بخاری شریف کو صحیح کہنے کی وجہ کا جاننا نیچے کی باتوں اور وجوہات کو جاننے پر موقوف ہے،لہذا ذرا وقت نکال کر پورا پڑھیں،اس سے،کتابِ بخاری کو (صحیح) نام رکھنے کی وجہ بھی معلوم ہوجائے گی اور حدیث کی اہمیت و ضرورت کا بھی احساس اور پتہ لگ جائے گا۔ ان شاءاللہ
حضرت ابراہیم بن معقل رحمہ اللہ امام بخاری سے روایت کرتے ہیں،امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب *"صحیح بخاری"* میں صرف وہی احادیث ذکر کی ہیں جو *صحیح ہوں* اور بہت سی صحیح احادیث کو *طوالت کی وجہ سے* ذکر نہیں کیا ہے، نیز خود امام بخاری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ جو صحیح احادیث میں نے ذکر نہیں کیں وہ ان سے زیادہ ہیں جن کو میں نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے، اسی طرح امام مسلم رحمہ اللہ نے *تیس لاکھ احادیث* میں سے انتخاب کرکے چار ہزار کے لگ بھگ احادیث اپنی *"صحیح مسلم "* میں ذکر کی ہیں، لہذا صحیح حدیث کا مدار یہ نہیں ہے کہ وہ صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں موجود ہو، ہاں ان دونوں اماموں نے اپنی سخت شرائط کے ساتھ اپنے اصول اور اپنے مزاج کے مطابق صحیح احادیث میں سے منتخب کرکے ان میں سے مذکورہ مقدار کا انتخاب کیا ہے۔
امام بخاری اور امام مسلم نے چوں کہ التزام کررکھا ہے کہ وہ اپنی کتاب میں صرف انہی راوایات کو جگہ دیں گے ؛ جوان قسموں میں سے اول درجے کی ہوں گی۔ بقیہ قسمیں بخاری اورمسلم میں جگہ نہیں پاسکیں۔
امام بخاری نے اپنی صحیح میں حدیث وارد کرنے کی یہ شرط مقرر کی ہے کہ ان کے شیخ سے لے کر صحابی تک تمام راوی ثقہ اور متصل ہوں۔ ثقہ کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کے تمام راوی مسلم عادل كامل الضبط والاتقان اور کثیر الملازمتہ مع الشیخ ہوں۔اگر راوی حدیث قلیل الملازمة مع الشیخ ہوں تو ان کی روایت بھی اخذ کر لیتے ہیں، لیکن ایسے راویوں سے امام بخاری انتخاب کرتے ہیں، استيعاب نہیں کرتے نیز ثقہ راویوں کے لیے یہ شرط بھی ہے کہ وہ اپنے سے اوثق رواتہ کی مخالفت میں نہ کریں . اور نہ ہی ان میں کوئی علت خفیہ قادحہ ہو (توجیہ النظرص 94) اور متصل کا مطلب یہ ہے کہ ہر راوی یا تو اپنے شیخ سے سمعت” یا “حدثنا کے صیغہ کے ساتھ سماع حدیث کی تصریح کرے اور ایساصیغہ لائے جو بہ ظاہر سماع پر دلالت کرے مثلا” عن فلان ” ان فلانا قال اس دوسری شکل میں ضروری ہے کہ راوی کی مروی عنہ سے ملاقات ثابت ہو اور وہ راوی مدلس نہ ہو۔
امام بخاری کی شرط ملاقات پر امام مسلم نے اعتراض کیا کہ پھر امام بخاری کو چاہیے کہ وہ حدیث معنعن کو بالکل قبول نہ کریں، کیونکہ لقاء کی شرط تیقن سماع کے لیے لگائی گئی ہے اور محض لقاء سے سماع لازم نہیں آتا کیونکہ جائز ہے کہ ملاقات کے باوجود راوی نے مردی عنہ سماع نہ کیا ہو اس اعتراض کے دو جواب ہیں اول یہ کہ لقاء کے باوجود اگر سماع نہ ہو تو راوی مدلس ہوگا اور مفروض یہ ہے که راوی مدلس نہ ہو ثانی: یہ کہ امام بخاری راوی اور مروی عنہ میں ملاقات کی شرط لگاتے ہیں اور امام مسلم معاصرت کی اور عدم سماع کا احتمال دونوں میں جاری ہوتا ہے اور بلاریب ثبوت لقاء کی شرط معاصرت کی شرط کی بہ نسبت سماع سے زیادہ قریب ہے.
