Urdu ki Ibtadai Nasho Numa mein Sufiya-e-karam ka Hissa

Urdu ki Ibtadai Nasho Numa mein Sufiya-e-karam ka Hissa

اردو زبان کس طرح بنی؟ اس کو کس کے ذریعے عروج مال ؟ یا یہ عروج کیوں مال ؟ ان تمام سوالوں پر ہم غور کریں تو ہم کو علم ہوگا کہ ہندوستان میں اس زبان‌کےبننےکیابتدا آج سے کئ ہزار سال قبل ہو چکی تھی، آرائیاوں کی ہندوستان آمد،انکامدھیہ ہند میں قیام ، دیگر آرائی اقوام کی ہند میں آمد، اس کے عالوہ دراوڑوں کی آرائیوں سے ثقافتی جنگ، دیگر اقوام )جن میں کابل و قندھارمیں رہنےوالی خونخوار قوم پساچی وغیرہ شامل ہیں، (ان کی ہندوستان میں آمداور یہاں مختلف اقوام کی تہذیبوں کا تصادم - ایسی کئی ایک وجوہات ہیں جس کی بنیاد پر اس زبان کوسر زمین ہند پر پنپنےکا موقع مال ، لیکن اردو کی صحیح معنی میں جو پر وش ہونا شروع ہوئی اس کا سہرا مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد کے سرہی بندھتا ہے۔

یہ ایک لمبی بحث ہے کہ کیوں کر ہم اس واقعے کواتنی اہمیت دیں ،لہذااس بحث سے قطع نظر ہم براہ راست اپنے موضوع کی طرف چلتے ہیں کہ ہندوستان میں گیارویں صدی عیسوی سے مسلم صوفیہ نے جو اس ضمن میں کام کیا ہے اس سے اردو زبان ہندوستان میں کس طرح باقاعدہ زندہ ہوتی چلی گئی۔ اردو زبان کےتشکیلی عہد میں صوفیہ کی جو لسانی خدمات رہی ہیں اس سے ہرگزانکار نہیں کیا جا سکتا،اس ضمن میں جن صوفیہ کو سب سے زیادہ اعتبار حاصل ہے ان میں خواجہ بندہ نوازگیسودراز:)متوفی1422ء(برہان الدین قطب عالم: )متوفی 1453ء(سراج الدین ابوالبرکات شاہ عالم :)متوفی 1475ء(شاہ صدر الدین :)متوفی 1471ء(شاہ میراں جی شمس العشاق :)متوفی 1496ء(شیخ بہاو الدین باجن :)متوفی1506ء(سیدمحمدجونپوری:)متوفی1504ء(قای محمود دریائی:)متوفی1534ء(شیخ عبدالقدوس گنگوہی :)متوفی 1538ء(شاہ جیو گام دھنی :)متوفی 1565ء(شیخ برہان الدین جانم : )متوفی1582ء(شیخ خوب محمد چشتی:)متوفی1614ء(کبیر داس: )متوفی 1518ء(گورو نانک : )متوفی 1538ء(شاہ حسین : )متوفی
1599ء(عبدالرحیم خان خاناں : )متوفی 1626ء(سلطان باہو : )متوفی 1690ء(بلھے شاہ : )متوفی1787ء(وارث علی شاہ: )متوفی 1905ء( وغیرہ شامل ہیں۔ان تمام اکابر صوفیہ کی جو لسانی خدمات ہیں اس نے اردو کو ہندوستان میں بحیثیت زبان اس ملک کے کونے کونے تک پھیال یا اور عوام کواس زبان سے اتنا قریب کر دیا کہ یہ ایک بولی سے زبان کی صورت اختیار کرتی چلی گئی، بقول
انور سدید: ''یہ لوگ حب دنیا ، حب جاہ اور حب دولت سے آزاد تھے ۔ دنیا پرستوں کو حق صداقت کی راہ دکھانا ان کا مقصد حیات تھا۔ چنا نچہ درویشان ہند نے اپنے باطن کی روشنی کو عوام الناس تک پہنچانے کے لئے اردو الفاظ کا سہارا لیا اور قربت و اپنائیت کا وہ جذبہ پیدا کیا جو مسلمان بادشاہان ہند اپنی دولت و ثروت کے با وجود پیدا نہ کر سکے۔ ہم زبانی کے اس عمل نے اردو زبان کی ابتدائی
نشو نما کو گراں قدر فائدہ پہنچایا ۔'')1 )صوفیہ کا یہ لسانی عمل اردو کے لیے واقعی میں کار آمدثابت ہوا ،بہر کیف اس ضمن میں سب سے پہلے میں ان صوفیہ میں سے چند ایک کا اجمالی تعارف یہاں پیش کرتا ہو جن کا تذکرہ میں اوپر کر چکا ہوں تاکہ ان مشائخ نے کس طرح اس زبان کو تشکیل دیا ہے اس کو سمجھا جا سکے: خواجہ معین الدین چشتی : )متوفی 1235ء(سلسلہ چشتیہ کے پیشوا
خواجہ معین الدین چشتی پرتھوی راج پتھورا کے عہد میں تبلیغ حق کے لئے ہندوستان میں تشریف الئے ملتان میں قیام کے دوران انھوں نےمقامی زبان میں مہارت حاصل کی اور اجمیر کو مرکز
تبلیغ بنایا، ہندو اور مسلمان سب ان کے معتقد تھے اور وہ رشد و ہدایت کا درس مقامی ہندوی زبان میں دیتے تھے ان کا کوئی معتبر قول زبان ہندی میں دستیاب نہیں۔ مولوی عبدالحق نے ان کی ہندی دانی کے ثبوت میں فاضل شارح اکھروتی )تصنیف ملک محمد جائسی ( کا مندجہ ذیل قول نقل کیا ہے گمان نہ کنند کہ ہیچ اولیا ء ہللا بہ زبان ہندی تکلم نہ کردہ ، زیر ا کہ اول از جمیع اولیا ہللا قطب االقطاب خواجہ بزرگ معین الحق والملۃ والدین قدس ہللا سرہ بدیں زبان سخن فرمود ہ اس سےحضرت خواجہ چشتی اجمیری کی ہندی دانی اور ہندی گوئی کا ثبوت مل جاتا ہے چنانچہ یہ کہنادرست ہے کہ جن صوفیہ نے ہم خیالی کے لئے ہم زبانی کا طریقہ اختیار کیا ان میں خواجہ معین الدین چشتی کو اولیت حاصل ہے ۔ خواجہ فر ید الدین گنج شکر : )متوفی 1265ء(حضرت خواجہ فریدکا مرکز رشد و ہدایت پنجاب کا شہر پٹن تھا ،ان کے ملفوظات کے دو مجموعے '' راحت القلوب '' اور''اسرار االولیاء'' کے نام سے منظر عام پر آچکے ہیں ، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت کا مطالعہ وسیع تھا اور ان کے دل میں علم کی بہت قدر تھی۔ ادبی لحاظ سے خواجہ فرید کی اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے تخلیق شعر کے وہبی عمل سے کام لیا ان کے نام سے جو اشعار منسوب ہیں ان میں سےچند ایک حسب ذیل ہیں تن دھونے سے دل جو ہو تا پوک پیش رو اصفیا کے ہوتے غوک خاک النے سے گر خداپائیں گائے بیالں بھی واصالں ہو جائیں یہ ریختہ بھی حضرت گنج شکر سے منسوب ہے وقت سحروقت منا جات ہے خیز در آں وقت کہ برکات ہے ان کی زبان سے نکلے ہوئے مندجہ ذیل جملے بھی
محققین نے دریافت کئے ہیں 1 خواہ کھوہ کھاہ ، خواہ دوہ کھا ہ 2 سرسہ کبھی سرسہ کبھی نر سہ3 مادر مومناں پونیوں کا چاند بھی باال ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت خواجہ فرید مسعود شکر گنج کی عطایہ ہے کہ انھوں نے پنجاب کی سرزمین سے اردو میں تخلیق شعر کا عمل جاری کیا شیخ شرف الدین بو علی قلند :) متوفی 1323ء(بو
علی قلند پانی پت کے بزرگ تھے۔ وہ کمال جذب کے ساتھ صاحب تصیف بھی تھے، ان کی فارسی مثنویات اور دیوان چھپ چکا ہے ۔ مولوی عبدالحق نے لکھا کہ مبارز خاں نے ارادہ سفر کیا تو ان کی زبان مبارک سے یہ دوہا نکال سجن سکارے جائیں گے اور نین مریں گے روئے بدھنا ایسی رین
کو ، بھور کدھی نہ ہوئے اس دوہے سے محمد تغلق اور عالو الدین خلجی کے عہد میں پرورش پانےوالی زبان اور اس کی تخلیقی شان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ امیر خسرو:) متوفی 1324ء( کوتیرویں اور چودھویں صدی کے صوفیہ کرام میں یہ اہمیت حاصل ہے کہ انھوں نے ہندوستانی تہذیب کے ارضی عناصر کو شاعری میں سمویا اور اردو دانی کے ابتدائی دور میں اس زبان کو جذباتی گرمی ، داخلی توانائی اور نیا انداز اظہار عطا کر دیا )الخ(۔ امیر خسرو نے ہندوی شاعری میں زبان کا وہ روپ پیش کیا جو عوام میں مقبول ہو چکا تھا انھوں نے اس زبان کی تخلیقی قوتوں کو اجاگرکیا اور نئی نئی اختراعات پیدا کیں دوہے ، کہہ مکرنیاں ، دو سخنے ، پہلیاں ، گیت کہاوت ،ڈھکوسلے اور ریختہ وغیرہ اصناف میں خسرو کی تخلیقات بے حد معیاری ہیں ۔ ان کی کتاب خالق باری ایک ایلگ نوعیت کی تصنیف ہے۔ ریختہ میں ایک مصرعہ فارسی کا اور دوسرا ہندی کا تخلیق کرنا بھی امیر خسرو کی اختراع شمار ہوتا ہے ۔ اس کی ایک مثال حسب ذیل ہے: شبان ہجراں دراز
چوں زلف ، بروز وصلش چوں عمر کوتاہکسی زبان کو بنانا ،یا اس کو فروغ دینا، یہ صوفیہ کا عین مشن نہیں ہوتا ، صوفی اپنی زندگی میں صرف ایک مشن کے تحت کام کرتا ہے اور وہ ہے رضائےہی، جتنی بھی تواریخ یا تذکرے صوفیہ کرام کے ہم تک پہنچے ہیں ہم اگر ان پر ایک نظر ڈالیں تو "ال ، ہی" ہمیں علم ہو گا کہ صوفیہ نے رضائے ال کے لیے دنیا کے ایسے کئی کام کیے ہیں جس کو صوفیہ
کا عین مشن نہیں کہا جا سکتا، ایک صوفی ہللا کو یاد کرتا ہے ، اس کا ذکر کرتا ہے اور اس کےتذکرے کو مخلوق کے درمیان عام کرتا ہے، صوفیہ کا یہ ہی عمل ان کو جزوی طور پر دنیا سےجوڑتا ہے ،حاالں کہ وہ کلیتا بر خالف اپنےرب سے جڑےہوتےہیں، ان کےاعمال حق پر مبنی ہوتے ہیں کیوں کہ حق کی تکمیل کے لیے صوفیہ اپنی پوری زندگی وقف کرتے ہیں ، صوفیہ کی تاریخ کے مطالعے سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ جن دنیاوی معامالت میں ہم صوفیہ کو گھرا ہوادیکھتے ہیں، اس کی اساس اگر تالش کی جائے تو ہم کو صوفیہ کرا م کی اصل نیت سے واقفیت
حاصل ہوگی، مثال ً اگر صوفیہ کی کوئی جماعت سیاست یا حکومت کی پالیسیز پر کی بات کرتی ہے،اس میں عمال ً شریک رہتی ہے ،تو اس میں ان کی نیت سیاست یا حکومت سے دنیا وی معامالت میں گھرنا نہیں ہوتا ،بلکہ اس کے ذریعے ہللا کی رضا مقصود ہوتی ہے، اس کی زندہ مثال خلفہ راشدین کی ذات ہے، جنہوں نے حکومت کی، سیاست کی ،لیکن ان کے اس عمل کی اساس بنیادی طور پر
ہی تھی، اسی طرح اگر صوفیہ کسی ثقافتی عمل کو انجام دیتے ہیں تو بھی ان کی نیت عین
