ووٹ دینے کیلئے پیسہ لینا دینا رشوت ہے اور یہ ناجائز وحرام ہے
____________________________
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ سیاسی لیڈران الیکشن کے ایام میں لوگوں کو پیسہ دیتے ہیں یا کسی کے ذریعہ لوگوں میں پیسہ بٹواتے ہیں اس خیال سے لوگ انہیں کو ووٹ دیں اس رقم کا لیناشرعا کیسا ہےمدلل جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع دیں عین نوازش ہوگی بینوا وتؤجروا
المستفتی: محمد نور الدین رضوی اندور انڈیا۔
____________________________
الجواب : بعون اللہ الملک الوھاب : اللہم ہدایۃ الحق والصواب : صورت مذکورہ مسئولہ میں لیڈران سے ایام الیکشن رقم دےتو اس کا لینا ناجائز و حرام ہے چاہے امیدوار ووٹ دینے کا ذکر کرےیا نہ کرے دونوں صورت میں اس کا رقم لینا ناجائز و حرام ہوگا کیونکہ ووٹ جمہوری نظام میں شہادت و رائے شماری کے عمل کا نام ہے، جس کا مقصد ملکی نظام اور عوامی نمائندگی کے لئے مناسب نمائندہ کا انتخاب کرنا ہے، اگر کوئی اس رائے کے آزادانہ استعمال کے بجائے کسی اور طریقہ یا جبر سے رائے تبدیل کرانے کی کوشش کرے یا کرانے کا حربہ استعمال کرے اور اس کے لئے روپیہ پیسہ دے تو یہ رشوت کے زمرے میں آتا ہے رشوت لینا شرعا ناجائز و حرام ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
و لا تاكلوْا اموالكم بینكم بالباطل و تدلوا بها الى الحكام لتاكلوا فریقا من اموال الناس بالاثم و انتم تعلمون ( البقرہ /۱۸۸)
اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پرجان بوجھ کر کھالو ( کنزالعرفان)
احکام القرآن اس آیت کے تحت ہے۔
اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کرہو یا چھین کر ،چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔(احکام القرآن، باب ما یحلہ حکم الحاکم وما لا یحلہ ج ۱ / ۳۰۴)
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
واكلهم اموال الناس بالباطل(النساء/ ۱۶۱)
اور وہ باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھا جاتے تھے (کنزالعرفان)
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
سمعون للکذب اکلون للسحت (المائدہ /٤٢)
بڑے جھوٹ سننے والے بڑے حرام خور۔
(مدارک التنزیل میں ہے)
قال اللہ تعالیٰ (وَاَخْذِہِمْ اَمْوَالَہُمُ النَّاسَ بِالْبَاطِلِ﴾ بالرشوة وسائر الوجوہ المحرمة (مدارک التنزیل وحقائق التأویل، سورة آل عمران، رقم لآیہ: ۴۲، ۱:۲۰۲)
رشوت یا ہر وہ صورت جو باطل طریقے سے کوئ چیز حاصل ہو وہ حرام ہے.
احکام القرآن میں ہے۔
وقال تعالی أیضا في مقام آخر: ﴿سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ اَکّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ﴾ (سورة المائدة، رقم الآیة : ۴۲)۔
اتفق جمیع المتأولین لہٰذہ الآیة علی أن قبول الرشا محرم، واتفقوا علی أنہ من السحت الذي حرمہ اللّٰہ تعالی (أحکام القرآن الکریم للجصاص، سورة المائدة، باب الرشوة، ۴: ۸۵، ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت)
تمام متؤلین اس آیت کے تحت اس بات پر متفق ہیں کہ رشوت قبول کرنا حرام ہے اور اس بات پر بھی ان کا اتفاق ہے کہ رشوت سحت میں داخل جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔
الجامع لأحکام القرآن للقرطبی میں ہے۔
من أخذ مال غیرہ لا علی وجہ إذن الشرع، فقد أکلہ بالباطل (الجامع لأحکام القرآن للقرطبي، ۲:۳۲۳، ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت)۔
جس شخص نے خلاف شریعت کسی کا مال لیا تو بلاریب اس نے اس کو باطل طریقے سے کھایا۔
