طلاق پہ لکھی گئی ایک درد ناک داستان

طلاق پہ لکھی گئی ایک درد ناک داستان

👈 *طلاق پہ لکھی گئی ایک داستاں*👉

شادی تو بڑی دھوم دھام سے ہوئی تھی لیکن نصیبوں نے برباد کردیا تھا 

مہک کی شادی اپنے کزن طاہر سے ہوئی تھی شادی کے بعد کچھ مہینے تو سکون سے گزرے تھے ساس نند سب پوچھنے لگے 08 ماہ ہو گئے ہیں کوئی اللہ کی رحمت مہک کوئی جواب نہ دیتی وقت گزرنے لگا 5 سال گزر گئے لیکن مہک ماں نہ بن سکی پھوپھو ساس نند یہاں تک کے طاہر بھی طعنے دینے لگا پھوپھو تو بار بار کہتی یہ منحوس ہے بس اس سے جان چھڑوا لینی ہے بانجھ پن کا طعنہ وہ الفاظ کتنا درد دیتے ہیں یہ صرف ایک عورت ہی سمجھ سکتی ہے مہک ہر شام طنز سہتے ہوئے سوتی یر صبح سخت لہجے اس کے منتظر ہوتے بہت دعا مانگی اے میرے اللہ مجھے معاف فرما مجھ پہ رحم فرما‌ میں اب تھک گئی ہوں باتیں سن سن کر مجھے اپنی رحمت سے نواز دے ساس کبھی کسی حکیم کے پاس تو کبھی کسی ڈاکٹر کے پاس لیکر جاتی مہک کو مہک کا ہر ٹیسٹ کلیئر ہوتا جب طاہر سے کہتے اپنا ٹیسٹ کروانے کو تو وہ انکار کر دیتا 7 سال گزر گئے تھے مجھے لیکن اولاد نہ ہوئی پھر ایک دن مہک کھانا بنا رہی تھی طاہر گھر آیا ساتھ ایک لڑکی تھی ماں نے پوچھا طاہر بیٹا یہ کون ہے طاہر مسکرا کر بولا اماں یہ تیری بہو ہے ہم نے کورٹ میرج کی ہے ماں پہلے کچھ پریشان سی ہوئی پھر مہک کی طرف دیکھ کر بولی اس منحوس کا کیا کرنا ہے طاہر مہک کی طرف دیکھ کر 3 بار طلاق کا کہا پھر دوسری بیوی کا ہاتھ تھام کر کمرے میں چلا گیا ساس نند سب بہت خوش تھے مہک کی تو دنیا آخر گئی تھی لیکن اب کیا کر سکتی تھی وہ زندگی بھر رونے کے سوا وہ انجام جانتی تھی جب عورت کو طلاق ہو جائے تو یہ معاشرہ اس کے ساتھ کیا کرتا ہے طلاق والی لڑکی کو صرف گوشت کا ٹکڑا سمجھا جاتا یے 10 سال پہلے وہ کب جانتی تھی یوں آنے والا وقت اس پہ قہر برسائے گا وہ کب جانتی تھی اس کے دامن پہ طلاق کا دھبہ لگ جائے گا ساس گالی دے کر بولی منحوس نکل جا اب ہمارے گھر سے بنا کچھ کہے لبوں کو سی لیا کیا شکوہ کرتی اب کیا شکایت کرتی جب زخم ہی اپنوں نے دیئے تھے کمرے میں گئی اپنا موبائل لیا الماری میں کپڑے پڑے ہوئے تھے کچھ ضرورت کا سامان تھا طاہر کہتا تھا نئی موٹر بائیک لینی یے مہک نے پیسے جمع کرتے کرتے 5 سال میں 70 ہزار روپے جمع کر لیئے تھے اپنے خرچ میں سے جاتے ہوئے طاہر کی طرف مسکرا کر دیکھنے لگی پاگل ہوں تو کسی کو دکھ نہیں نہ دیتے میں بدعا نہیں دوں گی بس میرے نصیبوں کا سفر ہی ایسا ہے خوش رہو تم دونوں اور ہاں یہ لو 70 ہزار روپے کہتے تھے نا بائیک لینی یے میری طرف سے تم کو شادی کا گفٹ ہے طاہر مہک کی آنکھوں میں دیکھنے لگا غم کا ایک بھی آنسو نہ تھا نہ جانے کیسے اتنا