آئمۂ اربعہ یعنی حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی علیہم الرضوان کا انتخاب کب، کیسے اور کس بنا پر ہوا ؟

آئمۂ اربعہ یعنی حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی علیہم الرضوان کا انتخاب کب، کیسے اور کس بنا پر ہوا ؟

Fiqhi Masail / FiqhiMasail / امت نے اجماع کر لیا ہے کہ شریعت کی معرفت میں سلف صالحین پر اعتماد کیا جائے تابعین نے اس معاملہ میں صحابہ کرام پر اعتماد کرلیا ہے / FiqhiQuestions

آئمہ اربعہ (حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی اعلی اللہ مقامہم) کا انتخاب کب، کیسے اور کس بنا پر ہوا ؟


کیا فرماتے ھیں علماۓ کرام اس مسـٔلہ کے بارے میں کہ أئمّہ اربع حنفی شافعی مالکی حنبلی علیہم الرحمۃ والرضوان کا انتخاب کب اور کیسے کس بنا پر ہوا ؟ کیا ان سے پہلے بھی قوم کے امام تھے یا یہی پہلے امام ہیں اور آخری بھی ؟ مدلل ومفصل جوابات سے مزئین فرمائؠں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین 


الجواب بعونه الملک تعالى عز وجل 

آقا علیہ السلام کی حیات طیبہ میں دینی شرعی طریق کے باب میں سب کا ماوا و ملجا آقا علیہ السلام تھے جب بھی کبھی صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنہم کو شرعی مسائل درکار ہوتے آقا علیہ السلام کی طرف رجوع فرماتے جب آقا علیہ السلام پردہ فرماگئیں پھر صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنہم جو کچھ آقا علیہ السلام سے سنے اور سیکھے تھے اسی پر عمل پیرا ہوتے رہیں پھر جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پردہ فرماگئیں اور کچھ باحیات تھے یہ دوسری صدی کے اوائل سے چوتھی صدی کے نصف تک کا دور اجتہاد کا سنہرا دور ہے۔ اُفقِ اجتہاد پر ۱۳ مجتہدین چھائے ہوئے تھے۔ سفیان بن عیینہؒ مکہ میں، مالک بن انسؒ مدینہ میں، حسن بصریؒ بصرہ میں، امام ابو حنیفہؒ اور سفیان ثوریؒ کوفہ میں، امام اوزاعیؒ شام میں، امام شافعیؒ اور لیث بن سعدؒ مصر میں، اسحاق بن راہویہؒ نیشاپور میں، امام ابوثورؒ، امام محمدؒ، امام داؤد ظاہریؒ اور ابن جریر طبریؒ بغداد میں منصبِ اجتہاد پہ فائز تھے لیکن جوں جوں زمانہ گزرتا گیا توں توں ان میں سے اکثر حضرات کے مذاہب بھی متبعین کے چل بسنے سے عملی سانچوں سے نکل کر کتابوں کے پیٹ میں اُترتے چلے گئے چنانچہ آج عالمِ اسلام پہ نمایاں حکمرانی کرنے والے مذاہب چار رہ گئے

اَئمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کے طریقہ پر احکامِ شرعیہ بجا لانا تقلیدِ شخصی کہلاتاہے مثلاً امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ یا امام مالک۔

ائمہ امام کی جمع ہے اور اربعہ کے معنی ہیں چار جب بھی ائمہ اربعہ کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مندرجہ ذیل حضرات مراد ہوتے ہیں۔ 

١/ امام ابو حنیفہ، 80ھ/699ء – 150ھ/767ء)، جو فقہ حنفی کے امام ہیں۔ 

٢ / امام مالک بن انس، 93ھ/715ء – 179ھ/796ء)، جو فقہ مالکی کے امام ہیں۔ 

٣/ امام محمد بن ادریس شافعی، 150ھ/766ء – 204۔ھ/820ء)، جو فقہ شافعی کے امام ہیں۔ 

٤/ امام احمد بن حنبل، 164ھ/780ء ـ 241ھ/855ء)، جو دفقہ حنبلی کے امام ہیں۔ 

امام اعظم رضی اللہ عنہ یا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ یا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ میں سے کسی کے طریقے پر عمل کرنا تقلید شخصی ہے تقلید شخصی کی شرعی حیثیت میں حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

أنَّ الاُمَّةَ قَدْ اجْتَمَعَتْ عَلَی اَنْ يَعْتَمِدُوْا عَلَی السَلَفِ فِيْ مَعْرَفَةِ الشَرِيْعَةِ، فَالتَّابِعُوْنَ اعْتَمَدُوْا فِيْ ذَلِکَ عَلَی الصَحَابَةِ، وَ تَبْعُ التَابِعِيْنَ اعْتَمَدُوْا عَلَی التَّابِعِيْنَ، وَ هَکَذَا فِيْ کُلِّ طَبَقَةٍ إعْتَمَدَ العُلَمَاءُ عَلَی مِنْ قَبْلِهِمْ

امت نے اجماع کر لیا ہے کہ شریعت کی معرفت میں سلف صالحین پر اعتماد کیا جائے تابعین نے اس معاملہ میں صحابہ کرام پر اعتماد کیا اور تبع تابعین نے تابعین پر اعتماد کیا اسی طرح ہر طبقہ میں علماء نے اپنے پہلے آنے والوں پر اعتماد کیا۔

(شاه ولي اﷲ، عقد الجيد، 1: 31، القاهرة: المطبعة السلفية)

اسی طرح تقلید شخصی کو لازم کرنے کی ایک واضح نظیر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد میں جمعِ قرآن کا واقعہ ہے، جب انہوں نے قرآنِ حکیم کا ایک رسم الخط متعین کر دیا تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے پہلے قرآنِ حکیم کو کسی بھی رسم الخط کے مطابق لکھا جا سکتا تھا کیونکہ مختلف نسخوں میں سورتوں کی ترتیب بھی مختلف تھی اور اس ترتیب کے مطابق قرآنِ حکیم لکھنا جائز تھا۔ لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے امت کی اجتماعی مصلحت کے پیشِ نظر اس اجازت کو ختم فرما کر قرآن کریم کے ایک رسم الخط اور ایک ترتِیب کو متعین کر کے امت کو اس پر متفق و متحد کر دیا اور امت میں اسی کی اتباع پر اجماع ہوگیا۔

(بخاري، الصحيح، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، 4: 1908، رقم: 4702، بيروت، لبنان: دار ابن كثير اليمامة)

چوتھی صدی میں چاروں ائمہ کی تقلید پر اجماعِ امت ہوگیا کہ ان کے علاوہ کی تقلید درست نہیں ہے۔

فإن أھل السنة والجماعة قد افترق بعد القرن الثلثة أو الأربعة علی أربعة المذاہب ولم یبق في فروع المسائل سوی ھذہ المذاہب الأربعة فقد انعقد الإجماع المرکّب علی بطلان قول من یخالف کلھم (تفسیر مظھري: ج۲ ص۶۴)

لہٰذا مذاہبِ اربعہ میں سے کسی ایک مذہب کی تقلید کا فائدہ یہ ہے کہ عام مسلمان تفرقہ و انتشار سے بچ جاتا ہے۔ اگر تقلیدِ مطلق کی عام اجازت ہو اور ہر شخص کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ جس مسئلے میں جس فقیہ کی چاہے تقلید کر لے تو اس قسم کے اقوال کو جمع کر کے ایک ایسا مذہب تیار ہو سکتا ہے جس میں دین خواہشات کا کھلونا بن کر رہ جائے گا۔


واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

Post a Comment

0 Comments