एतिकाफ़ क्या है ? | Itikaf Kiya hai | اعتکاف اور اس کے فضائل

एतिकाफ़ क्या है ? | Itikaf Kiya hai | اعتکاف اور اس کے فضائل

*اعتکاف پرانی عبادت ہے*


پچھلی اُمَّتوں میں بھی اعتکا ف کی عبادت موجود تھی۔

چنانچہ پارہ اوّل سُوْرَۃُ الْبَقْرَہ کی آیت نمبر 125 میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فرمانِ عالی شان ہے:

*وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ (۱۲۵)*


ترجَمۂ کَنزُ الْاِیمَان: اور ہم نے تا کید فرمائی ابراہیم واسمٰعیل کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتِکاف والوں اور رُکوع و سجود والوں کیلئے۔


رَمَضانُ الْمُبارَک کی برکتوں کے کیا کہنے! یوں تواس کی ہر ہر گھڑی رَحمت بھری اور ہر ہر ساعت اپنے جلو میں بے پایاں برکتیں لئے ہوئے ہے، مگر اس ماہِ محترم میں شبِ قدر سب سے زیادہ اَہَمِّیَّت کی حامل ہے۔اسے پانے کے لئے ہمارے پیارے آقا ، مدینے والے مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ماہِ رَمَضانِ پاک کا پورا مہینا بھی اعتکاف فرمایا ہے اور آخِری دس دن کا بہت زیادہ اہتمام تھا۔ یہاں تک کہ ایک بار کسی خاص عذر کے تحت ’’آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم رَمَضانُ الْمُبارَک میں اعتکاف نہ کرسکے تو شَوّالُ الْمکرم کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا۔‘‘ (بُخاری ج۱ ص۶۷۱ حدیث۲۰۴۱) ’’ایک مرتبہ سفرکی وَجہ سے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا اعتکاف رہ گیا تو اگلے رَمضان شریف میں بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔‘‘ (تِرمذِی ج۲ ص۲۱۲ حدیث۸۰۳ مُلَخّصاً)


 *دس دن کا اعتکاف*


اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا رِوایت فرماتی ہیں کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم رَمَضانُ المبارَک کے آخری عشرہ (یعنی آخری دس دن) کا اِعتکاف فرمایا کرتے۔ یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو وفاتِ (ظاہری) عطا فرمائی۔ پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے بعد آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی ازواجِ مطہرات اعتکاف کرتی رہیں۔

(بُخاری ج۱ص۶۶۴حدیث۲۰۲۶)


*معتکف کا مقصودِ اصلی انتظارِ نمازِ با جماعت*


فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’اعتکاف کی خوبیاں بالکل ہی ظاہرہیں کیونکہ اس میں بندہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا حاصل کرنے کیلئے کُلِّیَّۃً (یعنی مکمل طور پر) اپنے آپ کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں مُنْہَمِک کر دیتا ہے اور ان تمام مشاغل دنیا سے کنارہ کش ہو جاتا ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے قرب کی راہ میں حائل ہوتے ہیں اور معتکف کے تمام اوقات حقیقۃ ًیا حکما ًنماز میں گزرتے ہیں۔ (کیونکہ نَماز کا انتظار کرنا بھی نمازکی طرح ثواب رکھتا ہے) اور اعتکاف کا مقصودِ اصلی جماعت کے ساتھ نماز کا انتظار کرناہے اور معتکف ان (فرشتوں) سے مشابہت رکھتا ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو کچھ انہیں حکم ملتاہے اسے بجا لاتے ہیں اور ان کے ساتھ مشابہت رکھتاہے جوشب و روز اللہ عَزَّوَجَلَّ کی تسبیح (پاکی) بیان کرتے رَہتے ہیں اور اس سے اُکتاتے نہیں‘‘

(عالمگیری ج۱ ص۲۱۲)


 *ایک دن کے اعتکاف کی فضیلت*


فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم: ’’جو شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا وخوشنودی کیلئے ایک دن کا اعتکاف کرے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے اور جہنّم کے درمیان تین خندقیں حائل کردے گا ہر خندق کی مسافت (یعنی دُوری) مشرق ومغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ ہوگی۔‘‘

(مُعْجَم اَوْسَط ج۵ص۲۷۹حدیث ۷۳۲۶)


 *سابقہ گناہوں کی بخشش*


اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے رِوایت ہے کہ سرکارِ ابد قرار، شفیع روزِ شمار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ ہے: مَنِ اعْتَکَفَ اِیْمَانًا وَّ احْتِسَابًا غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ۔ ترجَمہ: ’’جس شخص نے ایمان کے ساتھ اور ثواب حاصل کرنے کی نیَّت سے اعتکاف کیا اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔‘‘

(جامعِ صَغِیر ص۵۱۶حدیث۸۴۸۰)


*اعتکاف کی تعریف*


’’مسجِد میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا کیلئے بہ نیت اِعتکاف ٹھہرنا اِعتکاف ہے۔‘‘ اس کیلئے مسلمان کا عاقل ہونا اور جَنابت اور حیض ونفاس سے پاک ہونا شرط ہے۔ بلوغ شرط نہیں، نابالغ بھی جو تمیز رکھتا ہے اگر بہ نیّتِ اعتکاف مسجِد میں ٹھہرے تو اُس کا اعتکاف صحیح ہے۔

