کون مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ ؟

کون مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ ؟

کون مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ ؟
حضور مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کا مختصر تعارف
 (عرس مخدومی پر خصوصی پیشکش) از قلم:-شبیر احمد راج محلی! -------مختصر اجمالی تعارف------------ وہ غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی سامانی نور بخشی قدس سرہ النورانی--------- جن کے خانوادہ نور بخشیہ میں پانچ پشتوں تک مسلسل سلطان ابن سلطان سید ابن سید ولی ابن ولی حافظ ابن حافظ قاری ابن قاری عالم ابن عالم حضرت مخدوم اشرف رضی اللہ عنہ تک ہوتے رہے[صحائف اشرفی حصہ اول ص ١١٩۔ ساتواں صحیفہ۔مرتب اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ ناشر ادارہ فیضان اشرف دارالعلوم محمدیہ ممبئی طباعت ١٤٠٥]جن کی ولادت کی بشارت سرور کائنات،مولائے کل، جان عالم،نبی اکرم ﷺ نے آپ کے والد ماجد علیہ الرحمہ کو عالم خواب میں دی اور اشرف نام بھی عطاء فرمایا[۔خاتمہ مکتوبات اشرفی-بحوالہ۔صحائف اشرفی حصہ اول ص ٦٠ تا ٦١-دوسرا صحیفہ:مرتب اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ ناشر ادارہ فیضان اشرف دارالعلوم محمدیہ ممبئی طابعت ١٤٠٥ھ۔و۔محبوب یزدانی ص ٢٤۔مصنف حضرت سید شاہ نعیم اشرف اشرفی جیلانی جائسی۔ناشر مخدوم اشرف اکیڈمی جائس رائے بریلی یوپی]جو نجیب الطرفین سید ہیں اور جن کی ولادت سے قبل ہی ولادت و ولایت کی خوش خبری آپ کی والد ماجدہ کو حضرت خواجہ احمد یسوی رضی اللہ عنہ نے روحانی اعتبار سے دی[صحائف اشرفی حصہ اول ص ٥٣ صحیفہ اول سے ماخوذ/لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٤١ لطیفہ نمبر ٢٢"اوکھائی پرنٹنگ پریس کراچی پاکستان بار اول ٢٠٠٢ء]جن کی ولایت اور جہانگیریت کا چرچا آپ کی پیدائش سے بہت پہلے سرزمین ہند میں آپ کے جد امجد حضرت شمس الدین نور بخشی رضی اللہ عنہ سے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی چشتی رضی اللہ عنہ نے فرمائی[بحوالہ:-مکتوبات اشرفی صفحہ ٤٢۔مکتوب نمبر ہفتادم بنام شیخ محمد عیسٰی/صحائف اشرفی حصہ اول ص ١٣٤ تا ١٣٥۔/سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی۔دینی۔روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ:صفحہ نمبر ١٢:مقالہ نگار..سید محمد اشرف جیلانی: شعبہ.. کلیہ معارف اسلامیہ جامعہ کراچی: اکتوبر ٢٠٠٣ء]جو مجذوب وقت حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی نظر عنایت ہیں۔[لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٣٣ لطیفہ نمبر ٢٢"] جن کے والد سلطنت سمنان کے بادشاہ، ولی کامل، متقی وقت، پابند و صوم وصلاة،حضرت سید ابراہیم نور بخشی رضی اللہ عنہ ہیں۔[لطائف اشرفی مترجم جلد دوئم ص ٣٢ لطیفہ نمبر ٢٢] جن کی والدہ وقت کی ولیہ،عابدہ،زاہدہ،ساجدہ،متقیہ،قرآن پاک کی قاریہ اور حضرت خواجہ احمد یسوی(رضی اللہ عنہ) کی اولاد میں سے تھیں جن کا نام حضرت سیدہ خدیجہ(رضی اللہ عنہا)ہے[لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٣٢ لطیفہ نمبر ٢٢]جن کی ولادت مبارک(اختلاف روایت کے ساتھ مگر تحقیقی روایت کے مطابق )٧١٢ھ میں بمقام سمنان(خرسان)میں ہوئی(دیکھیں تحقیقی مقالہ۔بنام۔سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی،دینی، روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ'ص ٣٣ بعنوان۔تحقیق سن ولادت و وفات۔مقالہ نگار..سید محمد اشرف جیلانی: شعبہ..کلیہ معارف اسلامیہ جامعہ کراچی:۔اکتوبر ۔٢٠٠٣ء،)جو مادر زاد ولی تھے۔[مرآة الاسرار مترجم۔ص ١٠٤٤۔ناشر ضیاء القرآن پبلیکیشنز گنج بخش روڈ لاہور پاکستان۔اشاعت ١٤١٤ھ محرم الحرام۔مصنف شیخ عبد الرحمٰن چشتی علیہ الرحمہ۔و۔تذکرۃ الانساب ١٨٤ مصنف حضرت سید امام الدین احمد نقوی گلشن آبادی۔اشاعت ٢٠١٦ء۔ناشر رفاعی مشن ناسک]جن کی رسم بسم اللہ خوانی حضرت عماد الدین تبریزی رضی اللہ عنہ نے چار سال چار مہینہ چار دن میں فرمائی۔