امام ترمذی کون تھے ॥ امام ترمذی کا مختصر تعارف

امام ترمذی کون تھے ॥ امام ترمذی کا مختصر تعارف

حافظ الحدیث، شیخ المحدثین، امام الائمہ، حضرت امام ابو عیسی محمد ترمذی علیہ رحمۃ الله القوی کی ولادت 209ھ میں بوغ، ترمذ (ساحل نہرجیجون) ازبکستان میں ہوئی۔ آپ محسن امت، علم و عمل کے پیکر، بے مثال عابد و زاہد، اور احادیث کی مشہور کتاب ”جامع الترمذی“ کے مصنف ہیں۔ 13 رجب المرجب 279ھ بروز پیر شریف وصال فرمایا، مزار مبارک ترمذ، سرخان دریا، ازبکسان میں مرجع خلائق ہے۔ 

(بستان المحدثین، جامع الاصول)


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


🌷 *امام ترمذی کا مختصر تعارف*🌷


*نام و نسب و کنیت*

نام محمد اور کنیت ابوعیسی ہے، اور نسب یہ ہے: محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن موسیٰ بن ضحاک سلمی بوغی ترمذی، اکثر روایات کے مطابق آپ کا نسب نامہ یہی ہے۔


 *آپ کی تاریخ ولادت*

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش غالبا (210ھ) کے حدود میں ہوئی، بعض علماء کے قول کے مطابق (209ھ) میں ہوئی۔


*نابینا لیکن بابصیرت محدث*

امام ترمذی کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ آپ پیدائشی طور پر نابینا تھے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ کبرسنی میں علمی اسفار کرنے اور احادیث لکھنے لکھانے کے بعد آپ کی بصارت جاتی رہی، اس کا سبب زیادہ لکھنا پڑھنا بھی ہو سکتا ہے۔


اور بقول امام حاکم کے آخری عمر میں اللہ کے ڈر سے اتنا روئے کہ بینائی جاتی رہی، اور اسی حالت میں زندگی کے کئی سال گزرے۔ 

[تذكرة الحفاظ 634/2، تهذيب التهذيب]


*اساتذہ و شیوخ*

آپ کا زمانہ علوم حدیث کے عروج اور ترقی کا زمانہ تھا چنانچہ آپ نے بہت سارے محدثین کو پایا، ان سے اکتساب فیض کیا، احادیث سنیں اور روایت کیں، حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ اور سیر أعلام النبلاء میں آپ کے اساتذہ و شیوخ حدیث کی ایک فہرست دی ہے جن سے آپ نے سماع حدیث کیا،

ان میں سے *بعض مشاہیر* درج ذیل ہیں

➊ ابراہیم بن عبداللہ بن حاتم ہروی (م: 244ھ)

➋ ابومصعب احمد بن ابی بکر الزہری المدنی (م: 242ھ)

➌ احمد بن منیع

➍ اسحاق بن راہویہ

➎ اسماعیل بن موسیٰ فزاری سدی (م: 245ھ)

➏ ابوداود سلیمان بن الاشعث (صاحب سنن) (م: 275ھ)

➐ سوید نصر بن سوید مروزی (م: 243ھ)

➑ عبداللہ بن معاویہ جمحی۔ (م: 243ھ)

➒ علی بن حجر مروزی (م: 244ھ)

➓ علی بن سعید بن مسروق الکندی الکوفی (م: 249ھ)

⓫ عمرو بن علی الفلاس (م: 942ھ)

⓬ محمد بن بشار بندار (م: 252ھ)

⓭ قتیبہ بن سعید ثقفی ابورجاء (م: 240ھ)

⓮ محمد بن عبدالملک بن ابی الشوارب (م: 244ھ) وغیرہ وغیرہ

⓯ محمود بن غیلان مروزی بغدادی (239ھ)

⓰ اور روایت حدیث کے ساتھ علوم حدیث و رجال اور فقہ حدیث امام محمد بن اسماعیل بخاری سے حاصل کی۔

⓱ امام مسلم سے بھی آپ نے سماع حدیث کیا ہے، اور اپنی جامع کے اندر ان سے ایک روایت بھی نقل کی ہے۔


*تلامذہ*

امام ترمذی سے بہت سارے علمائے حدیث کو *شرف تلمذ* حاصل ہے،

جن میں سے بعض رواۃ مندرجہ ذیل ہیں

➊ ابوبکر احمد بن اسماعیل بن عامر السمرقندی

➋ ابوحامد احمد بن عبداللہ بن داود المروزی

➌ احمد بن علی بن حسنویہ المقریٔ

➍ احمد بن یوسف نسفی

➎ ابو الحارث اسد بن حمدویہ

➏ حماد بن شاکر وراق نسفی

➐ مکحول بن فضل نسفی

➑ محمود بن عنبر نسفی

➒ ابوالفضل محمد بن محمود بن عنبر نسفی

➓ عبدبن محمد بن محمود نسفی

⓫ داود بن نصر بن سہیل برزوی

⓬ محمد بن مکی بن نوح نسفی

⓭ محمد بن سفیان بن نضر نسفی

⓮ محمد بن منذر بن سعید ہروی

⓯ ہیثم بن کلیب شاشی (الشمائل کے راوی)