قاضی ابوبکر بن عربی نے بیان کیا ہے کہ امام بخاری کی شرط یہ ہے کہ اولا حدیث کو دو صحابی روایت کریں یا پھر ہر صحابی سے دو شخص روایت کریں۔ پھر ان میں سے ہر ایک سے دو دوشخض روایت کریں لیکن قاضی ابوبکر کایہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں جو پہلی حدیث” انما الاعمال بالنيات درج کی ہے وہ صرف حضرت عمر سے مروی ہے اور حضرت عمر سے صرف علقمہ نے روایت کی اور علقمہ سے صرف محمد بن ابراہیم نے اور ان سے صرف یحیی بن سعید نے۔
یہ وہ وجوہات ہیں،جن کی وجہ سے بخاری شریف کو صحیح کہاجاتاہے۔ جن میں امام بخاری کی حدیث لینے میں کمالِ احتیاط اور مشکل شرائط مَین وجہ بن کر موجودہیں۔
اکابرینِ امت مسلمہ نے اپنے اپنے قائم کیے ہوئے پیمانوں پر،اپنے اپنے وقت کی *(مروجہ روایات)* کو جانچا اورپرکھا، اور بعض اوقات ایک ایک روایت کی تحقیق کے لیے انہیں مہینوں کی جستجو اور براعظموں کاسفربھی کرنا پڑا، لیکن ان کی ہمت کو آفرین و شاباش ہے کہ اتنے بڑے *فرضِ عشق* کو انہوں نے کس حوصلے و ہمت اور صبر واستقامت کے ساتھ اداکیا۔ قرون اولی کے کم و بیش ڈیڑھ صدی کی طوالت پر محیط اس دورانیے کے عظیم ترین اذہان نے احادیث رسول ﷺکے اقوال و افعال کو چھانٹ کر الگ رکھ دیا۔ اور یہ معجزات نبویﷺمیں سے ایک زندہ معجزہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کی دہلیز پر تمام وسائل کے بُہتات و کثرت اور فراہمی کے باوجود کسی نامور شخصیت کے بارے میں بھی اتنی مکمل، جامع، مستند و متواتر معلومات جمع نہیں ہیں جتنی کہ سراجاََمنیراﷺکے بارے میں دستیاب ہیں۔الحمد للہ،ماشاء اللہ۔
*صحیح بخاری کا مکمل نام:*
صحیح بخاری کا مکمل نام یہ ہے: *اَلْجَامِعُ الْمُسْنَدُ الصَّحِیْحُ الْمُخْتَصَرُ مِنْ اُمُورِ رَسُولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وَسُنَنِہِ وَاَیَّامِہِ*۔ بعض حضرات نے الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ اِس کا نام اس طرح تحریر کیا ہے۔ *اَلْجَامِعُ الصَّحِیْحُ الْمُسْنَدُ مِنْ حَدِیْثِ رَسُولِ اللہ ﷺ وَسَلَّم وَسُنَنِہِ وَاَیَّامِہِ*۔
اہل سنت کے یہاں اس کتاب کو ایک خاص مرتبہ و حیثیت حاصل ہے اور اِس کو حدیث کی چھ امہات الکتب (صحاح ستہ) میں *اول مقام* حاصل ہے، خالص صحیح احادیث میں لکھی جانی والی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے، اسی طرح اہل سنت میں قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح کتاب مانی جاتی ہے۔ اسی طرح صحیح بخاری کا شمار *کتب الجوامع* میں بھی ہوتا ہے، یعنی ایسی کتاب جو اپنے فن حدیث میں تمام ابواب عقائد، احکام، تفسیر، تاریخ، زہد اور آداب وغیرہ پر مشتمل اور جامع ہو۔