صبر کیئے ہوئے تھی یوں لگ رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو مہک نے پھوپھو کے سامنے سر جھکایا پھوپھو جان چلو مانا میں منحوس ہی سہی لیکن آپ میری پھوپھو بھی تو ہیں نا مجھے پیار تو دے دیں الوداع کرتے ہوئے پھوپھو نے منہ موڑ لیا مسکرانے لگی ہائے کیسے اتنی نفرت کر لیتے ہیں آپ لوگ پیدل ہی گھر کی جانب چلنے لگی جیسے ہی گھر سے قدم باہر رکھا ضبط ٹوٹ گیا آنکھوں سے آنسو کا طوفان بہنے لگا سرخ آنکھیں برباد زندگی تڑپتا دل بے بسی کی انتہا ہزار شکوے شکایت لبوں پہ کس سے کہتی کس کو سناتی کیا گزری اس پہ رکشہ میں بیٹھی امی ابو کے گھر آ گئی مسکرا رہی تھی امی سے ملی بھابھی بھائی ابا سب گھر تھے سب سے مسکراتے ہوئے ملی امی نے پوچھا مہک خیر تو ہے آج اس وقت اور اکیلی ہی آئی ہو طاہر کہاں ہے مسجد سے اذان کی آواز سنائی دینے لگی ظہر کا وقت ہو گیا تھا بنا کچھ بولے وضو کیا نماز ادا کی نماز کے بعد امی سے کہنے لگی امی بھوک بہت لگی ہے کھانا ہی دت دیں امی کچھ نہ سمجھ پا رہی تھی مہک کو کھانا دیا کھانا کھا کر کہنے لگی امی سو جاوں کچھ دیر ماں نے غصے سے پوچھا میرا دل گھبرا رہا ہے مجھے سچی بات بتا مہک کیا ہوا ہے طاہر نے کچھ کہا ہے کیا مہک چپ رہی نہیں امی کسی نے کچھ نہیں کہا بس آپ سے ملنے آئی ہوں کہو تو چلی جاوں یہاں سے ماں نے سینے سے لگایا مہک تیری آنکھیں بتا رہی ہیں کچھ تو بات ہے میں ماں کے سینے لگی ہوئی مسکرانے لگی آواز کانپنے لگی امی طاہر نے مجھے طلاق دے دی یے بانجھ کہہ کر ماں کو یقین نہ ہو رہا تھا یہ کیا کہہ رہی ہو میری بچی مہک بولی امی بس ہو گئی طلاق اب کوئی تماشہ نہ کرنا کوئی بھی بس جو ہونا تھا ہو گیا مجھے پہ ایک قیامت کا آنا ضروری تھا جو آ کر گزر گئی اب پلیز اس سے پوچھنا لڑنا جھگڑنا امی چھوڑیں بس میں کسی سے کوئی شکایت نہیں کرتی ماں تڑپنے لگی مہک کیا ہو گیا میری بچی تم کو ہم ان لوگوں کو گریبان سے پکڑیں گے حق مہر کی بات کریں گے مہک مسکرانے لگی امی میری زندگی کو روگ لگ گئے آپ حق مہر کی بات کر رہی ہین کیا ہو گا اس سے کوئی فرق پڑے گا کیا چار لوگ اکھٹے ہوں گے میرا تماشہ لگے گا پولیس کورٹ کچہری گالم گلوچ وہ لوگ بھی مجھے دیکھیں گے جن کو میری خبر تک نہیں امی اس نے چھوڑ دیا میں خوش ہوں بس اب پلیز اس بارے کوئی بات نہ کرے مہک کمرے میں جا کر آنکھیں بند کر کے لیے گئی خیال آنے لگا کیسے طاہر کی خدمت کی اس کے پاوں دباتی رہی اس کو کھانا بنا کر دیا کپڑے دھونا نہ سردی دیکھی نہ گرمی اس گھر کو گھر بنانے میں مصروف رہی کبھی بھوک بھی کاٹی افلاس کے دن بھی دیکھے میں ہر ممکن کوشش کرتی رہی میرا گھر آباد رہے نہ جانے کتنے طعنے سنے نہ جانے کتنے سخت لہجے برداشت کیئے بلاخر کیا