⓰ محمد بن محبوب ابوالعباس محبوبی مروزی (سنن الترمذی کے راوی)

⓱ امام بخاری نے بھی آپ سے ایک حدیث روایت کی ہے جس کے بارے میں امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث محمد بن اسماعیل نے مجھ سے سنی، وہ حدیث یہ ہے: «عن أبى سعيد: يا على لا يحل لأحد أن يجنب فى المسجد غيري وغيرك.» [سنن الترمذي 3727]


  • *زہد و تقویٰ*

امام ترمذی نہ صرف یہ کہ علوم و فنون میں امامت کا درجہ رکھتے تھے بلکہ آپ عبادت و تقویٰ اور ورع اور زہد میں بھی شہرت رکھتے تھے، حاکم کہتے ہیں: امام بخاری کا انتقال ہوا تو انہوں نے علم حفظ اور زہد ورع میں ترمذی کی طرح کسی اور کو اپنے پیچھے نہیں چھوڑا، آپ اللہ کے ڈر سے اتنا روتے تھے کہ اندھے ہو گئے، اور کئی سال اندھے رہے۔ [تذكرة الحفاظ، تهذيب التهذيب]۔


*تصانیف*

امام ترمذی رحمہ اللہ کو چونکہ حدیث اور علوم حدیث کے علاوہ تاریخ، فقہ اور تفسیر وغیرہ پر بھی کافی دسترس حاصل تھی لہٰذا انہوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا اور بہت سی علمی کتب تصنیف کیں جن میں سے چند معروف کتب یہ ہیں:

➊ «كتاب الجامع» جو سنن ترمذی کے نام سے مشہور ہے۔

➋ «الشمائل النبوية» جو شمائل ترمذی کے نام سے مشہور ہے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے متعلق احادیث میں ایک بہترین تصنیف ہے جیسا کہ عبد الحق محدث دہلوی نے «أشعة اللمعات» میں اس کی تعریف فرمائی ہے۔

➌ «كتاب العلل» اس موضوع پر آپ کی دو کتابیں ہیں:

① «كتاب العلل الصغير» اور

② «كتاب العلل الكبير» ‏‏‏‏ جس میں امام ترمذی نے زیادہ تر اپنے استاذ امام بخاری رحمہ اللہ سے استفادہ کیا ہے۔

➍ «كتاب الزهد » ‏‏‏‏

➎ «كتاب التاريخ» ‏‏‏‏ ‏‏‏‏

➏ «الأسماء والكنٰي » ‏‏‏‏

➐ «كتاب التفسير»

➑ «كتاب الجرح والتعديل»۔


امام ترمذی کے علم و فضل اور قوت حافظہ کے بارے میں علماء اور محدثین کے اقوال۔


*حفاظ حدیث میں مقام*

امام ترمذی رحمہ اللہ متفق علیہ مشہور ثقہ حافظ حدیث امام ہیں ان کو حفاظ حدیث میں بہت بڑا مقام حاصل ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں: میرے استاد امام بخاری رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا کہ جتنا تم نے مجھ سے فائدہ حاصل کیا اتنا فائدہ میں تم سے حاصل نہ کر سکا۔ [تهذيب الكمال]