رشوت کی تعریف
رشوة ”رشا“سے ماخوذ ہے ، جس کے معنی اس رسی کے ہیں، جس کے ذریعے پانی تک پہنچا جائے۔ چوں کہ رشوت کے ذریعے بھی اسی طرح ایک مقصد تک پہنچا جاتا ہے، اس لئے اسے ”رشوت“ کہتے ہیں۔ یہ لفظ رِشوت اور رُشوت؛ دونوں طرح صحیح ہے۔ رشوت دینے والے کو ”راشی“، لینے والے کو ”مرتشی“ اور دونوں کے مابین واسطہ بننے والے کو”راش“ کہتے ہیں۔ (النہایة لابن اثیر ج ٢٦٢/٢)
رشوت شرعا اس مال کو کہتے ہیں جو ایک شخص کسی حاکم وغیرہ کو اس لئے دے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کردے یا حاکم اسے وہ ذمہ داری یا عہدہ یا نوکری دے دے جس کی وہ خواہش رکھتا ہے۔
(رد المحتار میں ہے)
قال العلامۃ ابن عابدین : الرشوۃ بالکسر ما یعطیہ الشخص الحاکم وغیرہ لیحکم لہ او یحملہ علی ما یرید ( رد المحتار ج ٣٣٨/٣٣٧/٤ مطلب فی الکلام علی الرشوۃ)
علامہ ابن عابدین شامی نے فرمایا کہ رشوت (راء کے کسرہ کے ساتھ) وہ مال ہے جو کوئ حاکم وغیرہ کو اس لئےدے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ دے یا اس کی مرضی کے مطابق عہدہ دے دے۔
بحرالرائق میں ہے۔
الرشوۃ ما یعطیہ الشخص للحاکم اوغیرہ لیحکم لہ اویحملہ علی ما یرید ‘‘۔ (البحرالرائق ۔ج ۶۔کتاب القضاء /۴۴۰)
رشوت یہ ہے کہ انسان حاکم یا غیر حاکم کو اپنے حق میں فیصلہ کرنے کے لئے یا اپنی منشا کے مطابق اسے آمادہ کرنے کے لئے کچھ دے۔
علامہ علی ابن محمد شریف جرجانی حنفی فرماتے ہیں۔
الرشوۃ مایعطی لابطال حق او لاحقاق باطل ( کتاب التعریفات باب الراء /ص ١١٦ مکتبہ لبنان طبعۃ جدید ١٩٨٥)
رشوت اس مال کو کہتے ہیں جو کسی کے حق کو باطل ثابت کرنے کے لئے یا کسی باطل کو حق ثابت کرنے کے لئے دیا جائے۔
إعلاء السنن میں ہے۔
الرشوۃ مایعطی لابطال حق او لاحقاق حق ( إعلاء السنن ج ٤٠/١٥)
رشوت اس مال کو کہتے ہیں جو کسی کے حق کو باطل ثابت کرنے کے لئے یا کسی حقدار کے حق کو ثابت کرنے کے لئے دیا جائے۔
علامہ شامی نے رشوت کی بہت جامع تعریف اس طرح کی ہے۔
رشوت وہ ہے جسے ایک شخص کسی حاکم وغیرہ کو اس لئے دیتا ہے، تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کر دے یا اسے وہ ذمہ داری دے دے، جسے یہ چاہتا ہے۔ ( شامی، کتاب القصاء، مطلب فی الکلام علی الرشوة)
وقار الفتاوی میں ہے۔
رشوت کے معنی اپنے مفاد کے لئے یا کسی کی حق تلفی کے لئے رقم دے کر وہ کام کرنا ہے ۔ ملخصا“(وقار الفتاوی،ج ٣١٤/٣ مطبوعہ بزم وقار الدین ، کراچی)
اعلاء السنن میں ہے۔
والحاصل أن حدالرشوۃ ہو ما یؤخذ عما وجب علی الشخص سواء کان واجبا علی العین أو علی الکفایۃ و سواءکان حقا للشرع کما فی القاضی وأمثالہ أو كان واجبا عقدا كمن آجر نفسه لإقامة أمر من الأمور المتعلقة بالمسلمين فيما لهم،أو عليهم كأعوان القاضى ، و أهل الديوان و أمثالهم (اعلاء السنن ج ٦٦٣٥/١٤ کتاب القضاء باب الرشوۃ ، تحقیق معنی الرشوۃ)
اور حاصل یہ ہے کہ وہ کسی سے وہ چیز لے جو اس شخص پر واجب نہیں ہے برابر ہے کہ وجوب عین پر ہو یا کفایہ پر ہو اور برابر ہے کہ وہ حق شرع کیلئے ہو جیساکہ قضا اور اس کے امثال میں ہے یا وہ عقدا واجب ہو جیساکہ کسی نے بذات خود مسلمانوں کے لئے امور متعلقہ میں سے کسی امر کی اقامت کے لئے اجرت کیا تو وہ انہیں لوگوں کے لئے ہے یا انہیں لوگوں پر ہے جیسے قاضی ۔ اہل دیوان اور انہیں کی طرح لوگوں کی مدد کرنا ہے۔
رشوت لینے والے۔ دینے والےاور دلانے والے پر حدیث میں لعنت وارد ہے جیساکہ المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے۔