ہوا طلاق یہ کیا ہے سب باپ نے کہا ہماری بچی ہماری مرضی سے ہی شادی کرے گی نہ پسند پوچھی نہ دل کا حال بیاں کرنے دیا خود فیصلہ کیا اور مجھے خاموشی سے وداع کر دیا جس سے نکاح ہوا اس نے میری نہ کوئی قربانی دیکھی نہ میرا رات رات بھر جاگنا دیکھا نہ میری چاہت کو سمجھا بس مطلب کی نہ رہی تو چھوڑ دیا "ہم بیٹیاں کیا ہیں آخر کبھی جہیز کے نام پہ ماری جاتی ہیں تو کبھی بے اولادی کے" اتنے میں اذان ہونے لگی ساری رات سوچ میں گزر گئی آنکھ سے ایک آنسو گال کو چھوتے ہوئے تکیہ کو بھگو گیا بالکل خاموش ہو چکی تھی کہنے کو ایم اے پڑھی تھی لیکن بیٹیوں کی تعلیم کسی جاہل مرد کے نکاح میں آنے سے ختم ہو جاتی ہے کیوں کے معاشرہ کہتا ہے مرد اگر گالی بھی دے تو خاموش رہو مرد تھپڑ بھی مار دے تو خاموش رہو اور اگر مرد طلاق بھی دے تو بھی مجرم بن کر دامن پہ داغ لیئے خاموش رہو وقت گزرنے لگا مہک کی زندگی اندھیرے میں ڈوب چکی تھی نہ کوئی خواہش تھی باقی نہ کوئی چاہت یوں کہہ لیں صرف سانسوں کا سفر جاری تھا اور موت کا انتظار اب رنگین دنیا سے ڈرنے لگی تھی اب کئی کئی گھنٹے وہ تنہا بیٹھی نہ جانے کس سوچ میں گم رہتی یاداشت کمزور ہو گئی رات کو کیا کھایا تھا صبح تک بھول جاتی کبھی کوئی چیز کہیں رکھ دی تو بھول گئی جسے خود کی خبر نہ رہے وہ زندہ لاش ہوتا ہے اور پھر کتنی آسانی سے کوئی کسی کو چھوڑ جاتا ہے مہک طلاق کے بعد ایک پتھر سی بن گئی تھی بھابھی لوگ اتنی طنز طعنے دیتی تھیں لیکن خاموش بلکل خاموش رہتی کیا فرق پڑتا ہے اب کوئی کچھ بھی کہے جیسے جینے کی تمنا ختم ہو گئی تھی بابا نے سوچا ہماری کہانی کب ختم ہو جائے خدا جانے مہک کی دوبارہ شادی کر دیتے ہیں لیکن مہک اب کی بار مر تو سکتی تھی لیکن شادی نہیں کر سکتی تھی اسے اب ایک نفرت سی تھی اس رشتے سے اسے لگتا تھا سب مرد گھٹیا اور فریبی مطلبی ہیں بس اپنے مطلب تک ساتھ رہتے ہیں مطلب ختم راستے جدا کر لیتے ہیں پھر نہ وفائیں کام آتی ہیں نا خدا کے واسطے بس چھوڑ دیا جاتا ہے راکھ بنا کر اڑا دیا جاتا ہے ہر رشتہ ایک رشتہ آیا لڑکا بیرون ملک جاب کرتا تھا عمر کافی تھی امیر تھا پہلے بھی دو شادیاں کر چکا تھا مہک نے انکار کر دیا کوئی 5 بچوں کا باپ تو کوئی 3 بار شادی شدہ کبھی کوئی شرابی تو کبھی کوئی بڈھا اس طرح کے رشتے آنے لگے اور ستم یہ بھی ہے کے فارس کی قلم لکھے بھی تو کیسے لڑکی بلا کی خوبصورت ہو لڑکی جتنی بھی پاک صاف با حیا ہو لڑکی کتنی بھی پڑھی لکھی ہو بس طلاق کا داغ لگ جائے تو میرے معاشرے میں جیسے وہ ایک طوائف سی بن جاتی ہے لوگ ایک نفرت کہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اسے جیسے اس نے کوئی گناہ کر دیا ہو شرابی کے رشتہ آئے گا کہیں گے شرابی کو