اے پیارے ! تم تو اللہ کے نزدیک بہت ہی قیمتی ہو

اے پیارے ! تم تو اللہ کے نزدیک بہت ہی قیمتی ہو

 اے پیارے ! تم تو اللہ کے نزدیک بہت ہی قیمتی ہو


شکل کالی تھی مگر دل منور تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ مکان کچا تھا لیکن سیرت پکی تھی۔۔۔۔۔۔ شہری آداب سے واقف نہ تھے مگر شاہ لولاک کی محبت رگ رگ میں بسی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ نام تھا زاہر بن حرام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صحرا نشیں تھے۔۔۔۔۔ بنی اشجع سے تعلق رکھتے تھے۔۔۔۔۔ گھر اُن کا شہر نبی کے نواحات ہی میں کہیں واقع تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹی موٹی چیزیں بیچ کر ہی گزارہ کیا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں تو پوری زندگی صحرا نوردی کی آئینہ دار تھی مگر جانے کیا بات تھی کہ وہ محبوب رب العلمین کو بے حد محبوب تھے۔۔۔۔۔ زاہر کی عادت تھی کہ وہ جب بھی شہر آتے تو گاؤں دیہات میں اگنے والی تازه سبزیاں, پھل اور دیگر ضروری چیزیں آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بطور تحفہ پیش کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اَے ہَے! ذرا سحر عشق کا تماشہ تو دیکھیں! زاہر کو خوب پتہ تھا کہ ساگ کی کچھ پتیاں اور کچھ ہری ہری سبزیاں بھلا اُس مہ لقا کی ناز آفرینی کا بوجھ کیسے اٹھا سکتی ہیں جن کی ناز برداری کے لئے فرشتوں کی جماعتیں باب رحمت پر شام و سحر اُسی طرح منڈلاتی رہتی ہیں جس طرح برسات کی شاموں میں ننھے ننھے پروانے کانچ کے روشن دیئے پر منڈلاتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر جناب! یہاں حق محبت کی ادائیگی کا خیال کسے ہے؟ یہ تو کاشانہ رحمت ہے, یہ تو سخی کا دربار ہے, یہ تو داتا کی نگری ہے; یہاں سائلوں کے خالی دامن نہیں, دلوں کے معطر آنگن میں کِھلنے والے محبتوں کے حسین لالہ و نسترن دیکھے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اور زاہر کے دل کی گہرائیوں میں تو ہر گھڑی بس ایک ہی آرزو مچلتی رہتی تھی کہ کسی بھی طرح جان جاناں کے رخ زیبا کا دیدار کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زاہر نے گرچہ اعلی تعلیم نہیں پائی تھی, گرچہ انہیں آداب شاہی کا ادراک نہیں تھا, لیکن وہ ایک صحرا کے حوصلے مند بیٹے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ مضبوط قوت ارادی کے مالک۔۔۔۔۔۔۔ فضائیت اور صحرائیت کے دلدادہ۔۔۔۔۔۔۔ اور صحرا کی بیکراں وسعتوں نے انہیں دلبری کا یہ سبق خوب اچھی طرح پڑھا دیا تھا کہ نرگسیت کے صنم خانوں میں محو خواب رہ کر خود کو خدا اور ناخدا سمجھنے والے کبھی بھی بقا کا راز نہیں پاسکتے۔۔۔۔۔۔ اگر باران رحمت کی رم جھم کے آہنگ میں ڈھل کر خود کو سدا بہار بنانا ہے تو ہستی کی مستی سے نکل کر خود کو شہ ابرار کے روبرو پیش کرنا ہی ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔ سو انہوں نے نہ صرف بدر کے میدان میں کفار مکہ کے خلاف بھر پور طریقے پر داد شجاعت دی تھی بلکہ ان کے پاس سبزی بھاجی وغیرہ جو کچھ بھی ہوتا تھا وہ انہیں ہی بطور تحفہ پیش کرنے کے بہانے محبوب ناز کی چوکھٹ کو بوسہ دینے ہمیشہ آجایا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ایسا کیوں کر ہوسکتا ہے کہ کوئی عاشق زار اپنے محبوب کریم کے بام و در کی تکریم بجا لائے اور شان کریمی اس کی جانب متوجہ نہ ہو؟ چنانچہ زاہر جب بھی بارگاہ رسالت مآب میں سبزی بھاجی اور پھل پھول وغیرہ بطور تحفہ پیش کرنےآتے تو رخصت کے وقت دو عالم کے بادشاہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی شہر کی کچھ چیزیں تبادلہ تحائف کے طور پر زاہر بن حرام کو عطاء فرما دیا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔سبحان اللہ! یہی کیا کم تھا کہ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زاہر بن حرام کے ساتھ ہمیشہ تحائف کا تبادلہ فرمایا کرتے تھے؟ مگر جناب زاہر کی خوش نصیبی کا عروج دیکھئے کہ شاہ دو جہاں علیہ التحیۃ والثناء نے از راہ عنایت یہ بھی فرمایا: " ان زاھرا بادیتنا و نحن حاضروہ"۔ یعنی زاہر ہمارا بادیہ نشیں دوست ہے اور ہم اس کے شہری دوست ہیں۔