لعن اللہ الراشی و المرتشی والراش ( المعجم الکبیر للطبرانی/ ١٤١٥ ترمذی ج ٦٦/٣)
رشوت لینے والے ۔ دینے والے اور ان دونوں کے درمیان واسطہ بننے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔
سنن أبی داود میں ہے۔
لعن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم الراشي والمرتشي (ابو داؤد ج ٣٠٠/٣ کتاب الأقضیة، باب في کراهیة الرشوة، رقم الحدیث: ٣٥٨٠ ط: المکتبة العصریة)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے اور لینے والے پر لعنت کی۔
مسند احمد میں ہے۔
لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الراشی والمرتشی والرائش یعنی الذی یمشی بینھما ( مسند احمد من حدیث ثوبان ج ٨٥/٣٧ بحوالہ مؤسسۃ الرسالہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے والے ۔ رشوت دینے والے اور رائش یعنی ان دونوں کے درمیان کوشش کرنے والے ( دلال) پر لعنت کی۔
المستدرک میں ہے۔
لعن اللہ الراشی والمرتشی والرائش الذی یمشی بینھما ( المستدرک علی الصحیحین للامام الحاکم النیسابوری ج ١٠٣/٤
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے والے ۔ رشوت دینے والے اور رائش یعنی ان دونوں کے درمیان کوشش کرنے والے ( دلال) پر لعنت کی۔
کنز العمال میں ہے۔
الراشی والمرتشی کلاھما فی النار ( کنز العمال ج ١١٣/٦ الفصل الثالث فی الہدیۃ و الرشوۃ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)
رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ رشوت لینا۔ دینا اور بیچ میں واسطہ بننا تینوں کام حرام و ناجائز اور موجب گناہ ہے۔
امام شمس الائمہ سرخسی حنفی متوفی ۴۸۳ھ فرماتے ہیں۔
ولو كفل رجل عن رجل بمال على أن يجعل له جعلا فالجعل باطل هكذا روى عن ابراهيم رحمه الله وهذا لانه رشوة والرشوة حرام ( المبسوط للسرخسی ، کتاب الکفالۃ ، باب الکفالۃ بالمال ج ٣٢/٢٠ دارالمعرفۃ بیروت ، طبعۃ : ۱۴۰۹ھ)
کسی نے کسی آدمی کی کفالت مال پر اس شرط پہ کی کہ اس کیلئے کچھ انعام و مزدوری ہوگی،تو یہ مزدوری باطل ہے، امام ابراھیم سے یہی مروی ہے کیونکہ یہ رشوت ہے اور رشوت حرام۔
محقق علی الاطلاق امام احمد رضا خان فاضل بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں۔
رشوت لینا مطلقا حرام ہے جو پرایا حق دبانے کے لئے دیا جائے رشوت ہے یوں ہی جو کچھ اپنا کام بنانے کے لئے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے (فتاوی رضویہ ج ٥٩٧/٢٣)
مزیدمحقق علی الاطلاق امام احمد رضا خان فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں۔
رشوت لینا مطلقا گناہ کبیرہ ہے لینے والا حرام خور ہے مستحق سخت عذاب نار ہے (اور دینا اگر ) اپنا آتا وصول کرنے کو (یعنی محض اپنا کام نکالنے کے لئے)ہو تو حرام ہے اور لینے دینے والے دونوں جہنمی ہیں اور دوسرے کا حق دبانے یا اور کسی طرح کاظلم کرنے کے لئے دے تو سخت تر حرام اور مستحق اشد غضب و انتقام ہے۔
ہندیہ میں ہے۔
فی وصایا الھندیۃ عن فتاوی الإمام قاضیخان إن بذل المال لإستخراج حق لہ علیٰ اٰخر رشوۃ و إن بذل لدفع الظلم عن نفسہ و مالہ لا یکون رشوۃ ( فتاوی رضویہ ج ٤٦٩/١٨ رضا فاؤنڈیشن لاہور بحوالہ فتاوی ہندیہ )
فتاوی ہندیہ کی کتاب الوصایا میں فتاوی امام قاضی خان سے منقول ہےکہ دوسرے پر اپنے حق کو حاصل کرنے کے لئےمال خرچ کرےتو رشوت ہے۔
رشوت لینا تو ہر صورت میں ناجائز وحرام اور موجب گناہ ہےالبتہ بعض حالات و صورت میں رشوت دینا جائز ہے جس کے پیش نظر فقہائے کرام نے رشوت کی چار قسمیں بیان فرمائی ہیں۔