*ابو اسعد عبدالرحمن بن محمد ادریسی*

ابو اسعد عبدالرحمن بن محمد ادریسی کہتے ہیں: ابوعیسی ترمذی حفظ حدیث میں ضرب المثل تھے، اس سلسلے کا ایک واقعہ وہ اپنے شیخ ابوبکر احمد بن محمد بن حارث مروزی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے احمد بن عبداللہ بن داود کو یہ کہتے سنا کہ میں نے امام ترمذی کو کہتے سنا: ایک بار میں مکہ کے راستے میں تھا اور میں نے ایک شیخ کی احادیث کے دو جزء لکھے تھے، مجھے شیخ ملے تو میں نے آپ سے سماع حدیث کا مطالبہ کیا، میں سمجھ رہا تھا کہ شیخ کی احادیث کے دونوں جزء میرے پاس ہیں، آپ نے قرأت حدیث پر آمادگی ظاہر کی، میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے پاس سادہ کاغذوں کے دو جزء ہیں، شیخ یہ احادیث پڑھ کر مجھے سنانے لگے اور مجھے دیکھا کہ میرے ہاتھ میں سادہ کاغذ ہے، اور مجھ سے کہا: تمہیں ایسا کرتے مجھ سے شرم نہیں آتی تو میں نے صورت حال سے آپ کو باخبر کیا، اور عرض کیا کہ مجھے ساری احادیث یاد ہیں، تو آپ نے کہا کہ پڑھو میں نے انہیں پڑھ کر سنایا تو انہوں نے میری تصدیق نہ کی اور کہا کہ کیا آنے سے پہلے تم نے ان احادیث کو یاد کر لیا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ آپ مجھے دوسری حدیثیں سنائیں، تو آپ نے چالیس حدیثیں مجھے پڑھ کر سنائیں پھر مجھ سے کہا کہ لاؤ سناؤ، تو میں نے ان کو پڑھ کر سنا دیا، ایک بھی حرف کا فرق نہ تھا تو انہوں نے کہا: میں نے تمہارے جیسا کسی کو نہیں دیکھا۔ [تهذيب التهذيب، السير 273/13]

*حافظ ابو یعلیٰ*

حافظ ابو یعلیٰ کا بیان ہے: ”محمد بن عیسیٰ بن سورہ، متفق علیہ ثقہ حافظ حدیث امام ہیں، ان کی حدیث میں ایک کتاب ہے نیز جرح و تعدیل میں ان سے بہت سارے اقوال منقول ہیں ... وہ امانت، دیانت اور علم میں ایک مشہور امام ہیں۔“


*حافظ ابو سعد عبدالرحمن بن محمد ادریسی*

حافظ ابو سعد عبدالرحمن بن محمد ادریسی کہتے ہیں: علم حدیث میں جن ائمہ کی اقتداء کی جاتی ہے، امام ترمذی ان میں سے ایک امام تھے، آپ نے جامع، تواریخ اور علل نامی کتابیں تصنیف فرمائیں، آپ کی تصانیف پختہ عالم دین کی تصانیف ہیں، آپ حفظ حدیث میں ضرب المثل تھے۔ [شروط الأئمه السته: ص20، تهذيب التهذيب 386/9]


*امام ابن حبان*

امام ابن حبان اپنی کتاب الثقات میں امام ترمذی رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ”یہ ان ائمہ حدیث میں سے ہیں جنہوں نے احادیث جمع کیں، علم حدیث میں کتابیں لکھیں، احادیث کو حفظ کیا اور اس کا مذاکرہ کیا۔ [الثقات، تذكرة الحفاظ، نكت الهميان للصفدي، تهذيب الكمال]


*امام سمعانی*

امام سمعانی فرماتے ہیں: ”امام ترمذی رحمہ اللہ بلا اختلاف اپنے عہد کے امام اور صاحب تصانیف تھے اور ان ائمہ حدیث میں سے ہیں جن کی علم حدیث کے اندر اقتداء کی جاتی تھی۔“


*امام ابن خلکان*

”امام ترمذی بلا اختلاف اپنے عہد کے امام اور صاحب تصانیف تھے اور ان ائمہ حدیث میں سے ہیں جن کی علم حدیث کے اندر اقتداء کی جاتی تھی۔“ اسی جیسی بات امام ابن خلکان نے بھی کہی ہے۔ [الأنساب، وفيات الاعيان]


*امام حاکم*

امام حاکم کہتے ہیں: میں نے عمر بن علک کو یہ کہتے سنا: امام بخاری کا انتقال ہوا تو انہوں نے خراسان میں علم، حفظ اور ورع و زہد میں ابوعیسیٰ ترمذی کی طرح کسی اور کو نہیں چھوڑا، ترمذی اتنا روئے کہ اندھے ہو گئے اور کئی سال اندھے رہے۔ [السير 273/13، تذكرة الحفاظ 634/2، تهذيب التهذيب 389/9]

*امام مزی*

امام مزی کہتے ہیں: ”وہ حافظ حدیث صاحب الجامع اور دیگر کتابوں کے مصنف ہیں، نیز حفظ اور ثقافت کے اعتبار سے دنیا کے اماموں میں سے ایک تھے جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے امت کو نفع پہنچایا۔“ [تهذيب الكمال]

 

بالآخر علم و حکمت،حاذقِ احادیثِ رسول رحمت،پیکرِ رشد و ہدایت کا یہ ستارہ بھی، 13 رجب المرجب (279ھ) میں داعئ اجل کو لبیک کہہ گیا۔

إنا للہ و إنا الیہ راجعون

کتبه الحافظ محمد افضل حسین اشرفی المصباحی

Post a Comment

0 Comments