جمعہ دنوں کا سردار ہے۔
قرآن وحدیث اور تفسیرِ صراط الجِنان کی روشنی میں۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۹)
*ترجمہ: کنزالایمان*👇🏻
اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*تفسیر: صراط الجنان*👇🏻
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ: اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کیلئے اذان دی جائے ۔} اِس آیت سے نمازِجمعہ کے احکام بیان کئے جا رہے ہیں ۔یہاں اس آیت سے متعلق *تین باتیں* ملاحظہ ہوں :
*(1)*… اس آیت میں اذان سے مراد پہلی اذان ہے نہ کہ دوسری اذان جو خطبہ سے مُتَّصِل ہوتی ہے۔ اگرچہ پہلی اذان حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانے میں اضافہ کی گئی مگر نماز کی تیاری کے واجب ہونے اور خرید و فروخت ترک کر دینے کا تعلق اسی سے ہے۔
*(2)*…دوڑنے سے بھاگنا مراد نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ نماز کیلئے تیاری شروع کردو اورذِکْرُ اللّٰہ سے جمہور علماء کے نزدیک خطبہ مراد ہے۔
*(3)*… اس آیت سے نمازِ جمعہ کی فرضیّت،خرید و فروخت وغیرہ دُنْیَوی مَشاغل کی حرمت اور سعی یعنی نماز کے اہتمام کا وجوب ثابت ہوا اور خطبہ بھی ثابت ہوا ۔( خزائن العرفان، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۹، ص۱۰۲۵، ملخصاً)
*جمعہ کی وجہِ تَسمِیَہ،یعنی جمعہ کو (جمعہ) کہنے کی وجہ:*
عربی زبان میں،ایامِ جاہلیت میں اس دن کا نام (عروبہ) تھا بعد میں "جمعہ" رکھا گیا. اورسب سے پہلے جس شخص نے اس دن کا نام جمعہ رکھا وہ *کعب بن لُوی* ہیں ۔اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں مختلف اَقوال ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے جمعہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس دن *نماز کیلئے جماعتوں کا اجتماع* ہوتا ہے ۔( خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۲۶۵)
*تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ َکا پہلا جمعہ:*
سیرت بیان کرنے والے علماء کا بیان ہے کہ جب حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو 12 ربیع الاوّل ،پیر کے دن، چاشت کے وقت قباء کے مقام پر ٹھہرے،پیر سے لے کر جمعرات تک یہاں قیام فرمایا اور مسجد کی بنیاد رکھی ، جمعہ کے دن مدینہ طیبہ جانے کا عزم فرمایا، بنی سالم بن عوف کی وادی کے درمیان جمعہ کا وقت آیا، اس جگہ کو لوگوں نے مسجد بنایا اور سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہاں جمعہ پڑھایا اور خطبہ فرمایا۔یہ پہلا جمعہ ہے جو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اَصحاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ پڑھا۔( خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۲۶۶)
*روزِ جمعہ کے4 فضائل :*
کثیر اَحادیث میں جمعہ کے دن کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ،یہاں ان میں سے 4اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
*(1)…* حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بہتر دن جس پر سورج نے طلوع کیا، جمعہ کا دن ہے، اسی میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا کیے گئے ، اسی میں جنت میں داخل کیے گئے اور اسی میں انہیں جنت سے اترنے کا حکم ہوا اور قیامت جمعہ ہی کے دن قائم ہوگی۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ص۴۲۵، الحدیث: ۱۸(۸۵۴))