(۱) منصب قضا یا کسی عہدے کے حصول کے لئے رشوت دینا اور اس رشوت کا لینا اور دینا دونوں حرام ہے۔
(۲) کوئی شخص اپنے حق میں فیصلہ کرانے کے لئے قاضی کو رشوت دے یا ووٹ لینے کے لئے ووٹرس کو پیسہ دے یہ رشوت بھی جانبین کے لئے حرام ہے، خواہ وہ فیصلہ حق و انصاف پر مبنی ہو یا نہ ہو، کیوں کہ فیصلہ کرنا قاضی کی ذمہ داری اور اس کا فرض ہے : اور اسی طرح ووٹ ڈالنا اور صحیح کنڈیٹ و امیدوار کا انتخاب کرنا اور اسےووٹ ڈال کر اس کے اچھے ہونے کی شہادت دینا ہر ووٹرس کی ذمہ داری ہے اور اس کا فرض ملکی ہے۔
(۳) اپنی جان اور مال کو ظلم اور ضرر سے بچانے کے لئے رشوت دینا۔ یہ رشوت لینے والے پر حرام ہے، مگر دینے والے پر نہیں۔ اسی طرح اپنے مال کو حاصل کرنے کے لئے بھی رشوت دینا جائزہے، البتہ لینا حرام ہے۔
(۴) کسی شخص کو اس لئے رشوت دینا کہ وہ اس کو بادشاہ یا حاکم تک اس کی بات پہنچا کر اس کا کام بنائے، جب کہ اس کی ضرورت ہو، تو یہ رشوت دینا جائز اور لینا حرام ہے۔
علامہ ابن نجیم حنفی مصری فرماتے ہیں۔
الرشوۃ علی و جوہ ار بعۃ منہا ماہو حرام من الجانبین و ذالک فی موضعین احدہما اذا تقلد القضاء بالرشوۃ حرم علی القاضی والآخذ۔ الثانی اذا دفع الرشوۃ الی القاضی لیقضی لہ حرم من الجانبین، سواء کان القضاء بحق او بغیر حق۔ ومنہما اذا دفع الرشوۃ خوفا علی نفسہ او مالہ حرام علی الآخذ غیر حرام علی الدافع، وکذا اذا طمع فی مالہ فرشاہ ببعض المال ومنہا اذا دفع الرشوۃ لیسوی امرہ عند السلطان حل الدفع ولا یحل للآخذ ان یاخذ‘‘۔ (البحر الرائق شرح کنزالدقائق۔ ج۱۔ص۳۳۷)
رشوت کی چار صورتیں ہیں ان میں سے بعض دونوں طرف سے حرام ہے ( یعنی رشوت لینے والے اور دینے والے دونوں پر حرام ہے ) اور اس کی دوصورت ہے۔
(اول صورت یہ ہے کہ) منصب قضا (یا کسی عہدے) کے حصول کے لئے رشوت دینا اور اس رشوت کا لینا دونوں حرام ہے۔
( دوسری صورت یہ ہے کہ) کوئی شخص اپنے حق میں فیصلہ کرانے کے لئے قاضی کو رشوت دے ( یا ووٹ لینے کے لئے ووٹرس کو پیسہ دے) یہ رشوت بھی جانبین کے لئے حرام ہے، خواہ وہ فیصلہ حق و انصاف پر مبنی ہو یا نہ ہو، کیوں کہ فیصلہ کرنا قاضی کی ذمہ داری اور اس کا فرض ہے : ( اور اسی طرح ووٹ ڈالنا اور صحیح کنڈیٹ و امیدوار کا انتخاب کرنا اور اسے ووٹ ڈال کر اس کے اچھے ہونے کی شہادت دینا ہر ووٹرس کی ذمہ داری اور اس کا فرض ملکی ہے )
(تیسری صورت یہ ہے کہ) اپنی جان اور مال کو ظلم اور ضرر سے بچانے کے لئے رشوت دینا۔ یہ رشوت لینے والے پر حرام ہے، مگر دینے والے پر نہیں۔ اسی طرح اپنے مال کو حاصل کرنے کے لئے بھی رشوت دینا جائز ہے، البتہ لینا حرام ہے۔
( چوتھی صورت یہ ہے کہ ) کسی شخص کو اس لئے رشوت دینا کہ وہ اس کو بادشاہ یا حاکم تک اس کی بات پہنچا کر اس کا کام بنائے، جب کہ اس کی ضرورت ہو، تو یہ رشوت دینا جائز اور لینا حرام ہے۔
الفتاوی الشامیۃ اور فتح میں ہے۔
ثم الرشوۃ أربعۃ أقسام : الرابع : ما یدفع لدفع الخوف من المدفوع إلیہ علی نفسہ أومالہ ،حلال للدافع حرام علی الآخذ،لأن دفع الضرر عن المسلم واجب ( الفتاوی الشامیہ ج٣٣/٨ کتاب القضاء ، مطلب في الکلام علی الرشوۃ والہدیۃ دیوبند۔
پھر رشوت کی چار قسمیں ہیں اور چوتھی قسم یہ ہے کہ اپنی جان اور اپنے مال سے لاحق شدہ خوف کو دور کرنے کے لئے رشوت دے تو دینے والے کے لئےرشوت دینا جائز ہے لیکن رشوت لینے والے پر حرام ہے کیونکہ مسلمانوں سے نقصان کا ختم کرنا مسلمانوں پر واجب ہے۔
الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے۔