ہی دے دو طلاق ہوئی ہے کون لے گا اسے واہ کیا معاشرہ ہے مطلب طلاق ہونے پہ لڑکی طوائف بن جاتی ہے اللہ تباہ و برباد کرے ایسے معاشرے کو جس میں عورت پہ طلاق کا دھبہ لگا کر چوروں ڈکیٹوں شرابی زانی مردوں کی ملکیت سمجھی جاتی ہے خیر مہک کے لیئے کچھ ایسے ہی رشتے آنے لگے ہر بار انکار کر دیتی بابا نے بہت سمجھایا بیٹی ہماری بات مان لو زندگی کا سفر تنہا نہیں گزارا جاتا کل کوخدا جانے کیا سے کیا ہو جائے لیکن مہک انکار کرتی رہی ایک دن شادی کی وجہ سے امی ابو بھائی کے ساتھ بہت جھگڑا ہوا مہک کا بھائی کہنے لگا لڑکا پولیس میں ہے امیر بھی ہر اچھا ہے اس سے کیا اعتراض ہے تم کو مہک کی بس ضد تھی شادی ہی نہیں کرنی جب سب سو گئے تو نیند کی گولیاں کھا لیں پھر جب حالت بگڑنے لگی تو رونے لگی اونچی آواز میں بابا نے آواز سنی کمرے میں آئے مہک کی حالت غیر ہو چکی تھی جلدی سے ہسپتال لے گئے رات کے بارہ بج رہے تھے ڈاکٹرز نے معدہ واش کیا علاج شروع کیا ماں مہک کے سر پی ہاتھ پھیر کر بولی میری بچی کیوں خود کو اذیت دے رہی ہو وہاں ایک لڑکا وقاص جو نرس تھا وہاں پہ ڈرپ انجیکشن وغیرہ لگا رہا تھا مہک کو ڈاکٹر نے وقاص سے کہا اس مریض کو جو جو میں نے میڈیسن لکھ کر دی ہے تم نے خود ٹائم پہ کھلانی ہے وقاص نے ہاں میں سر ہلایا ٹھیک ہے سر ڈاکٹر بولا اچھا میری ڈیوٹی کا ٹائم ختم ہو چکا ہے یہ نرس وقاص یہی ہے۔۔۔۔اس کو میں نے سب کچھ بتا دیا ہے آپ پریشان نہ ہوں خطرے والی کوئی بات نہیں ہے 2 بج رہے تھے بابا ہسپتال کے گارڈن میں بیٹھ گئے جا کر ماں بھی پاس صوفے پہ لیٹی تو آنکھ لگ گئی مہک نے آواز دی مجھے پانی دو وقاص جلدی سے آیا کیا چاہے آپ کو مہک نے پانی کا کہا وقاص پانی لیکر ایا خود سہارا دے کر اٹھایا مہک کو پانی پلایا پھر پاس بیٹھ گیا مہک کی طرف دیکھ کر بولا میں نے آپ کے بابا کو روتے دیکھا ہے وہ آپ کے لیئے بہت پریشان ہیں آپ بابا کی بات کیوں نہیں مان لیتی ایم سوری میرا کوئی حق نہیں آپ سے کچھ کہنے کا بس دل میں بات آئی کہہ دی مہک خاموش رہی وقاص پاس ہی بیٹھا تھا کے مہک وامٹنگ کرنے لگی وقاص نے اپنا ہاتھ آگے کر لیا اتنے میں ماں بھی جاگ گئی وقاص نے خود مہک کا چہرا صاف کیا بیڈ شیٹ چینج کی پھر ایک انجیکشن لگایا رات بھر مہک کے پاس گھومتا رہا دوسرے دن جب ڈاکٹر آیا تو چیک اپ کیا ڈاکٹر نےا س مجھے یقین ہے ہمارے گھر کو جنت بنا دے گی ماں نے پوچھا کون ہے وہ وقاص نے بتایا امی جان اسے ایک بار پہلے طلاق ہو چکی ہے ماں غصے میں بولی شاباش اب ہم کو شریکوں میں بدنام کرے گا طلاق والی لے آئے ہو وقاص مسکرا کر بولا امی جان بدنام ہو یا عزت شادی تو اس سے ہی کروں گا‌‌ جب وقاص کے بھائیوں اور بہنوں کو پتہ وہ لعنتیں دینے لگے بس طلاق