قلم کار اور مضمون نگار کیسے بنیں؟
How to become a Writer ?
1 یہ فن ماہ دو ماہ میں ہرگز حاصل نہیں ہوتا، قلمکاروں کے تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ اس میدان میں جتنے زیادہ پرانے ہوتے چلے گئے ان کی تحریر میں سدھار آتا چلا گیا اس لیے تادیر اس کی مشق ضروری ہے۔
۔اس فن کا تعلق قواعد سے کم اور اربابِ لوح و قلم کے استعمال سے زیادہ ہے لہذا اس کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ عصرِ حاضر کے ماہر مصنفوں اور قلمکاروں کی تحریروں کا مطالعہ کیاجائے، اس کے لیے آپ زیادہ سے زیادہ حضرت علامہ محمد احمد مصباحی ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ مبارک پور، مولانا نفیس احمد مصباحی استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور، شکیل احمد شمسی، مولانا مبارک حسین مصباحی ایڈیٹر ماہنامہ اشرفیہ، وغیرہ کی کتابوں اور تحریروں کو پڑھیں اور ان کا اندازِ بیان، الفاظ کا استعمال دیکھیں اور اس سے استفادہ کریں۔معیاری اخبارات ورسائل و جرائد مثلا انقلاب ماہنامہ اشرفیہ ماہنامہ کنز الایمان دہلی کا مطالعہ کریں۔
مضمون لکھتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ زائد الفاظ کا استعمال نہ ہو جیسے: یہ جملہ:"میں دکان پر گیا، وہاں سے دو کلو آٹا خریدا، اور گھر لے کر آیا۔ " اسے ہم ایک جملے میں یوں بھی کہ سکتے ہیں :"میں دکان سے دوکلو آٹا خرید کر لایا۔" اس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کتنے کم الفاظ میں مفہوم ادا ہوگیا!
4۔ مضمون نگاری میں دورِ حاضر کے قلمکاروں کا اعتبار ہے اس لیے کہ استعمال ہر دور میں بدلتا رہتا ہے، جیساکہ اس کا اشارہ ماقبل میں کیا بھی جاچکاہے۔ مثلا آپ الجامعۃ الاشرفیہ کی مطبوعہ قدیم کتابوں میں لفظ "مبارکپور " مبارک اور پور ضم کرکے لکھا ہوا پائیں گے اور جدید مطبوعہ کتابوں میں "مبارک پور " الگ الگ لکھا پائیں گے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پہلا والا غلط ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ رائج املا اس وقت دوسرا والا ہے۔ تو مضمون نگار کے لیے یہی مناسب ہے۔ اسی طرح لفظِ "لئے" قدیم املا میں ہمزہ کے ساتھ ہے اور جدید املا میں "لیے" یاء کے ساتھ رائج ہوگیا ہے تو یہی صحیح مانا جائے گا کہ اب اربابِ لوح و قلم اسے ہی اپنائے ہوئے ہیں۔
الفاظ کو لکھنے کے کچھ قواعد بھی ہیں پہلے ہم مفرد لفظ کے لکھنے کے قواعد بیان کریں گے اس کے بعد مرکب پھر جملوں کے درمیان قومہ، فل اسٹاپ، سکتہ، سوالیہ نشان کے استعمال کے قواعد ذکر کریں گے۔ مضمون نگاری کے قواعد :
1۔"ہ"دو طرح کی ہوتی ہے۔ایک ہاے مخلوط اور دوسری ہاے غیر مخلوط۔ ہاے مخلوط دوچشمی والی "ھ" کو کہاجاتا ہے اور اس کا استعمال غیر مستقل وغیر منفرد ہوتا ہے اور یہ اپنی آواز دوسرے حرف کے ساتھ مل کر ظاہر کرتی ہے جیسے پھل، کٹھل، کھیت، کھرچنا، جھیل، گھر وغیرہ ۔ اس کا استعمال ہمیشہ دوچشمی والی "ھ"کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ اور دوسری ہاے غیر مخلوط اس کا استعمال مستقل اور منفرد ہوتا ہے اور یہ اپنی آواز الگ ظاہر کرتی ہے جیسے چہل، پہل، مہک ،کہرام، کہنہ اور کہانی وغیرہ اس کے استعمال کا طریقہ یہ ہے کہ یہ ہمیشہ لٹکن والی "ہ" سے ہی لکھا جاتا ہے۔لہذا واضح ہوگیا کہ کٹھل کو کٹہل لکھنا اور چہل کو چھل لکھنا غلط ہے۔
جب آپ یہ سمجھ گیے کہ ہاے مخلوط کسی دوسرے حرف سے مل کر ہی اپنی آواز ظاہر کرتی ہے تو یہ بھی سمجھ گیے ہوں گے کہ ہاے مخلوط کبھی بھی شروع میں نہیں آئے گی اس لیے کہ اس سے پہلے کسی حرف کا ہونا ضروی ہے جس سے وہ مل سکے لہذا وہ الفاظ جن کی ابتدا "ہ " سے ہوتی ہے وہ ہمیشہ لٹکن والی "ہ"سے ہی لکھے جائیں گے۔
"ہ"سے شروع ہونے والے لفظوں میں صحیح اور غلط املا کا فرق
غلط. صحیح
1:- ھے. ہے
2:- ھوا. ہوا
3:- ھندوستان. ہندوستان
4:- ھَوا. ہوا
5:- ھم. ہم
How to become a Writer?
تجھ کو مجھ کو کا استعمال
یہ دراصل "تو"اور"میں"کی حالتِ مفعولی میں محرف شکلیں ہیں ان کا املا اس وقت ہاے مخلوط کے ساتھ "تجھے" اور "مجھے" رائج ہے لہذا اسی کے ساتھ لکھنا چاہیے۔
ابتدائی طلبہ و طالبات جب کوئی مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو اکثر انھیں ان چند باتوں کا سامنا ہوتا ہے، اولا انھیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کریں؟ پھر دوسری پریشانی ان کے سامنے یہ آکر کھڑی ہوجاتی ہے کہ لکھتے لکھتے ان کے پاس الفاظ ختم ہوجاتے ہیں اور وہ اس الجھن سے سر کھجلاتے ہیں یااپنا قلم دانتوں تلے دبا ہیں، اس سے ایک نقصان تو یہ ہوتا ہے کہ جب تھوڑی دیر سوچنے کے بعد وہ لکھنا شروع کرتے ہیں تو بسااوقات ان کے مضمون میں سطروں کا باہمی ربط ٹوٹ جاتا ہے، ایک ڈر انھیں یہ بھی ستاتا ہے کہ ہم نے جو لکھا اسے پڑھ کر کہیں کوئی غلطی نہ نکالے۔
اس لیے جب ہم کوئی مضمون ترتیب دینا چاہیں تو چند باتیں ضرور خیال رکھیں ۔ احساسِ کمتری اور احساسِ برتری کا شکار نہ ہوں کہ یہ کچھ کرنے نہیں دیتا، اگر ہم احساسِ برتری کا شکار ہیں تو اپنے سامنے دوسرے کو کچھ سمجھیں گے نہیں، اپنی تحریر کو سب سے بہتر اور خود ایک اچھا قلمکارکی خوش فہمی میں مبتلا رہیں گے تو اپنے اندر سدھار کی کوشش نہیں کرپائیں گے ،اور اگر احساسِ کمتری کا شکار ہیں تو ہر وقت یہ رونا روئیں گے کہ ہم سے کچھ آتا نہیں یہ دونوں ہی فکر انسان کے لیے مضر ہیں بلکہ یہ ذہن بناکر رکھیں کہ ہم اگر بہت بڑے قلمکار نھیں ہیں تو یہ سیکھنا ہمارے قبضے سے باہر بھی نہیں ہے۔ اگر یہ فکر دامن گیر رہی تو جلد ہی ان شاء اللہ کامیابی قدم چومے گی۔
سب سے پہلے آپ کو جو کچھ لکھنا ہے اسے ذہن میں مستحضر کیجیے! نہ یہ کہ سوچتے جائیں اور لکھتے جائیں ، اگر مواد کی کمی ہو تو اس سے متعلق کتابوں سے مواد فراہم کیجیے! ان کا مطالعہ کیجیے! اور پھر لکھتے وقت پوری توجہ اپنے مضمون
پر مرکوز رکھیں، اگر آپ ابتدائی مضمون نگار ہیں یا صرف ابھی یہ پہلا مضمون ہے تو الفاظ کے داو پیچ، بیان کے نشیب و فراز اور محاورات و استعارات کے استعمال سے گریز کریں کہ اس سے ایک نئی مشکل کھڑی ہوسکتی ہے بلکہ آپ اپنے اوپر اعتماد رکھ کر کامل یکسوئی کے ساتھ ایسے لکھتے جائیں جیسے کسی دوست سے باتیں کررہے ہیں۔
قدیم "انشا پردازی" کا طریقہ یہ تھا کہ اصل مضمون سے پہلے ایک دو پیرا گراف کی تمہید ہوتی تھی لیکن اب اس سے احتراز کیا جارہاہے جس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انسان کے پاس اب اتنا وقت نہیں کہ وہ آپ کی صفحہ دو صفحہ کی تمہید پڑھے بلکہ اب ہر کوئی اصلِ مقصود تک پہنچنا چاہتاہے، اس لیے زیادہ مناسب یہ ہے کہ آپ سطرِ اول ہی سے یا زیادہ سے زیادہ سطر دو سطر کی تمہید کے بعد اصل بات بیان کرنے کی کوشش کریں۔
قاعدہ: ایک لفظ اردو زبان میں "لیے" ہے اور اس کے بارے میں اکثر لوگ متفکر ہیں کہ اسے "یاء" کے ساتھ"لیے"یا ہمزہ کے ساتھ"لئے" لکھا جائے اس سلسلے میں قاعدہ یہ ہے کہ اگر یاء سے پہلے والے حرف پر کسرہ(زیر) ہو تو اس کے بعد دو یا آئیں گی جیسے دیے، پیے،سیے،جیے وغیرہ۔
اور اگر "یاء"سے پہلے "زبر" یا "الف"یا "واوِ ساکن آئے تو "ہمزہ"سے لکھا جائے گا۔جیسے گئے، نئے، جائے، کھائے، پائے،سوئے روئے، دھوئے وغیرہ۔
قاعدہ:جن لفظوں کے آخر میں "ے"ہو اور اس سے پہلے الف یا واو ہو تو اس "ے"پر ہمزہ نہیں آئے گا۔جیسے گاے، چاے، پاے، واے، واسراے، تنگناے، بوے، سوے، کوے وغیرہ۔ اگر اس پر ہمزہ داخل کردیا جائے تو اس کا معنی ہی بدل جائے گا۔
اس کے لیے چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔"گاے" بغیر ہمزہ کے ایک جاندار کا اسم ہے اور ہمزہ کے ساتھ فعل مصدر(گانا) سے ہے۔اسی طرح لفظِ "جاے" بمعنی جگہ اسم ہے اور "جائے"(جانا) مصدر سے فعل ہے۔
