امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کی حیات کے چند اہم گوشے
➖➖➖➖➖➖➖➖
*شہرِ کوفہ کا ایک اجمالی نقشہ،جہاں ہمارے امام کی پیدائش ہوئی:*👇🏻
کوفہ(عراق) وہ مبارک شہر ہے؛جسے *ستّر اصحابِِ بدراوربیعتِ رضوان میں شریک تین سو صحابۂ کرام* نےشرفِ قیام بخشا۔
*(طبقات کبریٰ،6/89)*
آسمانِ ہدایت کے ان چمکتے دمکتے ستاروں نے کوفہ کو علم وعرفان کاعظیم مرکزبنایا۔اسی اہمیت کے پیش نظر اِسے *کنز الایمان* یعنی(ایمان کا خزانہ)اور *قبۃُ الاسلام* یعنی(اسلام کی نشانی) جیسے عظیم الشان القابات سے نوازا گیا۔
جب80/ ہجری میں *امامِ اعظم ابوحنیفہ* رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادت ہوئی تو اس وقت شہر کوفہ میں ایسی ایسی ہستیاں موجود تھیں؛جن میں ہر ایک آسمان ِ علم پر آفتاب بن کرایک عالم کو منوّر کررہا تھا۔
*(طبقات کبریٰ، 6/86، اخبارابی حنیفۃ،ص17)*
➖➖➖➖➖➖➖➖
امامِ اعظم کانام *نُعمان* اور *کُنْیَت* ابُوحنیفہ ہے۔آپ نے ابتداء میں قراٰن پاک حفظ کیا؛پھر 4000 علما و محدّثین کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام سے علمِ دین حاصل کرتے کرتے ایسے جلیل القدر *فقیہ و محدِّث* بن گئے کہ ہر طرف آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے چرچے ہو گئے۔
*(تھذیب الاسماء،2/501، المناقب للکردری، 1/37تا53، عقودالجمان، ص187)*
آپ نے فقہ کی تعلیم اپنے استاد *حماد بن ابی سلیمان* سے حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ کا سب سے پہلا طبقہ *صحابہ کرام رضی اللہ عنھم* ہیں؛ آپ اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ آپ تابعی ہیں۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے *علمِ حدیث* حاصل کیا۔ آپ کے علاوہ، *امام مالک سمیت ائمہ حدیث اور ائمہ فقہ* میں کوئی امام بھی تابعی نہیں. آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی *براہِ راست زیارت* کی اور ان سے *احادیثِ نبوی کا سماع* کیا۔ الحمد للہ!
امام اعظم نے علم حدیث کے حصول کے لیے *تین مقامات* کا بطورِ خاص سفر کیا۔ آپ نے علم حدیث سب سے پہلے *کوفہ* میں حاصل کیا کیونکہ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ علم حدیث کا بہت بڑا مرکز تھا۔ گویا آپ علم حدیث کے گھر میں پیدا ہوئے، وہیں پڑھا، کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم خود بنے۔
دوسرا مقام *حرمین شریفین* کا تھا۔ جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں اور تیسرا مقام *بصرہ* تھا۔ امام ابو حنیفہ نے تقریبًا 4 ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا۔
➖➖➖➖➖➖➖➖
*ایک دفعہ* حضرت امام اعظم رحمۃ ﷲ علیہ اور امام شافعی رحمۃ ﷲ علیہ کے شاگردوں کے مابین جھگڑا پیدا ہوگیا۔ ہر گروہ اپنے امام کی فضیلت کا دعویدار تھا۔ حضرت *امام ابو عبد ﷲ رحمۃ ﷲ علیہ* نے دونوں کے درمیان فیصلہ کیا اور اصحاب شافعی سے فرمایا :
پہلے تم اپنے امام کے اساتذہ گنو؛ جب گنے گئے تو *80* تھے۔ پھر انہوں نے احناف سے فرمایا : اب تم اپنے امام کے اساتذہ گنو؛ جب انہوں نے شمار کئے تو معلوم ہوا وہ *چار ہزار* تھے۔ اس طرح اساتذہ کے عدد نے اس جھگڑے کا فیصلہ کر دیا۔ آپ *فقہ اور حدیث* دونوں میدانوں میں *امام الائمہ* تھے۔
یوں ہی حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ ﷲ علیہ کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے؛ جن میں *چالیس افراد* بہت ہی جلیل المرتبت تھے اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے۔ وہ آپ کے مشیرِ خاص بھی تھے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں :👇🏻
1۔ امام *ابو یوسف* رحمۃ ﷲ علیہ
۔ امام *محمد* بن حسن الشیبانی رحمۃ ﷲ علیہ
3۔ امام *حماد بن ابی حنیفہ* رحمۃ ﷲ علیہ
4۔ امام *زُفر بن ہذیل* رحمۃ ﷲ علیہ
5۔ امام *عبد ﷲ بن مبارک* رحمۃ ﷲ علیہ
6۔ امام *وکیع بن جراح* رحمۃ ﷲ علیہ
7۔ امام *داؤد بن نصیر* رحمۃ ﷲ علیہ............
