گلے ملنے سے منع کیا گیا ہے وہ ہر بار ملنے سے منع کیا گیا ہے،*

*اگر کوئی دور سے آتا ہے یا کچھ عرصہ بعد ملتا ہے تو گلے لگانا بھی جائز ہے،*

*اس بارے بہت ساری احادیث موجود ہیں،*


🌷جب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ شام سے واپس آئے، تو نبی ﷺ کو سجدہ کیا، آپ ﷺ نے پوچھا: اے معاذ! یہ کیا ہے۔۔۔؟ 

انہوں نے کہا:میں شام گیا تو دیکھا کہ وہ لوگ اپنے پادریوں اور سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں،

تو میری دلی تمنا ہوئی کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ایسا ہی کریں،

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

نہیں،ایسا نہ کرنا،اس لیے کہ اگر میں اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے،

قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے،

عورت اپنے رب کا حق ادا نہیں کر سکتی جب تک کہ اپنے شوہر کا حق ادا نہ کر لے،اور اگر شوہر عورت سے جماع کی خواہش کرے،

اور وہ اونٹ کے کجاوے پر سوار ہو تو بھی وہ شوہر کو منع نہ کرے،

*("سنن ابن ماجہ:حدیث نمبر:1853")*


🌷قیس بن سعد رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حیرہ آیا،(حیرہ کوفہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے) تو دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں تو میں نے کہا: رسول اللہ ﷺ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں سجدہ کیا جائے، میں جب آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے کہا کہ میں نے حیرہ شہر میں لوگوں کو اپنے سردار کیلئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا،

تو اللہ کے رسول! آپ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں،آپ ﷺ نے فرمایا: بتاؤ کیا اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے،

تو اسے بھی سجدہ کرو گے۔۔۔؟

وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: نہیں،آپ ﷺ نے فرمایا:

تم ایسا نہ کرنا،

اگر میں کسی کو کسی کیلئے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں،

*("سنن ابو داؤد:حدیث نمبر:2140")*


*🌷انصاری صحابہ کا ایک اونٹ بپھر گیا جس سے وہ پانی کھینچتے تھے کنویں سے،*

تو انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے گزارش کی،

آپ ﷺ اونٹ کی طرف جانے لگے تو صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! یہ تو کتے کی طرح کاٹتا ہے،

یہ آپ کو نقصان پہنچائے گا،

آپ ﷺ نے فرمایا.مجھے کچھ نہیں کہتا،

جب آپ ﷺ اس کے قریب گئے،

اونٹ کی نظر آپ پر پڑی تو اس نے اپنا سر آپ کے قدموں میں رکھ دیا،

تو صحابہ کہنے لگے کہ یہ تو ناسمجھ جانور ہے اور آپ کو سجدہ کر رہا ہے اور ہم سمجدار انسان ہیں تو ہم زیادہ حق رکھتے ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔۔۔؟

آپ ﷺ نے فرمایا،نہیں،

کسی انسان کا انسان کو سجدہ کرنا جائز نہیں،

اگر بشر کا بشر کو سجدہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیونکہ اس کا بہت زیادہ حق ہے اپنی بیوی پر،

قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر شوہر کے پاؤں سے لے کر سر کے بالوں تک زخم ہوں اور ان میں پیپ ریشہ بھرا ہوبیوی اس ریشے کو منہ سے چاٹ کر صاف کرے پھر بھی شوہر کا حق ادا نہیں ہوتا،

*("مسندِاحمد:حدیث نمبر:12614")*

*("صحیحٌ لِغیرہ")*

*("علامہ البانی رحمۃ اللہ نے اس کی سند کو جید کہا ہے")*


🌷ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:

رسول اللہ ﷺ انصاریوں کے کسی باغ میں داخل ہوئے تو وہاں دو اونٹ لڑ رہے تھے اور کانپ رہے تھے،

آپ ان کے قریب ہوئے تو ان دونوں نے اپنی گردنیں زمین پر ٹکا دی،

آپ ﷺ کے ساتھ موجود لوگ کہنے لگے: "اونٹ آپ کو سجدہ کر رہے ہیں"

اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: کسی کو کسی کیلئے سجدہ کرنا اچھی بات نہیں ہے،

اگر میں کسی کو کسی کیلئے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں،

*("صحیح ابن حبان،حدیث نمبر:4162")*

*("اس حدیث کو البانی نے "ارواء الغلیل" (7/54) میں حسن قرار دیا ہے")*


*🌷ایک روایت میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا،"لو كنت آمرا بشرا يسجد لبشر، لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها،"*

”اگر میں بشر (انسان) کا انسان کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے،