ٰرضائے الٰ ثقافتی عمل کی تعمیر و تشہیر نہیں ہ ہی ہی ہوتا
وتی ،بلکہ اس کے پیچھے بھی ان کا مقصد رضائے ال
ہے، صوفیہ کی اصل کمائی کسی عمرانی، سیاسی، ثقافتی اور لسانی پروگرام کی ترقی نہیں ہوتی، بلکہ ان کی اصل کمائی انسانی قلوب کو حق کی جانب مائل کرنے پر مبنی ہوتی ہے۔ اس لیے صوفیہ دنیا بھر کے کام کرتے ہیں مگر ان کی حقیقت ان کے ظاہر سے زیادہ ان کے باطن میں پوشیدہ ہوتی ہے ،جو ہمیشہ ہللا کی خوشنودی کی خواہاں رہتی ہے۔ سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسےکاٹوں اندھیری رتیاں امیر خسرو کا لہجہ دھیما ، مہین اور لطیف ہے اور مزاج میں ہندی اور موسیقی رچی ہوئی ہے۔ شیخ برہان الدین غریب :) متوفی1338ء(شیخ سراج الدین اخی سراج )متوفی 1365 )اور شیخ شرف الدین یحیی منیری)متوفی 1370)چند ایسے بزر گ ہیں جن کی ہندی دانی نے آثار
دیافت کئے جا چکے ہیں۔ شیخ عین الدین گنج العلم )متوفی1393)کے بارے میں مشہور ہے کہ انھوں نے دکنی اردو میں تین رسالے لکھے تھے جو دستیاب نہیں اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اس دور میں دکنی اردو کو دینی تعلیم کا ذریعہ بنا لیا گیا تھا ، بنگال میں اردو کی ابتدائی نشو نما میں جن صوفیہ ھوں نے اُ نے حصہ لیا ان میں ایک بزرگ خواجہ اشرف جہانگیر سمنانی )متوفی 1305)ہیں ، جن چشریف میں مخدوم جہانیاں جہاں گشت سے روحانی فیوض کے عالوہ ہندی زبان کی تعلیم بھی حاصل کی '' لطائف اشرفی'' میں ان کے ہندی آمیز منتر دستیاب ہیں ،وفا راشدی نے ایک ہندی جملہ ''چھیری
کے منہ کھنڈا سمائے ''ان سے منسوب کیا ہے ۔ حضرت شرف الدین یحیی منیری کے خلیفہ موالنامظفر بلخی )متوفی 1400)کے مکاتیب کے تراجم میں ہندی دوہے اور جملے اور ان کی زبان میں بنگال ، بہار اور پورب کے اثرات تالش کئے گئے ہیں۔حضرت نور قطب عالم پنڈوی )متوفی
1415)نہ صرف ہندی سے واقف تھے بلکہ اسے عربی رسم الخط میں لکھتے بھی تھے۔ ان کا ایک ہندی شعر جو ایک فارسی شعر کا ترجمہ ہے ، یوں ہے : رین سب آئی سویا سیج نلدھا تھانوں پیو نہ پوچھے پاتری مجھ سہاگن نوں ڈاکٹر شہید ہللا نے لکھا ہے کہ : ''اس مسلمان بھاشا سے پوتھی ادب پیداہوا تھا۔'')2 )یہ چند ایک صوفیہ کا تذکرہ تھا اسی طرح انور سدید نے اپنی تاریخ ادب اردو میں متذکرہ باال مشائخ کا متاوتراجمالی تعارف پیش کیا ہے۔ مندجہ باال صوفیہ کی خدمات کاایک نظر میں جائزہ
لینے کے بعد اس بات کا بھی اعتراف کرنا پڑتاہے کہ جو شخصیات اس زبان کو اپنی تشکیلی دور میں ایک نعمت کی صورت میں نصیب ہوئیں ان میں یہ اہل صوف ہی شامل ہیں ۔ اردو کو بنانے میں اور اس کی لغت کو ہندوستان کی مختلف زبانوں اور ہندوستان کے باہر بولی جانے والے زبانوں کےسہارے از سر نو تیار کرنے میں ان مشائخ کا بنادی کردار رہا ہے ،جس کی وجہ سے اردو کے
ذخیرہ الفاظ میں بے شمار ایسے لفظ شامل ہو گئے ہیں جن کو ان صوفیہ کرام نے اپنے خاص مطالب کی ادائیگی کے لئے اردو میں رائج کیا تھا، صوفیہ کرام کے اس عمل سے اردو میں ایسی اصطلاحات اور ایسے استعارات جمع ہوتے چلے گئے جن کا ایک معنی خالص صوفیانہ ہوتا تھا، اسی
لئے اردو شاعری کے ابتدائی دور میں ہمیں تصوف کی بھرمار نظر آتی ہے اور بعد کے عہد میں بھی
کیوں کہ ان صوفیہ کے وضع کردہ الفاظ ایک اصطلاحات کی صورت اختیار کر چکتے ہیں تصوف بصورت ابہام باقی رہتا ہے۔ ایک بات اور جو خاصی اہم ہےوہ یہ کہ ان مشائخ کی بولی میں ہمیں جہاں ایک طرف فارسی کے الفاظ اپنے قواعدی اصول استعمال کے ساتھ نظر آتے ہیں تو اس کے
بالمقابل پراکرت اور بھاکا کے الفاظ بھی اپنے ایک خاص اصول اظہار کے ساتھ نمایاں ہوتے دکھائی
دیتے ہیں، سنسکرت اور عربی ان دو زبانوں کی قواعد اور اصول انشا ہمیں صوفیہ کے ابتدائی جملوں
میں نظر آتا ہے۔ جس سے اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ اردو زبان کی قوائد بھی ان صوفیہ
کرام کے عہد میں ترتیب پانا شروع ہو چکی تھی۔
اردو سے متعلق تمام امور میں یہ صوفیہ ہی ہیں جن کو اس زبان کا بنیاد گذار کہا جا سکتا
ہے، اس کے عالوہ آگے بھی ہم اردو کے دیگر جو اہم مراکز ہیں مثالً شمالی ہند ، دکن ،گجرات ،
بنگال، بہار، سندھ اور پنجاب وغیرہ ان خطوں میں اردو زبان کی تشکیل میں مشائخ و صوفیہ کی جو