[صحائف اشرفی حصہ اول ص ٦٥-دوسرا صحیفہ:]جنہوں نے ایک ہی سال کے اندر قرأت سبعہ کے ساتھ قرآن پاک حفظ فرمالیا جب کہ آپ اس وقت صرف ٧ سات سال کے تھے[لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٣٤ لطیفہ نمبر ٢٢ و صحائف اشرفی حصہ اول ص ٦٦؛دوسرا صحیفہ:و۔حیات سید اشرف جہانگیر سمنانی ص ٣٣۔مصنف ڈاکٹر سید وحید اشرف۔مطبع سرفراز قومی پریس لکھنؤ]جنہوں نے صرف ١٤ چودہ سال کی عمر میں مروجہ علوم و فنون کی تکمیل فرمایا اور دور طالب علمی ہی میں جن کے علم کا چرچا عراق کے جامعات و شہروں میں ہونے لگا اور جو دور طالب علمی ہی میں دینی مسائل کے مشکلات کو دلائل کے ساتھ حل فرما دیا کرتے تھے[لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٣٤ تا ٣٥ لطیفہ نمبر ٢٢]جو والد محترم کے وصال کے بعد سلطنت سمنان کے بادشاہ بنے جب کہ آپ اس وقت صرف ١٥سال کے تھے[صحائف اشرفی حصہ اول ص ٦٦-دوسرا صحیفہ]جنہوں نے پندرہ سال کی عمر سے پچیس سال کی عمر تک یعنی دس سال شان و شوکت کے ساتھ سلطان سمنان بن کر حکمرانی کی اور عدل وانصاف کی وہ مثال قائم فرمائی کہ ہر چہار جانب آپ کے عدل انصاف کے چرچے ہونے لگے۔[لطائف اشرفی جلد دوئم ص ٣٥ تا ٣٨ لطیفہ نمبر ٢٢۔و۔صحائف اشرفی حصہ اول ص ٧١۔تیسرا صحیفہ۔و۔تحقیقی مقالہ۔بنام۔سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی۔دینی۔روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ:ص ٤٣ بعنوان بحیثیت ایک عادل حکمراں]جو بادشاہ وقت ہوکر بھی ایک وقت کی فرض نماز تو دور کی بات سنت ونوافل تک ترک نہ فرمائی[صحائف اشرفی حصہ اول ص ٧٠۔تیسرا صحیفہ]جن کی عالم رویا میں حضرت خضر علیہ السلام سے بار بار ملاقات ہوتی رہیں اور جنہوں نے دنیاوی،سلطنت، تخت وتاج کو چھوڑ کر روحانیت کی سلطنت کو ترجیح دی اور فقیری اختیار فرمالی۔[لطائف اشرفی جلد دوئم ص ٣٨؛لطیفہ نمبر ٢٢]جو اپنے پیر ومرشد حضرت علاء الحق والدین گنج نبات چشتی رضی اللہ عنہ کے دست حق پرست پر بیعت ہونے کے لیے (ملک ایران کے شہر)سمنان سے چل کر شہر بخارا دیتے ہوئے پھر اوچہ شریف میں حضرت مخدوم جہانیاں قدس سرہ العزیز--(حضرت مخدوم جلال الدین بخاری علیہ الرحمہ)--سے ملاقات کرتے ہوئے ملک ہند کے شہر دہلی تشریف لائے اور مزار حضرت قطب الدین بختیار کاکی چشتی رضی اللہ عنہ و حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی چشتی رضی اللہ عنہ میں حاضری دے کر فیوض و برکات حاصل کرتے ہوئے صوبہ بہار کی طرف سے صوبہ بنگال کے شہر پنڈوا تک تشریف لاکر بیعت ہوئے جب کہ اس وقت آپ کی عمر شریف ستائیس سال کی تھی[لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٣٨ تا ٤٨ لطیفہ نمبر ٢٢۔و۔صحائف اشرفی حصہ دوم ص ٥٣ گیارہواں صحیفہ'و'تحقیقی مقالہ۔بنام۔سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی۔دینی۔روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ'ص ٦١ تا ٦٤۔بعنوان۔ہندوستان میں ورود](یعنی آپ کا سمنان سے بنگال تک کا سفر اول دو سال میں طے ہوا کیوں کہ جب سمناں سے چلے تو پچیس سال کی عمر تھی اور بیعت ہوئے تو ستائیس کی عمر تھی نتجیہ دو سال نکلتا ہے اور دو سال کا ذکر"تحقیقی مقالہ۔بنام:سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی، دینی، روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ' کے ص ٧٠ میں بھی موجود ہے)جن کی آمد کی خبر آپ کے پیر ومرشد کو حضرت خضر علیہ السلام نے ٧٠ ستّر بار دی۔اور جب آپ کی آمد کی خبر آپ کے پیر ومرشد کو ہوئی تو آپ کو لانے کے لیے اور آپ سے ملاقات کے لیے آپ کے استقبال کے لیے خود آپ کے پیر ومرشد خانقاہ پنڈوا شریف سے باہر مریدوں کی جماعت لے کر نکلے۔[لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٤٨ تا ٥٠ لطیفہ نمبر ٢٢]جو اپنے پیر ومرشد کے صرف مرید ہی نہیں بلکہ مراد بھی ہیں۔مرید ایسے کہ اپنے پیر ومرشد کی کئی سالوں تک خدمت کی سفر وحضر میں ساتھ رہے۔مراد ایسے کہ جن کے لیے لقب جہانگیری آپ کے پیر ومرشد کو اللہ عزوجل نے غیبی طور پر عطاء کی[لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٥٩ لطیفہ نمبر ٢٢] جو اپنے پیر ومرشد کے عشق میں فنا فی الشیخ ہوگئے اور ادب و احترام کا عالم یہ ہوا کہ بیعت کے دن سے لےکر سفر آخرت تک کبھی اپنے مرشد گرامی کے شہر پنڈوا شریف کی طرف نہ پاو(پیر)پھیلایا اور نہ کبھی شہر مرشد کی طرف منھ کرکے تھوکا[صحائف اشرفی حصہ اول ص ١٤٣۔