*("مسندِاحمد:حدیث نمبر:21986)*

*("صحیحٌ لِغیرہٖ")*


*”عالم یا کسی اور سے ملتے ہوئے رکوع کی حد تک یا اس سے کم جھکناجائز نہیں ہے“*


*🌷"شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:*

"سلام کرتے ہوئے جھکنا ممنوع ہے جیسے کہ صحابہ کرام نے نبی ﷺ سے استفسار کیا کہ کوئی شخص اپنے بھائی سے ملتے ہوئے جھک سکتا ہے۔۔۔؟

تو نبیﷺ نے فرمایا: نہیں،

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ رکوع یا سجدہ صرف اللہ تعالٰی کیلئے کرنا جائز ہے، اگرچہ ہم سے پہلے کی شریعتوں میں تعظیمی سجدہ کرنا جائز تھا،

جیسے کہ یوسف علیہ السلام کے بھائی یوسف کیلئے سجدہ ریز ہو گئے، (فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا) لیکن ہماری شریعت میں سجدہ صرف اللہ تعالٰی کیلئے کرنا جائز ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کیلئے احترام میں کھڑے ہونا ہی منع ہے تو رکوع یا سجود سے ممانعت تو پہلے آ جاتی ہے،

اسی طرح نامکمل رکوع کی حالت بھی اسی ممانعت میں شامل ہو گی،

*("مجموع الفتاوى:جلد:1/صفحہ:377")*


*🌷"اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا کہ:*

*"بڑی عمر کے افراد یا مشائخ وغیرہ کے پاس سر جھکانا،یا زمین کو بوسہ دینا ایسا عمل ہے جس کے ناجائز ہونے پر تمام ائمہ کرام کا اتفاق ہے بلکہ کمر کو غیر اللہ کیلئے موڑنا ہی منع ہے،*


     *🌹💜”خلاصہ یہ ہے“💜🌹*


کہ کسی کے سامنے قیام کرنا، نماز کی طرح بیٹھنا،

رکوع یا سجدہ وغیرہ سب کچھ آسمان و زمین کے خالق اور یکتا معبود

اللہ تعالٰی کا حق ہےاور جو چیز اللہ کا حق ہو اسے غیر اللہ کیلئے بجا لانے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی،

*("مجموع الفتاوى:جلد:27/صفحہ:92-93")*


*”سجدے اور رکوع کی طرح جھکنے کی دو قسمیں ہیں“*


*پہلی قسم:-*


*”عبادت کیلئے سجدہ“*

*"اس قسم کا سجدہ عاجزی، انکساری اور عبادت کیلئے ہوتا ہے اور یہ صرف اللہ کیلیے ہو گا،*

*چنانچہ عبادت کیلئے سجدہ غیر اللہ کو کرنے والا شرک اکبر میں مبتلا ہو جاتا ہےاور یہ واضح حرام ہے،*


*دوسری قسم:-*


*احترام اور سلام پیش کرتے ہوئے سجدہ کرنا:*

*اس قسم کا سجدہ کسی کے احترام،*

*عزت افزائی اور سلام کہتے ہوئے کیا جاتا ہے،*

*سجدے کی یہ قسم اسلام سے قبل کچھ شریعتوں میں جائز تھی،*

*تاہم اسلام نے اسے حرام قرار دے دیا،*

*لہٰذا اگر کسی نے کسی مخلوق کو تعظیمی سجدہ کیا تو اس نے حرام کام کا ارتکاب کیا ہے،*

*جو کہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے،*


*🌷"نبی اکرم ﷺ سے بڑھ کر کسی کی شان نہیں،*

*مگر آپ ﷺ نے ہر موقع پر صحابہ کی اصلاح کرتے ہوئے انہیں اللہ کے علاوہ کسی اور کے سامنے جھکنے اور سجدہ کرنے سے روکا،*

*اور بار بار فرماتے سجدہ صرف اللہ کیلئے،*


   *🌹💙"خــــلاصـــہ کــلام"💙🌹*


*🔹"ان تمام احادیث اور واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کسی بھی بزرگ، ولی، پیر یا عالم کو جھک کر ملنا/سلام کہنا یا سجدہ تعظیمی کرنا ہرگز جائز نہیں۔*


"سلسلہ سوال و جواب نمبر-81"

سوال_محرم الحرام کے روزوں کی کیا فضیلت ہے؟ اور عاشورہ کا روزہ کس دن رکھا جائے؟


جواب۔۔!

الحمدللہ۔۔۔!