     اے زاہر! ہم آپ کی اُس سادگی پر سو جان سے قربان ہیں جس نے مکین لامکاں کو آپ کا شہری دوست بنا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ رسول جن کے گلابی لبوں سے نکلنے والا ہر لفظ یا تو وحی متلو ہوتا ہے یا پھر وحی غیر متلو, انہوں نے آپ کو اپنا دیہاتی رفیق بنایا۔۔۔۔۔۔ گویا آپ کا اسم گرامی صبح قیامت تک وحی غیر متلو بن کر مسلمانان عالم کے دلوں کے آسمان پر سورج کی طرح چمکتا رہے گا۔

       کہتے ہیں کہ ایک دن زاہر مدینہ منورہ کے بازار میں گاؤں سے لائی ہوئی اپنی کچھ چیزیں فروخت کر رہے تھے کہ کسی نے اچانک عقب میں آ کر اپنے دراز ہاتھوں کو زاہر کی بغلوں کے نیچے سے گزار کر اپنی کشادہ ہتھیلیوں کے ذریعے اُن کی آنکھیں بند کردیں۔۔۔۔۔۔ جیسے کوئی شخص اپنے کسی بہت ہی شناسا اور بےتکلف دوست کی آنکھیں بےخبری میں پیچھے سے بند کرکے کہتا ہے: بتاؤ تو سہی کہ میں کون ہوں؟۔۔۔۔۔۔۔ چوں کہ زاہر کا جسم دو مضبوط ترین بازؤوں کے گھیرے میں تھا اور ان کی آنکھیں دو کشادہ ہتھیلیوں کی آڑ کی وجہ سے کچھ دیکھ نہیں سکتی تھیں اس لئے انہوں نے زور لگاتے ہوئے کہا: "اے! کون ہے؟ مجھے چھوڑو"۔ پھر جوں ہی انہوں نے عقب والے کے سرو قامت, موزوں ترین جسمانی ساخت , بانہوں کی پرکیف کیاریوں, کسی حد تک گوشت سے بھری ہوئی ہتھیلیوں, تیکھے نقوش والے چہرے, ہموار شکم, کشادہ سینہ , صراحی دار گردن اور لمس کی مانوس خوشبو کو محسوس کیا تو فورًا ہی اُن کی پلکوں پر جگنو سا ایک نام جھلملانے لگا اور وہ سمجھ گئے کہ اِس انداز دلربائی میں دل لگی فرمانے والے کوئی اور نہیں بلکہ یہ وہی پیکر حسن و جمال ہیں جن کے رخ انور کی تابانی کے آگے ماہ کامل کی روشنی بھی ماند پڑجاتی ہے۔۔۔۔۔۔ اللہ اللہ! کیا نصیب لے کر آئے تھے جناب زاہر بھی, کہ حریم ناز کا وہ پروردہ جن کے قدم میمنت لزوم کے طفیل گیتی کا یہ وسیع و عریض آنگن سجایا گیا, جن کے قدم ناز کی برکتوں سے افلاک عالم کو یہ رفعت نصیب ہوئی, جن کی آمد کے طفیل صبح کے آنچل میں خورشید کا غنچہ پرویا گیا, جن کی تشریف آوری کے صدقے باغ و بہار کو گلوں کی سوغات عطا ہوئیں, جن کے حسن دل آراء کی ضیا پاشیوں سے جمال جہاں کا ہر ایک منظر سنور گیا, جن کے روئے منور کی تابشوں سے عشق کی راہوں میں وفاؤں کے ان گنت دیئے جل اٹھے۔۔۔۔۔ اُسی سیم تن اور خورشید رو نے آج بھرے بازار میں زاہر بن حرام کی آنکھیں پیچھے سے بند کر رکھی تھیں; گویا کہہ رہے ہوں کہ: میاں زاہر! بھلا بتاؤ تو سہی کہ میں کون ہوں؟ ۔۔۔۔۔۔۔ آخر اِس ساز ظرافت سے سوز نہاں کی تپش دلوں کو کیسے نہ گرما دیتی؟۔۔۔۔۔۔۔۔ زاہر کا دل بھی تڑپ اٹھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اُن کے بےرنگ چہرے پر پل بھر میں کئی رنگ جھلملائے اور غائب ہوگئے۔۔۔۔۔۔ یقینا انہوں نے سوچا کہ حرام کے بیٹے! آج تیرا نصیبا اوج ثریا پر چمک رہا ہے, پھر دوبارہ یہ حسین سماں کبھی آئے نہ آئے, موقع غنیمت ہے, اسے ہاتھ سے جانے مت دیجیو۔۔۔۔۔۔۔چنانچہ جناب زاہر نے حصول برکت کی نیت سے اپنی پشت صدر نبوت کے ساتھ اور اچھی طرح چپکادی جسے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بخوبی محسوس کیا, اور پھر خوش طبعی کرتے ہوئے فرمایا: " من یشتری العبد؟"- ارے! کوئی ہے جو اس غلام کو خریدے؟ اللہ اکبر! آج تو جناب زاہر کے وارے نیارے ہی ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عنایتوں پر عنایتیں۔۔۔۔۔۔ نوازشات پر نوازشات۔۔۔۔۔ کرم پر کرم۔۔۔۔۔۔ بادۂ محبت سے سرشار ہوکر جناب زاہر نے عرض کیا: " یا رسول اللہ! اذًا واللہ تجدنی کاسدا"۔ اے اللہ کے رسول! تب تو آپ مجھے بہت ہی ارزاں پائیں گے۔۔۔۔۔ اَے ہَے! ذرا حضرت زاہر کا دل لبھانے والا اشارہ بھی تو دیکھیں! وہ اپنے شفیق آقا کے قدموں سے کسی بھی حال میں جدا ہونا نہیں چاہتے, سو جب کریم و رحیم آقا نے دل لگی کے طور پر ہی انہیں فروخت کرنے کی بات کہی تو ان کی گرمئ عشق نے گوارا نہیں کیا کہ انہیں بازار ظرافت میں بھی کبھی اُن کے آقا سے دور کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ انہوں نے تعریض کے طور پر برجستہ کہا! اے میرے جسم و جاں کے مالک! میں تو سیاہ رو ہوں, مجھے بیچ کر آپ کو کیا ملے گا؟ مجھے اپنے قدموں ہی میں پڑا رہنے دیں۔ یہ ایک جان کیا, ایسی سو جانیں بھی آپ پر سدا قربان۔ وہ بطحہ والے نوبہار ناز جو رب لم یزل کی عطاؤں سے ماضی کے راز اور مستقبل کے بھید سب جانتے تھے وہ بھلا جناب زاہر کے سوز و گداز سے کیسے واقف نہ ہوتے؟ چنانچہ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب زاہر کی رقت قلب اور سوزش دل کو دیکھ کر انہیں تسکین روح عطا کرتے ہوئے فرمایا: " لکن عند اللہ أنت غال"۔ لیکن اے پیارے! تم تو اللہ کے نزدیک بہت ہی قیمتی ہو۔ 

    سبحان اللہ! زاہر سچ میں بہت ہی زاہر اور درخشاں تھے۔۔۔۔۔ اُن کی صورت پر بھلے ہی ستاروں کی صباحت نہ تھی مگر دل اتنا منور تھا کہ شاہ کون و مکاں بھی ان سے دل لگی فرمایا کرتے تھے, اور دل لگی بھی ایسی جو شاید کسی اور کے حصے میں کبھی نہ آئی۔۔۔۔۔۔۔۔ محبتوں کی یہ لازوال داستاں بلاشبہ اس بات کی حق دار ہے کہ اسے خوشبوؤں کے کاغذ پر جگنو کے قلم سے لکھا جائے۔

از قلم:› میزان الرحمن علائی

Post a Comment

0 Comments