چند ماہر قلمکار اور ان کی کتابیں
"انشا پردازی" کے ایک ماہر قلمکار جنھیں دنیا رئیس القلم کے نام سے جانتی ہے علامہ ارشد القادری کی ذات ہے۔" مشقِ مقالہ نگاری" کے خواہاں آپ کی کتاب "لالہ زار" "زیر وزبر" کا مطالعہ کرسکتے ہیں، اس میں سرِ فہرست الفاظ جن کی زبان پر آنے کے لیے ترستے ہیں سابق رکنِ پارلیمنٹ علامہ عبید اللہ خان اعظمی ہیں موصوفِ مذکور کا روزنامہ انقلاب میں مضمون شائع ہوتاہے جس سے آپ خوب استفادہ کرسکتے ہیں، اسی روزنامہ میں رئیس القلم علامہ ارشد القادری کے فرزندِ ارجمند غلام زرقانی صاحب کا مضمون بھی پیہم آتاہے، ابتدائی طلبہ و طالبات مسلسل مولانا نفیس احمد مصباحی صاحب کی تالیف "مصباح الانشاء "میں دیے گئے مضامین سے بہت ساری چیزیں سیکھ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ اور بھی عصرِ حاضر کے ماہر قلمکار ہیں اگر آپ ان کی تحریروں سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں تو اسلامی پورٹل ویب سائٹس جیسے "ہماری آواز"،"افکارِ رضا" وغیرہ پر ان کے مضامین کثرت سے آپ پڑھ سکتے ہیں، جس سے آپ کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
مضمون کی اقسام مضمون کی تین قسمیں ہیں۔
1- بیانی، 2- حکائی، 3- فکری۔
1-بیانی: اس مضمون کو کہاجاتاہے جس میں کسی مادی چیز پر گفتگو کی جائے خواہ وہ جان دار ہو یا غیر جان دار۔ جیسے:تاج محل، لال قلعہ، خانہ کعبہ، گھوڑا، مچھلی، شیر وغیرہ۔
2-حکائی: اس مضمون کوکہاجاتاہے جس میں کسی واقعہ، سوانحِ عمری، تفریح یا تقریب و محفل کو بیان ہو۔ جیسے: فتحِ مکہ، سوانحِ حافظِ ملت علیہ الرحمہ، نینی تال کی سیر و سیاحت، عید میلاد النبی اور یومِ جمہوریہ وغیرہ۔
3-فکری: اس کی تمام تر بنیاد افکارو خیالات پر ہوتی ہے حقیقت سے اسے کوئی سروکار نہیں جیسے: سیاست، میڈیا، سماج کی برائی، وغیرہ۔ اس میں مضمون نگار کسی بھی عنوان پر اپنا اظہارِ خیال کرتاہے خواہ وہ حقیقت کے مطابق ہو یا نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اخبارات کے مراسلات میں ایک نوٹ: "مضمون نگار کی راے سے ایڈیٹر کا متفق ہونا ضروری نہیں یہ اس کی اپنی راے ہے" اکثر دیکھتے ہوں گے۔
انتخابِ عنوان
عنوان کا انتخاب کرتے وقت چند باتوں کا خاصا خیال رکھنا چاہیے ۔
1- عنوان پسندیدہ ہو ،2- عنوان کا خاصا مطالعہ ہو، 3- اس پر کچھ مواد اور الفاظ پہلے سے ذہن میں ہوں، 4- عنوان ایسا ہو کہ اس پر آسانی سے اظہارِ راے کیا جاسکے،
مضمون کے اجزاے ترکیبی
درسِ نظامی کے اعلی درجات میں تعلیم حاصل کرنے والے اور فارغ التحصیل حضرات مضمون کے اجزاے ترکیبی باآسانی سمجھ سکتے ہیں وہ "معلم الانشاء" اور "مصباح الانشاء" میں اس سے واقفیت حاصل کرچکے ہوتے ہیں لیکن "عربی ادب" سے نابلد یا درسِ نظامی سے ناآشنا حضرات کے لیے یہ جاننا بےحد ضروری ہے۔
مضمون نگاری کے اجزاے ترکیبی تین ہیں۔
1-تمہید، 2-نفسِ مضمون، 3اختتامیہ۔
1-مضمون کا پہلا پیراگراف تمہید پر مشتمل ہوتاہے جس میں اصلِ مضمون کی اہمیت و ضرورت کا ذکر ہوتاہے۔
2-نفسِ مضمون میں وہ سارا خاکہ جو آپ نے ذہن میں تیار کر رکھاہے بیان کرنا ہوتا ہے۔
3-اختتامیہ میں دعائیہ جملے،مضمون کا ماحصل دوتین سطر میں پیش کیا جاتاہے۔
مضمون کاانتخاب کرنے کے بعد خاکہ تیار کیا جائے اور پھر سنجیدگی سے لکھنا شروع کیا جائے۔اگر خاکہ پہلے تیار کرلیا جائے تو لکھنے میں کسے قدر آسانی ہوگی اور جملوں میں باہمی ربط قائم رہے گا۔
خاکہ تیار کیسے کیاجاتاہے؟ ایک مثال سے سمجھیں۔
موضوع: قربانی
تمہید: قربانی کی اہمیت
نفسِ مضمون:1-قربانی کی فرضیت 2-وجوب، 3شرائط، 4-فضیلت، 5-احکام و مسائل
اختتامیہ: قربانی کا مقصد
مضمون نگاری کی مشق
جو عنوان لکھنے کے لیےدیاجائے تو اسے خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلیاجائے کہ اس کے تحت کون کون سی چیزیں آتی ہیں؟ پھر تمہیدی الفاظ سے مضمون کا آغاز کیا جائے اور نفسِ مضمون کے سارے گوشوں کو واضح کرکے اختتام پزیر کیا جائے۔
کسی بھی چھوٹی سے چھوٹی تحریر کے لکھنے میں "رموزِاوقاف " کا کافی دخل ہے، لہذا"مقالہ" یا کوئی "مضمون" ترتیب دینے میں اس کا خیال رکھنا بےحد ضروری ہے،کیوں کہ بسااوقات "رموزِ اوقاف" کے غلط استعمال سے مفہومِ مضمون منقلب ہوجاتاہے اور اسے سمجھنے میں دشواری آتی ہے جیسے: اردو زبان میں ایک جملہ "اٹھو مت بیٹھو"مشہور ہے ابھی اس جملے میں ہم نے کوئی علامت نہیں لگائی تو آپ حتمی طور پر یہ نہیں سمجھ سکتے کہ اس جملے میں اٹھنے اور نشست برخاست کرنے کا حکم دیا جارہا ہے یا اس کے برعکس؛ لیکن جب ہم اس میں کوئی علامت لگادیں اور اس طرح کہیں: "اٹھو، مت بیٹھو" تو اب آپ قطعی طور پر جان گئے ہوں گے کہ اس جملے میں کھڑے ہونے اور نابیٹھنے کا حکم ہے، اسی علامت کو حرفِ نفی"مت" کے بعد لگائیں اور یوں کہیں:"اٹھو مت، بیٹھو" تو حکم اب حکمِ سابق کے برعکس ہوگیا ہے اور اب کھڑے ہونے کا حکم نہیں بلکہ بیٹھنے کا ہے۔
یہاں تک اتنا تو آپ سمجھ ہی چکے ہوں گے کہ "رموزِ اوقاف"کے غلط استعمال سے فہم و ادراکِ عبارت ہی میں خلل نہیں پڑتا بلکہ کبھی کبھی پورا مضمون ہی منقلب ہوجاتاہے، لیکن اگر رموزِ اوقاف کا صحیح استعمال کیا جائے تو افہام وتفہیم میں کافی سہولت ہوتی ہے۔جیسے:"زید گھر جارہاہے؟"۔ یہ جملہ الفاظ کے اعتبار سےمثبت لگ رہاہے اور یہ معلوم ہورہاہے کہ قائل سامع کو زید کے گھر جانے کی خبر دے رہاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جملہ استفہامیہ ہے اور اس میں زید کے گھر جانے کے متعلق سوال کیا جارہا ہے لہذا اگر یہ علامت (؟)نہ لگائی جائے تو استفہام کا اثبات سے التباس ہوجائے گا اور فہمِ مراد میں خلل ہوگا۔
"رموزِ اوقاف" ان علامتوں کو کہاجاتاہے: جن سے بعض الفاظ بعض سے یا بعض جملے بعض سےمتصل یا منفصل ہوتے ہیں۔
لہذا فہمِ مراد میں خلل سے بچنے اور صحیح طور سے مضمون کو سمجھنے کے پیشِ نظر کچھ "رموزِ اوقاف"حسبِ ذیل ہیں:قارئین! انھیں ضبط کرلیں۔ رموز اوقاف کااجمالی بیان۔
نمبر شمار. رموز. اردو نام. انگریزی نام
1. ۔ کامل وقفہ. Full stop
2۔ ، سکتہ. Comma
3۔ ؛ نیم وقفہ. Semi colon
4۔ : تفسیریہ/رابطہ. Colon
5۔ :- تفصیلیہ. Colon and desh
6 ؟ سوالیہ. Note of intarrogation
7۔ ! فجائیہ Note of Exclamation
8۔ () قوسین. Brackets
9۔ " ". واوین. Inverted commas
10۔ _ خط. Desh
11۔ = متساویہ. Sigh of Equation
رموز اوقاف کا تفصیلی بیان
(١)استفہامیہ (؟) یہ علامت سوالیہ جملے کے آخرمیں لگائی جاتی ہے۔ جیسے: کیا آپ بیمار ہیں؟۔
(٢)ندائیہ (!)یہ علامت منادی کے آخر میں لگائی جاتی ہے۔جیسے: بزرگو اور دوستو!، پیارےبچو!، معزز اساتذۂ کرام! وغیرہ۔
(٣)فجائیہ(!) یہ علامت اس جملے کے اختتام پر لگائی جاتی ہے جہاں جذبات، دل کی کیفیت یا کسی حیرت انگیز چیز کا اظہار ہو۔جیسے: افسوس صد افسوس! آپ کے بال سفید ہوگئے اور آپ دنیا کی رنگینیوں میں منہمک ہیں۔افوہ! یہ کیا کرتے رہتے ہو۔آہ! ایک اور آسمانِ علم وفضل کا ستارہ ٹوٹا۔وغیرہ۔
(٣)متساویہ(=) یہ علامت دو عدد کو جوڑنے کے بعد لگاکر پھر کل عدد لکھ دیتے ہیں۔جیسے:٢+٢=۴، یہاں آپ غور کرسکتے ہیں کہ ہم نے دو کو دو میں ضم کیا پھر اس کے بعد برابر کی علامت (=)لگاکر کل عدد ۴ لکھ دیا۔یونہی اگر اس کے برعکس کرنا ہو۔جیسے:۴=٢+٢،مطلب یہ ہے کہ جہاں منکسر اعداد کو جوڑا جائے تو وہاں جوڑنے کے بعد کل عدد لکھنے سے پہلے متساویہ یعنی برابری کی علامت(=)لگائی جائے گی ۔
(۴)قوسین (())یہ علامت جملہ معترضہ یا کسی توضیحی جملے کے شروع و آخر میں آتی ہے جس کی پہچان یہ ہے کہ قوسین کے درمیان کے الفاظ چھوڑ کر پڑھا جائے تو معنی میں کوئی خلل نہیں ہوتا بلکہ ایک دوسرے سے ایسا ربط ہوتا ہے کہ مفہوم بآسانی سمجھ میں آجاتاہے۔ جیسے: مجددِ الفِ ثانی(جو دورِ اکبری کےایک مثالی رہنما تھے) کی کتاب مکتوبات امام ربانی بہت مشہور ہے۔
(۵)واوین (" ")یہ علامت کسی اقتباس یا مقولے کے اول و آخر میں لگائی جاتی ہے ۔جیسے:حافظِ ملت علیہ الرحمہ نے فرمایا:"زمین کے اوپر کام زمین کے نیچے آرام"۔ ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:"انما المؤمنون اخوۃ"۔اور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:"اول ماخلق
اللہ نوری"۔وغیرہ۔
۔ (٧)سکتہ(،) جسے انگریزی میں کاما کہا جاتاہے، یہ سب سے چھوٹا ٹہراو ہے۔ اور یہ جملوں یا مفردات کو باہم جوڑنے کے لیے آتاہے۔ یوں تو کتابوں میں اس کے استمال کےکئی مواقع بیان کیے گئےہیں جنھیں اکثر یاد کرنے میں الجھن ہوتی ہے اور مقالہ نگار انھیں بروقت استعمال کرنے سے چوک جاتاہے۔ اس لیے ہم سب کے ماحصل کے طور پر ایک اصلِ کلی بیان کررہے ہیں۔
علامتِ سکتہ اس جگہ آتی ہے جہاں ایک جملے کا دوسرے پر عطف کیا جائے اب وہ چاہے مفرد کا مفرد پر ہو۔ جیسے: خالد، ناصر، حامد اور شاہد بازار گئے یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ “حامد”کا عطف”ناصر “پر اور “ناصر “کاعطف “خالد“پر ہے اور سب ایک حکم (بازارجانے) میں شریک ہیں۔
اسے ہم یوں بھی ذہن میں راسخ کرسکتے ہیں کہ جہاں عطف کا مقام ہو تو آخر کا ماقبل چھوڑکر سب کے درمیان میں علامت سکتہ آئے گی تو آخری لفظ ہے “شاہد”اور اس کا ماقبل ہے “حامد” ۔ اسے چھوڑکر باقی سب کے درمیان علامت سکتہ لگائی گئی اور “حامد” اور “شاہد “کے درمیان میں لفظِ عطف”اور”آیا۔
لہذا تمام میں حرفِ عطف کے ساتھ”خالد اور ناصر اور حامد اور شاہد بازار گئے”زبان کی سلاست اور روانی کو ختم کردے گا اور مضمون میں طوالت ہوگی جو ناقابلِ برداشت ہے۔ یوں ہی تمام میں بغیر حرفِ عطف”خالد، ناصر، حامد، شاہد بازار گئے” غیر مناسب ہے۔
یوں ہی جب ایک سے زیادہ جملوں کا عطف کرنا ہو تو آخر کا ماقبل چھوڑکر سب کے درمیان علامتِ سکتہ آئے گی۔جیسے:رقیہ نے برتن دھوئے، علیشہ نے آٹا گوندھا، شبنم نے چپاتی بنائیں اور مہمانوں نے کھانا کھایا؛ اسی طرح چور گھر میں گھسا، اندر سے کچھ سامان لیا اور فرار ہوگیا۔وغیرہ۔
۔(٨)نیم وقفہ (؛) اس کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب سکتے سے زیادہ ٹھراو ہو۔ اس کے استعمال کے مواقع حسبِ ذیل ہیں
۔(الف) ان دو جملوں کے درمیان جو بغیرعطف کے استعمال ہوں۔جیسے: اگر خالد محنت کرے گا؛ کامیاب ہوگا۔ اور سستی کرے گا؛ تو زیاں اٹھائے گا۔ درسِ نظامی سے واقفیت رکھنے والے حضرات اسے آسانی کے لیے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ یہ علامت شرطیہ جملے میں شرط کے بعد آتی ہے۔
۔(ب) ایسے ہم رتبہ لمبے فقروں کے درمیان میں آتی ہے جن کے درمیان سکتےہوں ۔جیسے:وہ بڑا عقلمند، ہنس مکھ، اور سخی تھا؛ ہم اس کی عزت کرتے تھے۔وغیرہ۔
۔(٩)تفسیریہ(:)یہ علامت سابقہ جملے کی تشریح یا تصدیق یا مقولے سے پہلے آتی ہے۔ جیسے:کیا خوب سودا نقد ہے: اس ہاتھ دے اور اس ہاتھ لے۔ حافظ ملت علیہ الرحمہ نے فرمایا: ’’زمین کے اوپر کام، زمین کے نیچے آرام‘‘۔
۔ (١۰)تفصیلیہ(:-)یہ علامت عموما کسی اقتباس یافہرست کے بعد یا کسی ایسے جملے کے بعد لگائی جاتی ہےجس کی تفصیل میں کئی جملے آتے ہوں۔ جیسے: آپ اعلیٰ حضرت کی کسی کتاب کا کوئی اقتباس پیش کریں تو یوں کہیں گے: اعلی حضرت فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
میرا روزانہ کا معمول کچھ اس طرح ہے صبح سویرے اٹھتاہوں، نہادھوکر ناشتہ کرتا ہوں، کچھ دیر اخبار پڑھ کر ملکی حالات کا جائزہ لیتا ہوں اور پھر آفس چلاجاتاہوں۔
۔(١١) (الف)خط/ڈیش(۔)یہ کامل وقفے سے کچھ بڑا ہوتا ہے اور یہ جملہ معترضہ کے اول وآخر میں آتاہے۔ جیسے: عدالتِ عظمی میں جج اگر مسلمان ہوتا لیکن مسلمانوں کو اپنی مسائل کی ابھی فکر کہاں۔تو بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر نہ ہوتا۔
(ب) خط کی علامت انگریزی مخففات کے درمیان میں بھی آتی ہے۔ جیسی: prime minister کو شارٹ فارم میں لکھیں گے تو اس طرح لکھاجاۓ گا پی۔ایم اس کے علاوہ دوسرے مخففات کے درمیان علامت خط لگاکر یوں لکھا جاۓ گا
سی۔ایم
ایس۔ڈی۔ایم
ڈی۔ایم
پی۔سی۔او
ایس۔ٹی۔ڈی
ہمزہ کے مزید اہم قواعد
اردو زبان میں مضمون نویس کو ایک الجھن یہ ہوتی ہے کہ "ابتداء" "املاء" "علماء" جیسے الفاظ کا صحیح املا کیا ہے؟ آیا یہ ہمزہ کے ساتھ لکھے جائیں گے یا بغیر ہمزہ کے؟ اس سلسلے میں اردو انشاءو املا کے قواعد کی بعض کتابوں میں یہ ضابطہ ملتاہے کہ عربی کے متعدد مصادر، جمعوں اور مفرد الفاظ کے آخر میں الف یا واو کے بعد ہمزہ ہوتا ہے لیکن وہ ہمزہ تلفظ میں نہیں آتا تو انھیں بغیر ہمزہ کے لکھا جائے گا۔ جیسے: ابتداء سے ابتدا، املاء سے املا، علماء سے علما اور سوء سے سو وغیرہ۔ لیکن ہم نے اس قاعدہ میں جب تفکر کیا تو اس نتیجہ پر پہونچے کہ در اصل اس قاعدے میں کئی قاعدوں کو ضم کردیا گیا ہے اگر ان سب کو الگ الگ سمجھا جائے تو اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں اور درسِ نظامی سے وابسطہ حضرات کے لیے جس کا سمجھنا اور یاد کرنا آسان تر ہوجاتا ہے۔
مذکورہ بالا قاعدے کی تفصیل کچھ اس طرح کی جاسکتی ہے:-
(١)بابِ افتعال و افعال کا ہر وہ مصدر جس کے آخر میں ہمزہ ہو تو وہ اردو املا میں بغیر ہمزہ کےلکھا جائے گا۔ جیسے: ارتقا، ابتدا، انتہا، املا، انشا، اعطا وغیرہ۔
(٢)ہر وہ جمع جو فعلاء کے وزن پر آئے تو وہ بغیر ہمزہ کے لکھا جائے گا۔ جیسے: علما، خطبا، شعرا، نجبا، شرفا، عقلا وغیرہ۔
(٣)ہر وہ لفظِ مفرد جو فعال یا فَعلاء کے وزن پر آئے تو وہ بغیر ہمزہ کے لکھا جائے گا۔ جیسے: ندا، ضیا، حرا، صحرا، خضرا، زہرا، صفرا، حمرا وغیرہ۔
ہماری اس تحریر کو پڑھنے والے حضرات جو طریقہ آسان سمجھیں اسے محفوظ کرلیں پہلا طریقہ زیادہ جامع ہے کہ اس میں لفظِ سوء وغیرہ بھی آجاتے ہیں اور دوسرا طریقہ (جو راقم کا اختراع ہے) عربی زبان سے واقفیت رکھنے والوں کے لیے از روے حفظ زیادہ آسان ہے۔
جن الفاظ کے آخر میں ہمزہ ہو وہ ترکیب میں کیسے استعمال ہوں گے؟
اگر ایسی جمعوں، مصادر اور مفرد الفاظ جن کے آخر میں ہمزہ اور اس سے پہلے الف ہو اگر یہ کسی عربی ترکیب کا حصہ ہوں تو ہمزہ جوں کا توں لکھا جائے گا جیسے: ان شاءاللہ، ثناء اللہ، فداء المصطفی، خطباء العرب، ذکاء اللہ، عطاء الرحمٰن وغیرہ
اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ ایسے الفاظ کا املا "واو" یا "واو کے اوپر ہمزہ" لٹکاکر لکھنا غلط ہے۔جیسے: ثناواللہ، فداو المصطفی/ثناؤاللہ، فداؤ المصطفی وغیرہ۔
ایسے الفاظ کی اگر اضافت کردی جائے یا موصوف بنادیا جاے تو ان کا املا "یاے مجہول" کے ساتھ ہوگا۔جیسے:عطاے رسول، انشاے عربی، املاے اردو، ارتقاے ملک، شعراے عظام، علماے کرام، فقہاے کوفہ ،قراے مصر وغیرہ۔
لہذا واضح ہوگیا کہ ان الفاظ کو ترکیبِ اضافی یا توصیفی میں "یاے مجہول کے اوپر "ہمزہ" بناکر لکھنا غلط ہے۔اور اس کے غلط ہونے کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں ایک کا تو ابھی ذکر ہوا اور دوسری وجہ-جس کا ذکر گزشتہ صفحات میں بھی ہوچکاہے۔ یہ ہے کہ یہ سب اسم ہیں جب کہ ہمزہ فعل پر آتا ہے۔ جیسے: جائے (مصدر جانا سے) اگر اس کا اسم (بمعنی جگہ) لکھنا ہو تو اس کی صورت یہ ہوگی: جاے پیدائش وغیرہ۔
قاعدہ: ایسا لفظ جس کے وسط میں الفِ مفتوح ہو تو اسے الف پر زبر کے ساتھ لکھا جائے گا۔جیسے: تاَثر، متاَخر، تواَم، جراَت، تاَسف، متاَمل وغیرہ۔ لیکن اس قائدہ کو ہم یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ بابِ تفعل کی علامت الف۔ عام ازیں کہ مصدر ہو یا اسمِ فاعل و مفعول وغیرہ پر فتح(زبر) آئے گا۔ماسبق میں جو مثالیں مذکور ہوئیں اگر ان میں غور کیاجائے تو اس نتیجے پر بآسانی پہونچا جاسکتاہے۔ اگرچہ "الف" کے اوپر "ہمزہ" بناکر لکھنے کا بھی چلن ہے لیکن وہ نامناسب ہے لہذا طریقۂ اول کو اپنانے پر زور دیا جائے۔ اگر یہی الفاظ بابِ تفعیل سے اسم فاعل یا اسم مفعول آجائیں تو الف کی جگہ "واو" اور اس کے اوپر "ہمزہ" بناکر لکھے جائیں گے لیکن اس میں یہ شرط ہے کہ اس واو کا ماقبل مضموم ہو۔اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ واو یہاں ماقبل کے ضمہ کی مناسبت سے ہے۔ جیسے: مؤرخ، مؤنث، مؤدب، مؤرخہ، مؤثر، مؤقر، مؤجل وغیرہ۔
لہذا ان کو بغیر ہمزہ کے (مورخ، مونث، مودب، مورخہ، موثر، موقر، وغیرہ) لکھنا غلط ہوگا کیوں کہ بغیر ہمزہ لکھنے میں بعض کے متعلق بابِ افعال سے ہونے کا وہم ہوگا۔اسی طرح الف کے ساتھ جیسے: مُاَرخ، مُاَنث، مُاَدب وغیرہ لکھنا غلط ہے۔ کہ اس سے مادہ کی طرف رہنمائی دشوار ہوگی بلکہ اس کا صحیح اور رائج املا "واو" کے اوپر "ہمزہ" کے ساتھ ہے تاکہ مادہ کی طرف رہنمائی بھی ہوجائے۔
اردو مضمون نگاری میں بعض الفاظ ایسے ہیں کہ جن کے متعلق صحیح املا دریافت کرنے میں الجھن ہوتی ہےاور یہ پتا لگانا کافی مشکل ہوتاہے کہ اس لفظ کا صحیح املا کیا ہے؟ جسے: "مولا" کہ اسے "الف" کے ساتھ لکھا جائے یا "یاء" اور اس کے اوپر کھڑا زبر دے کر اس طرح "مولیٰ" لکھا جائے۔ اس سلسلے میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ جس لفظ کا املا اربابِ لوح و قلم کے نزدیک جو رائج ہے اسےاسی کے ساتھ لکھا جائے گا۔
بعض وہ الفاظ جن کا املا الف کے ساتھ رائج ہے یہ ہیں:- مولا، مدعا، مقتدا، منتہا، مقتضا وغیرہ۔
اور جن الفاظ کا املا یاء پر الفِ مقصورہ کے ساتھ مستعمل ہے وہ یہ ہیں:- صغریٰ، کبریٰ، مجتبیٰ، مصطفیٰ مرتضیٰ، موسیٰ، عیسیٰ، یحیٰ، اعلیٰ، ادنیٰ، اولیٰ، لیلیٰ، تعالیٰ، دعویٰ، عقبیٰ، طوبیٰ، حسنیٰ، طولیٰ، مثنیٰ، مقفیٰ، متبنیٰ، مستثنیٰ، یتامیٰ، نصاریٰ، عید الاضحیٰ، حتیٰ کہ، شمس الہدیٰ، سدرۃ المنتہیٰ ،مسجدِ اقصیٰ وغیرہ۔
عربی کے مرکب الفاظ جب اردو میں منتقل کیے جائیں تو انھیں عربی کے قواعد کی رعایت کرتے ہوئے ہی لکھا جائے گا۔ جیسے: بالعموم، بالخصوص، بالفرض، بالفعل، بالضرورہ، حتی الامکان، حتی المقدور، حتی الوسع، علی الاطلاق، علی الصباح، علی ہذا القیاس، علی الدوام، علی الاعلان
لیکن اس میں بہتر یہ ہے کہ ان کا اردو ترجمہ لکھا جائے۔ جیسے: بالعموم کی جگہ عام طور سے یا عموماً، علی الاعلان کی جگہ ظاہری طور پر یا ظاہرا اور حتی المقدور کی جگہ طاقت بھر وغیرہ۔
لفظِ "اعلی حضرت" جدید املا میں فصل کے ساتھ رائج ہے لہذا ابتدائی مضمون نویس کو اسے ہی اپنانا چاہیے۔ اور وصل کے ساتھ"اعلیحضرت" نہ لکھنا چاہیے کہ یہ قدیم املا ہےاور اگر اس لفظ کو یوں "اعلحضرت" لکھا جائے تو بلکل غلط ہے کہ اس سے "یاء"غائب ہے۔ اسی طرح لفظِ "مولانا" کی بھی ترجیحی صورت یہی ہے باقی اس کے علاوہ "مولینا" "یاء"کے ساتھ اب متروک العمل ہے اور بغیر یاء کے "مولٰنا" تو بلکل غلط ہے کہ اس سے یاء کا شوشہ ہی غائب ہے۔ یہی حال لفظِ علاحدہ کا بھی ہے کہ یہ بھی فصل کے ساتھ رائج ہے لہذا اسے وصل کے ساتھ "علیحدہ" لکھنا استعمال کے خلاف ہوگا۔
شکر گزار یا شکر گذار!!