و۔محبوب یزدانی ص٤٠۔مصنف حضرت سید شاہ نعیم اشرف اشرفی جیلانی جائسی۔ناشر مخدوم اشرف اکیڈمی جائس رائے بریلی یوپی]جنہوں نے وصیت کے مطابق وقت کے ولی کامل، مخدوم وقت،مخدوم بہاری حضرت شرف الدین یحیی منیری فردوسی رضی اللہ عنہ کی نمازے جنازہ پڑھائی[لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٤٥ تا ٤٧ لطیفہ نمبر ٢٢]جو مقام غوثیت و محبوبیت پر فائز ہوئے اسی سبب آپ رضی اللہ عنہ غوث العالم اور محبوب یزدانی بھی ہیں۔[صحائف اشرفی حصہ اول ص ١٢١ تا ١٢٢ اور ص ١٤٠] جن کا مقام یہ کہ جن کی شفارش پر شہزادہ حضور علاؤ الحق پنڈوی حضرت شیخ نور قطب عالم پنڈوی علیہ الرحمہ مقام قطبیت پر فائز ہوئے۔[صحائف اشرفی حصہ اول ص ١٣٦ تا ١٣٦] جن کو ١٤ چودہ سلاسل کی(خصوصی)خلافت و اجازت حاصل تھی۔[مرآة الاسرار مترجم۔ص ١٠٤٤۔ناشر ضیاء القرآن پبلیکیشنز گنج بخش روڈ لاہور پاکستان۔اشاعت ١٤١٤ھ محرم الحرام۔مصنف شیخ عبد الرحمٰن چشتی علیہ الرحمہ] جنہوں نے پورے تیس سال تک پوری دنیا کی سیر کی[صحائف اشرفی حص اول ص ١٥٢:و" تذکرۃ الانساب ١٨٤ مصنف حضرت سید امام الدین احمد نقوی گلشن آبادی۔اشاعت ٢٠١٦ء۔ناشر رفاعی مشن ناسک] جن کو ایک سو چودہ بزرگوں سے نعمتیں ملی(یعنی ان بزرگوں میں سے کچھ سے اجازت و خلافت کچھ سے اذکار و وضائف کی اجازت خاصہ اور کچھ سے تبرکات خاصہ وغیرہ اور فیوض و برکات جیسی عظیم نعمتیں ملی)[لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٢٥٤ لطیفہ نمبر ٢٥] جن پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عنایت ایسی کہ جب آپ رضی اللہ عنہ مدینہ شریف حاضر ہوئے تو عالم خواب میں زیارت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف ہوئے۔[صحائف اشرفی حصہ دوم ص ١٢٨ تیرہواں صحیفہ]جن کی علم دوستی کا عالم یہ کہ جب آپ رضی اللہ عنہ حج بیت اللہ کے لیے مکہ شریف پہنچے تو بہت سے علماء و مشائخین سے ملاقات فرمائی اور امام عبد اللہ یافعی رضی اللہ عنہ سے بھی ملاقات کی جن سے آپ کو سند حدیث بھی حاصل ہوئی۔[صحائف اشرفی حصہ اول ص ١١٤۔ساتواں صحیفہ]جنہوں نے اپنی تبلیغ سے لاکھوں کی تعداد میں غیر مسلموں کو مسلمان بنایا۔[تحقیقی مقالہ۔بنام۔سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی۔دینی۔روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ'ص ٩٨] جنہوں نے سرزمین بنارس میں پتھر کی مورتی سے پجاریوں کے سامنے مذہب اسلام کی حقانیت پر شہادت دلوائی جس کے بعد ایک نہیں بلکہ ایک ہزار غیر مسلم اسی وقت کلمہ پڑھ کر دامن اسلام سے وابستہ ہو گئے[صحائف اشرفی حصہ اول ص ٢٦٩ تا ٢٧٠"و" مرآة الاسرار مترجم۔ص ١٠٥٤]جس نے مردے تک کو قم باذن اللہ کی صدا سے زندہ فرمایا[صحائف اشرفی حصہ اول ص ٢٣٩]جن کی صحبت میں رہ کر انسان تو انسان جانور بھی مسجد کا ادب سیکھ جاتے ہیں[لطائف اشرفی جلد دوئم مترجم ص ٦٦ لطیفہ نمبر ٢٢]۔جن کی صحبت سے کچھوچھہ مقدسہ کا صرف کمال راوت جوگی ہی فیض یاب نہیں ہوا بلکہ جوگی کمال راوت کی بلی بھی کمال کی ہوگئی اور خانقاہ مخدومی میں آنے والے مہمانوں کی تعداد بتانے لگی ساتھ خانقاہ مخدومی کی جاروب کشی بھی کرتی رہی[صحائف اشرفی حصہ اول ص ٢٣٤ تا ٢٣٥۔محبوب یزدانی ص ١١٠۔مصنف حضرت سید شاہ نعیم اشرف اشرفی جیلانی جائسی۔ناشر مخدوم اشرف اکیڈمی جائس رائے بریلی یوپی] جن کی محبوبیت کا عالم یہ کہ آپ کے مریدوں کی بخشش کا وعدہ اللہ عزوجل نے غیبی طور پر فرمالیا ہے۔تبھی مجدد سلسلہ اشرفیہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:- مریدوں کی قیامت میں رہائی نار دوزخ سے کریں گے اشرف سمناں حمایت ہو تو ایسی ہو۔ [صحائف اشرفی حصہ اول ص ٢٥٤]جو صرف ایک صوفی بزرگ ہی نہیں بلکہ ساتویں صدی کے مجدد اعظم بھی ہیں[صحائف اشرفی حصہ اول ص ١١٥-ساتواں صحیفہ] جنہوں نے فارسی زبان میں خط نستعلیق پر ٧٢٧ھ میں قرآن پاک کا بہترین اور عمدہ ترجمہ فرمایا(اور اس فارسی ترجمہ کو ادرد ترجمہ کی شکل حضور شیخ اعظم علامہ سید اظہار اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ کے مرید و خلیفہ علامہ سید ممتاز اشرفی صدر المدرسین و شیخ الحدیث دارالعلوم اشرفیہ رضویہ اورنگی ٹاؤن کراچی پاکستان نے دیا ہے اور ساتھ تفسیر کا اضافہ بھی فرمایا اور مکمل نام رکھا ہے اشرف البیان مع اظہار العرفان جس کو مخدوم اشرف اکیڈمی لان سیکٹر ١٤ اورنگی ٹاؤن کراچی پاکستان نے شائع کیا)جنہوں نے ایک نہیں بلکہ کثرت کے ساتھ کتابیں عربی و فارسی اور دیگر زبانوں میں تصنف فرمائی جو کہ فن تفسیر،فقہ، اصول فقہ،تصوف،علم نحو،علم،صرف،علم عقائد، علم الانساب وغیرہ علوم پر مشتمل ہے تبھی اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:- دکھایا جوہر علمی لیاقت اس کو کہتے ہیں ہوئی تصنیف ہر فن میں بلاغت اس کو کہتے ہیں [صحائف اشرفی حصہ اول ص ١١٦ تا ١١٩]جنہوں نے تفضیلت و رافضیت اور ناصبیت سے لوگوں کو بچانے کے لیے خلفائے راشدین یعنی:-حضرت ابو بکر صدیق وعمر،و عثمان،اور مولیٰ علی۔(رضی اللہ عنہم اجمعین)کی فضیلت پر عقائد اہل سنت وجماعت کے مطابق کتاب تصنیف فرمائی اور فضائل مولیٰ علی رضی اللہ عنہ میں زیادہ صفحات لکھے۔[صحائف اشرفی حصہ اول ص ١١٧ و ص ٢٢٩]جنہوں نے آخری وقت میں اپنے سارے اصحاب(مریدوں اور خلفا)کو نصیحت کی کہ سید اشرف سمنانی کا عقیدہ ہے کہ اصحاب رسول ﷺ میں سب سے افضل و اعلیٰ حضرت صدیق اکبر ہیں پھر حضرت عمر پھر حضرت عثمان پھر مولیٰ علی(رضی اللہ عنہم اجمعین)ہیں اور یہ بھی فرمادیا کہ جو اس عقیدہ پر نہیں وہ گمراہ و بدمذہب ہے اور ایسوں سے سید اشرف بیزار ہے[ماخوذ از:-رسالہ۔پیغام اشرف۔صفحہ نمبر ٧٦ تا ٨٩۔ناشر مخدوم اشرف اکیڈمی کچھوچہ شریف]جن کو اللہ عزوجل نے خدمت خلق و مخلوق کی ہدایت و رہبری کےلئے لگ بھگ ١٢٠ ایک سو بیس سال کی عمر شریف عطاء فرمائی۔[تحقیقی مقالہ۔بنام۔سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی۔دینی۔روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ'ص ٣٣ بعنوان۔تحقیق سن ولادت و وفات۔و ص ٩٥ مقالہ نگار..سید محمد اشرف جیلانی: شعبہ..کلیہ معارف اسلامیہ جامعہ کراچی:۔اکتوبر ۔٢٠٠٣ء،]جنہوں نے اس دار فانی کو محرم الحرام کی ٢٨ تاریخ(اور اختلاف روایت کے ساتھ مگر تحقیقی روایت کے مطابق ) سن٨٣٢ھ میں خیرآباد فرمایا[تحقیقی مقالہ۔بنام۔سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی۔دینی۔روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ:ص ٤۔مقدمہ و ص ٣٣ بعنوان۔تحقیق سن ولادت و وفات۔و ص ٩٥ مقالہ نگار سید محمد اشرف جیلانی، شعبہ کلیہ معارف اسلامیہ جامعہ کراچی اکتوبر ٢٠٠٣ء]جن کا مزار شریف کچھوچھہ شریف، یوپی، ہند میں مرجع الخلائق بنا ہوا ہے جن کی ذات بعد وصال آج بھی مرکز عقیدت بنی ہوئی ہے جن کے مزار پاک سے فیض کا دریا جاری ہونے کی شہادت بلکہ آپ کے نام پاک "اشرف" کی تاثیر کی گواہی محقق علی الاطلاق حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رضی اللہ عنہ اپنی کتاب اخبارالاخیار میں دیتے ہیں[دیکھییےاخبار الاخیار مترجم ص ٣٥٨۔طبقہ سوم۔ناشر مدینہ پبلشنگ کمپنی بندر روڈ کراچی پاکستان] جن کے مزار پاک کی زیارت کے لیے مصنف "مرآة الاسرار" حضرت شیخ عبد الرحمٰن چشتی رضی اللہ عنہ کو عالم رویا میں حضرت غریب نواز چشتی رضی اللہ عنہ تلقین فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ اے عبد الرحمٰن! اگر واقعی تم کو رجال الغیب اور حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کا شوق ہے تو سید اشرف سمنانی کی بارگاہ میں جاو۔[مرآة الاسرار مترجم۔ص ١٠٥٦] جن کے خلفاء عظام کی تعداد کثرت میں ہیں اور آپ ہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آپ کے خلفاے کرام نے عالم دنیا میں پھیل کر تبلیغ اسلام فرمایا جس سبب آج پوری دنیا میں سلسلہ چشتیہ اشرفیت کا بول بالا ہے اور چھ سو سال سے مسلسل آج بھی حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کی روحانی اور آپ کے جانشین و خلیفہ حضرت سید عبد الرزاق المعروف نور العین ابن سید عبد الغفور جیلانی(رضی للہ عنہما) کی اصلی اولادیں پوری دنیا میں پھیل کر تقریراً و تحریراً تبلیغ اسلام کرنے میں رات و دن مصروف عمل ہیں ۔