خدمات رہی ہیں اس کا ذکر کریں گے،ل ٰہذا اپنی اگلی منزل میں میں خاص دکن کا اس حوالے سے
جائزہ لیتے ہوئے ''نصیرالدین ہاشمی '' کی مشہور زمانہ کتاب ''دکن میں اردو'' سے ایک اقتباس پیش
کرتا ہوں ، جس سے دکن میں اردو کا تصوف سے کیا تعلق تھا اس بات کو تاریخی شواہد سے ظاہر
کیا جا سکے۔ مالحظہ ہو ،ہاشمی صاحب فرماتے ہیں : عالء الدین خلجی اور ملک کافور کے فتوحات
دکن کے پہلے کئی ایک صوفیاے کرام دکن کے مختلف حصوں میں سکونت کر کے اپنے اخالق حسنہ
کے باعث ہندووں میں ہر دل عزیز ہو گئے تھے ، ان کی تبلیغ وہدایت جاری تھی ،ان میں سے بعض
صوفیہ یہ ہیں : حاجی رومی )متوفی555ھ(سید شاہ مومن عارف ہللا )متوفی 597ھ(بابا مظہر طبل
عالم )متوفی 662ھ(شاہ جالل الدین گنج رواں )متوفی 644ھ( سید احمد اکبر جہاں قلندر
)متوفی659ھ(شاہ علی پہلوان )متوفی 672ھ(شاہ حسام الدین )680ھ(صوفی سرمست)متوفی
680ھ(بابا شرف الدین )متوفی 687ھ(بابا شہاب الدین )متوفی 691ھ(بابا فخر الدین )694ھ(سید
اعزالدین حسینی)متوفی 699ھ( اس کے عالوہ اور بیسیوں صوفیہ کے نام ہمدست ہوتے ہیں جنھوں
نے دکن کے مختلف حصوں میں سکونت کر لی تھی اور وہیں انتقال فرمایا۔ )3 )ذہن نشین رہے کہ
جس عہد سے جس عہد تک کے صوفیہ کا تذکرہ نصیر الدین ہاشمی نے کیا ہے ، اس عہد میں شمال
میں کبیر داس جنم لے چکے تھے،699ھ کے بعد جن صوفیہ نے دکن میں شہرت حاصل کی وہ
امیران صدہ کی حکومت قائم ہونے کے بعد دن بدن بڑھتی چلی گئی اور یہ سلسلہ دکن میں ہمیں بعد
تک ان پانچوں حکومتوں میں برابر نظر آتا ہے جو بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد وجود میں آئیں،
بہر کیف 555ھ کے جن صوفیہ کا تذکرہ نصیر الدین ہاشمی نے کیا ہے اس عہد میں اردو زبان دکن
میں پیدا ہو چکی تھی اور ان ہی صوفیہ کے زیرے سایہ پروان چڑھ رہی تھی ، ان صوفیہ کی زبان
کو ہی بنیاد بنا کر ہاشمی صاحب نے یہ بات بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دکن میں اردو کی
ابتدا شمال سے پہلے ہو چکی تھی۔ ہاشمی صاحب کا ایک اور اقتباس مالحظہ ہو، فرماتے ہیں : اب یہ
امر خاص طور سے غور طلب ہے کہ جب مسلمانوں نے مدتوں دکن میں بود و باش کی اور حکومت
قائم کی ، تجارت کی، مذہب کی اشاعت کی ، تعلیم دی ۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا یہاں کے ملکی اور دیسی
باشندوں کے ساتھ تھا ، ہر وقت کام کاج ،خرید و فروخت میں ان سے سابقہ رہتا تھاتو ظاہر ہے کہ
ایک خاص زبان کا پیدا ہونا ضروری تھا ، جو دونوں غیر قوموں کے لیے تبادلہ خیاالت کا ذریعہ
ہوتی ۔
اس لحاظ سے جو دعوی اردو کے دکن سے پیدا ہونے کا کیا جاتا ہے وہ بہت بڑی حد تک
صحیح ہو سکتا ہے ۔)4 )ہمیں یہاں اس بات سے کچھ عالقہ نہیں کہ اردو شمال میں پیدا ہوئی یا جنوب
میں ،اس اقتباس کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مدلل انداز میں اس بات کو ثابت کیا جا سکے کہ
اردو زبان کو جنوب میں بھی ایک زبان کی صورت بخشنے میں صوفیاے کرام کی خدمات کتنی
نمایاں رہی ہیں ، ساتھ ہی اس زبان میں جنوب ہو یا شمال ابتدا سے ہی تصوف کی تعلیمات نے اپنا اقتدار قائم رکھا ہے۔ دکن میں 700ھ کے بعد جن صوفیہ کی تعلیمات کا رواج عام ہونا شروع ہو ا اور
جن کی نثر و نظم کے ذریعے اردو زبان ایک نئی صورت میں مزید پختگی کے ساتھ عوام الناس میں
پھیلنے لگی، ان میں بہت سے نام آتے ہیں ، لیکن بالخصوص جن شعرا اور نثر نگاروں نے تصوف
کی تعلیمات کے ذریعے اردو زبان کو عروج بخشا وہ بہت نمایاں اور کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں ۔
ان سر بر آوردہ ادبا میں چند ایک نام مندجہ ذیل ہیں : سید محمد اکبر حسینی، عبدہللا ، حسینی ، شاہ
میراں جی شمس العشاق ، وجہی ، شاہ راجو حسینی، برہان الدین جانم ، شاہ امین الدین اعلی وغیرہ ۔ ان
لوگوں نے اپنی تصنیفات و تالیفات کے ذریعے اردو زبان کو جتنا فروغ پہنچایا اتنا ہی تصوف کی
تعلیمات کو بھی عام کیا ، یہ دو کام بیک وقت ایک ساتھ اس لیے ہوتے نظر آتے ہیں کیوں کہ اردو
اور تعلیمات تصوف کا مرجع ایک تھا، اردو کے فروغ سے تصوف کا فروغ ہوتا نظر آتا ہے اور
تصوف کی تعلیمات کے فروغ سے اردو کا – مذکورہ باال شخصیات جس دور میں جنوب میں اپنی