*آپ کی چند مشہور کتابیں درج ذیل ہیں :*👇🏻
*الفقه الأکبر، الفقه الأبسط، العالم والمتعلم، رسالة الإمام أبي حنيفة إلی عثمان البتّی، وصية الامام أبي حنيفة.*
➖➖➖➖➖➖➖
*ایک حکایت*:
امام اعظم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ خود فرماتےہیں:
96 ہجری کو 16سال کی عمرمیں والدگرامی (حضرت ثابت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ )کے ساتھ حج کیا، اس دوران میں نے ایک *شیخ* کو دیکھا؛ جن کے ارد گرد لو گ جمع تھے،میں نے والدِمحترم سے عرض کی:
یہ ہستی کون ہے؟ انھوں نے بتایا:یہ صحابی رسول حضرت *عبد اللہ بن حارث بن جزء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ* ہیں۔میں نے عرض کی: ان کے پاس کون سی چیز ہے؟ فرمایا: ان کے پاس نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے سنی ہوئی احادیث ِمبارکہ ہیں۔ یہ سُن کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ آگے بڑھے اورصحابی ٔ رسول سے براہِ راست ایک حدیث پاک سننے کا شرف حاصل کیا۔ *(اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ، ص18)*
امام اعظم مسائلِ شریعت میں، اپنا طریقِ اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں :
*’’میں سب سے پہلے کسی مسئلے کا حکم (کتاب ﷲ) یعنی قرآن کریم،سے اخذ کرتا ہوں، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو (سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یعنی حدیث پاک،سے لے لیتا ہوں، جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کے (اقوال)میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا؛ اور جب معاملہ (ابراہیم شعبی، ابن سیرین اور عطاء) پر آجائے تو (چوں کہ) یہ لوگ بھی مجتہد تھے؛ (تو) اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔‘‘*
آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا *بارہ سو سال* سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لئے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل، اور قانونِ سلطنت تھے اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے مذہب کا پیرو کار ہے۔
*آپ کے قابل رشک اوصاف*:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ نےآپ کو ظاہری و باطنی حسن وجمال سے نوازا تھا۔ آپ کاقَد دَرمیانہ اور چہرہ نہایت حسین تھا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ عمدہ لباس اور جوتے استعمال فرماتے، کثرت سے خوشبو استعمال فرماتےاوریہی خوشبو آپ کی تشریف آوری کا پتہ دیتی۔ آپ کی زبان ِ مبارک سے ادا ہونے والے کلمات پھول کی پتیوں سے زیادہ نرم ہوتے اورلفظوں کی مٹھاس کانوں میں رَس گھول دیتی، آپ کو کبھی غیبت کرتے نہیں سنا گیا۔
*ایک حکایت*: ایک مرتبہ حضرت *عبداللہ ابن ِ مبارک* رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے حَضْرتِ سیِّدُنا *سُفْیان ثوری* عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی سےآپ کے اِس وصف کا تذکرہ یوں کیا:
"امامِ اعظم ابُوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ، غیبت سےاتنےدُور رہتے ہیں کہ میں نے کبھی ان کو دُشْمن کی غیبت کرتے ہوئے بھی نہیں سُنا"۔ *(اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ،ص:42) آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ رضائےالٰہی کو ہر شئی پر ترجیح دیتے۔ (تہذیب الاسماء، 2/503، 506، اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ، ص42)*