تبھی ہر اشرفی کہتا ہے:- اشرفی ناز کر تو اپنے اشرف پر کون پاتا ہے خاندان ایسا [ماخوذات از۔ لطائف اشرفی یعنی ملفوظات سید اشرف جہانگیر سمنانی۔/صحائف اشرفی از قلم سید علی حسین اشرفی میاں۔/مرآة الاسرار از قلم شیخ عبد الرحمٰن چشتی۔/ رسالہ پیغام اشرف کچھوچہ شریف۔/ تحقیقی مقالہ سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی۔دینی۔روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ::مقالہ نگار..سید محمد اشرف جیلانی: شعبہ.. کلیہ معارف اسلامیہ جامعہ کراچی: ۔اکتوبر ۔٢٠٠٣ء] ہند میں مخدوم اشرف کی ولایت کا چرچا قبل ولادت- حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی چشتی رضی اللہ عنہ نے سرزمین ہند میں حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کی ولایت کا چرچا آپ کی ولادت سے بہت پہلے فرمایا دیا تھا چناں چہ حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ:-میرے جد امجد حضرت سید شمس الدین محمود نور بخشی رضی اللہ عنہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اوشی چشتی علیہ الرحمۃ کے زمانے میں ہندوستان کی سیر کو تشریف لائے اور سلطان شمس الدین التمش رضی اللہ عنہ کے گھر مہمان ہوئے سلطان موصوف(حضرت شمس الدین التمش رضی اللہ عنہ) جو قطب صاحب(حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی چشتی رضی اللہ عنہ) کے مرید و خلیفہ تھے ان سے تعریف کی کہ میرے گھر ایک مہمان سید عالی خاندان ملک ایران کے رہنے والے تشریف لائے ہیں وہ مرتبہ ولایت کے نقباء کے درجے کو پہنچے ہوئے ہیں قطب صاحب (حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی چشتی رضی اللہ عنہ) نے فرمایا ایسے مہمان عظیم الشان کو تم اپنے گھر میں ٹھرا لیا ان کو ہمارے گھر ٹھرانا چاہیئے تھا میں ان کو خواجگان چشت سے سمجھتا ہوں دوسرے دن حضرت شمس الدین محمود(نور بخشی رضی اللہ عنہ)حضرت قطب الدین( حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی چشتی رضی اللہ عنہ) کے گھر مہمان ہوئے حضرت قطب صاحب(حضرت قطب الدین بختیار کاکی چشتی رضی اللہ عنہ) ان(حضرت شمس الدین نور بخشی رضی اللہ عنہ) سے فرمایا کہ میں آپ کو خوش خبری سناتا ہوں کہ آپ کی اولاد میں ایک ایسا نادر الوجود شخص ہوگا جو رتبہ جہانگیری پر فائز ہوگا اور میرے سلسلے کو جاری کریگا (ضروری نوٹ!آگے مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہے کہ:-یہ خیال نہ کیاجائے کہ اس سے اپنی کسی بزرگی کا اظہار مقصود ہے بلکہ بتقضائے وَ اَمَّا بنععمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ یہ کلمات ذکر کئے ہیں- [بحوالہ مکتوبات اشرفی صفحہ ٤٢ مکتوب نمبر ہفتادم بنام شیخ محمد عیسی /بحوالہ۔سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی۔دینی۔روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ:صفحہ نمبر ١٢:مقالہ نگار..سید محمد اشرف جیلانی: شعبہ.. کلیہ معارف اسلامیہ جامعہ کراچی: اکتوبر ٢٠٠٣ء] مخدوم اشرف رضی اللہ عنہ اور مرشد کا ادب۔ حضرت مخدوم سید اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ اپنے پیر مرشد حضرت علاء الحق والدین گنج نبات چشتی رضی اللہ عنہ کا ادب واحترام تعظیم وتکریم اس طرح کرتے تھے کہ جس کی مثال بہت کم ملتی ہے چناں چہ حضرت مخدوم سید اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ اپنے پیر و مرشد کا ادب و احترام کس قدر کرتے تھے اس کا انداذہ اس بات سے لگائیں کہ:-حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ جب سے اپنے پیر و مرشد حضرت علاءالحق والدین گنج نبات چشتی رضی اللہ عنہ کے دست حق پرست پر جب سے بیعت ہوئے تب لے کر سفر اخرت تک کبھی بھی حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ نے پنڈوا شریف کی طرف پاو[پیر]نہیں پھیلائے اور نہ کبھی اس طرف تھوکتے تھے [بحوالہ۔پیغام اشرف صفحہ نمبر ٢٦۔ناشر مخدوم اشرف اکیڈمی کچھوچہ شریف] پیغام!