الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور کا اصل بانی کونہیں؟
مجمع البحرین حاجی الحرمین الشریفین اعلیٰ حضرت قدسی منزلت مخدوم الاولیاء مرشدالعالم محبوب ربانی ہم شبیہ غوث الاعظم حضرت سید شاہ ابواحمد المدعومحمد علی حسین اشرف اشرؔفی میاں الحسنی والحسینی قدس سرہ النورانی مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم (الجامعۃ الاشرفیہ) مبارکپور کے محرک اور بانیوں میں سے ہیں۔
دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارکپور کا قیام
جب مبارکپور میں آمد و رفت کی کوئی سہولت نہیں تھی اس وقت شیخ المشائخ مولانا سید شاہ ابو احمد محمد علی حسین اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی( میاں بابا) قدس سرہ ا لنورانی اونٹنی پر سوار ہوکر کچھوچھہ مقدسہ سے مبارک پور آئے تھے ، انہوں نے رشدوہدایت کا سلسلہ شروع کیا ، رفتہ رفتہ ان کے گرد مبارک پور کے سنی مسلمان اکھٹے ہوگئے حضرت میاں بابا (اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی ) نے لوگوں پر زور دیا کہ " دین کی ترویج واشاعت کے لئے ایک درسگاہ ضروری ہے"
حضرت میاں بابا کی تحریک پر مبارک پور کے سنی مسلمانوں نے لبیک کہا اور میاں شیخ عبدالوہاب شیخ حاجی عبدالرحمٰن و شیخ حافظ عبدالاحد پسران شیخ علیم اللہ شاہ مرحوم ساکنان مبارک پور ضلع اعظم گڑھ نے 1922 عیسوی میں ایک مکان واقع محلہ پرانی بستی وقف کیا ، جس میں تعلیم وتعلم کا دور شروع ہوا۔
چونکہ مبارکپور میں باقاعد ہ دینی درسگاہ کے مؤجد محرک اور بانی حضرت میاں بابا (اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی ) علیہ الرحمہ حضرت محبوب یزدانی سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی کے خاندان ذی شان سے متعلق تھے ۔اس لئے اس درسگاہ کا نام مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم رکھا گیا اور مدرسہ کے دیکھ بھال کے لئے جاں نثاران اشرفیہ کی خواہشات کے مطابق بانئ ادارہ حضرت میاں بابا رحمۃ اللہ علیہ(اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ) کو مدرسہ کا سرپرست بھی مقرر فرمایا ۔
1922 عیسوی تا 1924 عیسوی استاذالعلماء مولانا مفتی عبدالحفیظ حقانی قدس سرہ مسند صدارت پر رونق افروز رہے ۔ الفقیہ امرتسر 14/اکتوبر 1931 عیسوی کے شمارہ میں جناب ولی جان قصبہ کوٹلہ بازار ضلع اعظم گڑھ کا مضمون شائع ہوا تھا اس میں انہوں نے لکھا تھا:
"میں بغرض تجارت قریب آٹھ سال سے مبارک پورآتا ہوں چونکہ مجھ کو مدرسہ سے دلچشپی ہے جب بھی آیا مدرسہ ضرور آیا ، یہ مدرسہ تخمیناً تیس سال سے جاری ہے اس کی عمارت تنگ و خام و بوسیدہ ہے ، یہ مدرسہ اعلیٰ حضرت قبلہ سلطان الصوفیہ شاہ ابواحمد المدعو علی حسین صاحب قبلہ اشرفی جیلانی کچھوچھوی کے دست مبارک کا قائم کیا ہوا ہے ۔
خداوندِ عالم ۔ کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ کارکنان مدرسہ کی سعی بلیغ کے باوجود مگر مدرسہ کا انجم عروج پر نہ پہونچا۔ مدرسہ کی طرف سے سالانہ جلسہ (1931 عیسوی) میں منعقد ہوا تھا جس میں اعلیٰ حضرت قبلہ وکعبہ شاہ سید محمد صاحب محدث اعظم ہند اشرفی جیلانی کچھوچھوی بھی تشریف فرما ہوئے بعد اختتام امتحان جناب محدث اعظم ہندصاحب قبلہ نے سالانہ میٹنگ طلب کی ازسرنو ارکان کا انتخاب عمل میں آیا جناب محمد امین صاحب رئیس قصبہ صدر۔ جناب عظیم اللہ صاحب ناظم ۔سیٹھ حاجی احمداللہ صاحب خازن، جناب فقیراللہ صاحب مہتمم، حکیم محمد عمر صاحب نائب ناظم ، جناب مقیم اللہ صاحب ، و خیراللہ صاحب دلال عمال، قاری شفیع صاحب مولوی نورمحمد صاحب سفیر مقرر کئے گئے۔، مدرسہ نے کروٹ لی اور چند ماہ کے بعد 9/شوال 1352ہجری مطابق 14 جنوری 1932 عیسوی جناب مولانا عبد العزیز صاحب فاضل مرادآبادی کو بلایا اور بیرونی جات سے طلبہ کی آمد شروع ہوگئی اور دومولوی صاحبان مقرر کئے گئے"۔ (بحوالہ: الفقیہ امرتسر 14/اکتوبر 1931)