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ علما و مشائخ کی اعانت پر *زرِّ کثیر* خرچ فرماتے۔
*(اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ،ص 42)*
آپ کے جلیل القدر شاگرد امام *ابوىوسف* رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:
امام اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ 20سال تک میری اور میرے اہل و عیال کى کفالت فرماتے رہے۔ *(الخیرات الحسان ، ص 57)* آپ کسى کو کچھ عطا فرماتے، اور پھر وہ اس پر آپ کا شکریہ ادا کرتا، تو اس سے فرماتے:
*اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکرادا کرو؛ کیونکہ یہ رزق اللہ عَزَّوَجَلَّ نےتمہارے لئےبھیجاہے*۔
*(الخیرات الحسان ، ص 57)*
امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ زہد و تقویٰ کےجامع،والدہ کے فرمانبردار، امانت و دیانت میں یکتا، پڑوسیوں سےحسنِ سلوک میں بے مثال تھے،بےنظیر سخاوت اورمسلمانوں کے ساتھ ہمدردی وخیرخواہی جیسےکئی اوصاف نے آپ کی ذات کونمایاں کردیاتھا۔ *(اخبار الامام اعظم ابی حنیفہ،ص41تا 49،63،تبییض الصحیفۃ، ص131)*
آپ کے *حسنِ اخلاق* سے متعلق حَضْرت بُکَیْر بن مَعْرُوْف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتےہیں:
میں نےاُمَّتِ مصطفےٰ میں امام ابُو حنیفہ سے زیادہ حُسْنِ اَخْلاق والا کسی کو نہیں دیکھا۔ *(الخیرات الحسان، ص56)*
*ایک حکایت*: حضرت سیِّدُنا شفیق بلخی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے ساتھ جا رہا تھا کہ:
ایک شخص آپ کو دیکھ کر *چُھپ گیا اور دوسرا راستہ اختیار کیا*۔ جب آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے اسے پُکارا، وہ آیا تو پوچھا کہ تم نےراستہ کیوں بدل دیا؟ اور کیوں چھپ گئے؟ اس نےعرض کی:میں آپ کا مقروض ہوں، میں نے آپ کو دس ہزار درہم دینے ہیں جس کو کافی عرصہ گزر چکا ہے اور میں تنگدست ہوں، آپ سے شرماتا ہوں۔ امام اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: میری وجہ سے تمہاری یہ حالت ہے، جاؤ! میں نے سارا قرض تمہیں معاف کر دیا۔
*(الخیرات الحسان، ص 57)*
*عبادت و ریاضت*: امام ِاعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم *دن بھر* علمِ دین کی اِشاعت، *ساری رات* عبادت ورِیاضت میں بَسرفرماتے۔آپ نے مسلسل *تیس سال* روزے رکھے، *تیس سال* تک ایک رَکعَت میں قراٰنِ پاک خَتْم کرتے رہے، *چالیس سال* تک عِشا کے وُضُو سے فجر کی نَماز ادا کی، *ہر دن اور رات* میں قراٰن پاک ختم فرماتے، رمضان المبارک میں *62 قراٰن* ختم فرماتے۔ اور جس مقام پر آپ کی وفات ہوئی، اُس مقام پر آپ نے *سات ہزاربار* قراٰنِ پاک خَتْم کئے۔
*(الخیرات الحسان، ص50)*
آپ نے 1500 درہم خرچ کرکے ایک *قیمتی لباس* سِلوا رکھا تھا،جسے آپ روزانہ *رات کے وقت زیبِ تن فرماتے* اور اس کی حکمت یہ ارشاد فرماتے:
*اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے زِینت اختیار کرنا، لوگوں کے لئے زِینت اختیار کرنے سے بہتر ہے*۔ *(تفسیرروح البیان ،3/154)*
رات میں ادا کی جانے والی اِن نمازوں میں خوب اشک باری فرماتے،اس گریہ و زاری کا اثر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے چہرۂ مبارکہ پر واضح نظر آتا۔ *(اخبارابی حنیفۃ واصحابہ،ص47،الخیرات الحسان،ص54)*