اس کتاب نے امام بخاری کی زندگی ہی میں بڑی شہرت و مقبولیت حاصل کر لی تھی، بیان کیا جاتا ہے کہ اس کتاب کو تقریباً *ستر ہزار* سے زائد لوگوں نے ان سے پڑھا اور سماعت کی، اس کی شہرت اس زمانہ میں عام ہو گئی تھی، ہر چہار جانب میں، خصوصاً اس زمانے کے علما میں اس کتاب کو توجہ اور مقبولیت حاصل ہو گئی تھی، چنانچہ بے شمار کتابیں اس کی (شرح، مختصر، تعلیق، مستدرک، تخریج) میں لکھی گئیں، یہاں تک کہ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ صرف اس کی شروحات کی تعداد بیاسی (82) سے زیادہ ہو گئی تھی۔
*صحیح بخاری کے لکھنے کی وجہ:*
امام بخاری نے حجاز کے تیسرے سفر میں مسجد نبوی سے متصل ایک رات خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک بہت ہی خوبصورت پنکھا ہے اور میں اس کو نہایت اطمینان سے جھل رہا ہوں۔ صبح کو نماز سے فارغ ہوکر امام بخاری نے علماء کرام سے اپنے خواب کی تعبیر دریافت فرمائی۔ انھوں نے جواب دیا کہ آپ صحیح حدیثوں کو ضعیف وموضوع حدیثوں سے علیحدہ کریں گے۔ اس تعبیر نے امام بخاری کے دل میں صحیح احادیث پر مشتمل ایک کتاب کی تالیف کا احساس پیدا کیا۔ اس کے علاوہ اس ارادہ کو مزید تقویت اس بات سے پہونچی کہ آپ کے استاذ شیخ اسحاق بن راہویہ نے ایک مرتبہ آپ سے فرمایا: کیا ہی اچھا ہوتا کہ تم ایسی کتاب تالیف فرماتے جو صحیح احادیث کی جامع ہوتی۔ خواب کی تعبیر اور استاذ کے ارشاد کے بعد امام بخاری صحیح بخاری لکھنے میں ہمہ تن مشغول ہوگئے۔ صحیح بخاری تحریر کیے جانے تک حدیث کی تقریباً تمام ہی کتابوں میں (صحیح ، حسن اور ضعیف) تمام قسم کی احادیث جمع کی جاتی تھیں۔ نیز صحیح بخاری تحریر کیے جانے تک علم حدیث کی بہ ظاہر تدوین بھی نہیں ہوئی تھی جس کی وجہ سے اصول بھی عام طور پر سامنے نہیں آئے تھے جو *صحیح اور غیر صحیح* میں امتیاز پیدا کرتے۔ صحیح بخاری کی تصنیف کے بعد بھی حدیث کی اکثر کتابیں,صرف صحیح پر نہیں،بلکہ صحیح، حسن اور ضعیف پر مشتمل ہیں۔
*صحیح بخاری کے لکھنے میں وقت:*
امام بخاری نے سب سے پہلے تقریباً 6 لاکھ احادیث کے مسودات ترتیب دیے۔ اس میں کئی سال لگ گئے۔ اس سے فارغ ہوکر آپ نے احادیث کی جانچ شروع کی اور اس اہم ذخیرے سے ایک *ایک گوہر چن کر صحیح بخاری میں جمع کرنا شروع کردیا*۔ جوآج ہمارے پاس موجود ہے۔آپ خود فرماتے ہیں کہ *ہر حدیث کو صحیح بخاری میں لکھنے سے قبل غسل فرماکر دو رکعت نفل ادا کرتا ہوں۔* آپ کو جب کسی حدیث کی سند میں اطمینان نہیں ہوتا تو آپ مسجد حرام یا مسجد نبوی میں بہ نیت استخارہ دو رکعت نماز پڑھتے اور پھر قلبی اطمینان کے بعد ہی اس حدیث کو اپنی کتاب میں تحریر فرماتے۔ غرض انھوں نے 16 سال دن ورات جدوجہد کرکے یہ کتاب تحریر فرمائی۔