*محرم الحرام کے روزے رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ سال بھر کے دیگر تمام روزوں سے افضل ہیں*


جیسا کہ درج ذیل صحیح احادیث سے ثابت ہے :


📚 صحیح مسلم

کتاب: روزوں کا بیان

باب: محرم کے روزوں کے فضیلت کے بیان میں

حدیث نمبر -1163

اسلام360 حدیث نمبر-2755


حَدَّثَنِي قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ صَلَاةُ اللَّيْلِ

ترجمہ:

قتیبہ بن سعید، ابوعوانہ، ابی بشر، حمید بن عبدالرحمن حمیری، حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کے روزوں کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والے روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والی نماز رات کی نماز (تهجد) ہے۔



📚جامع ترمذی

کتاب: روزوں کے متعلق ابواب

باب: محرم کے روزوں کے بارے میں

حدیث نمبر: 741

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلَهُ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيُّ شَهْرٍ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصُومَ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ ؟ قَالَ لَهُ:‏‏‏‏ مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَسْأَلُ عَنْ هَذَا إِلَّا رَجُلًا سَمِعْتُهُ يَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا قَاعِدٌ عِنْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ شَهْرٍ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصُومَ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِنْ كُنْتَ صَائِمًا بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ فَصُمْ الْمُحَرَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ شَهْرُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فِيهِ يَوْمٌ تَابَ فِيهِ عَلَى قَوْمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيَتُوبُ فِيهِ عَلَى قَوْمٍ آخَرِينَ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

ترجمہ:

علی ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا: ماہ رمضان کے بعد کس مہینے میں روزہ رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں؟ تو انہوں نے اس سے کہا: میں نے اس سلسلے میں سوائے ایک شخص کے کسی کو پوچھتے نہیں سنا، میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سوال کرتے سنا، اور میں آپ کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! ماہ رمضان کے بعد آپ مجھے کس مہینے میں روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اگر ماہ رمضان کے بعد تمہیں روزہ رکھنا ہی ہو تو محرم کا روزہ رکھو، وہ اللہ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک دن ایسا ہے جس میں اللہ نے کچھ لوگوں پر رحمت کی(یعنی بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دی) اور اس میں دوسرے لوگوں پر بھی رحمت کرے گا ۔   


 تخریج دارالدعوہ:

تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف: ١٠٢٩٥) (ضعیف) (سند میں نعمان بن سعد لین الحدیث ہیں، اور ان سے روایت کرنے والے " عبدالرحمن بن اسحاق بن الحارث ابو شیبہ " ضعیف ہیں)  

 قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (2 / 77) // ضعيف الجامع الصغير (1298) //  

 صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 741


نوٹ-

واضح رہے کہ امام ترمذی نے اس روایت کو 'حسن غریب' قرار دیا ہے جبکہ اس کی سند میں عبدالرحمن بن اسحق نامی راوی کو جمہور محدثین نے ضعیف قرا ردیاہے۔ اور سند میں نعمان بن سعد لین الحدیث ہیں، لہٰذا سنداً یہ روایت ضعیف ہے۔ تاہم محرم کا 'شہراللہ' ہونا اور اس کے روزوں کا رمضان کے سوا دیگر مہینوں کے روزوں سے افضل ہونا دیگر صحیح روایات سے ثابت ہے۔




*یومِ عاشوراء کے روزے کی فضیلت،سابقہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ*


📚حضرت ابو قتادہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«وصيام يوم عاشوراء أحتسب علی الله أن يکفر السنة التي قبله»''

مجھے اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ یوم عاشورا یعنی 10 محرم) کا روزہ گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔''

(صحیح مسلم : کتاب الصیام،

باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام؛ 1162)



📚حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ

'جب اللہ کے رسولؐ مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپؐ نے ان سے پوچھا کہ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟

انہوں نے کہا کہ یہ ایک اچھا (افضل) دن ہے اور یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات بخشی (اور فرعون کو اس کے لشکر سمیت بحیرئہ قلزم میں غرق کیا)

تو حضرت موسیٰ ؑ نے (بطورِ شکرانہ) اس دن روزہ رکھا (اور ہم بھی روزہ رکھتے ہیں) تو نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہم حضرت موسیٰ ؑ کے (شریک ِمسرت ہونے میں) تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔''

(صحیح بخاری،حدیث نمبر_2004)

(صحیح مسلم,حدیث نمبر_1130)



📚حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے جب دسویں محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا کہ

''اے اللہ کے رسولؐ! اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑی تعظیم و اہمیت دیتے ہیں۔ (یعنی ان کی مراد یہ تھی کہ آپؐ تو ہمیں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیتے ہیں اور یوم عاشوراء کے معاملہ میں تو ان کی مشابہت ہورہی ہے۔)

تو آپؐ نے فرمایا کہ «فإذا کان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع»

آئندہ سال اگر اللہ نے چاہا تو ہم 9 محرم کو روزہ رکھیں گے۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اگلا سال آنے سے پہلے اللہ کے رسولؐ انتقال فرما گئے۔''

(صحیح مسلم:حدیث نمبر_1134)