*ذریعۂ معاش*: آپ نے حُصُولِ رزقِ حلَال کے لئے تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا اور لوگوں سے بھلائی اورشَرعی اُصُولوں کی پاسداری کاعملی مظاہرہ کرکےقیامت تک کےتاجروں کے لئے ایک روشن مثال قائم فرمادی۔
*(تاریخ بغداد، 13/356)*
علمِ فقہ کی تدوین، ابوابِِ فقہ کی ترتیب اور دنیا بھر میں فقہِ حنفی کی پذیرائی، آپ کی امتیازی خصوصیات میں شامل ہیں۔ *(الخیرات الحسان،ص 43)*
➖➖➖➖➖➖➖➖
*وصال ومدفن*: 150 ہجری کو عہدۂ قضا قبول نہ کرنے کی وجہ سے،آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو *زہر دے کر شہید کردیا گیا*۔ آپ کے جنازے میں تقریباً ًپچاس ہزار افراد نے شرکت کی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مقبولیت کا عالَم یہ تھا کہ پہلی بار نمازِ جنازہ میں کم و بیش پچاس ہزار کا مجمع تھا، اس پر بھی آنے والوں کا سلسلہ قائم تھا؛ یہاں تک کہ *چھ بار نمازِ جنازہ* پڑھائی گئی۔الحمد للہ علی ذلک۔
*لاکھوں شافعیوں کے امام، حضرت سیّدنا امام شافِعی* رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے (بغداد میں قیام کےدوران)اپنے ایک معمول کا ذکر یوں فرمایا:
" *مَیں امام ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سےبرکت حاصِل کرتا ہوں، جب کوئی حاجت پیش آتی ہے تو دو رَکعَت پڑھ کر ان کی قَبْرِمبارک کے پاس آتا ہوں اور اُس کے پاس اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دُعا کرتا ہوں، تو میری حاجت جلد پوری ہو جاتی ہے"*۔
آج بھی بغدادشریف میں آپ کا مزارِ فائضُ الاَنْوار مَرجَعِ خَلائِق ہے۔
*(مناقب الامام الاعظم، 2/216،سیراعلام النبلاء، 6/537،اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ، ص 94،الخیرات الحسان ، ص 94)*
فقط۔۔۔۔۔۔
*امام اعظم ابو حنیفہ،اکابرِ امت کے اقوال کی روشنی میں*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
از : محمد فیضان سرور مصباحی
جامعۃ المدینہ ـ نیپال گنج (نیپال)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مجتہدِمطلق امام اعظم ابو حنیفہ حضرت نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی علمی حدیثی اور فقہی جلالتِ شان مسلم ہے ۔ جن کے پیش نظر وقت کے جلیل القدر فقہا و محدثین اور اصحابِ جرح وتعديل نے آپ کی شان میں توثیقی کلمات کہے اور آپ کو منفرد ویکتا اور بے مثالِ زمانہ امام قرار دیا ہے۔ آنے والے سطور میں اکابرِ امت کے چند اقوال پیش کیے جارہے ہیں ۔
● يَحْيى بن مَعِينٍ يَقُولُ: «كانَ أبُو حَنِيفَةَ ثِقَةً، لاَ يُحَدِّثُ بِالحَدِيثِ إلاَّ بِما يَحْفَظُهُ. ولا يحدث بما لا يحفظ؛ (سير أعلام النبلاء ج: ٦،ص: ٣٩٥).
یعنی :* امام جرح وتعديل حضرت ابو زکریا یحییٰ بن معین متوفیٰ : ٢٣٣ھ فرماتے ہیں: ابوحنیفہ ثقہ تھے۔ وہ حدیث نہیں بیان کرتے تھے، مگر وہی جو انھیں حفظ ہوتی۔ جو یاد نہ ہو؛ انھیں بیان نہ کرتے تھے*۔
● قَالَ صالِحُ بْنَ مُحَمَّدٍ الأسَدِيُّ عَنْ ابْنِ مَعِين: « كانَ أبُو حَنِيفَةَ ثِقَةً فِي الحَدِيثِ ». (تهذيب الكمال ٧/٣٣٩)
*حضرت صالح بن محمد اسدی متوفیٰ ؛ ٢٩٣ھ نے امام یحییٰ بن معین کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ابوحنیفہ فن حدیث میں ثقہ تھے*۔
● قال الشافعي: قيل لمالك: هل رأيت أبا حنيفة؟ قال: نعم، رأيت رجلًا لو كلمك في هذه السارية أن يجعلها ذهبًا، لقام بحجَّته؛ (سير أعلام النبلاء ج: ٦،ص: ٣٩٩).