*صحیح بخاری میں احادیث کی تعداد:*
صحیح بخاری میں سات ہزار سے کچھ زیادہ احادیث ہیں جو سب کی سب صحیح ہیں؛ البتہ بعض محدثین نے 7 یا 8/ احادیث کی *سند* پر کلام کیا ہے؛ مگر صحیح بات یہ ہے کہ تمام احادیث صحیح ہیں۔ متعدد احادیث مختلف ابواب میں بار بار مذکور ہوئی ہیں، مثلاً حدیث (اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ) مختلف ابواب کے تحت متعدد مرتبہ مذکور ہوئی ہے۔ تقریباً تین ہزار احادیث اس کتاب میں غیر مکررہ ہیں۔ *لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام ہی صحیح احادیث اس کتاب میں جمع ہوگئی ہیں؛ بلکہ صحیح احادیث کی ایک اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جو امام بخاری کے علاوہ دیگر محدثین نے اپنی کتابوں میں ذکر کی ہے جیساکہ امام بخاری نے خود اس کا اعتراف کیا ہے۔*
*ثلاثیاتِ امام بخاری:*
صحیح بخاری میں ۲۲ حدیثیں ثلاثیات ہیں۔ثلاثیات کے معنی صرف تین واسطوں (مثلاً صحابی، تابعی اور تبع تابعی)سے محدث کے حدیث کا ذکر کرنا ہے۔ ”ثلاثی حدیث“ حدیث کی سند میں راویوں کی تعداد کے اعتبار سے *اعلیٰ سند* مانی جاتی ہے،جو کسی بھی محدث کے لئے قابل فخر بات ہوتی ہے۔ تو پتہ چلا کہ تین واسطوں سے کم کوئی بھی حدیث کتبِ حدیث میں موجود نہیں ہے۔ ان ۲۲ احادیث ِثلاثیات میں سے ۲۰ حدیثیں امام بخاری نے امام ابو حنیفہ کے شاگردوں سے روایت کی ہیں۔ امام ابوحنیفہ کے شاگرد شیخ المکی بن ابراہیم سے ۱۱، امام ابو عاصم سے 6 اور امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام زفر کے شاگرد امام محمد بن عبداللہ انصاری سے ۳ روایات اپنی کتاب میں ذکر کی ہیں۔ معلوم ہوا کہ امام بخاری (256ھ) امام ابوحنیفہ (150ھ) کے شاگردوں کے شاگرد ہیں۔
امام بخاری کے بارے میں کتابوں میں لکھاہے کہ وہ بچپن میں *نابینا* ہو گئے تھے۔ ان کی والدہ محترمہ نے ﷲ تعالی سے اس قدر گریہ و زاری کی کہ بالآخرخواب میں *حضرت ابراہیم علیہ السلام* نے بینائی کی بشارت دی اورﷲ تعالی کے ہاں سے بینائی جیسی نعمت امام بخاری کو پھر سے عطا ہو گئی۔
امام ذہبی کے مطابق (205ھ) یعنی کم و بیش دس برس کی عمر میں،آپ کا سلسلۂ تعلیم جاری ہوا، اور بچپن میں ہی عبدﷲبن مبارک رحمہ اللہ کی علمی کاوشیں حفظ کرلیں، پس قدرت نے خود ہی بقیہ زندگی کو روایتِ حدیث سے جوڑ دیا۔ 210ھ میں اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ علوم سفریہ کاآغاز کیااور آغاز شباب میں ہی کتابوں کی تالیف اور روایت حدیث کاآغاز کردیا۔ امام بخاری خود بیان کرتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں جب *عبیدﷲبن موسی* کے پاس زیرتعلیم تھے تو روضہ رسولﷺ کے جوارمیں بیٹھ کر راتوں کے اوقات میں چاند کی روشنی میں *’’قضایائے صحابہ و تابعین‘‘* نامی ایک کتاب تالیف کی تھی۔ اسی زمانے میں سولہ سال کی عمر کے دوران اپنی والدہ محترمہ اور چھوٹے بھائی کے ساتھ حج کی سعادت بھی حاصل کی۔ اس کے بعد آپ کاایک طویل دورانیۂ سفرشروع ہوتاہے جس میں آپ نے شرق و غرب کے بڑے بڑے بلادِ علمیہ ومشاہیر واعلام کے ہاں پہنچے۔ اس دوران آپ نے ایک ہزار سے زائداساتذہ کرام کے سامنے زانوئے تلمذطے کیااور *چھ لاکھ احادیث* اپنے سینہ میں محفوظ کیں۔ آپ نے شام، مصر، جزائر، بغداداور بصرہ وغیرہ کاسفرکیاان کے علاوہ دوردراز کے اسفارمیں مرو، بلخ، ہرات، نیشاپوراور رے بھی شامل ہیں غرض یہ کہ ہر بڑے مرکزعلم تک آپ نے رسائی کی۔ آپ کے ساتھ سفرکرنے والوں نے امام بخاری سے متعلق متعدد واقعات نقل کیے ہیں۔ آپ کے اساتذہ کرام میں:
*امام احمد بن حنبل، علی ابن المدینی، یحیی بن معین، محمدبن یوسف، ابراہیم الاشعث اور قتیبہ ابن سعید* جیسی نابغہ روزگار ہستیاں شامل ہیں۔
اور آپ کے تلامذہ کی تعداد مبالغہ کی حد تک وسیع ہے، آپ جہاں بھی جاتے طالبِ علموں کاایک جم غفیراپ کے گرد جمع ہوجاتا۔ آپ کے سامنے اور قریب کے حلقے میں بیٹھنے والے *قلم دوات* سے لکھ رہے ہوتے اور صرف سننے والے ان کی پشت پر صف بند ہوتے تھے۔ جس شہر میں آپ کی آمد ہوتی عوام کی ایک کثیرتعدادشہرسے باہر آپ کے استقبال کے لیے موجود ہوتی تھی۔
اسفارِ عِلمیہ کے دوران آپ کئی کئی دنوں تک *گھاس کھاکر* بھی گزارہ کرتے رہے۔ آپ کے ہم سفروں نے بعض اوقات *چندہ کرکے بھی آپ کی کفالت کی*۔ سفرمیں مسلسل فاقہ کشی کے باعث آپ علیل بھی رہنے لگے تھے۔ عادت مبارکہ تھی کہ روٹی بغیر سالن کے ساتھ تناول فرماتے تھے، ایک بار شیوخ نے سالن کے ہمراہ کھانے پراصرارکیاتو روٹی کے ساتھ شکر پر اکتفاکیا۔ مزاج میں رحم دلی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، اورلونڈی غلاموں کوان کی گستاخیوں پر بھی آزاد کردیاکرتے تھے۔ عبادت و ریاضت سے خصوصی شغف تھا، دائمی طورپر قائم اللیل رہے، دن کے نوافل بھی باقائدگی سے اداکرتے، رمضان کی راتوں میں تراویح کے بعدسحری تک مصلے پر ہی رہتے اور عموماََتین دن میں ایک بارقرآن ختم کرلیتے تھے اور پھرکوئی دعابھی مانگتے. اورفرمایاکرتے تھے کہ ہر ختم قرآن پر ایک دعاضرور قبول ہوتی ہے۔ اتباع سنت میں آخری عمرتک نیزہ بازی کی مشق جاری رہی اور کبھی بھی نشانہ خطانہ گیاتھا۔