ویحرم طلب الرشوۃ وبذلہا وقبولہا کما یحرم عمل الوسیط بین الراشي والمرتشي ، غیر أنہ یجوز للإنسان عندالجمہور أن یدفع رشوۃ للحصول علی حق ، أو لدفع ظلم أو ضرر ، و یکون الإثم علی المرتشي دون الراشي(الموسوعۃ الفقہیہ ج ٢٢٢/٢٢ رشوۃ ، أحکام الرشوۃ)
رشوت مانگنا اس کا خرچ کرنا اور قبول کرنا حرام ہے جیساکہ راشی و مرتشی کے درمیان دلالی کرنے والے کا دلالی کرنا حرام ہے اس کے ماسوا انسان کے لئے اپنے حق کے حصول کے لئے رشوت دینا اور ظلم و ضرر کو دور کرنے کے لئے رشوت دینا جائز ہے مگر رشوت لینے والے پر رشوت لینا حرام اور گناہ ہوگا۔
اس سے واضح ہے کہ رشوت لینا تو ہر صورت میں حرام ہے لیکن رشوت دیناچندصورتوں میں جائز ہے، جیسا کہ : الفتاوی الندیۃ فی الفرق بین الرشوۃ والھدیۃ میں ابن اثیر کا قول منقول ہے۔
أن الرشوة التي يتوصل بها المرء إلى حقه أو لدفع ظلم أو ضرر جائزة عند الجمهور ويكون الإثم على المرتشي دون الراشي؛ ولكن يشترط هنا أن تتعين وسيلة إلى أخذ الحق أو دفع الضرر، فإن أمكن الوصول إلى الحق بدونها أو دفع الضرر بدونها فإنها لا تجوز (الفصل الثالث فی الہدیۃ والرشوۃ، مبطوعہ مؤ سسۃ الرسالۃ بیروت ج ١١٣/٦)
وہ رشوت جس کے ذریعے لوگ اپنے حق کو پاتے ہیں یا ظلم و ضرر کو دور کرتے ہیں وہ رشوت دینا جمہور کے نزدیک جائز ہے لیکن رشوت لینے والا گنہگار ہوگا دینے والا نہیں اور لیکن اس جگہ حق کو پانے یا دفع ضرر وسیلے کا متعین کرنا مشروط ہوگا اگر اس کے بغیر حق کا پانا اور دفع ضرر ممکن ہو تو رشوت دینا جائز نہیں ہوگا۔
ابن اثیر میں ہے۔
قال ابن الأثير: فأما ما يعطى توصلا إلى أخذ حق أو دفع ظلم فغير داخل فيه، وروي أن ابن مسعود أخذ بأرض الحبشة في شيء فأعطى دينارين حتى خلي سبيله، وروي عن جماعة من أئمة التابعين أنهم قالوا: لا بأس أن يصانع الرجل عن نفسه وماله، إذا خاف الظلم. انتهى (ابن اثیر الفصل الثانی ما جاء فی کتاب السنۃ و الفقہ / ۳۴۰-۳۴۱-مرقاۃ ج ٢٩٥/٧ تحفۃ الاحوذی ج ٥٦٥/٤ )
ابن اثیر نے کہا کہ اپنا حق لینے کے لئے یا ظلم کو دور کرنے کے لئے جو کچھ دے وہ رشوت میں داخل نہیں ہے اور وہ اس روایت کی بنیاد پر ہے جو ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حبشہ میں تھوڑی زمین لی گئ اور اس کا راستہ خالی کرنے کے لئے دو دینار دیئے گئے آئمئہ تابعین کی ایک جماعت سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ کسی شخص کا اپنی جان و مال کی حفاظت کے لئے ایسا کرنے میں کوئ حرج نہیں ہے جب کہ ظلم کا خوف ہو۔
أحکام القرآن للجصاص میں ہے۔
و لا خلاف في تحریم الرشا علی الأحکام وأنہا من السحت الذي حرمہ اللہ في کتابہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و وجہ آخر من الرشوۃ وہو الذي یرشو السلطان لدفع ظلمہ عنہ ، فہذہ الرشوۃ محرمۃ علی آخذہا غیر محظورۃ علی معطیہا ، وروی عن جابر بن زید والشعبي قالا : لا بأس بأن یصانع الرجل عن نفسہ ومالہ إذا خاف الظلم ، وعن عطاء وإبراہیم مثلہ۔ ( احکام القرآن للجصاص ج ٥٦١/٢ سورۃ المائدۃ )
احکام رشوت کی حرمت میں کسی کا کوئ اختلاف نہیں ہے کیونکہ وہ سحت میں داخل ہے جس کی حرمت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا اور رشوت کی دوسری صورت یہ ہے کہ دفع ظلم کے لئے بادشاہ کو رشوت دے تو رشوت کی یہ صورت لینے والوں کے لئے حرام ہے دینے والوں کے لئے نہیں اور اس کی اصل جابر ابن زید اور شعبی کی روایت ہے ان دونوں نے کہا کہ کسی کا رشوت دے کر اپنی جان و مال کی حفاظت کرنے میں کوئ حرج نہیں ہے جب کہ ظلم کا خوف ہو اور عطاء و ابراہیم سے اسی کے مثل مروی ہے۔
اعلاء السنن میں ہے۔
