مختصر تعارف ہمارے سرکار حضرت حافظ حاجی وارث علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ |
حضرت حاجی وارث شاہ قدوة السالکین اور ،زبدۃالعا رفین ہیں، وارثی سلسلے کی ابتدا آپ سے ہوئی۔
آپ کا خاندان
آپ کے خاندان کے بزرگ نیشا پور کے رہنے والے تھے۔نیشا پور سے سکو نت ترک کر کے ہندوستان آئے۔ آپ کے والدِ بزرگوار کا نام سیّد قربان علی شاہ ہے۔ وہ دیواضلع بارہ بنکی (یوپی)میں رہتے تھے اور وہاں کے رئیسوں میں اُن کا شمار تھا۔ وہ صوفی منش رئیس تھے۔
آپ کی ولادت
آپ کی ولادت ۱۲۳۲ ہجری میں دیوا شریف میں ہوئی۔
ابھی آپ سن رشد کو نہ پہنچےتھے کہ آپ کی والدۂ ما جدہ کا انتقال ہو گیا۔ آپ کے والدِ بزرگوار کا انتقال آپ کی ولادت سے پہلے ہوچکا تھا۔
آپ کی تعلیم و تربیت
آپکی عمر جب پانچ سال کی ہوئی تو آپ کی تعلیم با قا عدہ شروع ہوئی۔ مکتب جا نے لگے،آپ نے قرآنِ مجید سات سال کی عمر میں حفظ کیا۔
عشق و محبّت کے جذبات بچپن ہی سے جنگلوں اور ویرانوں میں لیے پھر تے تھے۔ آپ کا دل شہر میں نہیں لگتا تھا۔
بیعت و خلا فت
آپ اپنے بہنو ئی حضرت سیّد خادم علی شاہ کے مرید اور خلیفہ ہیں۔ آپ کے پیرو مرشد کا قیام لکھنؤ میں رہتا تھا۔ ایک رات آپ نے خواب میں دیکھاکہ پیرو مرشد آپ سے فرماتے ہیں کہ’’ سفر کرو‘‘۔
سیر و سیاحت
پیرو مرشد کا حکم پا کر اپنے وطنِ عزیز کو خیر باد کہا۔ دیوا سے جے پور تشریف لائے، جے پور سے اجمیر شریف غریب نواز کے دربار میں حاضر ہو ئے۔ آستا نےمیں داخل ہونا چاہتے تھے کہ دروازےپر جو شخص بیٹھا ہوا تھا،اس نے آپ سے کہا کہ جوتا پہن کر اندر جانا ادب کے خلاف ہے۔ آپ نے وہیں جو تا اتار ا اور پھر ساری عمر جوتا نہیں پہنا۔
اجمیر شر یف سے ممبئی تشریف لے گئے۔ ممبئی سے جدّہ گئے۔ ۲۹؍ شعبان ۱۲۵۳ھ کو مکہ معظّہ پہنچے۔ حج کا فریضہ ادا کر کے مد ینہ منوّرہ گئے۔ کچھ دن وہاں رہے، پھر رختِ سفر باندھا۔بیت المقدس دمشق، بیروت، بغداد، کاظمین ، نجفِ اشرف، کربلائے معلّٰی، ایران، قسطنطنیہ کی سیاحت کرکے اور درویشوں سے مل کر پھر مکہ پہنچے اور حج سے فارغ ہوکر افریقہ تشریف لے گئے۔
وطن واپس آ کر آپ نے دیکھا کہ مکان شکستہ ہو چکا ہے اور آپ کے سازو سامان پر آپ کے رشتے دار قابض ہیں۔ ان کو یہ فکر ہوئی شاید آپ جائیداد وغیرہ واپس لیں گے اور ممکن ہے عدالتی کارروائی کریں؛ لہٰذا، ان لوگوں کی بے اعتنائی اور بے رخی سے آپ کو تکلیف پہنچی،آپ نے وطن میں زیادہ قیام کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
آپ کا سفر
آپ نے پھر رختِ سفر باندھا اور قرب و جوار کے مختلف مقامات کو زینت بخشی۔ آپ جنگلوں، بیابانوں اور پہاڑوں میں گھو متے اور قدرت کا مشا ہدہ کر تے تھے۔
حلقۂ ارادت
آپ کا حلقۂ ارادت بہت وسیع ہے آپ کے خاص خاص مریدین حسبِ ذیل ہیں
سلطان عبدالمجید (ٹرکی)، شیخ مظہر علی، شمس الدین، بد نام شاہ، میا ں جہا نگیر شاہ، جسٹس مولوی شرف الدین۔
آپ کی سیرت
آپ نے شادی نہیں کی آپ جائیداد، مکان سازو سامان وغیرہ سے بے نیاز تھے۔ فقر میں بادشاہی کر تے تھے۔ صابر و شاکر اور مستغنی تھے۔ روپے پیسے کو ہاتھ نہ لگاتے تھے۔ اگر کوئی شخص آپ کو کوئی تحفہ پیش کرتا تو آپ اس سے بہتر چیز اس کو عطا فرماتے تھے، عفو و کرم آپ کا شعار تھا، آپ کسی قسم کی سواری پسند نہیں کرتے تھے۔ تانگے ،بگھی یکے، ریل اور جہاز میں نہیں بیٹھتے تھے، کمزوری کے باعث پالکی میں با دلِ نا خواستہ بیٹھتے تھے۔