*حاکم بخارا* نے دربارمیں آکر شہزادوں کو پڑھانے کاحکم صادرکیاتوآپ نے علم کی بے قدری کے باعث انکار کردیا، حاکم نے شہزادوں کے لیے الگ وقت چاہاتو بھی نہ مانے۔ قوت حافظہ کرامت کی حد تک مضبوط تھی۔ آپ نے اوائل عمری میں ایک خواب دیکھاکہ ہاتھ میں (پنکھا،hand fan) تھامے محسنِ انسانیتﷺکے چہرہ مبارک سے مکھیاں اُڑا رہے ہیں۔ تعبیردینے والوں نے اس خواب پرکہاکہ امام بخاری صحیح احادیث چھانٹ کرالگ کریں گے۔
آپ کے اپنے زمانے تک پہنچتے پہنچتے لوگوں میں بہت سی من گھڑت روایات، احادیث نبویﷺکے نام سے مشہور ہو گئی تھیں۔ امام بخاری سے پہلے کے محدثین نے اپنی کتب میں درست احادیث کو جمع تو کیالیکن تمام درجات کی احادیث ایک ہی جگہ جمع کردیں، اس طرح حدیث کوگہرائی سے سمجھنے والے توان کتب سے استفادہ کرسکتے تھے لیکن عوام الناس کے لیے احادیث کی درجہ بندی کوسمجھنا مشکل تھا۔ امام بخاری نے ایک ایسی کتاب کی تالیف کاارادہ کیاجس میں سب صحیح روایات جمع ہوں۔ سولہ سالوں کی طویل مدت کے بعد آپ جب بخارامیں تشریف لائے تو جمع کی ہوئی احادیث کی تالیف شروع فرمائی۔ آپ نے حدیث کی قبولیت کی بہت سخت شرائط متعین کیں اور جو جو روایات ان معیارات پر پوری اترتی گئی صرف انہیں کوآپ نے اپنی کتاب میں درج کیا۔ آپ نے اپنی کتاب کانام’’الجامع الصحیح المسند من حدیث رسول ﷺ وسننہ وایامہ‘‘رکھا۔ اس کتاب کی تکمیل میں سولہ سال صرف ہوئے۔ کتاب میں ہر باب کاآغاز قرآنی آیت سے کرتے ہیں اور احادیث پر نقدوتبصرہ بھی کرتے ہیں اورحدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہیں کہیں فقہی مسائل سے بھی بحث کرتے ہیں۔ بغیرتکرارکے اس کتاب میں کل احادیث کی تعداد2602ہے، ثلاثی احادیث 22ہیں اورکل احادیث کی تعداد 7397ہے۔ ثلاثی احادیث سے مراد (محدث اور نبیﷺکے درمیان صرف تین راوی کا ہونا ہے)۔
جس حدیث میں جتنے کم راوی ہوں وہ حدیث اتنی زیادہ قابل اعتماد ہوتی ہے، اس لیے کہ راویوں کی تعدادجتنی زیادہ ہو تو اس میں بھول جانے کااندیشہ اتنا زیادہ ہوتاہے۔ امام بخاری نے صرف متصل الاسناداحادیث کونقل کیاہے۔ متصل الاسناداحادیث سے مراد وہ حدیث ہیں جن کی سندبغیرکسی کٹاؤ کے آپﷺتک پہنچ جاتی ہے، یعنی نبی سے صحابی، پھرتابعی اور پھر تبع تابعی اس کے بعد فقہاء کے طبقے کے راوی اور تب وہ روایت محدث تک پہنچے اور درمیان سے کو ئی راوی ایسا نہ ہوجسے اپنااستادبھول گیاہو۔ اگرکوئی راوی اپنے استادکانام بھول جائے مثلاََ تبع تابعی، کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے *تابعی* کانام بھول جائے اور براہ راست *صحابی* کانام لے لے *(جس کو حدیث کی اصطلاح میں، حدیثِ مُرسَل کہتے ہیں)* توایسی روایت کوامام بخاری اپنی کتاب میں شامل نہیں کرتے اس لیے یہ روایت متصل الاسناد نہیں رہی۔