لسانی و صوفیانہ خدمات انجام دے رہی تھیں اسی عہد میں شمال میں گرو نانک اور کبیر
داس)کبیر)1440 لغایت 1518 )بنارس )یوپی( میں پیدا ہوئے، مگھر )گورکھپور کے قریب( میں
انتقال کیا۔( اپنی تعلیمات سے اردو زبان کو فروغ پہنچانے کا کام انجام دے رہے تھے، ان دونوں
تو یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ اصالً صوفی تھے ،لیکن اتنا ضرور کہا
شخصیات کے متعلق کلیتاً
جا سکتا ہے کہ ان دونوں عظیم شخصیات نے جن خیاالت کو عام کرنے کی کوشش کی اور جس
انسانیت اور محبت و رواداری کے پیغام کو ارتقا بخشا وہ صوفیہ کی تعلیمات سے الگ نہیں ۔ ان
دونوں شخصیات کے عہد میں ملک محمد جائسی ) مصنف: پدماوت )1477-1542 )جائس، اتر
پردیش( بھی شمالی ہند میں موجود تھے جن کو صوفی تسلیم کرنے میں کچھ تردد نہیں اور ان کی
شخصیت ایسی ہے جس کو گرو نانک اور کبیر داس کی درمیانی کڑی قرار دیا جا سکتا ہے۔اس عہد
میں گرو نانک کی مانند بابا تلسی داس )1532 لغایت 1623 راجاپور )باندہ( میں پیدا ہوئے، بنارس
)یوپی( میں انتقال کیا۔(بھی ایک ایک عظیم شخصیت گزری ہے ،جس نے ادو کے فروغ میں کار ہائے
نمایاں انجام دیے ہیں ۔ دکن اور شمال میں چودھویں اورپندرویں صدی عیسوی میں جہاں اردو کو
بنانے اور سنوارنے میں ان خطوں میں مقیم صوفیہ کا اہم کردار رہا ہے وہیں گجرات میں بھی یہ
سلسلہ بعینہ جاری و ساری نظر آتا ہے ، اس ضمن میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کا ایک اقتباس مال
حظہ کیجیے،فرماتے ہیں : یہ بات قابل غور ہے کہ دلی کی حکومت یا اہل دہلی نے جس جس خطے
میں قدم رکھا خواہ وہ پنجاب ہو یا گجرات ، دکن کے صوبے ہوں یا مدراس وہاں انھوں نے زبان پر
اپنا نقش ضرور چھوڑا اور وہ نقش ایسا گہرا ہے کہ اب تک اجاگر نظر آتا ہے۔ اس بارے میں اہل ہللا
اور صوفیہ کو نہیں بھولنا چاہیے،ان کے نام اس فہرست میں سب سے پہلے آتے ہیں ۔ ان کی یہ خدمت
دینی خدمت سے کچھ کم نہیں ۔ گجرات میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ان بزرگوں نے اپنی تعلیم و تلقین
کے لیے اس زبان سے کام لیا ہے جو عوام میں بولی یا سمجھی جاتی تھی۔چنانچہ حضرت قطب عالم
)والدت790ھ ،وفات 850ھ( حضرت شاہ عالم )والدت 817ھ،وفات880ھ(شیخ بہاو الدین باجن )وفات
912ھ(سلطان شاہ غزنی )وفات 922ھ(کے اقوال جو ہندی اور ہندی آمیز اردو میں ہیں اب تک موجود
ہیں ۔
ان کے عالوہ شاہ علی جیو گام دھنی )وفات 972ھ(کا پورا دیوان موسوم بہ جواہر االسرار
ہندی زبان یعنی قدیم ہندی آمیز اردو میں اب بھی پایا جاتا ہے اور میاں خوب محمد چشتی )وفات
1023ھ(کی کتاب خوب ترنگ قدیم گجراتی اردو میں ہے۔ یہ حضرات اپنی زبان کو عربی ،عجمی
آمیز گجراتی کہتے تھے ، جس کے معنے قدیم گجراتی اردو کے ہیں ۔ اسی طرح شاہ وجیہہ الدین
علوی )وفات 998ھ(اور ان کے بھتیجے سید شاہ ہاشم علوی )وفات 1059ھ(کے اقوال بھی اسی زبان
میں ان کے ملفوظات میں پائے جاتے ہیں ۔ )5 )شمالی ہند ،دکن اور گجرات یہ تینوں خطے اردو زبان
کی ابتدائی سر زمین کے طور پر جانے جاتے ہیں ، حاالں کہ بعض محققین نے صوبہ سندھ اور پنجاب کو اردو کا اصل وطن قرار دیا ہے ، لہذا ہم اپنے موضوع کی مطابقت کے لحاظ سےاگر ان
عالقوں کی جانب بھی رجوع کریں تو ہمیں وہاں بھی اس زبان کا تصوف اور صوفیہ سے ایک گہرا
تعلق نظر آتا ہے۔ مثال ً صوبہ سند ھ میں اردو کے ابتدائی نقوش کا قضیہ سب سے پہلے سید سلیمان
ندوی نے چھیڑا اور سندھ کو اردو کا مولد و مسکن قرار دیا ، ان کی اس بحث سے قطع نظر
اردوزبان کا اس عالقے سے صوفیہ سے کیا تعلق تھا اس حوالے سے یہ اقتباس مالحظہ کریں :
چونکہ مسلمانوں کی پہلی آمد سندھ اور ملتان کے عالقوں میں ہوئی ، اس لئے نئی مشتر ک زبان
)اردو (کا ہیولی اسی عالقے میں تیار ہوا۔حسام الدین راشدی کے مطابق :یاد رہے کہ اردو
ہندومسلمانوں کی وہ مشترکہ زبان ہے جو مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد اور حکومت اور تمدنی
روابط کی بدولت اس طرح وجود میں آئی کہ اسالمی زبانوں کے ہزارہا الفاظ ہندی میں شامل ہو گئے
اور اہل ہند، ہندوہوں یا مسلمان انہیں سمجھنے اور بولنے لگے۔ وہ آگے چل کر لکھتے ہیں ، جو
حضرات سندھ کی اسالمی فتح اور بعد کی تاریخ سے واقف ہیں وہ موالنا سید سلیمان صاحب ندوی
