بوقتِ نکاح و رخصتی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی کیا عمر تھی؟ / ? At what age was Aisha married to the Prophet

بوقتِ نکاح و رخصتی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی کیا عمر تھی؟ / ? At what age was Aisha married to the Prophet

 سوال : بوقتِ نکاح و رخصتی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر کتنی تھی؟

السلام علیکم ! ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اور رخصتی کس عمر میں‌ ہوئی؟ براہِ مہربانی وضاحت فرما دیں۔ شکریہ

سائل: راشد علی مقام: ملتان شریف

تاریخ اشاعت: 17 ستمبر 2011ء

زمرہ: فضائل و مناقبِ‌ اہلبیتِ اطہار

جواب:


منکرین حدیث نے اس بات کو بہت اچھالا ہے کہ حدیث شریف میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کی شادی کے وقت 9 سال عمر بتائی گئی ہے جو عقل و نقل کی رو سے غلط ہے۔ اس سے غیر مسلموں بلکہ پڑھے لکھے مسلمانوں کو بھی انکار حدیث کا بہانہ مل گیا ہے۔ ہماری تحقیق یہ ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کی عمر مبارک شادی کے وقت کم سے کم 17 یا 19 سال تھی۔


دلائل: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کی بڑی بہن سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا  طویل العمر صحابیات میں سے ہیں۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کی والدہ محترمہ ہیں۔ بڑی خدا رسیدہ عبادت گذار اور بہادر خاتون ان کی عمر تمام مورخین نے سو سال لکھی ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  ان سے دس سال چھوٹی ہیں۔ سیدہ اسماء حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت کے پانچ یا دس دن بعد فوت ہوئیں۔ سن وفات 73ھ ہے۔ اس حساب سے سیدہ اسماء کی عمر ہجرت کے وقت 27 سال ہوئی اور سیدہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  ان سے دس سال چھوٹی ہیں تو آپ کی عمر ہجرت کے وقت 17 سال ہوئی۔ اگر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کی رخصتی 2ھ کو مانی جائے تو رخصتی کے وقت آپ کی عمر مبارک 19 سال ہوئی۔ حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔


اسلمت اسماء قديما وهم بمکة فی اول الاسلام وهی آخر المهاجرين والمهاجرات موتا وکانت هی اکبر من اختها عائشة بعشر سنين بلغت من العمر ماته سنة.


اسماء مکہ میں اوائل اسلام میں مسلمان ہوئیں مہاجرین مردوں عورتوں میں سب سے آخر فوت ہونے والی ہیں اپنی بہن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  سے دس سال بڑی تھیں‘‘۔

(ابن کثير، البدايه والنهايه 8 / 346 طبع بيروت)

اسلمت قديما بعد اسلام سبعة عشر انسانا ماتت بمکة بعد قتله بعشره ايام وقيل بعشرين يوماً وذلک فی جمادی الاولیٰ سنة ثلاث وسبعين.


حضرت اسماء مکہ معظمہ میں سترہ آدمیوں کے بعد ابتدائی دور میں مسلمان ہوئیں اور مکہ مکرمہ میں اپنے بیٹے (عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ) کی شہادت کے دس یا بیس دن بعد فوت ہوئیں اور یہ واقعہ ماہ جمادی الاولیٰ سن 73ھ کا ہے‘‘


(علامه ابن حجر عسقلانی، تهذيب التهذيب 12 ص 426 طبع لاهور، الامام ابوجعفر محمد بن حرير طبری، تاريخ الامم والملوک ج 5 ص 31 طبع بيروت، حافظ ابونعيم احمد بن عبدالله الاصبهانی م 430ه، حلية الولياء وطبقات الاصفياء 2 ص 56 طبع بيروت)


اسلمت قديما بمکة وبايعت رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ماتت اسماء بنت ابی بکرالصديق بعد قتل ابنها عبدالله بن الزبير وکان قتله يوم الثلثاء لسبع عشرة ليلة خلت من جمادی الاولیٰ سنة ثلاث وسبعين.


’’سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  مکہ معظمہ میں قدیم الاسلام ہیں آپ نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی اپنے بیٹے عبداللہ بن زبیر کی شہادت کے چند دن بعد فوت ہوئیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کی شہادت بروز منگل 12 جمادی الاولیٰ 73ھ کو ہوئی ہے‘‘۔


(محمد ابن سود الکاتب الواقدی 168ه م 230ه الطبقات الکبریٰ ج 8 / 255 طبع بيروت)


کانت اسن من عائشة وهی اختها من ابيها ولدت قبل التاريخ لسبع وعشرين سنة.


’’سیدہ اسماء سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  سے زیادہ عمر کی تھیں باپ کی طرف سے سگی بہن تھیں ہجرت سے 27 سال قبل پیدا ہوئیں‘‘۔


(امام ابن الجوزی، اسدالغايه فی معرفة الصحابة ج 5 ص 392 طبع رياض)


اسلمت قديما بمکة قال ابن اسحق بعد سبعة عشر نفسا بلغت اسماء مائة سنة ولدت قبل الهجرة لسبع وعشرين سنة.


سیدہ اسماء  رضی اللہ عنہا  مکہ مکرمہ میں ابتداءً مسلمان ہوئیں ابن اسحاق نے کہا سترہ انسانوں کے بعد سو سال عمر پائی ہجرت سے 27 سال پہلے پیدا ہوئیں‘‘۔


 (شهاب الدين ابوالفضل احمد بن علی بن حجر عسقلانی، الاصابة فی تميز الصحابة 4 ص 230 م 773ه طبع بيروت، سيرة ابن هشام م 1 ص 271 طبع بيروت، علامه ابن الاثير، الکامل فی التاريخ 4، ص 358 طبع بيروت، علامه ابوعمر يوسف ابن عبدالله بن محمد بن عبدالقرطبی 363ه، الاستيعاب فی اسماء الاصحاب علی هامش الاصابة 463ه ج 4 ص 232 طبع بيروت، حافظ شمس الدين محمد بن احمد الذهبی، تاريخ الاسلام ودفيات المشاهير والاسلام ج 5 ص 30 طبع بيروت، الروض الانف شرح سيرة ابن هشام ج 1 ص 166 طبع ملتان)

Hazrat Ayesha ki umar shadi ke Waqt / Hazrat Ayesha ka Nikah kab hua / