کتب بینی(مطالعہ)،اسلاف اور ان کے ارشادات بلفظ دیگر؛ اہمیت مطالعہ

کتب بینی(مطالعہ)،اسلاف اور ان کے ارشادات بلفظ دیگر؛ اہمیت مطالعہ

 کتب بینی(مطالعہ)،اسلاف اور ان کے ارشادات بلفظ دیگر؛ اہمیت مطالعہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بذریعۂ تحریر، مصنف و مؤلف کی مراد سمجھنا، مطالعہ کہلاتا ہے۔ (ابجدالعلوم.ص: ۲۱۸)


مطالعہ کا مادہ ( *طلوع* )سے ہے اور طلوع پردۂ غیب سے عالَم ظہور میں آنے کو کہتے ہیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ *"طلعتِ الشمسُ"* یعنی سورج عالم غیب سے عالم ظہور میں طلوع ہوا، اور مطالعہ باب مفاعلہ سے ہے، اور مفاعلہ میں جانبین سے برابر کے علم کو کہا جاتاہے اب مطالعہ کا یہ معنی ہوا کہ ادھر طالب نے اپنی پوری توجہ کتاب کی طرف مبذول کی اور ادھر کتاب نے طالب کو اپنے فیوض و برکات سے نوازا، اب دونوں کے مابین گہری دوستی ہوگئی۔


بلاشبہ دنیا میں بہترین *ہمنشین کتاب* ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اچھی کتاب اپنے قاری کے لیے ایسے دوست کی حیثیت رکھتی ہے جو اُس کو نہ تو کبھی تنہائی کا احساس ہونے دیتی ہے نہ اکتاہٹ کو اُس کے قریب ہونے دیتی ہے، یہ ایک ایسے ہمسفر کی مانند ہے جو اپنے ساتھی کو دوردراز کے علاقوں اور شہروں کی اپنی جگہ بیٹھے بٹھائے ہی سیر کرادیتی ہے،اسی سے انسان کو ایسی شخصیات سے مصاحبت کا شرف بھی حاصل ہوجاتا ہے جن سے ملاقات کی خاطر انسان کی حسرتیں ان کے عالم جاوداں کی طرف کوچ کرنے کی وجہ سے،محض ایک غیر ثمر آور *آرزو* کی طرح  ادھوری رہ جاتی ہے۔

 متعدد و متنوع افکار و نظریات سے واقفیت اس کے ذریعے حاصل ہو تی ہے، واقع میں اگر کتابوں سے وابستگی کی نعمت کا کسی کو ادراک ہو جائے تو اُس کے لیے بغیر مطالعہ کے زندگی گزارنا دشوار ہو جاتا ہے، اور یوں لمحہ لمحہ ایک ایسا وقت بھی آتاہے کہ جب *کتاب* ہی اُس کے شب وروز کی دمساز و ہمراز بن چکی ہوتی ہے۔


ہمارے اسلاف میں کتابوں سے حد درجہ عقیدت، اُن کو جمع کرنے کا شوق، اپنے ذاتی کتب خانے کو وسیع سے وسیع تر کرنے کی جستجو نمایاں رہی ہے، اور شیفتگی کا یہ عالم تھا کہ اس سلسلے میں وہ بڑی سے *بڑی قربانی* دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ 

چنانچہ *چھٹی صدی* کے ایک حنبلی عالم امام ابن الخشاب (متوفیٰ547ھ) کے بارے میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ موصوف نے ایک دن ایک کتاب *۵۰۰* درہم میں خریدی، قیمت ادا کرنے کے لیے کوئی چیز نہ تھی، لہٰذا تین دن کی مہلت طلب کی اور مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر مکان بیچنے کا اعلان کردیا؛ اور اس طرح اپنے شوقِ مطالعہ کی تکمیل کی۔ *(ذیل طبقات الحنابلة، ۲/۲۵۱)* 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*ارشاداتِ اسلاف واہل دانش اور ان کی عملی زندگیاں*👇🏻