والی ہی رہ گئی ہے اب کیا بہن اپنی نند کے لیئے کہنے لگی اور بھائی اپنی سالی کے رشتے کی بات کرنے لگا وقاص بس بضد تھا مہک سے ہی نکاح کرنا ہے ماں نے کہا ٹھیک ہے کر لو لیکن تمہارے بھائی کہہ رہے ہیں شادی کے بعد بیوی کو لیکر کر الگ رہنا وہ اتنی اچھی ہوتی تو اس کو طلاق کیوں ہوتی وقاص راضی ہو گیا ٹھیک ہے الگ رہوں گا دوسرے دن وقاص اس کی بہن ماں مہک کے گھر گئے رشتے کی بات کرنے سلام دعا کے بعد بات چیت شروع ہوئی مہک کی ماں کہنے لگی ہم کیا کریں ہماری بیٹی نہیں مانتی وقاص پیار سے بولا آنٹی کیا میں ایک بار مہک سے بات کر لوں ماں نے ہاں میں سر ہلایا بیٹا کر لو بات آگے نصیب کا کھیل مہک بہت غصے میں تھی جب وقاص کو سامنے دیکھا چپ ہو گئی کیسی ہیں آپ مہک آہستہ سے بولی ٹھیک ہوں آپ کہاں وقاص پیار سے بولا مہک آپ کی امی اور ابو سے آپ کو مانگنے آئے ہیں مہک سخت لہجے میں بولی وقاص آپ کا یہ پاگل پن ہے میں جانتی ہوں مجھے رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملے گا وقاص مسکرانے لگا ہر مرد ایک سا نہیں ہوتا بس اللہ کی خاطر مجھے ایک موقع دے دیں بہت واسطے دیئے مہک کو مہک آخر ہار گئی ٹھیک ہے سب بہت خوش تھے مہک وقاص کی ہمسفر بن گئی سب نے بہت برا بھلا کہا وقاص کو طلاق والی لے آیا ہے وقاص کو پرانا ایک کمرہ الگ سے دے دیا بھائی وقاص سے بات تک نہ کرتے تھے مہک کو بہت بری لڑکی سمجھتے تھے وقاص مہک سے کہنے لگا میری جان میں امیر زادہ تو نہیں ہوں لیکن وعدہ کرتا ہوں شہزادی بنا کر رکھوں گا آپ کو مہک محسوس کر رہی تھی وقاص اچھا انسان یے وقاص ناشتہ کے وقت مہک کے ساتھ مل کر ناشتہ تیار کرواتا پھر مل کر دونوں ناشتہ کرتے وقاص کی تنخواہ 15 ہزار تھی جس سے گزارہ بہت مشکل تھا کچا سا مکان تھا بھائی سب الگ تھے انھوں کے اہنے گھر نئے بنا لیئے مہک ایک دن کہنے لگی وقاص یہ آئی فون کتنا مہنگا ہوتا ہے نا وقاص مسکرانے لگا میری جان آپ کی صرف ایک مسکراہٹ کی قیمت ہے آئی فون مہک کا برتھ ڈے تھا وقاص کیک لے کر آیا چھپا کر رکھ دیا جب بارہ بجے مہک سو رہی تھی مہک کے ماتھے پہ بوسہ کیا مہک نے آنکھ کھولی مسکراتے ہوئے پھول برسانے لگا ہیپی برتھ ڈے میری جان مہک شاکڈ تھی وقاص آپ کو یاد تھی میری برتھ ڈے کیک لے کر آیا دونوں نے کیک کاٹا پھر ایک گفٹ سامنے رکھا مہک مسکراتے ہوئے گفٹ کھولنے لگی وقاص کیا ضرورت تھی میری جان یہ سب کرنے کی پہلے ہی آپ اتنی مشکل سے گھر چلا رہے ہیں وقاص کندھے پی سر رکھا ہنس رہا تھا جب گفٹ کھولا اس میں آئی فون تھا مہک رونے لگی پاگل ہو بلکل وقاص بیوی کو کون اتنا مہنگا گفٹ دیتا ہے بالکل پاگل ہو وقاص نے آنسو صاف کیئے میری جان سب کچھ آپ کے لیئے ہی تو ہے مہک جینے لگی تھی وقاص چاہے غریب