کے اس قول کوماننے میں ذرا بھی تامل نہ کریں گے کہ ہندو مسلمانوں کی متحد ہ زبان کا پہال گہوارہ
سندھ ہے۔ )6 )اس بحث کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے مصنفہ نے اردو زبان کی تشکیل کے عمل میں
سندھ و ملتان کے مسلم صوفیہ کے کردار پر بہت کچھ کہا ہے ، یہاں اس باب کا آخری اقتباس مالحظہ
کریں : الغرض صوفیا ے کرام کی ہندوستان میں آمد سے پہلے مسلمان نہ صرف اپنی تہذیب و
معاشرت اور زبان و ادب کے اثرات مقامی باشندوں پر مرتب کر رہے تھےبلکہ سیاحوں ، مورخین
کے بیانات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خود مسلمان بھی ہندوستانی رسم و رواج اور زبان سے متاثر
ہورہے تھے ۔ اس طرح گویا نہ صرف ایک محفوظ زبان کی بنیاد پڑ رہی تھی بلکہ ایک مشترک
تہذیب بھی وجود میں آرہی تھی ، محمود غزنوی کے حملے کے بعد صوفیاے کرام کا ورود مسعود
سر زمین پاک و ہند میں ہوا تو انہوں نے نہ صرف الکھوں افراد کو مسلمان بنایا بلکہ مسلمانوں کے
تشخص کو قائم رکھنے کی سعی بھی کی ۔ اردو زبان کو ترویج دینے میں ان کا جتنا حصہ ہے اور
کسی کا نہیں، بقول ابو اللیث صدیقی : اردو کو جو ان ہونے اور پروان چڑھنے کے لئے صوفیوں کی
خانقاہیں ، مبلغین کی مجلسیں اور ہللا والوں کی محفلیں تالش کر نا پڑیں ۔ان کے بھی دربار تھے ۔مگر
شاہی دربار نہ تھے ۔ یہ عوام کے لئے کھلتے تھے ، یہاں شرافت کی زبان، ثقافت کی زبان اور تہذیب
کی زبان کا سکہ نہیں چلتا تھا۔ یہاں عوام کے دلوں میں اترنے کے لیے عوام کی بولی کا رواج تھا ۔
چنانچہ اردو کی ابتدائی نشو و نما میں سب سے زیادہ صوفیاے کرام ہی نے کا م کیا ۔ )7 )ہندوستان
کےالگ الگ خطوں میں اردو زبان کی ابتدا کا جو نقشہ محققین نے کھینچاہےاس سے اس بات کا کلیتاً
فیصلہ ہو یہ نا ہو کہ اس زبان کےابتدا ئی نقوش کہاں مرتب ہوئے لیکن یہ بات بہت واضح اور مستند
ہے کہ جس خطے کو بھی اس زبان کا مولد و مسکن قرار دیا جائے وہاں کے صوفیہ نے ہی نے اس
زبان کو بنانے اور سنوارنے کی شروعات کی۔ سند ھ میں اس زبان کے ابتدائی معامالت کا جائزہ لیتے
ہیں تو وہاں بھی صوفیہ کرام کی خدمات اردو کی لسانی ترتیب میں نمایاں نظر آتی ہیں ۔ بہر کیف اب
پنجاب کو بھی ایک نظر دیکھ لیا جائے تاکہ اردو کو جس زمین سے گزشتہ ایک ہزار سال سے وابستہ
کیا جا رہا ہے اس خطے میں اس زبان کا صوفیہ سے کیا تعلق رہا ہے اس کی دلیل فراہم ہو سکے ۔
اس سلسلے میں محمود شیرانی کا حوالہ سب سے مستند ہے جنہوں باقاعدہ پنجاب میں اردو کے عنوان
سے ایک مستقل کتاب تصنیف کی ہے۔ محمود صاحب اردو کی پنجاب میں ابتدا اور صوفیہ کرام کے
اس ضمن میں خدمات کے متعلق کیا فرماتے ہیں مالحظہ کیجیے: ریختہ کی طرز کی نظموں میں سب
سے قدیم ریختہ شیخ فرید الدین گنج شکر متوفی 664ھ کی طرف منسوب ہے۔ عالوہ بریں بعض اردو
فقرے بھی ملتے ہیں، ان کے بعد شیخ عثمان اور شیخ جنیدی اور منشی ولی رام کے ریختو ں کی
باری آتی ہے جو گیارویں صدی ہجری سے تعلق رکھتے ہیں ،بارہویں صدی ہجری کی متفرق نظموں میں زیادہ تر صوفیانہ نظمیں داخل ہیں ، جن میں سے اکثر حضرت غوث االعظم کی شان میں ہیں ۔
ایسی نظمیں چونکہ کثیر تعداد میں ملتی ہیں اس لیے نے میں صرف چند ایک منتخب کر لی ہیں ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو زبان زیادہ تر خانقاہ نشینوں کی گود میں پلی ہے ۔وجہ ظاہر
ہے کہ ان بزرگوں کا تعلق زیادہ تر عوام سے تھا، دیسی اور پردیسی اس سے فیض کے طالب تھے۔
لوگ دور دور سے اپنی مرادیں لے کر ان کے پاس جاتےتھے ، اس لیے ملکی زبان کا جاننا،اس میں
بات چیت کرنا ان کے لیے ضروری تھا ،دوسرے صوفی پیشہ لوگ اکثر سیاح اور جہاں گرد ہوا
کرتے ہیں اور اردو ان ایام میں ہندوستان کے گوشے گوشےمیں بولی جاتی تھی، اس لیے سیاحوں ،
صوفیوں اور سپاہیوں کے لیے اس زبان کا جاننا از بس ضروری تھا۔)8 )محمود شیرانی کا یہ اعتراف
بالکل بجا ہے کہ اردو زبان زیادہ تر خانقاہ نشینوں کی گود میں پلی ہے ، لیکن میں اس سے ایک قدم
آگے بڑھ کر یہ محسوس کرتا ہوں کہ ہندوستان کی جدید تہذیب جس کو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد
کے بعد کی تہذیب کہنا چاہئے اس کو ایک نئی زبان کے ذریعے گھر گھر پہنچانے میں اس ہندوستان