اس سے پتہ چلا کہ 9/شوال 1352 ہجری بمطابق 14 جنوری 1932 عیسوی میں جلالۃ العلم حضور حافظ ملت حضرت علامہ مولانا الشاہ عبد العزیز صاحب محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ تشریف لائے۔
جس وقت آپ علیہ الرحمہ اعظم گڑھ ضلع کے قصبہ مبارکپور تشریف لائے اس وقت یہاں ایک مدرسہ 'جامعہ اشرفیہ مصباح العلوم '' کے نام سے قائم تھا ۔ حضرت حافظ ملت علیہ الرحمۃ کی انتھک محنت کے باعث اللہ عزوجل نے اسی چھوٹے سے مدرسے میں برکت عطا فرمائی اور بالآخر یہ مدرسہ ایک عظیم الشان پھل دار درخت کی حیثیت سے جامعہ اشرفیہ مصباح العلوم کے نام سے بہت مشہور ومعروف ہوا ۔ چنانچہ جامعہ اشرفیہ کے فاضلین آج بھی اس جامعہ کے نام کی طرف نسبت کرتے ہوئے دنیابھر میں "مصباحی" معروف ہیں ۔
صاحب "مخدوم الاولیا محبوب ربانی" فرماتے ہیں :
شوال المکرم 1353 ہجری کا وہ مبارک وقت بھی آیا جبکہ شیخ امین صاحب صدرمدرسہ کی جدوجہد سے نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنا قرار پایا اور سالانہ جلسہ کے موقع پر حضور پرنور اعلیٰ حضرت مخدوم الاولیاء مرشدالعالم محبوب ربانی اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ مبارک پور تشریف فرما ہوئے اور جمعہ کے بعد اپنے مقدس ہاتھوں سے مدرسہ کی جدید عمارت کا سنگ بنیاد رکھااور دعاء فرمائی اور اسی موقع پر فرمایا:
"مدرسہ بہت ترقی کرے گا فتنہ بھی اٹھے گا مگراللہ تعالیٰ اس کا محافظ ہے"۔
حضور پر نور کی مخصوص دعاؤں اور آپ کے نواسہ حضرت محدث اعظم کی جانبدارسرپرستی اور ارکان عمائد دارالعلوم غلامانِ سلسلہ اشرفیہ کی غیر معمولی جدوجہد اور ایثار اور اخلاص نے غیر معمولی رفتار سے ترقی کی منازل طے کرنا شروع کردیے اور اساتذہ وقت ، غیر معمولی سوچ رکھنے والے مستعد علماء حضرت مولانا سلیمان صاحب اشرفی بھاگلپوری ، حضرت مولانا غلام جیلانی اعظمی ، حضرت مولانا عبدالمصطفی ازہری، حضرت مولانا عبدالمصطفی اعظمی نے دارالعلوم کے تعلیمی معیار کی دھاک جمادی اور اشرف فیضان اور اشرفی نسبت نے اپنا اثر دکھایا۔ اکابر کچھوچھہ مقدسہ کے دل میں اہل مبارک پور کی عقیدت مندی ، ایثار پسندی نے کچھ اس طرح مستحکم جگہ بنائی کہ اکابر کچھوچھامقدسہ نے جامعہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ کا بدل دارالعلوم اشرفیہ کو قرار دیا اعلیٰ حضرت مخدوم الاولیا محبوب ربانی قدس سرہ النورانی کے محالات وجودعالی مرتبت مرجع خاص عام مرشد انام ذات گرامی نےدارالعلوم اشرفیہ مبارکپور کے لئے جھولی پھیلائی اور چندہ کی اپیل فرمائی۔
1960 عیسوی تک حضور محدث صاحب کی مظبوط و مستحکم سرپرستی میں دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور نشیب و فراز کے بھنور سے نکلتا رہا۔ آپ کے وصال کے بعد غوث وقت مخدوم المشائخ تاجداراہلسنت حضرت مولانا سید شاہ مختار اشرف علیہ الرحمہ نے سرپرستی کے منصب کو رونق دی۔ (بحوالہ: مخدوم الاولیاء محبوب ربانی صفحہ 347)
دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں کہ............