سنّت کے سخت پابند تھے۔ آپ نے سیاحت بہت فرمائی، خوراک بہت کم تھی مدّتوں، ہفتے میں ایک بار کھانا کھایا، پھر تیسرے روز کھانا کھانا شروع کیا۔کمزوری کے باعث روز یا دوسرے دن تھوڑا سا کھا لیتے تھے۔ ثرید بہت شوق سے کھاتے تھے۔ کھانے کے بعد خلال کرتے اور پھر ہا تھ دھوتے۔ آپ نے جب سے احرام باندھنا شروع کیا، پھر اتارا نہیں، کربلا پہنچ کر آپ نے یہ طے کیا کہ تخت یا پلنگ پر نہ سو ئیں گے، تمام عمر اس پر کاربند رہے۔
وصال :؍١ صفر المظفر ۱۳۲۳ ہجری مطا بق ۲۶؍ مارچ ۱۹۰۵ء کو آپ کوز کام کی شکا یت ہوئی، وصال سے ایک دن قبل آپ نے اپنے ایک مرید سے فرمایا ، ہم کل صبح چار بجے چلیں گے،آپ ۳۰؍ محرم الحرام ۱۳۲۳ ھ بمطا بق ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو رحمتِ حق میں پیوست ہو گئے۔ مزارِ پُر اَنوار دیوا میں فیوض وبرکات کا سرچشمہ ہے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات
آپ فرماتےہیں"جس عورت کا خاوند موجود ہو اور اس کے پاس رہتا ہو، اسے کھانے پینے اور ضروریات کی پرواہ نہیں ہوتی۔خاوند خود بخود اس کاانتظام کرتاہے، پھر جب خدا اقرب الیہ من حبل الورید تو انسان اپنی روزی کےمتعلق کیوں پریشان ہوتاہے"۔
ایک مرتبہ یہ ذکر ہو رہا تھا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ تہتر فرقوں میں سے بہتر ناری ہیں اور ایک ناجی، جب آپ سےاس فرقے کے متعلق پوچھا گیاتو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دریافت کیا کہ حسد کے کتنے عدد ہیں،حاضرین نے عرض کیاکہ حسد کے عدد بہتر 72 ہیں ،یہ سن کر آپ نےفرمایا"پس جو فرقہ حسد سے باہر ہے وہ ناجی ہے"۔
:آپ رحمۃ اللہ علیہ کے چند اقوال
جوشخص خدا پر بھروسہ کرتا ہے خدا اس کی مدد ضرور کرتا ہے۔
کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلاؤ۔
اسلام اور چیز ہے اور ایمان اور چیز ہے۔
حسد سے احتراز کرو۔
محبت میں انتظام نہیں ہے۔
اللہ اللہ کیاکرو جس طرح بندوں کو روزی پہنچانا اللہ کی شان ربوبیت ہے، اسی طرح اللہ کےنام کی مداح بندوں کا اظہار عبودیت ہے۔
بغیر محبت کے ذکر سے کچھ نہیں ہوتا۔
اسی ذکر سے فائدہ ہوتا ہے جو بے غرض ہوتا ہے۔
خدانے ہرکام کے واسطے ایک وقت مقرر کیا ہے۔
مشرف عشق میں توحید حقیقی کی تعریف یہ ہے کہ اپنے وجود کے ادراک کی ایسی نفی کرتا ہےکہ ہستی کےسامنے تعینات کی ہستی مفقود اور نابود ہوجائے اور فنا کے بعدحضرت احدیت کا وہ قرب واتصال نصیب ہو جس کو حیات ابدی اور بقائے سرمدی کہتے ہیں۔
درحقیقت مَوَحَّدْ وہ ہے کہ جس کا آخر اول کی طرف لوٹ آئے اور ایسا ہوجائے، جیسا ہونے سے قبل تھا۔
جو مرید پیر کو دور سمجھے وہ مرید ناقص ہے اور پیر مرید سے دور ہے وہ پیر ناقص ہے۔
مرید صادق وہ ہےکہ جو پیر کی بارگاہ کو نقائص سے پاک سمجھے
مرید کی کامیابی اس کے پیر کی عنایت پر موقوف ہے۔
مرید مثل بیمار کے ہے اور پیربمنزلہ طبیب کے ہوتا ہے اور قاعدہ ہے کہ جو بیمارطبیب کی ہدایتوں پر عمل کرتا ہےاس کو شفا جلد ہوتی ہے۔
مرید کا مرکز تسلیم و محبت ہے جو اس سے ہٹ گیا، وہ خراب, اور جو قائم رہا، وہ کامیاب ہوا۔
فی الحقیقت مرید وہ ہے جس کی مراد اُسکا پیر ہو۔
مرید اس طرح پیر سے ملے،جس طرح قطرہ دریا سے مل جاتا ہے اور جب تک نہیں ملتا،اس کانام قطرہ ہوتا ہے اور جب مل جاتا ہے تو اسی قطرے کو سب دریا کہتے ہیں۔
محبت میں انسان گونگا اور بہرا ہو جاتا ہے۔
(اے رضویہ ممبئ مرکز: جامعہ نظامیہ صالحات)
0 Comments