اکثر قواعدِ املا سے نابلد حضرات "شکر گزار"جیسے الفاظ کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں کہ آیا انھیں "زاءہوز"سے لکھیں یا "ذال معجمہ"سے؟ اس بابت یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ فارسی زبان میں ایک مصدر "گزاردن" بزاے ہوز بمعنی ادا کرنا اور بذالِ معجمہ "گذاردن" ترک کرنا،ہے۔ لہذا جن الفاظ میں ادائیگی کا معنی استعمال کرنا ہو تو انھیں زاے ہوز کے ساتھ لکھا جائے۔جیسے:- شکر گزار، عبادت گزار، تہجد گزار، وغیرہ۔ اور جن میں ترک اور چھوڑنے کا معنی استعمال کرنا ہو تو انھیں ذالِ معجمہ کے ساتھ لکھا جائے۔ جیسے: حرص گذار، وغیرہ۔
جن الفاظ کا املا غلط رائج ہوگیاہے!
1_ لفظ ان شاء اللہ کو بعض لوگ ضم کرکے انشاء اللہ لکھتے ہیں بعض قدیم مطبوعہ کتابوں میں بھی یہ غلطی دیکھنے کو ملی حالاں کہ یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ انشاء باب افعال کا مصدر ہے جس کا معنی ہے پیدا کرنا قرآن کریم میں یہ لفظ اس معنی میں وارد ہوا ارشاد ہوتاہے: " وھو الذی انشأکم من نفس واحدۃ(س:انعام آیت: 99)
اور وہ وہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا۔
مذکورہ آیت "انشأ" باب افعال سے صیغۂ ماضی استعمال ہوا۔ ایک جگہ یہی لفظ صیغۂ مضارع کے ساتھ اٹھانے کے معنی میں استعمال کیا گیا ارشاد باری تعالی ہے :" ھو الذی یریکم البرق خوفا وطمعا وینشئ السحاب الثقال ۔" (س: الرعد آیت 18)
یعنی وہ تمھیں بجلی دکھاتاہے ڈر کو اور امید کو اور بھاریبدلیاں اٹھاتا ہے۔
پھر قرآن کریم میں بھی ہر جگہ فصل کےساتھ ہی مستعمل ہوا نیز یہ جملہ شرطیہ ہے کہ "ان"حرف شرط "شاء" صیغۂ ماضی اور اسم جلالت فاعل ہے اور اگر ضم کرکے لکھا جاۓ تو ترکیب اضافی کا شبہ ہوگا مزید خرابی لازم یہ آۓ گی کہ مصدر کبھی اسم فاعل کے معنی میں ہوتاہے اور کبھی اسم مفعول کے معنی میں۔پہلی تقدیر پر معنی اللہ کا پیدا کرنا اور دوسری تقدیر پر اللہ کا پیدا کیا ہوا اور دونوں ہی معنی فاسد ہیں اس لیے کہ ان شاء اللہ سے مقصود اپنے فعل کو خالق کی مشیئت پر معلق کرنا مقصود ہوتاہے۔
زہرا کو کچھ لوگ ہاء کے ساتھ زہرہ لکھتے ہیں جوکہ غلط ہے ۔یہ لفظ حقیقت میں الف ممدودہ کے ساتھ زہراء ہے اردو میں منقول ہوا تو ہمزہ ساقط ہوگیا تو زہرا بچا ۔اس پر ہاء کا اضافہ سمجھ سے بالا تر ہے اس لیے کہ پھر اسے تاے مدورہ سے بدلا ہوا مانا جاۓ گا۔
" پتہ" ہاء کے ساتھ ایڈریس کے معنی میں ہے جب کہ الف کے ساتھ علم کے معنی میں ہے۔ جیسے: تم کہو
"مجھے پتاہے۔"
کتبہ: محمد ایوب مصباحی پرنسپل وناظم تعلیمات دار العلوم گلشن مصطفی بہادرگنج ٹھاکردوارہ مراداباد یوپی۔
تعاون
مضمون نگار ، قلم کار حضرات بھی ہماری ویب سائٹ کا حصہ بن سکتے ہیں پس آپ اپنے سنہرے مضامین درج ذیل ای میل پر بھج دیں تاکہ آپ حضرات کے مضامین سے دوسرے حضرات بھی استفادہ کر سکیں۔
0 Comments