"جامعہ اشرفیہ کے قیام وبنا کا ذکر خیر اعلیٰ حضرت وعظیم البرکت مخدوم الاولیاء سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے اس یاد "فرمان " میں بھی فرمایا ہے۔
حضرت مخدوم المشائخ قدس سرہ کی ولی عہدی اور سجادہ نشین کے متعلق اپنی حیات بافیض کے آخری ایک ماہ قبل جمادی الاول 1355 ہجری میں تحریر فرمایا تھا۔
"اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ان کی اب دستاربندی ہوچلی ہے اور تمام علوم ومعقول تفسیر و حدیث وفقہ ومعانی وتصوف کو بکمال جانفشانی
جامعہ اشرفیہ
جو اس فقیر کا بنایا ہوا دارالعلوم ہے سے حاصل کیا"
جامعہ اشرفیہ (مبارکپور) کا انتظام انصرام حضرت عالم ربانی محبوب حقانی سلطان الواعظین حضرت سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی صاحب قبلہ قدس سرہ جیسے روشن دل و دماغ بزرگ فرماتے تھے، حضرت فرماتے تھے :
"اگر میری زندگانی نے وفا کی تو جامعہ اشرفیہ کو ہندوستان کا جامع ازہر بنادوں گا "۔ (بحوالہ: مخدوم الاولیا محبوب ربانی صفحہ 334)
صاحب"سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی ، دینی اور روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ " کے موضوع "جامعہ اشرفیہ کا قیام" میں فرماتے ہیں : اشرفی میاں (کچھوچھوی) نے مبارکپور میں ایک عظیم الشان دارالعلوم قائم کیا اور اس کا نام " جامعہ اشرفیہ " رکھا اس میں درس نظامیہ کا مکمل اہتمام کیا آپ نے ہندوستان کے جید علماء کو اس دارالعلوم میں تدریس کے لئے راغب کیا آپ کے حکم پر علماء نے رضامندی ظاہر کی اورپڑھائی کا آغاز ہوگیا اور بہت تھورے عرصہ میں یہ دارالعلوم ہندوستان کے بڑے مدارس میں شامل ہوگیا یہاں سے ہرسال کافی تعداد میں علماء فارغ التحصیل ہوتے تھے۔اشرفی میاں خود اس کی کفالت فرماتے تھے ، جب سالانہ جلسہ ہوتا تو آپ بنفس نفیس مبارکپور تشریف لے جاتے جلسے کی صدارت فرماتے اور آخر میں اپنے دست مبارک سے فارغ التحصیل طلباء کی دستاربندی فرماتے۔ یہ دارالعلوم آج بھی مبارکپور میں موجود ہے اور اب تک بے شمار تشنگان علم یہاں آکر پیاس بجھا چکے ہیں یہ اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ کا ایساکارنامہ ہے جو ان شاء اللہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔ (بحوالہ: سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی ، دینی اور روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ صفحہ224)
یہ جامعہ برسہابرس سے کتاب و سنت کی ترویج واشاعت کرتا رہا اسی جامعہ کے شیخ الحدیث محدث اعظم ہند کچھوچھوی ، حضرت مولانا عمادالدین سنبھلی، مفسر شہیرحکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خاں اشرفی صاحب ، علامہ مفتی عبدالرشید خاں اشرفی ناگپوری صاحب ،غوث الوقت سرکارکلاں علامہ سید محمد مختار اشرف کچھوچھوی، جلالۃ العلم حضور حافظ ملت حضرت علامہ مولانا الشاہ عبد العزیز صاحب محدث مرادآبادی، محی الملۃ والدین علامہ سید محی الدین اشرف اشرفی ( اور ان کے خلف ارشد حضرت مولانا سید شاہ معین الدین اشرف) رحمۃ اللہ تعالی علیہم اجمعین نیز دیگر اکابر علماء مختلف عہدوں میں ہوتے رہے اور یہاں کے فارغین طلبہ آج اکابر ملت اسلامیہ میں شمار کئے جاتے ہیں ۔