*حضرت امام محمد بن ادریس شافعی متوفیٰ:٢٠٤ھ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام مالک - رضي الله عنه - سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے؟ فرمایا : بالکل، میں نے ایسے شخص کو دیکھا ہے کہ اگر وہ اس ستون کے بارے میں سونا ہونے کا قول کرلیں؛ تو ضرور اسے اپنی دلیل سے ثابت کردیں گے* ۔
●قالَ الشّافِعِيُّ: مَن أرادَ الفِقْهَ فَهُوَ عِيالٌ عَلى أبِي حَنِيفَةَ. (البداية والنهاية ١٣/٤١٩)
*یعنی : مجتہد مطلق حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو فقہ میں گہرائی حاصل کرنا چاہتا ہے؛ وہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا محتاج ہے* ۔
● عَلِيّ بْن ميمون، قالَ: سمعت الشافعي، يقول: إني لأتبرك بأبي حنيفة وأجيء إلى قبره في كل يوم، يَعْنِي زائرا، فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين، وجئت إلى قبره وسألت الله تعالى الحاجة عنده، فما تبعد عني حتى تقضى. (تاريخ بغداد،١/١٣٥)
*یعنی : حضرت علی بن میمون نے فرمایا کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا کہ بے شک میں امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے برکت حاصل کرتا ہوں، اور ہر روز ان کی قبر کی زیارت کے لیے آتا ہوں۔ جب مجھے کوئی حاجت پیش آئے؛ تو میں دو رکعت نماز پڑھتا ہوں، اور امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر حاضری دیتا ہوں۔ اور قبر کے پاس اللہ تعالی سے دعا مانگتا ہوں؛ تو وہ میری حاجت بہت جلد پوری ہو جاتی ہے۔*
● قالَ سُفْيانُ الثَّوْرِيُّ :«كان أبو حنيفة أفقه أهل الأرض في زمانه». (الفقيه والمتفقه ٢/ ٧٣)
*یعنی : امام سفیان ثوری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اپنے زمانے میں روئے زمین کے سب سے بڑے فقیہ تھے ۔*
● قال علي بن عاصم: لو وُزن علم الإمام أبي حنيفة بعلم أهل زمانه، لرجح عليهم.(سير أعلام النبلاء ،٦ / ٤٠٣).
*یعنی : حضرت علی بن عاصم کہتے ہیں کہ اگر امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے علم کا ان کے اہلِ زمانہ کے علم سے موازنہ کیا جائے؛ تو آپ کا علم ان کے علم پر غالب ہوگا* ۔
● قال عبدالله بن المبارك: ما رأيت رجلًا أوقر في مجلسه، ولا أحسن سمتًا وحِلمًا من أبي حنيفة (سير أعلام النبلاء ج: ٦،ص:٤٠٠).
*یعنی : حضرت عبداللہ بن المبارک نے فرمایا : میں نے امام ابوحنیفہ سے بڑھ کر کوئی شخص نہیں دیکھا جو اپنی نشست پر زیادہ عزت ووقار والا ہو اور نہ ہی حسنِ اخلاق اور نہ ہی بردباری میں اس سے بہتر کسی کو پایا ۔*
● قالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ داوُدَ الخُرَيْبِيُّ: يَنْبَغِي لِلنّاسِ أنْ يَدْعُوا فِي صَلاتِهِمْ لِأبِي حَنِيفَةَ؛ لِحِفْظِهِ الفِقْهَ والسُّنَنَ عَلَيْهِمْ. (ایضاً)
یعنی :*حضرت عبداللہ بن داؤد خریبی فرماتے ہیں کہ لوگوں کو چاہیے کہ اپنی نمازوں میں امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کیا کریں؛ کیوں کہ انھوں نے لوگوں کے لیے فقہ و سنت کی حفاظت فرمائی ہے*.
● قال حفص بن غياث: «كلام أبي حنيفة في الفقه أدق من الشعر، لا يعيبه إلا جاهل». (سير أعلام النبلاء،٦/ ٤٠٤)
*یعنی : حضرت حفص بن غیاث کہتے ہیں کہ فقہ کے معاملے میں امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا کلام؛ شعر سے زیادہ باریکیاں لیے ہوئے ہے ۔ ان کی عیب جوئی کوئی نرا جاہل ہی کرسکتا ہے* ۔
● وقال شعبة بن الحجاج : كان والله حسَنَ الفهم، جيد الحفظ؛ (الخيرات الحسان ـ لابن حجر المكي صـ ٣٤).