کے صوفیہ کرام کی بڑی خدمات رہی ہیں ، جس نے اسالم کو سر زمین ہند پر استحکام تو بخشا ہی
ساتھ ہی اخالقیات کی نئی دنیا یہاں وضع کی۔ قدیم رسومات سے ہندوستان کو چھٹکارا دالتے ہوئے نئی
فکر سے یہاں کے باشندگان کارشتہ جوڑا اور فرسودہ روایات کا خاتمہ کرتے ہوئے پیار اور محبت
سے ہندی عوام کو علم کی نئی روشنی سے متعارف کروایا، اس لے لیے جس زبان کی ان کو
ضرورت پیش آئی وہ ایک درمیانی زبان ہی ہو سکتی تھی جس میں بیرون ملک سے آئے صوفیہ اور
ہندی عوام کے خیاالت کا تبادلہ آسانی سے ہوسکے، ظاہر ہے کہ اس صورت حال کے تحت اردو کا
وجود ابھر کر سامنے آنے لگا ۔ پنجاب کا اس سلسلے میں اہم اور نمایا کردار اس لئے بھی سمجھا جاتا
ہے کہ ہندوستان میں مسلم حکمراں ہوں یا صوفیہ سب سے پہلے اسی سر زمین سے داخل ہوئے اور
یہاں اپنے اثرات مرتب کرتے ہوئے ہندوستان کے دیگر عالقوں کی طرف بڑھے ۔، ل ٰہذا ردو کی
تشکیل میں وہ تمام صوفیہ پنجاب بہت نمایاں مقام رکھتے ہیں جن کا تذکرہ محمود شیرانی نے اپنی
کتاب پنجاب میں اردو میں تفصیلی اور اجمالی انداز میں پیش کیا ہے۔ میں اوپر بھی اس جانب اشارہ
کر آیا ہوں کہ اردو کو مختلف صوبوں کے محققین نے اپنے عالقوں سے منسوب کر نے کے لیے
الگ الگ انداز میں تاریخی شواہد پیش کئے ہیں ، ہم نے اب تک اردو کو دکن ، گجرات ، پنجاب
،سندھ، شمال اور شمال کے مختلف عالقوں کے حوالے سے دیکھا اور ان عالقوں میں اردو کی تشکیل
میں صوفیہ کا جو کردار کیا رہا ہے اس پر اجماالً گفتگو کی ، لیکن اس کے عالوہ بنگال بھی ایک
ایسا خطہ ہے جس نے اردو زبان کو اپنی زمین سے منسوب کرتے ہوئے یہاں سے اردو کی ابتدا کا
دعوی کیا ہے ، اس ضمن میں ایک اقتبا س مال حظہ کیجیے تاکہ بنگال میں اردو کی ابتدا کے متعلق
یہاں کے ایک محقق کا کیا خیال ہے اس سے آشنائی ہو سکے ، اس سلسلے میں وفا راشدی اپنی کتاب
بنگال میں اردو میں عرض گذار ہیں : اردو کی ابتدا کے متعلق مختلف صوبوں کے مصنفوں اور
ادیبوں نے عموما اپنے اپنے صوبے میں اردو کی ابتدا بتالئی ہے۔ کسی نے اس کی ابتدا پنجاب سے
کسی نے سندھ اور دکن سے اور کسی نے دو آبہ گنگا ،جمنا سے ، صوبائی جذبات نے حقیقت پر کچھ
اس طرح نقاب ڈال رکھا ہے کہ ابتک کسی غیر جانبدار مورخ نے صحیح طور پر اس کی مولد بتالنے
میں حق و انصاف سے کام نہیں لیا ، جہاں تک میری نظر نے کام کیاہے ، میں اس نتیجے پر پہنچا
ہوں کہ اردو کی ابتدا کو کسی خاص صوبے سے منسوب کرنا ہر گز قرین انصاف نہیں ۔
شاہجہاں کے عہد میں جب پراکرت کی بیٹی بھاشا نے اردو کا روپ دھارا تو اس زبان کے
پرستار دہلی یا شمالی ہند تک محدود نہ تھے ، بلکہ وہاں کے باشندوں کو شمال و جنوب کے مختلف
مقامات میں آمد و رفت کا موقع ملتا رہا اس طرح جہاں وہ لوگ گیے نئی بولی اپنے ہمراہ لیتے گئے
اور وہاں اردو زبان پھیلتی گئی ۔ اس کی وضاحت میں ناطق لکھنوی کی حسب ذیل عبارت بطور سند کافی ہے: اردو کو ایک ایسا سر چشمہ تصور فرمائیے جو شمالی ہند کے پہاڑوں سے جاری ہوا ،
دہلی میں آکر دریا بنا ، اس دریا سے بیسیوں شاخیں نکلیں ایک بنگال کو گئی ، ایک بہار کو ، ایک
اودھ کو اور ایک گجرات کو یہاں یہ شاخ تمام دکن میں پھیل کر ایک سمند ر بن گئی ۔ اودھ مین جو
شاخ پہنچی اس کے پانی کو تمام ہندوستان خصوصا آگرہ اور دہلی کے ادیبوں اور شاعروں نے جمع
ہو کر لکھنو میں صاف کیا اور صاف کر کے تمام ملک میں نہریں دوڑا دیں ۔)نظم اردو ص،15 )آپ
نے دیکھا کہ دریا دہلی کی شاخیں بیک وقت بنگال ، بہار ، اودھ ،گجرات مین پھیل گئیں ۔ یہ اور بات
ہے کہ دکن میں اس شاخ نے سمندر کی سی حیثیت اختیار کر لی ۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ
بنگال کو بھی اردو کی آماجگاہ ہونے کا شرف اسی وقت سے حاصل ہوا ۔ جب اردو کی ابتدا ہوئی۔)9 )
اردو کا تعلق واقعتا ً کئی ایک خطوں سے بیک وقت نظر آتا ہے ، بنگال میں بھی اس کی ابتدا کے
نقوش ملتے ہیں، وفا راشدی نے اپنی کتاب میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے، بہر کیف
اردو کی ابتدا کی بحث سے قطع نظر بنگال میں کس طرح صوفیہ نے اس ضمن میں کام کیا ہے ، اس
کا وفا راشدی نے ذکر کیا ہے، اس حوالے سے وفا راشدی کیا فرماتے ہیں مالحظہ کیجیے: بنگال میں
شیخ نور الحق پنڈوی متوفی )813ھ(کے اردو جملے اور اقوال برابر ملتے ہیں ۔ تقریبا اس زمانے میں
