Don't ask us anything but the story of love and loyalty / از ما بجز حکایتِ عشق و وفا مپرس / Ham se Ishq o Wafa ki Hikayat ke siwa Mat Poocho

Don't ask us anything but the story of love and loyalty / از ما بجز حکایتِ عشق و وفا مپرس / Ham se Ishq o Wafa ki Hikayat ke siwa Mat Poocho

Don't ask us anything but the story of love and loyalty / از ما بجز حکایتِ عشق و وفا مپرس / Ham se Ishq o Wafa ki Hikayat ke siwa Mat Poocho

از ما بجز حکایتِ عشق و وفامپرس

آج 1/ دسمبر کی خاصی سرد رات ہے۔ شبِ دیجور کی تاریکیاں وحشت ناک حد تک ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ ہاسٹل کی چھت پر "ہُو" کا عالم ہے۔ اپنے اپنے دلوں میں مستقبل کے خوش آئند خواب سجائے کم و بیش سارے طلبا نیند کی آغوش میں جا چکے ہیں۔  میں ہوں؛ شبِ تنہائی ہے؛ اور دور تک پھیلے ہوئے شدید کہرے ہیں۔ غمِ امروز اور فکرِ فردا سے بے نیاز تمھاری یادوں کی دنیا سجائے بیٹھا ہوں۔ یہاں ہواؤں کی تیز سرسراہٹ کے علاوہ کوئی شے میری تنہائی میں مخل نہیں۔ سچ کہوں تو فطری طور پر میری شاعرانہ طبیعت ایسے ہی پُرسکون ماحول کا تقاضا کرتی ہے؛ جہاں دور دور تک میری خلوت میں خلل انداز ہونے والا کوئی موجود نہ ہو۔
جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی خالص دینی اور تقدیسی فضا میں سانس لینے والے اپنے ایک "منچلے عاشق" کی طرف سے افسانوی رنگ و رس میں ڈوبی ہوئی اس "داستان محبت" کی تمہید سے تم حیران تو ہوئی ہوگی کہ آخر اچھے خاصے "مولوی" کو اچانک عشق بازی کا یہ کون سا خبط سوار ہو گیا ہے؟ لیکن یقین جانو میرے دل کے نہاں خانے سے اٹھنے والی یہ چنگاری کچھ ایسی اختیاری نوعیت کی نہیں کہ اسے آسانی سے بجھایا جا سکے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس چنگاری کی شدت و حرارت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ اگر آتشِ عشق کی روز افزوں جلوہ سامانی یوں ہی برقرار رہی تو بعید نہیں کہ میرا دل بہت جلد کسی شعلۂ جوالہ میں تبدیل ہو جائے۔ دیکھو! غالب نے حقیقتِ حال کی کیسی خوبصورت تعبیر پیش کی ہے:

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے!

آج کل کے "عشق مجازی" کا تصور جس قدر صدق و اخلاص اور جذبۂ غیرت و حمیت سے عاری ہو چکا ہے؛ اس تناظر میں دیکھا جائے تو میرا یہ عمل کسی جہت سے لائق تحسین نہیں۔ کم و بیش ہر کسی کا عمومی ذہن یہی ہو چکا ہے کہ یہ عشق وِشق اجتماعی زندگی کا ایسا شجر ممنوعہ ہے؛ جس کے قریب جانا شریف لوگوں کا قطعی شیوہ نہیں۔ بالکل درست! لیکن اب جب کہ جانے انجانے میں اس جرمِ عشق کا مرتکب ہو ہی چکا ہوں تو میری خواہش ہے کہ نثری ریاضت کے طور پر کچھ تمھارا ہی ذکرِ جمیل کر لیا جائے۔ مجھے بہ خوبی معلوم ہے کہ میری اس تحریر سے میرا "مولویانہ تشخص" مجروح ہونے کا شدید امکان ہے؛ تاہم کسی بھی لومۃ لائم کی پرواہ کیے بغیر میں اپنے آپ کو یہ کہنے میں حق بہ جانب پاتا ہوں کہ زندگی کے اسی دل فریب قضیۂ عشق نے میرے فکر و فن کو مہمیز کیا ہے اور مجھے شعرو سخن کا وجدانی شعور بخشا ہے۔
ہمارے اجتماعی نظام میں لفظِ عشق بہت مظلوم واقع ہوا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسے اس کے جائز معنوی حقوق سے بھی کسی قدر محروم رکھا گیا ہے؛ جو زبان و بیان ہی نہیں بلکہ انسانی وجود و شعور کے لیے بھی تشویشناک امر ہے؛ کیوں کہ جب کسی لفظ کی دور از کار تعبیر و تفہیم ہوتی ہے تو صرف معنی کا جدلیاتی نظام ہی متاثر نہیں ہوتا بلکہ انسانی نطق  کے جمالیاتی تار و پود بھی بکھرنے لگتے ہیں۔ اس لفظ کی قرارِ واقعی معنوی توجیہ جو بھی ہو لیکن شاید لوگوں نے اسے فسق کی تجنیس کے ایسے زمرے میں ڈال دیا ہے؛ گویا اس میں صدق کی تعبیر کا پہلو فسق سے کہیں زیادہ ہے۔ جب کہ غور کرو تو حقیقتِ حال بالکل بر عکس ہے۔