ایک شبہ کا ازالہ
اس ادارہ کو مدرسہ اشرفیہ سے دارالعلوم اشرفیہ میں تبدیل ہونے میں اس کی مساعی جمیلہ کا سب سے اہم رول ہے ۔ مبارکپور کی اکثر وبیشتر آبادی آپ کے دامن کرم سے وابستہ رہی ۔ اس ادارہ کی ترقی اور اس کے باغ کو سینچنے اور سنوارنے میں "اشرفی نسبت" رکھنے والوں کا خون جگر شامل ہے۔
پھرذہن نشین کرتا چلوں کہ حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی قد س سرہ النورانی اشرفیہ کے تاحیات سرپرست رہے۔ اس کے بعد حضور سید محدث اعظم ہند اشرفی الجیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے اس ادارہ کی سرپرستی کی ۔ ان کے وصال کے بعد غیر متبدل دستوری ضمانت کے مطابق سجادہ نشین سرکارکلاں حضرت سید مختار اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ کی طرف سرپرستی منتقل ہوئی۔ غالباً 1969 عیسوی میں دستور پر شبخون مارا گیا اس اسے موت کے گھات اتارکر غیر دستوری طور پر ایک نیا دستور بنا لیا گیا اور اس وقت کے اشرفیہ کے شیخ الحدیث و صدرالمدرسین حافظ ملت حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب مرادآبادی علیہ الرحمہ اشرفیہ کے "سب کچھ " بنا دئے گئے۔ پھر اسی پر اکتفانہیں کیا گیا ، لوگوں کو شخصیت پرستی کا ایسا نشہ سوار ہوا کہ جو مدرس یا صدر مدرس کی حیثیت سے بلایا گیا تھا جو مدرسہ اشرفیہ ، دارالعلوم اشرفیہ اور خود جامعہ اشرفیہ کا صدر مدرس تھا بانی کی رحلت کے بعد اچانک انہیں "بانی " بنا دیا گیا ۔ اس تاریخی بددیانتی کی مثال دنیا پیش کرنے سے قاصر ہے ۔
واضح رہے کہ جس جامعہ کا بانی حافظ ملت کو کہا جارہا ہے اور جس جگہ یہ واقع ہے اس اراضی کا ایک بڑا حصہ اسی "درجہ شہادت سے سرفراز دستوری کمیٹی " نے خریدا جس کے سرپرست سجادہ نشین حضور سرکارکلاں سید مختار اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ تھے۔ اسلئے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کو جامعہ اشرفیہ کا "تنہامعمار" نہیں کہا جاسکتا ۔ چہ جائیکہ بانی کہا جائے۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی روح ان "مطرین" کے احمقانہ بلکہ ظالمانہ رویہ پر ماتم کناں ہوگی۔
اگر حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ الجامعۃ الاشرفیہ کے بانی ہیں تو 1972 عیسوی میں قائم شدہ یہ ایک نیا ادارہ ہوا اور اس کا تعلق اس کے پہلے کے اشرفیہ سے عقل ومنطق کی رو سے نہیں ہوسکتا۔ جس "نادرمنظق" کی بنیاد پر حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ بانئ جامعہ اشرفیہ ہیں اس کو صحیح مان لیا جائے تو سرسید احمد خاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی نہیں رہ جاتےہیں کیونکہ ان زمانے تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک معمولی کالج ہی کی شکل میں تھا ۔ (اینگلو اینڈین کالج) 1920 عیسوی میں اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا ۔ (ماہنامہ غوث العالم فروری2007 صفحہ 12)
طالب دعا
آل رسول احمد الاشرفی القادری
0 Comments