امام بخاری صرف ثقہ،یعنی (بھروسہ مند) راویوں سے تخریج کرتے ہیں۔ ثقہ راوی سے مراد حدیث بیان کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کی بات ہمیشہ پختہ ہوتی ہے، ان کاایمان مضبوط ہوتاہے، ذریعہ رزق حلال ہوتاہے، ان کے معمولات زندگی سنت رسول اﷲﷺکے مطابق ہوتے ہیں اوران کاحافظہ قوی ہوتا ہے یعنی بھولنے کی عادت انہیں نہیں ہوتی یا کم از کم نبیﷺکی احادیث کوبڑی احتیاط سے اپنے حافظے میں سنبھال کررکھتے ہیں۔ ثقہ راویوں پر کذب بیانی کی تہمت بھی نہیں ہوتی یعنی وہ سنی سنائی یا جھوٹی یا مشکوک روایت کو آگے بیان نہیں کرتے اور قول رسولﷺیا فعل رسولﷺبیان کرتے ہوئے حدرجہ حزم و احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ اس زمانے کے عرب قبائل کاحافظہ عموماََبہت قوی تھا، انہیں نسلوں سے جاری تجارت اوربراعظموں میں پھیلاکاروبارانگلی کی پوروں پر زبانی ازبر رہتاتھا، ایک پائی کاحساب کسی کاغذ پر نہیں لکھاجاتاتھااور نقد، قرض یاسود تمام معاملات ان کے حافظے میں تازہ رہتے تھے۔ ماہر ہوتے ہیں اوربادشاہوں کی خوشنودی کے لیے یا اپنے فرقے کی ترویج کے لیے یااپنے کاروبار کی بڑھوتری کے لیے نئی سے نئی باتیں تراشتے ہیں اور اس طرح بیان کرتے ہیں کہ عام لوگ ان کی بات کوقول رسول ﷺہی سمجھنے لگتے ہیں۔ محدثین کا یہ عظیم الشان کارنامہ ہے کہ انہوں نے ایسی روایات کو بہت محنت کے ساتھ صحیح روایات سے الگ کردیاہے۔
امام بخاری اور ان کے ہم عصر اور ہم پلہ دیگرمحدثین نے اول درجے کے راویوں سے اول درجے کی روایات قبول کیں اور ان کے مجموعے مرتب کیے۔ بعد میں آنے والوں نے دوسرے درجے کی روایات کو جمع کیا، پھر تیسرے درجے کی روایات کو جمع کیاگیاعلی ہذاالقیاس۔ یہاں تک آخری طبقے کی روایات بھی جو کہ نبی ﷺکے نام سے منسوب تھیں خواہ تراشی ہوئی یعنی موضوع تھیں انہیں بھی جمع کرلیاگیااور ان کے مجموعے بھی آج تک موجود ہیں۔ کم و بیش دو صدیوں تک احادیث کی جمع و تدوین کاکام جاری رہااورہرطرح کی روایت، خبر، اثراورحدیث کوکتابوں میں جمع کرکے تحقیق کے میدان کو تاقیامت وسیع کردیا۔ محدثین عظام نے ان روایات کو بیان کرنے والے کم و بیش ساڑھے پانچ لاکھ افراد کے حالات زندگی بھی جمع کیے، اس علم ’’اسماء الرجال‘‘کہتے ہیں۔ ’’اسماء الرجال‘‘میں راویان حدیث کے نام، قبیلہ، ذریعہ رزق، ادائگی ء نمازوں کی صورتحال، کھیل تماشاکی عادت، سچ یاجھوٹ بولنے کی ترجیحات، حافظہ، اس کے اساتذہ و تلامذہ، اس کی سیروسیاحت اور اس کی دیگرمحدثین ملاقاتوں کے احوال کے علاوہ اہل خانہ سمیت دیگرتمام تفصیلات تک موجود ہیں۔ماشاء اللہ🌷