قطبینی شاعر پنجاب سے یہاں آیا کٹک میں ایک نہایت نامعلوم مدت سے نہایت عمدہ اردو بنگال
)مرشد آباد(کے ذریعے پہنچی ، حضرت مخدوم اشرف جہانگیر کی اردو سے بنگال ، بہار اور اودھ
کو شرف حاصل ہو ا ۔ شیخ شرف الدین یحیی منیر ی بنگال میں بھی رہے۔ )الخ (بنگال میں اردو کی
ابتدائی دور کے چند شعرا کی تصنیفات و ملفوظات کا اقتباس مالحظہ ہو : مخدوم اشرف جہانگیر ۔مولد
سمنان ، مسکن بنگال سن وفات 798ھ چھپری کے منہ کھنڈا سمائے ۔ چھپری یعنی بکری اور کھنڈ
کے معنی چاول کا چورا۔ ان کے ایک منتر میں ہے ۔ سوا الکھ سپاری بندھوں ،یعنی باندھوں، شیخ نور
الحق پنڈوی ۔مولد الہور۔ مسکن بنگال ،سن وفات 813ھ پیوند پوچھے پاتری مجھ سہاگن ماوں ۔)10 )
ل ٰہذا اس اقتباس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بنگال میں بھی اسی عہد میں اردو کی ابتدا صوفیہ کرام کے
ذریعے ہو چکی تھی جس زمانے میں شمال میں اکابر صوفیہ اس زبان کو تشکیل دے رہے تھے۔ ان
تما م عالقوں میں جہاں جہاں اردو بولی جا رہی ہے ہم اس بات کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ ہر جگہ
صوفیہ کرام کی خدمات اس ضمن میں نمایاں نظر آتی ہیں، خواہ وہ شمال ہو یا جنوب ،مشرق ہو یا
مغرب ہر طرف صوفیہ کرام پھیلے ہوئے ہیں اور اردو کو جسے ہندوستان کی عوامی زبان کے طور
پر بارہویں صدی عیسوی سے متعارف کرنے کا سلسلہ شروع ہوا مستقل فروغ و ارتقا بخشتے چلے
جا رہے ہیں۔اردو کے اور بھی دو ایک مرکزقرار دیے گیے ہیں اور وہاں بھی یہ ہی صورت حال نظر
آتی ہے، اردو کی تاریخ صوفیہ کی لسانی خدمات سے شروع ہوتی ہے اور یہ سلسلہ جیسے جیسے
آگے کی طرف بڑھتا ہے ہمیں ایک عجیب و غریب صورت حال یہ بھی نظر آتی ہے کہ صوفیہ کی
ذات سے یہ عمل تصوف کی تعلیمات میں منتقل ہوتا چال جاتاہے، یعنی ان اکابر صوفیہ نے جہاں جہاں
اس زبان کو رائج کیا واہاں بعد کے عہد میں صوفیہ تو اٹھتے چلے گئے لیکن تصوف اس زبان کی
بنیاد وں میں بیٹھ کرمسلسل مترشح ہوتا نظر آتا ہے، اپنی اس گفتگو کے اختتام پر میں ایک نکتہ یہ
بھی بیان کرنا چاہتا ہوں کہ صوفیہ کی اتنی بڑی لسانی و ادبی خدمت کے با وجود ہمیں صوفیہ کرام
کی اس پوری جماعت میں کہیں کسی صوفی کے ذریع کیا ہوا یہ وعوی نظر نہیں آتا کہ ہم اردو زبان
یا ہندوستان کی ایک عوامی زبان کے معمار ہیں اور وہ بھی ایسی عوامی زبان جس کو ہندوستان کی
سب سے بڑی اور مقبول زبان کہا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں خواجہ معین الدین چشتی علیہ رحمہ
سے وارث علی شاہ تک کے تمام صوفیہ کا جائزہ لے لیا جائے تو بھی کہیں کسی صوفی کے متعلق
یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ وہ کسی زبان کے بنانے کا مدعی ٹھہرتا ہو۔ اس کی سب سے بڑی وجہ
وہی ہے جو میں اوپر بیان کر آیا ہوں کہ صوفیہ کا مقصد کسی طرح کی کوئی لسانی یا ثقافتی خدمت
ہی ہوتی
انجام دینا ہر گز نہیں ہوتا ، ان کے عمل کی بنیاد رضائے ال ہی کے حصول میں جو بھی کام صوفیہ انجام دیتے ہیں اس فعل کے حق میں وہ کتنے ہی معاون کیوں نہ ثابت
ہوئے ہوں اس کے مدعی وہ ہر گز نہیں ہوتے۔بہر حال پھر بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو کی تشکیل
میں صوفیہ کرام کی عملی خدمات رہی ہیں-
حوالے
)1 )صفحہ نمبر68 ،اردو ادب کی مختصر تاریخ ، انور سدید، مطبع نایئس پرینٹنگ پریس ،
صاحب آباد ، یوپی ۔ )2 )صفحہ نمبر68تا 80 ،اردو ادب کی مختصر تاریخ ، انور سدید، مطبع نایئس
پرینٹنگ پریس ، صاحب آباد ، یوپی ۔ )3 )صفحہ نمبر35،34دکن میں اردو،نصیر الدین ہاشمی، ریختہ
.آرگ )4 )صفحہ نمبر35،دکن میں اردو،نصیر الدین ہاشمی، ریختہ .آرگ )5 )صفحہ نمبر 4،3،مقدمہ
مخزن شعرا : تذکرہ شعرائے گجرات، مولوی عبدالحق، ریختہ .آرگ )6 )صفحہ نمبر 81 ،ملتان کی
ادبی و تہذیبی زندگی میں صوفیائے کرام کا حصہ ، ڈاکٹر روبینہ ترین )7 )صفحہ نمبر87،86 ،ملتان
کی ادبی و تہذیبی زندگی میں صوفیائے کرام کا حصہ ، ڈاکٹر روبینہ ترین )8 )صفحہ نمبر232،پنجاب
میں اردو،حافظ محمود شیرانی، ریختہ .آرگ )9 )صفحہ نمبر 5،4 ، بنگال میں اردو، وفا راشدی ،
ریختہ . آرگ )10 )صفحہ نمبر 6،بنگال میں اردو ،وفا راشدی،ریختہ .آرگ۔

Post a Comment

0 Comments