عنوان: کیا کسی انسان پر اولیائے کرام کی روح حاضر ہو سکتی ہے؟
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کے ہمارے گاؤں کھارا میں ایک بزرگ بابا رحم شاہ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے۔ ہر سال مزار کے احاطے میں سالانہ محفل عرس کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ امسال یہ محفل مورخہ 22 جولائی 2021 کو بعد نمازِ ظہر منعقد ہوئی۔ محفل میں ایک شخص بیٹھاہوا تھا۔ اچانک اس نے تھرتھرانا شروع کر دیا۔ اور بظاہر اس نے اپنی حالت غیر بنا لی۔ پھر اسی حالت میں اسے کرسی پر بیٹھا دیا گیا۔ اس نے یہ کہنا شروع کر دیا۔ جس کا مفہوم یہ تھا کہ میں صاحب مزار ہوں۔ تم لوگوں نے اچھا کیا کہ میرے مزار کے احاطے کی چاردیواری بنا دی۔ ورنہ پہلے چار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے میرے مزار کے احاطے میں گدھے کتے وغیرہ پھرتے تھے۔ اور یوں میری بے ادبی ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ بھی اس نے بہت سی باتیں کیں۔اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کسی بزرگ یا ولی اللہ کے روح کا دوسرے انسان کے اندر حلول کرنا اور اس قسم کی باتیں کرنا شریعت کی رو سے کیسا ہے ؟ یاد رہے یہ شخص کہتا ہے کہ صاحب مزار کی مجھ میں حاضری ہوتی ہے۔ او ریہ شخص جب کسی اور مزار پر بھی جاتا ہے تو اس طرح کی حالت بنا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس صاحب مزار کی بھی مجھ میں حاضری ہوئی ہے ۔ دوسرے لوگ بھی یہ مانتے ہیں کہ صاحب مزار اس شخص میں حاضر ہوتا ہے۔ اور جو باتیں بظاہر یہ شخص کرتا ہے حقیقت میں یہ شخص وہ باتیں نہیں کرتا۔ بلکہ وہ باتیں صاحب مزار کرتا ہے۔ لوگوں کا ایسا اعتقاد رکھنا شریعت مطہرہ کی روشنی میں کیسا ہے ؟ کیا ایسا اعتقاد رکھنا ہندوؤں کے عقیدہ تناسخ کی طرح ہے یا نہیں ؟ جواب کو قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل اور مفصل عام فہم انداز میں تحریر کیا جائے۔ بینوا وتوجروا۔
المستفتی: محمد عثمان شوکتڈسکہ ضلع سیالکوٹ پنجاب پاکستان
باسمه تعالی والصلوۃ والسلام علیٰ رسولہ الاعلی
کیا کسی انسان پر اولیائے کرام کی روح حاضر ہو سکتی ہے؟ |
الجواب: مسلمانوں کی ارواح بعد انتقال حسب مراتب مختلف مقامات پر رہتی ہیں اور کافروں کی خبیث روحیں مختلف جگہوں پر قید رہتی ہیں۔حدیث پاک میں ہے:’’عن عبد الله بن عمرو قال: الدنيا سجن المؤمن و جنة الكافر فاذا مات المؤمن يخلى يسرح حيث شاء‘‘۔(المصنف لابن ابي شيبة، ج:١٩ ص:٢٢٥ حديث:٣٥٨٦٧، مؤسسة علوم القرآن)شرح الصدور میں ہے:’’عن ابن عمر رضی الله عنھما قال: ان ارواح الکفار تجمع ببرھوت سبخة بحضرموت، وارواح المؤمنین بالجابیة، برھوت بالیمن، والجابیة بالشام‘‘۔(شرح الصدور ص:٢٣٦،٢٣٧ دار المدني)اسی میں ہے:’’عن علي رضي الله عنه قال: ارواح المؤمنين في بئر زمزم‘‘۔(ايضا)
حافظ ابو الفرح ابن رجب حنبلی بغدادی دمشقی(متوفی۷۹۵ھ) حدیث نقل فرماتے ہیں:’’قال کعب:اما علیون فالسماء السابعة فیھا ارواح المؤمنین، واما سجین فالارض السابعة فیھا ارواح الکفار تحت خد ابلیس‘‘۔(اهوال القبور واحوال اهلها الى النشور ص:١٨٣ دار الكتاب العربي)اسی میں ہے:’’سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ارواح المؤمنين، فقال: في طير خضر تسرح في الجنة حيث شاءت، قالوا يا رسول الله! وارواح الكفار؟ قال محبوسة في سجين‘‘۔(ايضا، ص:١٨٢)فيض القدير شرح جامع صغير میں ہے:’’لان النفوس القدسیۃ اذا تجردت عن العلائق البدنیة عرجت واتصلت بالملإ الأعلی ولم یبق لها حجاب فتري الكل بالمشاهدة بنفسها‘‘۔(فيض القدير شرح جامع صغير ج:٣، ص:٤٠٠ مكتبة دار المعرفة)بہار شریعت میں ہے:’’مرنے کے بعد مسلمان کی روح حسبِ مرتبہ مختلف مقاموں میں رہتی ہے، بعض کی قبر پر ، بعض کی چاہِ زمزم شریف میں، بعض کی آسمان و زمین کے درمیان، بعض کی پہلے، دوسرے، ساتویں آسمان تک اور بعض کی آسمانوں سے بھی بلند، اور بعض کی روحیں زیرِ عرش قندیلوں میں، اور بعض کی اعلیٰ عِلّیین میں مگر کہیں ہوں، اپنےجسم سے اُن کو تعلق بدستور رہتا ہے، جو کوئی قبر پر آئے اُسے دیکھتے، پہچانتے، اُس کی بات سنتے ہیں، بلکہ روح کا دیکھنا قُربِ قبر ہی سے مخصوص نہیں، اِس کی مثال حدیث میں یہ فرمائی ہے کہ ایک طائر پہلے قفص میں بند تھا اور اب آزاد کر دیا گیا۔کافروں کی خبیث روحیں بعض کی اُن کے مرگھٹ یا قبر پر رہتی ہیں، بعض کی چاہِ برہُوت میں کہ یمن میں ایک نالہ ہے، بعض کی پہلی، دوسری، ساتویں زمین تک، بعض کی اُس کے بھی نیچے سجّین میں، اور وہ کہیں بھی ہو، جو اُس کی قبر یا مرگھٹ پر گزرے اُسے دیکھتے، پہچانتے، بات سُنتے ہیں، مگر کہیں جانے آنے کا اختیار نہیں، کہ قید ہیں‘‘۔(بہار شریعت ج:١، ص:١٠٣ مکتبۃ المدینہ)لیکن بزرگان دین کے ظاہری وصال فرمانے کے بعد ان کی ارواح کا کسی انسان پر حاضر ہونا یہ محض خیال باطل ہے جس پر اعتماد جائز نہیں اور اس کی کوئی حقیقت نہیں۔تاج الشریعہ علامہ اختر رضا قادری ازہری قدس سرہ سے سوال ہوا کہ کسی عورت و مرد پر کوئی پیر، بابا یا ولی، شہید وغیرہ آتے ہیں یا نہیں؟ آپ نے جواب تحریر فرمایا :’’ یہ خیالات و اوہام عوام ہیں ان پر اعتماد جائز نہیں‘‘۔(فتاوی تاج الشریعہ ج:١، ص:٥٠١ جامعۃ الرضا، بريلی شريف)شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:’’یہ سب مکر و فریب ہے۔ کوئی بزرگ کسی پر نہیں آتا، اس پر اعتماد جائز نہیں۔ ہاں خبیث ہمزاد اور جنات آتے ہیں‘‘۔ (فتاوی شارح بخاری ج:٢، ص:١٤٨ دائرۃ البرکات، گھوسی مئو)جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ بعد انتقال روح کسی دوسرے آدمی یا جانور کے بدن میں حلول کر جاتی ہے کفر ہے،شرح عقائد کی شرح میں ہے:’’التناسخ ھو انتقال الروح من جسم الی جسم آخر وقد اتفق الفلاسفة و اهل السنة على بطلانه، وقال بحقيته قوم من الضلال فزعم بعضهم ان كل روح ينتقل في مائة الف و اربعة و ثمانين من الأبدان، و جوز بعضهم تعلقه بابدان البهائم بل الاشجار و الاحجار على حسب جزاء الاعمال السيئة، وقد حكم اهل الحق بكفر القائلين بالتناسخ والمحققون على ان التكفير لانكارهم البعث‘‘۔(النبراس شرح شرح العقائد ص:٢١٣ )فتاوی ہندیہ میں ہے:’’ويجب إكفار الروافض في قولهم برجعة الاموات الى الدنيا وبتناسخ الارواح وبانتقال روح الإله الى الائمة‘‘۔(فتاوى هندية ج:٢، ص:٢٨٦ دار الکتب العلمیہ)بہار شریعت میں ہے:’’یہ خیال کہ وہ روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے، خواہ وہ آدمی کا بدن ہو یا کسی اور جانور کا جس کو تناسخ اور آواگَوَن کہتے ہیں، محض باطل اور اُس کا ماننا کفر ہے‘‘۔( بہار شریعت ج:١، ص١٠٣ مکتبۃ المدينہ)لہذا صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص خود سے اپنی حالت غیر بنا کر یہ کہے کہ فلاں صاحب مزار کی مجھ پر حاضری ہوتی ہے تو یہ محض اس کی مکاری و فریب کاری اور صاحب مزار کی نسبت سے کذب بیانی ہے کیوں کہ کسی بزرگ کی روح کسی پر نہیں آتی ہے اور اس پر اعتماد بھی جائز نہیں، اور اگر اس پر شیطان و جنات کی حاضری ہو جس کی وجہ سے اس کی حالت تبدیل ہو جائے اور وہ خبیث و ہمزاد اس شخص سے مذکورہ کلمات کاذبہ کہلوائیں تو یہ ان شیاطین کی دھوکہ دہی ہے اس میں شخص مذکور کا کوئی عمل دخل نہیں، نیز لوگوں کو ایسے خیالات جاہلانہ و غیر شرعیہ سے احتراز لازم ہے اور ان پر یقین کرنا جائز نہیں۔اعلی حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:’’وہ(شریر جنات) سخت جھوٹے کذاب ہوتے ہیں اپنا نام کبھی شہید بتاتے ہیں اور کبھی کچھ، اس وجہ سے جاہلان بے خرد(بے عقل جاہلوں) میں شہیدوں کا سر پر آنا مشہور ہوگیا ورنہ شہدائے کرام ایسی خبیث حرکات سے منزہ ومبرا ہیں‘‘۔(فتاوی رضویہ ج:٢١، ص:٢١٨ رضا فائونڈیشن)والله تعالی اعلم
0 Comments