*امام شعبہ بن حجاج نے فرمایا : بخدا! امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ حسنِ فہم کے مالک اور جید الحفظ (یعنی : اچھی یاد داشت والے) تھے* ۔
● قال مكي بن إبراهيم : كان أبو حنيفة أعلمَ أهلِ الأرض. (البداية والنهاية، ١٠/ ١١٠)
*امام بخاری کے استاذ شیخ مکی بن ابراہیم رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ روئے زمین پر سب سے بڑے عالم تھے*۔
● قال يحيى بن سعيد القطان: لا نكذب الله، ما سمعنا أحسنَ مِن رأي أبي حنيفة، وقد أخذنا بأكثرِ أقواله (سير أعلام النبلاء ،٦ /٤٠٢ )
*یعنی : امام یحییٰ بن سعید القطان فرماتے ہیں : ہم خدا سے جھوٹ نہیں بولتے، ہم نے امام ابوحنیفہ کی رائے سے اچھی کوئی رائے نہیں سنی ، اور ہم نے ان کے اکثر قول کو لےلیا ہے*۔
● قال أبو نُعيم الأصبهاني: كان أبو حنيفة صاحبَ غوصٍ في المسائل (تهذيب التهذيب ، ٥ /٦٣٠)
*یعنی : امام ابونعیم اصفہانی کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ مسائل کی خوب تہ تک پہنچنے والے تھے* ۔
● قال سوار بن حكم : ما رأيتُ أورع منه؛ نُهِي عن الفتيا، فبينا هو وابنته يأكلان تخللت ابنته، فخرج على خلالها صفرة دم، فقالت: يا أبت، عليَّ في هذا وضوءٌ، فقال: إني نُهِيت عن الفتيا، فحلفتُ لهم، فسَلِي أخاك حمادًا؛ (الانتقاء لابن عبدالبر صـ 169).
*یعنی : حضرت سوار بن حکم کہتے ہیں کہ میں نے ان سے زیادہ صاحبِ تقوی و ورع کوئی نہیں دیکھا۔ ان کو فتویٰ دینے سے منع کیا گیا تھا، چنانچہ جب وہ اور ان کی بیٹی کھانا کھا رہے تھے؛ اس دوران ان کی صاحبزادی نے صفرہ آمیز خون کی قے کی، صاحبزادی نے عرض کیا : ابا جان! کیا اس کی وجہ سے مجھ پر وضو کرنا لازم ہوگیا ؟ انھوں نے کہا: مجھے فتویٰ دینے سے منع کیا گیا ہے۔ میں نے لوگوں سے قسم کھائی ہے ۔ لہٰذا اپنے بھائی حماد سے پوچھ لو*۔
● قال أسد بن عمر: صلى أبو حنيفة الفجرَ بوضوء صلاة العشاء أربعين سنة، فكان عامةَ الليل يقرأ جميع القرآن في ركعة واحدة، وكان يُسمَع بكاؤُه بالليل حتى يرحَمَه جيرانُه؛ (تاريخ بغداد، ١٣ /٣٦٣).
*یعنی : حضرت شیخ اسد بن عمر کہتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے چالیس سال تک عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی، عام راتوں کا معمول تھا کہ ۱یک رکعت میں پورا قرآن پڑھ لیا کرتے تھے، رات میں ان کی گریہ وزاری کی آواز سنی جاتی تھی، حتی کہ پڑوسیوں کو ان پر ترس آتا تھا* ۔
● قال الذهبي: الإمامة في الفقه ودقائقه مسلَّمةٌ إلى هذا الإمام، وهذا أمرٌ لا شك فيه؛ (سير أعلام النبلاء ،٦ /٤٠٠).
*یعنی : امام ذہبی فرماتے ہیں کہ فقہ اور اس کی باریکیوں سے متعلق درجۂ امامت اِس امام کے حوالے کردیا گیا ہے ۔ اور یہ ایسی بات ہے کہ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں* ۔
● قال ابن حجر العسقلاني: مناقب الإمام أبي حنيفة كثيرة جدًّا؛ فرضِيَ الله تعالى عنه، وأسكنه الفردوسَ، آمين (تهذيب التهذيب ،٥ /٦٣١).
*یعنی : امام بن حجر عسقلانی شافعی فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کے فضائل بہت زیادہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو، اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے* ۔
🌷🌷🌷
0 Comments