📚مسلم کی ایک روایت کے لفظ یہ ہیں کہ

 «لإن بقيت إلی قابل لأصومن التاسع»

اگر آئندہ سال میں زندہ رہا تو ضرور نو کا روزہ رکھوں گا۔'

(صحیح مسلم:،1134)

_________&______


*اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عاشورہ کا روزہ نو محرم کو رکھیں یا دس کو؟*


عاشورا کے روزے کے بارے میں اہل علم کا شروع سے اختلاف چلا آتا ہے کہ یہ روزہ نو تاریخ کو رکھا جائے یا دس کو ؛ یا نو اور دس دونوں کے روزے رکھے جائیں؟ وجہ ِاختلاف صحیح مسلم کی حدیث ہے جس میں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کے پیش نظر آنحضرتؐ نے فرمایا کہ ''آئندہ سال میں زندہ رہا تو نو تاریخ کا روزہ رکھوں گا۔''


*اصل فضیلت والا دن دس محرم ہے اور اسی دن آنحضرتؐ اور صحابہ کرامؓ روزہ رکھتے تھے،تاہم اللہ کے رسولؐ کا یہ فرمان کہ آئندہ سال میں نو کا روزہ رکھوں گا، اس بات کی نفی نہیں کرتا کہ میں دس کا روزہ چھوڑ دوں گا۔بلکہ آپؐ کی مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دسویں کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھوں گا تاکہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت بھی ہو سکے*


📚اور عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ایک روایت سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے فرمایا:

 «صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود»

''نو اور دس (دونوں کا) روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو

(السنن الکبری للبیہقی :ح8404_ص278؍ ج6)

(مصنف عبد الرزاق،حدیث نمبر 7839)


📙(علامہ العيني (٨٥٥ هـ)، نخب الافكار ٨/٤٢٠ •

إسناده صحيح کہا ہے) 


📙(ابن رجب (٧٩٥ هـ) نے لطائف المعارف 108 میں اسکو صحیح کہا ہے)


📙شیخ احمد عبدالرحمن البنائؒ نے بھی اس موقوف روایت کی سند کو صحیح قرار دیاہے۔

(الفتح الربانی :ج1؍ص189)

(طحاوی:ج2؍ص78)


________&______


*دو روایات میں9 ،10 اور 11 محرم کے روزے کا ذکر بھی ملتا ہے، مگر وہ دونوں روائتیں ضعیف ہیں*


پہلی روائیت:

📚حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: 

«لإن بقيت لآمرن بصيام يوم قبله أو يوم بعد يوم عاشوراء»

'' اگر آئندہ سال میں زندہ رہا تو میں یہ حکم ضرور دوں گا کہ دسویں محرم سے پہلے یا اس کے بعد (یعنی گیارہویں محرم) کا ایک روزہ (مزید) رکھو۔''

(مسندحمیدی -485)

( سنن کبریٰ از بیہقی ج4؍ص287)


🚫حکم الحدیث ضعیف

اس کی سند میں ابن ابی لیلی (جن کا نام محمد بن عبدالرحمن ہے) ضعیف راوی ہے۔ جبکہ امام ابن عدی نے یہ روایت 'الکامل' (ج3؍ص956)

میں درج کی ہے اور اس کی سند میں داود بن علی نامی راوی کو ضعیف قرار دیاہے


دوسری روائیت:

📚 عبداللہ بن عباسؓ سے مروی یہ حدیث پیش کی جاتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

«''صوموا يوم عاشوراء وخالفوا فيه اليهود وصوموا قبله يوما أو بعده يوما» ''یومِ عاشورا کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ (اس مخالفت کا طریقہ یہ ہے کہ) یوم عاشورا (دس محرم) کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا بھی روزہ رکھو۔''

( مسنداحمد ج1؍ص241)،

ابن خزیمہ (2095) ، 

(الکامل (ج3؍956)،

(السنن الکبریٰ للبیہقی4؍287)


🚫حکم الحدیث ضعیف

  اس کی سند میں بھی ابن ابی لیلیٰ اور داود بن علی نامی دو راوی ضعیف ہیں لہٰذا یہ قابل حجت نہیں،


 *خلاصہ یہ ہے محرم الحرام کا سارا مہینہ فضیلت والا ہے جتنے چاہیں روزے رکھ سکتے،اور یوم عاشورہ کے روزہ کے لیے بہتر ہے کہ 9 اور 10 محرم، دونوں دن کا روزہ رکھ لیں،*


*لیکن اختلاف یا جھگڑا نا کریں، جوصرف 9 محرم کا رکھنا چاہے وہ 9 کا رکھ لے اور جو صرف 10 کا رکھنا چاہے وہ 10 کا رکھ لے، جو9 ،10 اور 11 تینوں رکھنا چاہے وہ تینوں رکھے۔


((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

Post a Comment

0 Comments