سیدنا حضور غوثِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے روشن ضمیری اور اوصاف حمیدہ

سیدنا حضور غوثِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے روشن ضمیری اور اوصاف حمیدہ

روشن ضمیری
حضرت امام البقا مکبری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایک روز حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوا میں پہلے کبھی حاضرنہ ہوا تھا اور نہ ہی کبھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا کلام سنا تھا میں نے دل میں کہا کہ اس مجلس میں حاضر ہو کر اس عجمی کاذرا کلام سنوں
جب میں مدرسہ میں داخل ہوا اور دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا کلام شروع ہے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنا کلام موقوف فرما دیااور فرمایا اے آنکھ اور دل کے اندھے! کیا تو اس عجمی کے کلام کو سنے گا؟ تو میں نہ رہ سکا یہاں تک کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے منبر کے قریب پہنچ گیا پھر میں نے اپنا سر کھولا اور بارگاہِ غوثیت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں عرض کیا یا حضرت! مجھے خرقہ پہنائیں۔ تو حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھے خرقہ پہنا کر ارشاد فرمایا اے عبداللہ! اگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے تمہارے انجام کی خبر نہ دی ہوتی تو تم ہلاک ہو جاتے۔
(بهجة الاسرار، ذکر علمه و تسمية بعض شيوخه رحمة الله تعاليٰ عليه ص۲۱۱ 
اوصاف حمیدہ
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفٰی ۱۰۵۲ ؁ھ) غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی سیرت کی ایک جھلک پیش کرتے ہوئے رقمطراز ہیں بعض مشائخ وقت نے آپ کے اوصاف میں لکھا ہے کہ حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بڑے با رونق، ہنس مکھ، خندہ رو،شرمیلے،نرم طبیعت، کریم الاخلاق ،پاکیزہ اخلاق، پاکیزہ اوصاف اور مہربان و شفیق تھے ،ہمنشیں کی تعظیم و تکریم کرتے اور غمزدہ افراد کو دیکھ کر امداد فرماتے تھے،مزید لکھتے ہیں، ہم نے آپ جیسا فصیح و بلیغ کسی کو نہیں دیکھا، بعض بزرگوں نے آپ کا اس طرح وصف بیان فرمایا ہے کہ حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بکثرت رونے والے ،اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے۔
خوفِ خدا ایمان کا لازمی تقاضہ قرآن میں فرمانِ الٰہی ہے پارہ ۲۹؂ سورہ ملک آیت ۱۱؂ اِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ لَھُمْ مَغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ کَرِیْمٌ
(ترجمہ کنز الایمان )بے شک وہ بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کیلئے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔
(تفسیر روح البیان )میں ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سینے سے بھنی ہوئی کلیجی کی طرح خوشبو آتی تھی حضور ﷺ تہجد میں اتنا روتے کہ سینہ مبارک سے ہانڈی کھولنے کی طر ح آواز آتی تھی۔ خوف خدا ایمان کی علامت ہے: یہ وصف آپ کے اندر بہت زیادہ تھی ،نیک اخلاق، پاکیزہ اوصاف، بد گوئی سے بہت دور بھاگنے والے اور حق کے سب سے زیادہ قریب تھے ،کسی سائل کو واپس نہ فرماتے آپ کی ہر دعا بہت جلد قبول ہو جاتی تھی اللہ تعالیٰ کی توفیق آپ کی راہنما اور تائید الٰہی آپ کی معاون تھی ،سچائی آپ کا وظیفہ تھا آپ انتہائی عبادت گزار تھے اللہ رب العزت قرآن مقدس میں اپنے محبوب بندوں سے محبت بھرے انداز میں ارشاد فرماتا ہے پارہ ۲؂ سورہ بقرہ آیت ؂ میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا اور میرا شکر کرو اور میری نا شکری نہ کرو۔ سچ اور حق تو یہ ہے کہ بندہ اپنے معبود حقیقی کی یاد میں ہمہ تن مصروف رہے اور بندے کا خدا کو یاد کرنا ہی اصل زندگی ہے ،جہاں تک تعلق ہے خدا کی یاد کا اور اس کے ذکر کا تو کائنات کی ہر مخلوق اپنے اپنے طور پر ذکر و تسبیح میں مشغول ہے اور بندے (انسان ) کو بھی اس کی عبادت کرتے رہنے کا حکم ہے یہ بات بقیہ تمام مخلوق کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ خدا کو یاد کرو لیکن بندہ انسان ہے غفلت میں پڑ جاتا ہے اپنے رب کو بھول جاتا ہے ،تو اس کی غفلت کو دور کرنے کیلئے کلام مجید میں باری تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنے ذ کر کی طرف متوجہ کیا ،جب ہی تو یاد الٰہی میں زندگی گزارنے والے خدا کے مقبول بندے ہو گئے یہ سب بندے اللہ کی یاد میں اس قدر مصروف رہے کی دنیا کے ہر کونے میں اب ان کو جانا پہچانا جاتا ہے حدیث میں وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ایک نبی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ میرے ایسے بعض بندے ہیں کہ وہ مجھے دوست رکھتے ہیں اور میں ان کو دوست رکھتا ہوں وہ میری طرف دیکھتے ہیں میں ان کی طرف دیکھتا ہوں اس نبی علیہ السلام نے کہا کہ خداوند ان کی علامت (پہچان) کیا ہے؟ کہا آفتاب کے غروب کو وہ ایسا دوست رکھتے ہیں جیسے پرندے اپنے گھونسلوں کو جب رات پڑ جاتی ہے اور اندھیرا چھا جاتا ہے فرش بچھائے جاتے ہیں اور ان کو بند لگائے جاتے ہیں دوست اپنے دوست کے ساتھ خلوت کرتا ہے تو وہ مردانِ خدا اپنے قدموں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اللہ کی عبادت کیلئے اور اپنے چہروں کو فرش بناتے ہیں یعنی سجدے کرتے ہیں ،مجھ سے راز و نیاز کی باتیں کرتے ہیں بعض چلاتے روتے ہیں بعض آہیں ما رتے ہیں اور شکوہ کرتے ہیں اور بعض کھڑے ہوتے ہیں میری عبادت کرتے ہیں۔
(بہجۃ الاسرار جلد اول صفحہ۸ ۵۔۵۷)

Post a Comment

0 Comments