➖➖➖➖➖➖➖➖➖

امام *محمدبن حسن شیبانی* جو کہ امام ابوحنیفہ کے عظیم شاگردوں میں سے ہیں، ان کی سیرت کا مطالعہ کر کے ایک *انگریز* نے کہا تھا کہ مسلمانوں کے چھوٹے *محمد* کا یہ حال ہے تو بڑے *محمد ﷺ* کا کیا حال ہوگا؟

*امام محمد* رحمه الله کے مطالعہ کا عالم یہ تھاکہ آپ پوری پوری رات مطالعۂ کتب میں جاگتے گزار دیتے۔ جب لوگوں نے آپ سے اس مشقت اور مجاہدہ کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا:

*’’میں کیسے سو جاؤں، جبکہ عام مسلمان اس وجہ سے بے فکر ہو کر سوجاتے ہیں کہ جب انہیں جب کوئی مسئلہ درپیش ہوگا تو اس کا جواب محمد بن حسن سے مل جائے گا۔ ‘‘*

یعنی آپ کو امت مسلمہ کے مسائل کی اس قدر فکر رہتی تھی کہ ساری رات کتابوں میں ان کے مسائل کا حل تلاش کرتے اور ڈھونڈتے گزار دیتے تھے؛ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ لوگ اُن پر اعتماد کر کے سو جاتے ہیں۔


🌷 *مطالعہ سے جی نہیں بھرتا* :🌷

 علامہ عبدالرحمن *ابن جوزی* رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ: 

مجھے یاد ہے کہ میں 6 سال کی عمر میں مدرسہ میں داخل ہوا؛ سات سال کی ابھی عمر تھی کہ میں جامع مسجد کے سامنے میدان میں چلا جایا کرتا تھا؛اور وہاں کسی مداری یا شعبدہ باز کے حلقے میں کھڑا ہوکر تماشہ دیکھنے کے بجائے، *محدث کے درس* میں شریک ہوتا؛ وہ حدیث کی سیرت کی جو بات کہتے وہ مجھے زبانی یاد ہو جاتی؛ گھر آکر اس کو لکھ لیتا؛ دوسرے لڑکے دریائے دجلہ کے کنارے کھیلا کرتے تھے اور میں کسی کتاب کے اوراق لے کر کسی طرف نکل جاتا اور الگ بیٹھ کر مطالعہ میں مشغول ہو جاتا ۔

میں اساتذہ اور بچوں کے حلقوں میں حاضری دینے میں اس قدر جلدی کرتا کہ دوڑنے کی وجہ سے میری سانس پھولنے لگتی تھی؛ صبح شام اس طرح گزرتی کہ کھانے کا کوئی انتظام نہ ہوتا۔

(علم و علماء کی اہمیت صفحہ-28 )

*نیز* یہ بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ ہی کا قول ہے کہ:

*إذا وجدتُ کتاباً جدیداً فکأنّی وقعتُ علی کَنزٍ.*

’’ یعنی اگر مجھے کوئی نئی کتاب ملتی تو گویا مجھے خزانہ حاصل ہوجاتا۔ ‘‘

اور۔۔۔

’’لوگ جتنا علم اپنے اسلاف کی کتابوں میں پاتے ہیں اتنا اپنے اساتذہ اور مشائخ سے نہیں حاصل کر سکتے ہیں".

آپ رحمۃ اللہ تعالی مزید فرماتے ہیں

 میری طبیعت کتابوں کے مطالعہ سے کسی طرح سیر نہیں ہوتی۔ اگر میں اپنے مطالعے کے بارے میں حق بیان کرتے ہوئے یہ کہوں کہ میں نے زمانۂ طالب علمی میں *بیس ہزار کتابوں* کا مطالعہ کیا ہے تو میرا مطالعہ زیادہ ہوگا ۔مجھے ان کتابوں کے مطالعہ سے سلف کے حالات و اخلاق ان کا قوت حافظہ، ذوق عبادت اور علوم نادرہ کا ایسا علم حاصل ہوا جو ان کتابوں کے بغیر نہیں حاصل ہو سکتا تھا۔

(قیمۃ الزمن عند العلماء.ص:٦٢)


حضرت سیدنا امام ابو عبداللہ *محمد بن اسماعیل امام  بخاری* رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا: حافظے کی دوا کیا ہے؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا

*کتب کا مطالعہ کرتے رہنا* حافظے کی مضبوطی کے لیے بہترین دوا ہے

(جامع بیان العلم ،ص ١-۵)


*کسی دانا کا قول ہے :*

جس کے بغل میں ہر وقت کتاب نہ ہو اس کے دل میں حکمت ودانائی راسخ اور پختہ نہیں ہوسکتی

 (تعلیم المتعلم صفحہ 116 )


علماء کرام رحمھم اللہ السلام فرماتے ہیں کہ *کتبِ فقہ مطالعہ کرنا* قیام اللیل یعنی *رات میں نفل نماز* پڑھنے سے بہتر ہے

(در مختار جلد 1 صفحہ 101 )


*متنبی* کا شعر بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے، چنانچہ وہ لکھتا ہے

*أَعَزُّ مَکَانٍ فی الدُّنَی سَرْجُ سَابِحٍ*

*وَخَیْرُ جَلِیْسٍ فی الزَّمانِ کِتابُ*

’’ایک مسافر کے لیے دنیا کا بہترین مقام گھوڑے کی پشت ہے اور زمانہ میں بہترین ہمنشین (کتاب) ہے۔ ‘‘


*ارسطو* سے پوچھا گیا کہ آپ کسی شخص کو جاننے کے لیے کیا پیمانہ استعمال کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں اس سے پوچھتا ہوں کہ تو نے کتنی کتابیں پڑھیں اور کیا کیا پڑھا ہے؟

مشہور مسلم مفکر، دانشور اور *فلسفی ابو نصر الفارابی* جنہیں تاریخ ارسطوئے ثانی اور معلمِ ثانی کے نام سے پہچانتی ہے، مسلم دنیا کے یہ عظیم سائنسدان دنیا کی 70 زبانیں جانتے تھے، ان کی ابتدائی زندگی انتہائی غربت میں گزری مگر اتنا بڑا مقام انہیں کتاب کے ساتھ تعلق قائم کرنے سے ملا۔ کہا جاتا ہے کہ ابونصر فارابی کی غربت کا یہ عالم تھا کہ ان کے پاس چراغ کے تیل خریدنے کے لئے بھی پیسہ نہ تھا، چنانچہ وہ رات کو چوکیداروں کی قندیلوں کے پاس کھڑے ہوکر کتاب کا مطالعہ کرتے تھے۔


*امام جرجانی* لکھتے ہیں

*"ما تطعمت لذة العیش حتی*

*صرت فی وحدتی للکتاب* *جلیسًا"*

’’میں نے زندگی کا مزہ اس وقت تک نہ چکھا جب تک کہ میں نے کتاب کو اپنی خلوت کا ہم نشین نہ بنا لیا۔ ‘‘

*"لیس عندی شیء أجل من*

*العلم فلا ابتغی سواه أنیسًا".*

’’میرے نزدیک علم سے زیادہ کوئی افضل چیز نہیں ہے اور نہ ہی میں اس کے علاوہ کوئی دوسرا دوست و انیس تلاش کرتا ہوں۔ ‘‘


*احمد شوقی* کہتے ہیں

*أنا من بدَّل بالکتب الصحابا*

*لم أجد لی وافیًا إلا الکتابا۔*

’’میں وہ ہوں جس نے ساتھیوں کے بدلے کتابیں اپنائیں اور میں اپنے لیے کتاب سے زیادہ وفادار کسی کو نہیں جانتا۔ ‘‘


خلیفہ مامون کے زمانے میں ایک *عظیم ادیب* نے اتنی اہم کتاب لکھی کہ اس سے کہا گیا۔


*"سنعطیک ثمن هذا الکتاب ما یساوی وزنه ذهبًا".*

’’ہم آپ کو اس کتاب کے وزن کے برابر قیمت میں سونا عطا کریں گے۔ ‘‘ تو اس ادیب نے جواب دیا


*هذا کتاب لو یباع بوزنه*

*ذهبًا لکان البائع المغبونا۔*

’’اگر یہ کتاب سونے کے وزن کے برابر بیچی جائے تو بائع دھوکہ باز قرار پائے گا۔ ‘‘


قدیم رومی جمہوری سلطنت کے ادیب اور عظیم فلسفی *سوسیر* کا قول ہے کہ

"بیت من غیر کتب کجسم من غیر روح"


’’کتابوں کے بغیر گھر ایسے ہی ہے جیسے جسم بغیر روح کے ہوتا ہے۔ ‘‘


*باکون* کہتا ہے کہ ’’اگر آپ تنہائی میں انس، خلوت میں لذت اورمحفل میں زینت کا طریقہ جاننا چاہتے ہو تو کتاب سے پوچھو۔ ‘‘

*عباس العقاد* کہتے ہیں

’’آپ کو مربی و مرشد کہتے ہیں کہ وہ پڑھیں جو آپ کو نفع دے لیکن میں کہتا ہوں کہ جو پڑھتے ہو، اس سے فائدہ حاصل کرو۔ ‘‘


*ابن جوزی* فرماتے ہیں

’’اگر تم لذت اور راحت چاہتے ہو تو اے علم والو! اپنے گھر کے اندر رہو اور وہاں بھی اپنے گھر والوں سے کنارہ کش رہو تو تمہاری زندگی خوشگوار ہو جائے گی۔ بیوی بچوں سے ملاقات کے لیے ایک وقت متعین کر لو کیونکہ جب انہیں ایک وقت معلوم ہو جائے گا تو پھر اس وقت تم سے ملاقات کے لیے تیاری کریں گے اور اس طرح تمہارا رہن سہن بہتر جائے گا۔ ‘‘


آپ مزید فرماتے ہیں: ’’تمہارے گھر میں کوٹھری ایسی ہونی چاہیے جس میں خلوت اختیار کر سکو تاکہ اس میں جاکر اپنی کتابوں کی سطروں سے گفتگو کر سکو اور اپنی فکر کے میدان میں دوڑ سکو۔ یعنی خلوت و تنہائی میں علم و معرفت پر مبنی وہ کتابیں جو انسان کو حق تعالیٰ کی معرفت اور اس کی مناجات کی طرف لے جائیں، بہترین ہم نشین ہیں۔ ‘‘ 

کسی شاعر نے کیا خوب کہا۔

*سُرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر،*

*کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر۔*


*الحاصل* یہ کہ مطالعہ کتب کی اہمیت اہلِ اسلام کے نزدیک ایک مسلّم امر ہے جس کا انکار کسی سطح پر ناممکن ہے۔ کیونکہ خطابِ الہٰی کا پہلا لفظ ہی اقراء (پڑھو) ہے، اسی لفظ سے اللہ جل مجدہ نے اپنے خاتم النبین و مرسلین ﷺ کی نبوت و رسالت کا آغاز فرمایا ہے اور یہی پہلا حکم ہے جو اللہ تعالیٰ نے مصطفی کریم ﷺ کو عطا فرمایا۔

دنیا کے مختلف علوم و معارف اور اسراو رموز اگر ہمیں کسی جگہ سے دستیاب ہو سکتے ہیں،تو وہ کتاب ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ علم و حکمت کو کتاب کی صورت میں جمع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ امام حاکم بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔

*قیدوا العلم بالکتابة.*

’’علم کو کتاب میں قید کرو یعنی لکھا کرو۔ ‘‘

اسی بنا پر علماء و مفکرین "کتاب" کو *کنز اور خزانہ* قرار دیتے تھے۔

فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے۔

علمِ حاصل کرو کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے سبب قوموں کو بلندیوں سے نوازاتا ہے اور انہیں نیکی و بھلائی کے کاموں میں ایسا رہنما اور ہادی بنادیتا ہے کہ ان کی پیروی کی جاتی ہے۔

(حوالہ، کتاب قوت القلوب ص: ۱۰)

اور حصولِ علم کے لیے چار چیزوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔(1) پڑھنا (2) لکھنا (3) سننا (4) دیکھنا

ان سب میں بہترین ذریعۂ حصولِ علم، پڑھنا( مطالعہ کرنا)ہے۔ مشہور مقولہ ہے

*مطالعہ کرنے والی قومیں ہی ترقی کرتی ہیں*


مرتب

محمد افضل حسین اشرفی مصباحی

Post a Comment

0 Comments