تھا لیکن ایک شہزادہ تھا سب مذاق اڑانے لگے بڑا آیا شادی کی تھی طلاق والی سے اب گھر نہیں بنا سکا وقاص خاموش رہا ایک دن مہک کی دوست نے بتایا سکول ٹیچرز کی جاب آئی ہے اپلائی کر لو مہک نے وقاص سے بات کی وقاص ہاتھ تھام کر بولا میری جان آپ کا جو دل کہتا ہے وہی کریں مجھے کوئی اعتراض نہیں مہک نے اپلائی کیا تعلیم اچھی تھی اللہ کا کرم ہوا 17 گریڈ کی ٹیچر کی جاب مل گئی بہت خوش تھے دونوں بھائی کے گھر مٹھائی بیجھی بھائی منہ بنا کر بولا بے غیرت بیوی کی کمائی کھائے گا کہاں خوش ہوتے ہیں ہم کو رلانے والے دو سال بعد مہک سکول کی پرنسپل بن گئی اچھی خاصی تنخواہ پھر بہت سے بچے ٹیوشن بھی پڑھتے دیکھتے ہی دیکھتے حالات بدلنے لگے ڈبل منزل گھر بنا لیا وقاص نے اپنا میڈیکل اسٹور بنا لیازندگی خوشیوں میں بدل گئی اللہ پاک نے رحمت کی بیٹا عطا کیا وقاص بہت خوش تھا ایک دن وقاص کے میڈیکل اسٹور پہ ایک شخص آیا سر سے خون بہہ رہا تھا کپڑے پھٹے ہوئے تھے ساتھ ایک لڑکا تھا اس کے سر پہ مرہم پٹی کی پوچھا کیا ہوا ہےوہ شخص گالی دے کر بولا ڈاکٹر میری بیوی بڑی ظالم ہے میرا گھر زمین جائیداد اہنے نام کروا لی اب مجھے روز کتے کی طرح مارتی ہے وہ کوئی اور نہیں مہک کا پہلا شوہر طاہر تھا بھائی سامنے کھڑا تھا وقاص پاس گیا کہنے لگا بھائی جان یہ دیکھیں وہی مہک ہے نا جس کی وجہ سے آپ نے مجھے گالیاں دے کر گھر سے نکال کر کچے سے مکان میں بیجھ دیا۔ آپ کہتے تھے یہ طلاق والی عورت ہے بھائی جان میں آپ پہ طنز نہیں کر رہا اللہ معاف کرے میں حقیقت بتا رہا ہوں طلاق والی لڑکی کیوں اتنی بری ہے میرے معاشرے میں کیوں طلاق والی لڑکی کو نفرت بھری نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اسے غلط سمجھا جاتا ہے اسے غلط بولا جاتا ہے اور طلاق دینے والا مرد غلط ہو کر بھی پارسا رہتا ہے بھائی میں تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں طلاق والی لڑکی کو اپنا ہمسفر بنایا ورنہ میں بھی آپ کی طرح سوچتا تو شاید میری مہک یا تو زندگی بھر طلاق کا بوجھ لیئے تڑپتی رہتی یا پھر کسی شرابی یا پانچ بچوں کے باپ کسی بوڑھے کی نوکرانی بن کر عمر گزار دیتی آج الحمداللہ ہم دونوں بہت خوش ہیں بھائی جان سوچ کو بدلیں صرف عورت کو گالی دینا بند کریں جانتے ہو بھائی طلاق کب ہوتی ہے جب ایک سمجھدار اور اچھی لڑکی کسی جاہل اور برے مرد کے ساتھ باندھ دی جائے یا سمجھدار اچھا مرد جاہل اور بری عورت کے ساتھ باندھ دیا جائےاور ہاں ضروری نہیں طلاق والی لڑکی کوئی مجرم ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی طلاق والی عورت سے نکاح نہ کرتے خدارا جہالت کی دنیا سے نکل کر عورت کو عزت دینا سیکھیں۔

Post a Comment

0 Comments