الرشوۃ ما یعطی لإبطال حق او لإحقاق حق لیتوصل بہ الی حق اولیدفع بہ عن نفسہ ظلمًا فلا بأس بہ۔ ( إعلاء السنن ج ٤٠/١٥)
رشوت وہ مال ہے جو کسی کے حق باطل کرنے کے لئے یا احقاق حق کے لئے دے تاکہ اس کے ذریعے اپنا حق پالے یا اپنے اوپر سے ظلم اٹھانے کے لئے دے( تو دوسری دوصورت میں ) رشوت دینے میں کوئ حرج نہیں ہے
البحر میں ہے۔
بعد ما ظہر الفساد وتغیر أحوال القضاء والعمال حتی لا یقیموا الحق الا بالرشوۃ فیکون علی ہذا التقدیر مصرہ اسہل لا ثبات حقوقہ۔ اھـ ( البحر الرائق ج ٢٢٩/٤)
اس کے بعد ان امور میں فساد ظاہر ہو اور احوال قضاءواعمال میں تغیر واقع ہو یہاں تک کہ بغیر رشوت دیئے حق کی اقامت ممکن نہ ہو تو اس تقدیر پر اپنے اثبات حقوق کے لئے اس کا دینا سب سے زیادہ آسان ہے ( یعنی رشوت دینا جائز ہے دینے والے پر کوئ گناہ نہیں البتہ لینے والا گنہگار ہوگا)
حاشیہ ابن عابدین میں ہے۔
لو اضطر إلى دفع الرشوة لإحياء حقه جازله الدفع وحرم على القابض (حاشية ابن عابدين ج ٧٢/٥)
اگر اپنے حقوق کے احیاء کے لئے رشوت دینا ضروری ہو تو رشوت دینا اس کے لئے ضروری ہے تو اس کے لئے رشوت دینا جائز ہے لیکن وہ مال قبضہ کرنے والے پر حرام ہے ( یعنی رشوت لینا حرام ہے)
علامہ ابن نجیم لکھتے ہیں۔
الرشوة لخوف علی نفسہ أو مالہ أو لیسوِي أمرہ عند السلطان أو أمیر (ردالمحتار ٣٤٠/٤ بحوالہ جدید فقھی مسائل ٣٠٠/١)
جان یامال پرخوف کی وجہ سے نیزاس لئے کہ سلطان یاامیر کے پاس معاملہ کی صحیح صورت حال رکھے رشوت دینے کی گنجائش ہے یہ ممنوع صورتوں سے مستثنیٰ ہے۔
شرح المجلہ میں ہے۔
إذا دفع الرشوة خوفا على نفسه أوماله، فهو حرام على الآخذ غير حرام على الدافع.(شرح المجلة اللخالد الأتاسي، الكتاب السادس عشرفي القضاء الفصل الثاني، مادة : ١٧٩٦، ج ٤٠/٦)
اپنی جان و مال ( کی ہلاکت) پر خوف کھاتے ہوئے رشوت دے تو وہ رشوت لینے والے پر حرام ہے رشوت دینے والے پر حرام نہیں۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے۔
اما اذا أعطی لیتوصل بہ الی حق او لیدفع بہ عن نفسہ ظلما فلابآس بہ و کذا الاخذ اذا اخذ لیسعی فی اصابۃ صاحب الحق فلا بأس بہ لکن ھذا ینبغی ان یکون فی غیر القضاۃ و الولاۃ لأن السعی فی اصابۃ الحق الی مستحقہ و دفع الظالم عن المظلوم واجب علیھم فلا یجوز لھم الاخذ علیہ ( مرقاۃ المفاتیح کتاب الامارہ و القضاء باب رزق الولاۃ و ھدایاھم الفصل الثانی ج ٢٩٥/٧ دار الکتب العلمیہ )
جب رشوت اپنا حق حاصل کرنے کے لئے دے تاکہ اس کے ذریعے اپنا حق پالے یا اپنے اوپر سے ظلم کو دور کرنے کے لئے رشوت دے تو اس میں کوئ حرج نہیں ہے اور ایسا ہی رشوت لینا بھی ہے جب اہل حق تک حق کو پہنچانے کی کوشش کر نے کے ارادے سے لے تو اس میں بھی کوئ حرج نہیں ہے لیکن اس کا قضاۃ و ولاۃ کے علاوہ میں ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ مستحق تک حق کو پہنچانے کی سعی کرنا اور مظلوم سے ظلم کو دور کرنا ان لوگوں پر واجب ہے تو ان کے لئے اس پر رشوت لینا جائز نہیں ہے۔
مرقاة المفاتیح میں ہے۔
(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهي الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة؛ لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه". (کتاب الأمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهدایاهم، الفصل الثاني،ج:۷ ؍۲۹۵ ،ط:دارالکتب العلمیة)
عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے ( واؤ کے ساتھ) اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راشی و مرتشی پر لعنت کی ہے یعنی رشوت دینے والا اور لینے پر ( یعنی عند الرسول دونوں ملعون ہے ) اور یہ رشوت کے ذریعے حاجت تک پہنچانا ہے اور اس کی اصل رشا ہے جس کے ذریعے پانی تک پہنچا جاتا ہے بعض نے کہا کہ رشوت وہ مال ہے جو کسی کے حق کو باطل کرنےاور باطل کو ثابت کرنے کے لئے دیا جائے لیکن جب اپنا حق پانے کے لئے یا اپنے اوپر سے ظلم کو دور کرنے کے لئے دیا جائے تو اس میں کوئ حرج نہیں ہے اور ایسا ہی رشوت لینا بھی ہے جب اہل حق تک حق کو پہنچانے کی کوشش کر نے کے ارادے سے لے تو اس میں بھی کوئ حرج نہیں ہے لیکن اس کا قضاۃ و ولاۃ کے علاوہ میں ہونا ممکن نہیں ہے اور مستحق تک حق کو پہنچانے کی سعی کرنا اور مظلوم سے ظلم کو دور کرنا ان لوگوں پر واجب ہے تو ان کے لئے اس پر رشوت لینا جائز نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے۔
(قوله: إذا خاف علي دينه) عبارة المجتبي: لمن خاف. وفيه ايضاً: دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسه و ماله و لإستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع اھ". ( شامي، ج ٦ / ٤٢٣، ط: سعيد)
اس کا قول کہ جب اپنے دین ( میں دشواری ) کے بارے میں خائف ہو : مجتبی کی عبارت ( یہ ہے کہ) اس شخص کے لئے ہے جو خائف ہو اور اس میں بھی اپنی جان و مال سے ظلم کو ختم کرنے کے لئے ظالم بادشاہ کو مال دینا اور اپنے کو پانے کے لئے خرچ کرنا رشوت نہیں ہے یعنی یہ رشوت دافع کے حق میں نہیں ہے ( البتہ لینے والے کے حق میں وہ رشوت ہے اور اس کے لئے حرام ہے)
محقق علی الاطلاق فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ۔
(رشوت) دینا اگر بمجبوری اپنے اوپر دفع ظلم کو ہو تو حرج نہیں جیسا کہ فتاوی ہندیہ کی کتاب الوصایا میں فتاوی قاضی خان سے منقول ہے۔
و ان بذل المال لاستخراج حق لہ علی آخر رشوۃ وان بذل لدفع الظلم عن نفسہ و مالہ لا یکون رشوۃ ( فتاوی رضویہ ج ٤٦٩/١٨ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
دوسرے پر اپنے حق کو حاصل کرنے کے لئے مال خرچ کرے تو رشوت ہے اور اگر اپنےپر ہونے والے ظلم یا اپنے مال پر ناجائز دخل کو ختم کرنے کے لئے مال خرچ کرے تو یہ رشوت نہ ہو گی۔
پھر جو شخص رشوت لے کرکسی کا کام حق کےمطابق کرتا ہے وہ رشوت لینے کا گنہگار ہے اور یہ مال اس کے لئےسحت اور حرام ہےاور اگر رشوت کی وجہ سے حق کے خلاف کام کیا، تو یہ دوسرا شدید جرم ہوگا ؛ ایک حق تلفی اور دوسرا حکمِ خداوندی کو بدل دینے کا مرتکب قرار پائے گا۔
بحر الرائق میں ہے۔
ان الفرق بین الہدیۃ والرشوۃ ان الرشوۃ مایعطیہ بشرط ان یعنیہ و الھدیۃ لا شرط معہا ( بحر الرائق ج ٤٤١/٦)
ہدیہ اور رشوت کے مابین فرق یہ ہے کہ رشوت وہ مال ہے جو اس شرط کے ساتھ دیا جائے کہ رشوت لینے والا رشوت دینے والے کی کسی معاملے میں مدد کرے گا اور ہدیہ وہ مال ہے جس کے ساتھ کوئ شرط نہ ہو۔
جب یہ جان لیا کہ بغیر عذر شرعی رشوت دینا لینا دونوں حرام ہے اور یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو مال کسی مقصد کے حصول کے لئے دیا جاتا ہے جو اس کا اپنا حق نہیں ہے تو وہ رشوت ہے اور اس کا لینا دینا دونوں حرام ہے الیکشن کے زمانے میں جو پیسہ امیدوار دیتا ہے اس کی حیثیت بھی رشوت کی ہے اور اس کا دینا اور لینا دونوں حرام ہے۔