(عالمگیری ج۱ ص ۲۱۱)


 *اعتکاف کے لفظی معنی*


اِعتکاف کے لغوی معنی ہیں: ’’ایک جگہ جمے رہنا‘‘ مطلب یہ کہ معتکف اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہِ عظمت میں اُس کی عبادت پر کمر بستہ ہو کر ایک جگہ جم کر بیٹھا رہتا ہے۔ اس کی یہی دُھن ہوتی ہے کہ کسی طرح اس کا پَروردگار عَزَّوَجَلَّ اس سے راضی ہوجائے۔


*اب تو غنی کے در پر بستر جما دیئے ہیں*


حضرتِ سیِّدُنا عطا خراسانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں: معتکف کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اللہ تَعَالٰی کے در پر آپڑا ہو اور یہ کہہ رہا ہو: ’’ یااللہ عَزَّوَجَلَّ کی! جب تک تو میر ی مغفرت نہیں فرمادے گا میں یہاں سے نہیں ٹلوں گا۔‘‘

(بَدائعُ الصنائع ج۲ص۲۷۳)

ہم سے فقیر بھی اب پھیری کو اٹھتے ہوں گے

اب تو غنی کے در پر بستر جما دیئے ہیں

(حدائقِ بخشِش ص۱۰۱)


*اعتکاف کی قسمیں*


اِعتکاف کی تین قسمیں ہیں {۱}اعتکافِ واجِب {۲}اعتکافِ سُنّت {۳} اِعتکافِ نَفْل۔


*اعتکافِ واجب*


اِعتکاف کی نذر (یعنی منّت) مانی یعنی زَبان سے کہا: ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے میں فلاں دن یا اتنے دن کا اِعتکاف کر و ں گا۔‘‘ تواب جتنے دن کا کہا ہے اُتنے دن کا اِعتکاف کرنا واجب ہو گیا ۔ منَّت کے اَلفاظ زَبان سے اداکرنا شرط ہے، صرف دل ہی دل میں منَّت کی نیَّت کرلینے سے منَّت صحیح نہیں ہوتی۔ (اور ایسی منَّت کا پورا کرنا واجب نہیں ہوتا)

(رَدُّالْمُحْتار ج۳ص۴۹۵ مُلَخَّصاً )


منَّت کا اعتکاف مرد مسجد میں کرے اور عورت مسجد بیت میں ، اِس میں روزہ بھی شرط ہے۔ (عورت گھر میں جو جگہ نماز کیلئے مخصوص کرلے اُسے ’’مسجدِ بیت‘‘کہتے ہیں)


*اعتکافِ سنت*


رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخِری عشرے کا اعتکاف ’’سنَّتِ مُؤَکَّدَہ عَلَی الْکِفایہ‘‘ ہے۔ (دُرِّ مُخْتار ج ۳ ص ۴۹۵) اگر سب ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہوگا اور شہر میں ایک نے کر لیا تو سب بری الذِّمَّہ۔ بہار شریعت ج۱ص۱۰۲۱)


اِس اعتکاف میں یہ ضروری ہے کہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی بیسویں تاریخ کو غروبِ آفتاب سے پہلے پہلے مسجِد کے اندر بہ نیّتِ اعتکاف موجود ہو اور اُنتیس (اُن۔تیس) کے چاند کے بعد یا تیس کے غُروبِ آفتاب کے بعد مسجِد سے باہَر نکلے۔ اگر 20 رَمَضانُ المبارک کو غروبِ آفتاب کے بعد مسجد میں داخل ہوئے تو اِعتکاف کی سنّتِ مُؤَکَّدَہ ادانہ ہوئی۔


 *اعتکاف کی نیت اس طرح کیجئے*


’’میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا کیلئے رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کے سنّتِ اِعتکاف کی نیَّت کرتا ہوں‘‘ (دل میں نیت ہونا شرط ہے، دل میں نیت حاضر ہوتے ہوئے زبان سے بھی کہہ لینا بہتر ہے)


*اعتکافِ نفل*


نذر اور سنّتِ مُؤَکَّدہ کے علاوہ جو اعتکاف کیا جائے وہ مستحب و سنّتِ غیر مُؤَکَّدہ ہے۔ (بہار شریعت ج۱ص۱۰۲۱) اِس کیلئے نہ روزہ شرط ہے نہ کوئی وَقت کی قید، جب بھی مسجِد میں داخل ہوں اِعتکاف کی نیّت کر لیجئے، جب مسجِد سے باہر نکلیں گے اِعتکاف ختم ہوجائے گا۔ میرے آقا اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: جب مسجد میں جائے اِعتکاف کی نیَّت کرلے، جب تک مسجد ہی میں رہے گا اِعتکاف کا بھی ثواب پائے گا۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ص۹۸) نیَّت دل کے ارادے کوکہتے ہیں ، اگر دل ہی میں آپ نے ارادہ کر لیا کہ ’’میں سنّتِ اِعتکاف کی نیّت کرتا ہوں ۔‘‘ آپ معتکف ہو گئے، دل میں نیّت حاضر ہوتے ہوئے زَبان سے بھی یہی الفاظ کہہ لینا بہتر ہے ۔ مادَری زَبان میں بھی نیّت ہو سکتی ہے مگر عربی میں زیادہ بہتر جبکہ معنی ذہن میں موجود ہوں۔

Post a Comment

0 Comments