*(2)…* حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جمعہ کے دن مجھ پر درُود کی کثرت کرو کہ یہ دن مشہود ہے، اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور مجھ پر جو درُود پڑھے گا پیش کیا جائے گا۔حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں : میں نے عرض کی اور موت کے بعد؟ ارشادفرمایا: بے شک! اللّٰہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسم کھانا حرام کر دیا ہے، اللّٰہ تعالیٰ کا نبی زندہ ہے، روزی دیا جاتا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۲ / ۲۹۱، الحدیث: ۱۶۳۷)
*(3)…* حضرت ابو لبابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا ہے اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک عیدالاضحی اورعید الفطر سے بڑا ہے، اس میں پانچ خصلتیں ہیں :(1) اللّٰہ تعالیٰ نے اسی میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیدا کیا۔ (2) اسی میں انہیں زمین پر اُتارا۔ (3) اسی میں انہیں وفات دی۔ (4)اور اس میں ایک ساعت ایسی ہے کہ بندہ اس وقت جس چیز کا سوال کرے اللّٰہ تعالیٰ اسے دے گا، جب تک حرام کا سوال نہ کرے۔ (5)اور اسی دن میں قیامت قائم ہوگی، کوئی مُقَرَّب فرشتہ، آسمان و زمین ،ہوا ، پہاڑ اور دریا ایسا نہیں کہ جمعہ کے دن سے ڈرتا نہ ہو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی فضل الجمعۃ، ۲ / ۸، الحدیث: ۱۰۸۴)
*(4)…* حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں مرے گا،اسے عذابِ قبر سے بچا لیا جائے گا اور قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس پر شہیدوں کی مُہر ہوگی۔( حلیۃ الاولیاء، ذکر طبقۃ من تابعی المدینۃ۔۔۔ الخ، محمد بن المنکدر، ۳ / ۱۸۱، الحدیث: ۳۶۲۹)
*جمعہ کے دن دعا قبول ہونے کی گھڑی:*
جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ خاص طور پر دعا قبول فرماتا ہے ،جیسا کہ اوپر حدیث نمبر 3 میں بیان ہو ا اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جمعہ کے دن کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’اس میں ایک ساعت ہے،جو مسلمان بندہ اسے پائے اور وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہو تو اللّٰہ تعالیٰ سے جو چیز مانگے گا وہی عطا فرما دی جائے گی ،اور ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ وقت بہت تھوڑا ہے۔( بخاری، کتاب الجمعۃ، باب الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ، ۱ / ۳۲۱، الحدیث: ۹۳۵)
یاد رہے کہ وہ کون سا وقت ہے اس بارے میں روایتیں بہت ہیں ،ان میں سے دو قوی ہیں : (1) وہ وقت امام کے خطبہ کے لیے بیٹھنے سے نماز ختم تک ہے۔(2)وہ جمعہ کی آخری ساعت ہے۔( بہار شریعت، حصہ چہارم، جمعہ کا بیان، ۱ / ۷۵۴، ملخصاً)
*نمازِ جمعہ کے 2/ مزید فضائل:*
اَحادیث میں جمعہ کی نماز کے بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں ،یہاں ان میں سے دو فضائل ملاحظہ ہوں ،
*(1)…* حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اچھی طرح وضو کیا پھر جمعہ کو آیا اور (خطبہ) سنا اور چپ رہا ،اس کے لیے ان گناہوں کی مغفرت ہو جائے گی جو اس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہوئے ہیں اور(ان کے علاوہ)مزید تین دن(کے گناہ بخش دئیے جائیں گے ) اور جس نے کنکری چھوئی اس نے لَغْوْ کیا۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل من استمع وانصت فی الخطبۃ، ص۴۲۷، الحدیث: ۲۷(۸۵۷)) یعنی خطبہ سننے کی حالت میں اتنا کام بھی لَغْوْ میں داخل ہے کہ کنکری پڑی ہو اُسے ہٹا دے۔