حضرات محترم غور کریں جب شہر مرشد کے ادب کا عالم یہ ہےتو خانقاہ مرشد کے ادب واحترام کا عالم کیا ہوگا اور پھر ذات مرشد کی تعظیم وتکریم کا عالم کیا ہوگا لیکن آج ہمارا حال تو یہ ہے کہ نہ ہمیں شہر مرشد کے ادب و احترام کا خیال ہے نہ خانقاہ مرشد کے ادب واحترام کا خیال ہے حد تو یہ ہے کہ آج ہم اپنے پیر و مرشد تک کی تعظیم وتکریم صحیح سے بجا نہیں لاتے بلکہ آج تو ہم مریدوں کا نظریہ یہ ہے کہ مرشد کی خانقاہ میں میرا ادب واحترام کتنا کیا جاتا ہے پیر ومرشد مجھے کتنی عزت و احترام دیتے ہیں اگر آج بھی ہم سب مریدین حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ کی سیرت کو اپناتے ہوئے فنا فی الشیخ ہو جائیں تو آج بھی مرید اپنے مرشد کا صرف مرید نہیں بلکہ مراد ہوجائے۔ مخدوم سید اشرف جہانگیر رضی اللہ عنہ کی نگاہ ولایت۔ ہر اشرفی کو سید مخدوم اشرف کی ذات پر ناز ہے اور کیوں نہ ہو! جب کہ اشرفیوں کا اشرف بھی لاجواب ہے اور حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ کی نظر عنایت کی برکت و عطاء سے ہر اشرفی بھی لاجواب ہے مندرجہ ذیل عبارت سے سید مخدوم اشرف کی نگاہ ولایت اور مریدین مخدوم اشرف کے لیے بشارت عظیمہ بھی ملاحظہ کریں! چناں چہ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:-میں کسی شخص کو اس وقت تک مرید نہیں کرتا جب تک کہ لوح محفوظ میں اس کا نام اپنے مریدین اور مغفورین کی فہرست میں نہیں دیکھ لیتا ہوں۔[بحوالہ۔پیغام اشرف صفحہ نمبر ٣٢تا٣٣۔ناشر مخدوم اشرف اکیڈمی کچھوچھہ شریف] مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ اور چار خاص نعمتیں۔ یوں تو حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی قدس سرہ کو اللہ عزوجل نے بہت ساری نعمتیں عطاء کی جن کو تحریر میں شمار کرنا اور زبان سے بیان کرنا ممکن نہیں اور ممکن ہو بھی کیسے جب ایک عام بندے کو اللہ عزوجل نے کتنی نعمتیں عطاء کی ہے اس کا بیان کرنا ممکن نہیں تو مخدوم اشرف سمنانی چشتی قدس سرہ تو اللہ کے خاص بندے ہیں ایسے خاص بندے کہ اللہ کی عطاء سے مقام غوثیت اور محبوبیت بھی حاصل ہے لیکن اللہ رب العزت نے حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی کو چار ایسی خاص نعمتیں عطاء فرمائی کہ ان چار خاص نعمتوں پر خود حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کو دنیا میں بھی ناز تھا اور آخرت میں بھی ناز ہوگا وہ چار نعمتیں کون کون سی ہیں؟ملاحظہ کریں!خود حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کی زبانی فرماتے ہیں کہ :-ایک شب غیب سے فقیر کو الہام ہوا کہ اے اشرف! دنیا میں سب سے بڑھ کر تم کو کون نعمت ہم نے دی؟میں نے عرض کیا کہ الٰہی کچھ نعمتیں بے حد تونے مجھ کو عطاء کیا ہے لیکن شکرانہ چار نعمتوں کا ادا نہیں کر سکتا اور قیامت کے دن بھی انہیں چار نعمتوں پر مجھ کو فخر ہوگا(ان شااللہ تعالیٰ )ایک(١)تو یہ کہ مجھ کو اپنے حبیب محمد مصطفی ﷺ کی اولاد میں پیدا کیا۔دوسرا(٢)یہ کہ شرف ملازمت اور حصول ارادت و بیعت حضرت شیخ علاء الحق والدین سے مجھ کو مشرف فرمایا۔تیسرا(٣)یہ کہ مجھ کو دولت معرفت اور وجدان نصیب کیا۔اور چوتھی(٤)یہ کہ دو موتی دریا حقائق اور جوہر کان وفائق سے مجھ کو نصیب کئے دو گوہر (ایک) فرزند نور العین(سید عبد الرزاق ابن سید عبد الغفور جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہما)(اور دوسرے)شیخ الکبیر العباس(چشتی رضی اللہ عنہ)-؛ [بحوالہ۔صحائف اشرفی۔جلد دوم۔صفحہ نمبر ٦٩۔ناشر۔ادراہ فیضان اشرف دارالعلوم محمدیہ مینارہ مسجد ممبئی] مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی کی آخری نصیحت۔ جب حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ کے وصال شریف کا دن قریب آیا ماہ محرم الحرام کا تھا ایک محرم الحرام سے لے کر دس محرم الحرام تک حضرت مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ اپنے اصحاب کےساتھ مل کر خانقاہ میں قرآن پاک کی تلاوت مع قرأت کے کرتے رہے اُنہی ایام میں اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا کہ:-میری قبر باغ کے درمیان بناؤ اور(قبر کی)طول وعرض اتنا ہوکہ(قبر میں)نماز پڑھی جاسکے حکم کے مطابق مرقد مبارک تیار کیا گیا پھر حضرت مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ خود ہی مرقد کے معائنہ کے لیے تشریف لے گئے پھر اُنہی ایام میں اپنے جملہ اصحاب اور خصوصاً اپنے سجادہ نشین حضرت مخدوم الآفاق سید عبد الرزاق ابن سید عبد الغفور[رضی اللہ عنہما] المعروف حضرت نور العین رضی اللہ عنہ کو صبر و استقامت کی تلقین فرماتے رہے پھر ایک دن حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ چند ورق سادہ کاغذ کا لے کر اس مرقد مبارک پر تشریف لے گئے جو کہ آپ ہی کے ارشاد کے مطابق آپ ہی کے لیے بنایا گیا تھا چناں چہ مکمل ایک رات دن اس بنائے گئے مرقد مبارک کے اندر حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ نے وقت گذارا اور وہی بنائے گئے مرقد مبارک کے اندر ان سادھے کاغذوں پر یہ نصیحت نامہ(جس میں فرقہ تفضیلت کا رد بلیغ بھی ہے اور مریدین سلسلہ اشرفیہ کے لیے بشارت عظمہ بھی ہے اور مستقبل میں کوئی اشرفی تفضیلی فرقہ کا عقیدہ اپنالیں تو اس سے برائت کا اظہار بھی ہے)تحریر فرماکر باہر تشریف لائے جس نصیحت نامہ میں حمد و نعت کے بعد یہ تحریر تھا کہ:-میرے برادان احباب اور اصحاب کو معلوم ہو کہ میں اللہ(عزوجل)اور اس کے رسول(ﷺ) پر ایمان رکھتا ہوں اور اسلام کے احکام کا پابند ہوں میرا (سید اشرف کا)عقیدہ ہے کہ حضرت مُحَمَّد ﷺ کے سب اصحاب(تمام صحابہ کرام)(رضی اللہ عنہم اجمعین)مسلمین و تابعین سے افضل تھے اور اصحاب(یعنی اصحاب مُحَمَّد ﷺ)میں افضل واعلیٰ ابو بکر(رضی اللہ عنہ)ہیں اُن کے بعد عمر، پھر عثمان، پھر مولیٰ علی۔(رضی اللہ عنہم اجمعین)میرے فرزندوں اور معتقدوں کو معلوم ہوکہ میرا(سید اشرف کا) یہی عقیدہ تھا۔یہی ہے۔اور یہی ابد تک رہے گا۔جس شخص کا یہ اعتقاد نہ ہووہ گمراہ اور زندیق ہے میں(سید اشرف سمنانی)اس سے بیزار ہوں اور خدا اس سے راضی نہیں۔(اور یہ بھی جان لو کہ)حق سبحانہ کی تجلی ستر ہزار بار اس فقیر پر ہوئی اور اس قدر نوازش اور مرحمت ہوئی کہ تحریر میں نہیں آسکتی۔عالم ملکوت سے ندا آئی کہ اشرف ہمارامحبوب ہے۔اس کے سب مریدوں کے گناہ ہم نے معاف کئے اور اُن کو اشرف کے طفیل میں بخشا۔یہ آخری بشارت میں(سید اشرف سمنانی) سب بھائیوں اور دوستوں کو پہنچاتا ہوں۔ (ماخوذ از رسالہ۔پیغام اشرف۔صفحہ نمبر ٧٦ تا ٨٩۔ناشر مخدوم اشرف اکیڈمی کچھوچہ شریف) مخدوم اشرف کا عقیدہ دربابت فضیلت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ماقبل میں رسالہ پیغام اشرف کے حوالے سے جو نصیحت نامہ پیش ہوا اس میں بھی یہ عقیدہ موجود ہے کہ حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی قدس سرہ النورانی حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے افضل مانتے ہیں اس سلسلہ میں دوسرا حوالہ بھی ملاحظہ کریں چوں کہ حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی قدس سرہ سلسلہ چشتیہ نظامیہ سراجیہ کے عظیم بزرگ ہیں وقت کے غوث العالم ہیں ساتویں صدی کے مجدد اعظم ہیں اس سبب سلسلہ چشتیہ بالخصوص سلسلہ چشتیہ نظامیہ سراجیہ اشرفیہ کے جملہ مشا ئخین ومعتقدین و مریدین کو بھی اسی عقیدہ حقہ پر کاربند رہنا چاہیے چناں چہ حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ اپنے "رسالہ قبریہ"میں لکھتے ہیں کہ:-و نعتقدُ بفضلِ اصحابہ و احق الخلافة ابو بکر بن قحافةَ سائر المسلمینَ والتابعینَ ثم افضل من اصحابہ و احق الخلافةِ عمر ثم عثمان ثم علی =رضی اللہ عنہم اجمعین=)اب اس عبارت کا ترجمہ بھی سلسلہ اشرفیہ چشتیہ کے عظیم بزرگ عالم ربانی ہم شبیہ غوث جیلانی حضرت سید علی حسین اشرفی میاں المعروف اعلٰی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ سے ملاحظہ کریں وہ اپنی مشہور زمانہ کتاب صحائف اشرفی میں رسالہ قبریہ کی عبارت نقل کرنے کے بعد ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ:-اور اعتقاد رکھتا ہوں فضیلت اصحاب رسول پر اور مستحق زیادہ خلافت میں ابو بکر بن قحافہ تمام مسلمان اور تابعین پر پھر ان کے بعد افضل اور زیادہ مستحق خلافت عمر ہیں پھر عثمان پھر علی(راضی ہوا اللہ تعالٰی ان سب سے) پیغام!