ووٹ دینا گواہی دینا ہے ، آپ جس امیدوار کے حق میں ووٹ دیتے ہیں، اس کے بارے میں گواہی دیتے ہیں کہ اس حلقہ کے امیداروں میں اس عہدہ کے لئے یہ شخص سب سے زیادہ موزوں ہے ، اگر کسی شخص نے پیسے لے کر اس شخص کے حق میں ووٹ دیا جس سے پیسہ لیا تھا لیکن وہ شخص اس منصب کے لائق نہیں ہے، تو وہ دوہرےگناہ کا مرتکب ہے (١) ایک تو رشوت لینے کا ، جب کہ رشوت لینے والے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے ، (٢) دوسرے جھوٹی گواہی دینے کا ، کیوں کہ وہ اس شخص کو اس عہدے کے لئے نا مناسب یا کم مناسب خیال کرنے کے باوجود اس کے حق میں ووٹ کا استعمال کر رہا ہے ، اور اس کے ذریعے جھوٹی گواہی دے رہا ہے کہ یہی بہتر ہے اور جھوٹی گواہی دینے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کا ہم درجہ قرار دیا ہے ، اور اگر پیسہ کسی اور سے لیا اور ووٹ کسی اور کو دیا تو اس پر ایک اور جرم دھوکہ دہی کے ارتکاب کا اضافہ ہو جاتا ہے اور یہ بھی شرعا حرام ہے۔
ووٹر کی حیثیت شاہد و گواہ کی ہے کہ وہ صحیح صحیح گواہی دے کہ کون امیدوار ملک و ملت اور سماج کے حق میں بہتر ہے اور شہادت و گواہی دینے کے لئے اجرت لینا جائز نہیں ہے کیونکہ شہادت و گواہی دینا ملک کے ہر باشندے پر لازم ہے اوراس پر عمل کرنا شرعابھی واجب ہے اور امر واجب کی ادائیگی پر پیسہ لینا دینا رشوت ہے جو عند الشرع ناجائز و حرام ہے اور لینے دینے والا حدیث کی روشنی میں ملعون و جہنمی ہے جیساکہ اوپر گزرا عند الجمہور شاہد کے لئے شہادت کے لئے اجرت لینا جائز نہیں ہے جیساکہ الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے۔
الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے۔
ذہب جمہور الفقہاء إلی أنہ : لا یحل للشاہد أخذ الأجرۃ علی أدائہ الشہادۃَ إذا تعیّنت علیہ ، لأن إقامتہا فرض ، قال تعالی : {وأقیموا الشہادۃَ للّٰہ / الطلاق /٢} ( الموسوعۃ الفقہیہ ج ٢٣٧/٢٤ أخذ الأجرۃ علی الشہادۃ)
جمہور فقہاء اس جانب گئے ہیں کہ شاہد کا شہادت دینے کے لئے اجرت لینا جائز و حلال نہیں ہے جب کہ اس کے لئے متعین ہو کیونکہ اس کی اقامت فرض ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے : گواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کے لئے ادا کرو۔
تفسیر کشاف میں ہے۔
وابتغی بہا وجہ اللّٰہ ولم توخذ علیہا رشوۃ وکانت في أمر جائز لا في حد من حدود اللّٰہ ولا في حق من الحقوق (تفسیر کشاف ج ٥٣٢/١)
(شہادت کی ادائیگی کے ذریعے) اللہ تعالیٰ کی رضا ڈھونڈھو اور اس پر رشوت نہ لو اور وہ ( یعنی رشوت لینا)امر جائز میں(جائز) ہے اور ( رشوت لینا ) اللہ کے حدود میں سے کسی حد میں جائز نہیں ہے اور نہ ہی حقوق میں سےکسی حق میں جائز ہے۔
رشوت کے مال پر قبضہ کرنے والا اس مال کا مالک نہیں ہوتا ہے جب اس مال کا مالک نہیں ہے تو وہ مال غیر ہوا اور مال غیر میں تصرف کرنا بھی حرام ہے جیساکہ رد المحتار میں ہے الرشوۃ لا تملک بالقبض ( رد المحتار کتاب الحظر والا باحتہ فصل البیع )
رشوت کے مال پر قبضہ کے بعد بھی قابض مالک نہیں ہوتا ہے۔
خلاصئہ کلام یہ ہے کہ ووٹ ڈالنے کیلئے کسی امیدوار سے پیسہ لینا رشوت ہے اور بلا عذر شرعی رشوت لینا اور رشوت دینا دونوں ناجائز و حرام ہے رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا اور اس کی دلالی کرنے والا سخت گنہگار مستحق عذاب نار ہے فقط واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ الاعظم صلی اللہ علیہ وسلم۔
____________________________
کتبہ : محمد مقصود عالم فرحت ضیائ خلیفئہ حضور تاج الشریعہ و محدث کبیر و خادم فخر ازہر دارالافتاء و القضاء وسرپرست اعلیٰ جماعت رضائے مصطفی ہاسپیٹ وجےنگر وڈو کمپلی بلاری و مدرس حضرت خدیجۃ الکبریٰ جامعۃ البنات ولائ روڈ سنتے پیٹ ہاسن کرناٹک الہند۔
0 Comments