ببیں تفاوتِ رہ از کجا است تا بہ کجا

اہل تصوف کی بات کی جائے تو ان کے یہاں کا تصورِ عشق مبالغہ آمیز حد تک شائستہ اور پاکیزہ ہے۔ عارفانہ اصطلاح میں عشق حقیقی کو حدیث جبریل میں موجود "تعبیرِ احسان" کا متبادل قرار دیا گیا ہے؛ جو منتہائے تیقن کے معنی میں بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔ عشق حقیقی کی صوفیانہ تعریف و توضیح یوں بھی کی گئی ہے کہ یہ ایک آگ ہے؛ جو عاشقوں کے سینے میں روشن ہو کر وہاں موجود ماسوا اللہ کے جملہ عناصر و اجزا کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے۔ صوفیائے کرام میں سے کچھ لوگ نہ صرف عشقِ حقیقی کو حرزِ جاں بنانے پر زور دیتے ہیں؛ بلکہ عشق مجازی کو بھی عشق حقیقی کا زینہ کہہ کر اس کے لیے جواز فراہم کرتے ہیں۔ در اصل زینے والی یہ بات ایک خاص قرینے کے تحت کہی گئی ہے کہ اگر خدا نخواستہ کسی کو عشقِ مجازی کا روگ لگ جائے تو وہ اس سے حاصل ہونے والے جذب و شوق اور سوز و گداز کی کل پونجی کا مصرف عشق حقیقی کو بنا کر دنیوی معراج کے ساتھ اخروی سعادت سے بھی بہرہ مند ہو جائے۔
عشق در حقیقت ایک ایسی غیر مرئی کیفیت کا نام ہے؛ جس میں فریفتگی، سپردگی، اور نیاز مندی جیسے عناصر لازمہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ جذبۂ جنوں خیز انسان کو خود رفتگی کے ایسے حصار میں بند کرتا ہے؛ جہاں "من" کا جزوی تصور بھی اس کی غیرتِ نفس کے لیے باعثِ ننگ ہوتا ہے اور وہ ہر لحظہ "تو ہی تو" میں گم رہنا چاہتا ہے۔ عشق حقیقی کمالِ فدویت کا وہ آئینہ ہے؛ جس میں "ہمہ اوست" اور "ہمہ از او است" کا جلوہ مکمل آب و تاب کے ساتھ نظر آتا ہے۔ سلوک کی یہی وہ منزلِ جذب ہے؛ جہاں حقائق و معارف کے سارے حجابات اٹھ جاتے ہیں اور انسان "انا الحق" کی صدا لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
میں اس عرفانی بحث کا کوئی اختتامی سرا ڈھونڈنا چاہتا ہوں؛ تاکہ کسی خوش گوار موڑ پر پہنچا کر یہ سلسلہ روک دیا جائے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ عشق حقیقی کا یہ بیان مختصر ہونے کی بجائے تمھاری زلف کی طرح دراز ہی ہوا جاتا ہے۔

خدایا! جذبۂ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے
کہ جتنا کِھینچتا ہوں اور کِھنچتا جائے ہے مجھ سے

اپنے شترِ بے مہار صفت قلم کو دوبارہ نفسِ موضوع کی طرف پھیرنا ہی قرینِ مصلحت ہے ورنہ بالفور تمھاری طرف سے "خلط مبحث" کا احتجاجی بیان جاری ہو سکتا ہے۔
ثاقب قمری مصباحی

Post a Comment

0 Comments