معلوم ہوا کہ افضلیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا عقیدہ رکھنا اہل سنت و جماعت کی پہچان ہے کیوں کہ حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ نے اسی رسالہ قبریہ میں نصیحت کرتے ہوئے ایک بہت ہی اہم بات لکھی ہیں جو کے ماقبل میں "پیغام اشرف" رسالہ کے حوالے سے نصیحت نامہ کے عنوان میں گذرا وہی بات حضرت سید علی حسین اشرفی میاں علیہ الرحمہ نے صحائف اشرفی میں بھی نقل کیا ہے چناں چہ حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ کے فرمان عالی شان کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-جو شخص اس پر(یعنی افضلیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا عقیدہ جو ماقبل میں مذکورہ ہوا)اعتقاد نہ رکھے گمراہ ہے اور جھوٹا ہے میں اس سے بیزار ہوں اور خدا عزوجل اس سے راضی نہیں) [بحوالہ۔صحائف اشرفی حصہ دوم صفحہ ١٣٩ تا ا٤٠.ناشر ادراہ فیضان اشرف سنی دارالعلوم محمدیہ منارہ مسجد محمد علی روڈ ممبئی] پیغام! بقول حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ کے جو شخص افضلیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قائل نہیں وہ گمراہ ہے جھوٹا ہے.ایسے گمراہ و جھوٹے آدمی سے حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ بیزار ہیں اور ایسے شخص سے اللہ عزوجل راضی نہیں ہے) اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت مخدوم پاک رضی اللہ عنہ کی ان تعلیمات پر سختی سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔ قصدیہ شریف درشان مخدوم اشرف قدس سرہ کلام۔حضرت سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ نہ مجھ سے چھوٹے گا ان کا دامن۔ نہ مجھکو بھولے گا نام اشرف میں بندہ بے درم ہوں ان کا ۔ازل سے ہوں میں غلام اشرف میں انکی مدحت بیاں کروں کیا کہ سارے عالم میں ہے یہ شہرت مجدد وقت تھا جہاں میں بلند تر ہے مقام اشرف انھیں کی محبوبیت کا نعرہ ملائکہ نے فلک پہ مارا زمین پہ یہ شان غوث عالم فلک پہ وہ احترام اشرف جناب کے والد معظم نے خواب دیکھا کہ مصطفیﷺ نے یہ دی بشارت کہ ہم نے رکھا ہے نام ان کا بنام اشرف زمین پہ روضہ ہے یا فلک پر کچھ اس کی رفعت یہ کہہ رہی ہے کوئی فلک کا ہے یہ بھی تکڑا جہاں بنا ہے مقام اشرف جو وحدت آباد جائے خلوت۔ تو کثرت آباد جائے جلوت کہیں ہے وحدت کہیں ہے کثرت۔ عجب ہے دلکش نظام اشرف بنے جہانگیر غوث عالم۔ جہاں کے اولیا کے افسر ولی زمانے کے زیر فرماں ۔مطیع احکام عام اشرف کسی نے تاریخ عرش اکبر۔ بنائے روضہ کی خوب لکھی ہماری نظروں سے کوئی دیکھے ۔فلک سے بالا ہے بام اشرف عدالت صبح و شام دیکھے ۔جو کوئی دربار اشرفی میں تو بول اٹھے کہ اللہ اللہ ۔عجیب ہے انتظام اشرف کہیں تو جنات جل رہے ہیں ۔کہیں خبائث تڑپ رہے ہیں کسی کے سر بولتا ہے جادو ۔لکھو میں کیا فیض عام اشرف چراغ روضہ سے لیکے کاجل ۔لگائیں آنکھوں میں اپنے اعمیٰ تو آنکھیں ہوجائیں انکی روشن۔ یہ ہے کراماتِ عام اشرف یہ چشمہ نیر گرد روضہ ۔بآب شفاعت و صاف جاری مریض پیتے ہی ہوئیں اچھے ۔عیاں ہے یہ فیض عام اشرف یہ خاک روضہ میں ہے تصرف ۔کہ جس کو لیتے ہیں اہل حاجت مریض اچھے ہوں جس سے لاکھو ۔عجب ہے یہ فیض عام اشرف زمین سے تا آسماں جو دیکھا ۔عجب ہے قدرت کا ہے تماشہ یہاں زمین پر وہاں فلک پر ۔کھڑے ہوئے ہیں خیام اشرف امید لطف وکرم پہ تیرے ۔میں عرض حاجت جو کر رہا ہوں کرو توجہ ذرا ادھر بھی ۔کہ لے رہا ہوں میں نام اشرف بھلا کوئی اشرفؔی سے پوچھے۔ کہ شاہ اشرف کی شان کیا ہے کہے کا وہم و گماں سے میرے ۔بلند تر ہے احتشام اشرف [ماخوذ از۔صحائف اشرفی جلد ٢۔صفحہ نمبر ١٩٣ تا١٩٤۔ناشر ۔ادراہ فیضان اشرف دارالعلوم محمدیہ مینارہ مسجد محمد علی روڈ ممبئی] طالب دعا :- شبیر احمد راج محلی رابطہ نمبر :- 7738778027 
ضروری گزارش!یہ تحریر بہت زیادہ محنت و مشقت کے بعد لکھی گئی ہے پوری پوری کتاب پڑھ کر اس سے نچوڑ نکالا گیا ہے جو آپ بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں اس لیے برائے مہربانی کوئی کہیں شیرینگ کرے تو سرقہ بازی سے بالکل پرہیز کریں اور محرر کے نام کے ساتھ شیرینگ کریں۔فقط والسلام۔ العارض:- شبیر احمد راج محلی

Post a Comment

0 Comments