*(2)…* حضرت ابو سعید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’پانچ چیزیں جو ایک دن میں کرے گا، اللّٰہ تعالیٰ اس کو جنتی لکھ دے گا۔ (1) جو مریض کو پوچھنے جائے ،(2) جنازے میں حاضر ہو ، (3) روزہ رکھے ،(4) جمعہ کو جائے ،(5)اور غلام آزاد کرے۔( الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، ۳ / ۱۹۱، الجزء الرابع، الحدیث: ۲۷۶۰)
*جمعہ کی نماز چھوڑنے کی وعیدیں*
اَحادیث میں جہاں نمازِ جمعہ کے فضائل بیان کئے گئے ہیں وہیں جمعہ کی نماز چھوڑنے پر وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں چنانچہ یہاں اس کی دووعیدیں ملاحظہ ہوں ،
*(1)…* حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز آئیں گے یا اللّٰہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر کر دے گا، پھر وہ غافلین میں سے ہو جائیں گے۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب التغلیظ فی ترک الجمعۃ، ص۴۳۰، الحدیث: ۴۰(۸۶۵))
*(2)…* حضرت اسامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی عذر کے بغیر تین جمعے چھوڑے وہ منافقین میں لکھ دیاگیا۔( معجم الکبیر، مسند الزبیر بن العوام، باب ما جاء فی المرأۃ السوئ۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۷۰، الحدیث: ۴۲۲)
*نمازِ جمعہ کی فرضیت سے متعلق3 شرعی مسائل*
*(1)…* جمعہ فرضِ عین ہے اور ا س کی فرضیت ظہر سے زیادہ مُؤکَّد ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔( بہار شریعت، حصہ چہارم، جمعہ کا بیان، مسائل فقہیہ، ۱ / ۷۶۲)
*(2)…* جمعہ پڑھنے کے لئے 6شرطیں ہیں ،ان میں سے ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو جمعہ ہو گا ہی نہیں ،(1)جہاں جمعہ پڑھا جا رہا ہے وہ شہر یا فنائِ شہر ہو۔ (2)جمعہ پڑھانے والاسلطانِ اسلام ہویا اس کا نائب ہو جسے جمعہ قائم کرنے کا حکم دیا۔ (3)ظہر کا وقت ہو۔یعنی ظہر کے وقت میں نماز پوری ہو جائے ،لہٰذا اگر نماز کے دوران اگرچہ تشہد کے بعد عصر کا وقت آگیا تو جمعہ باطل ہو گیا،اب ظہر کی قضا پڑھیں ۔(4) خطبہ ہونا۔(5)جماعت یعنی امام کے علاوہ کم سے کم تین مَردوں کا ہونا۔ (6)اذنِ عام،یعنی مسجد کا دروازہ کھول دیا جائے کہ جس مسلمان کا جی چاہے آئے ،کسی کو روک ٹوک نہ ہو ۔
*(3)…* جمعہ فرض ہونے کے لئے 11شرطیں ہیں ،اگر ان میں سے ایک بھی نہ پائی گئی تو جمعہ فرض نہیں ،لیکن اگر پڑھے گا تو ادا ہو جائے گا۔(1)شہر میں مقیم ہونا،(2)صحت،یعنی مریض پر جمعہ فرض نہیں ،مریض سے مراد وہ ہے کہ جامع مسجد تک نہ جا سکتا ہو،یا چلا تو جائے گا مگر مرض بڑھ جائے گا یا دیر میں اچھا ہو گا۔ (3)آزاد ہونا،(4)مرد ہونا،(5)عاقل ہونا، (6)بالغ ہونا،(7)آنکھوں والا ہونا،یعنی نابینا نہ ہو،(8)چلنے پر قادر ہونا،(9)قید میں نہ ہونا(10)بادشاہ یا چور وغیرہ کسی ظالم کا خوف نہ ہونا،(11)اس قدر بارش،آندھی،اولے یا سردی نہ ہوناکہ ان سے نقصان کا صحیح خوف ہو۔
*نوٹ:* جمعہ سے متعلق شرعی مسائل کی مزید معلومات حاصل کرنے کیلئے بہار شریعت،جلد 1،حصہ4/سے ’’جمعہ کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔
*{ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ: یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔}* یہاں بہتری سے مراد لُغوی بہتری ہے یعنی دنیاوی کاروبار سے نمازِ جمعہ اور خطبہ وغیرہ بہتر ہے۔
*ماخوذ از تفسیر صراط الجنان*
0 Comments