*بخاری شریف* یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا مجموعہ ہے اور اس میں بھی وہ احادیث ہیں جن کی صحت میں شبہ نہیں، واضح رہے کہ احادیث سب ہی صحیح ہوتی ہیں، اس میں جو ضعف آتا ہے وہ راویوں کی وجہ سے آتا ہے، تو امام بخاری علیہ الرحمة نے جو احادیث نقل کی ہیں، اس میں راوی وغیرہ انتہائی ثقہ ہیں، جس سے اس میں موجود احادیث کے حدیث رسول ہونے میں شبہ نہیں رہ جاتا، اور جو بات حدیث ہو اس کے صحیح ہونے میں قرآن کی آیات بھی ہیں احادیث بھی ہیں، اقوال صحابہ بھی ہیں، بخاری شریف کی صحت پر اجماعِ امت ہے، اور اجماع یہ حجت شرعیہ ہے، امام بخاری رحمہ اللہ کے معاصرین اور اس کے بعد کے معتبر علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ وہ (اصحُ الکتُبِ بعد کتابِ اللہ) ہے۔ بخاری شریف کے لکھنے کا آغاز (217ھ) میں ہوا اور سولہ سال میں یہ کتاب مکمل ہوئی۔
صحیح بخاری شریف کا درجہ قرآن کریم کے بعد دیگر کتابوں میں سب سے اعلی ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ قرآن کریم کے ہم پلہ یا اس کے قریب قریب ہے۔ بلکہ *صحیح بخاری شریف* دیگر تمام کتابوں پر اس وجہ سے فائق ہے کہ اس میں امام بخاری نے نہایت محتاط طریقہ پر اعلی درجہ کی صحیح احادیث جمع فرمائی ہیں اور بعد کے محدثین نے ان احادیث کو جانچا تو صحیح پایا۔ اور معلوم ہونا چاہیے کہ محققین کے نزدیک مجموعی طور پر صحیح بخاری شریف کو دیگر کتبِ حدیث پر فوقیت حاصل ہے ورنہ صحیح بخاری شریف کی ہر ہر حدیث دیگر کتابوں کی ہر ہر حدیث سے اعلی ہو، ایسا کچھ ضروری نہیں ہے، دوسری کتابوں کی کوئی حدیث، صحیح بخاری شریف کی کسی حدیث سے اعلی ہوسکتی ہے۔✅💯
’’بخاری شریف‘‘ کو سب سے اعلی مقام حاصل ہے اور امت مسلمہ کے کل مکاتب فکرکے ہاں اول روز سے آج دن تک ہردورمیں اس کتاب کواولین مقام حاصل رہاہے۔ ’’الجامع الصحیح البخاری‘‘کو اس زمین کے سینے پراور اس آسمان کی چھت کے نیچے قرآن مجید کے بعد سب سے سچی ترین کتاب جانا و مانا گیاہے۔ اس کتاب کا حوالہ ہرلحاظ سے مستنداور کسی سوال کی گنجائش کے بغیر تسلیم کرلیاجاتاہے۔ امت مسلمہ میں جتنی پزیرائی اس کتاب کوحاصل ہے وہ مقام کسی اور کوحاصل نہیں ہو پایا۔ بہت ہی کم علم اور ناواقف دین مسلمان بھی اس کتاب کے نام و مقام سے اسی طرح واقف ہے جس طرح قرآن مجید سے تعارف رکھتاہے۔ مسلمان معاشروں میں بسنے والے غیرمسلم بھی اس نام سے ایک انس رکھتے ہیں اور انہیں بخوبی معلوم ہے کہ اس کتاب میں مسلمانوں کے نبی علیہ السلام کے اقوال وافعال درج ہیں۔ بخاری شریف کی اہمیت کااندازہ اس امرسے بھی لگایاجاسکتاہے کہ قانونی وعدالتی امور تک کے معاملات میں جہاں کہیں کتاب ﷲ خاموش ہوتی ہے وہاں سنت رسول اﷲﷺ کی یہ کتاب قانون سازی کرتی نظر آتی ہے۔
حافظ وقاری مولانا محمدافضل حسین مصباحی
0 Comments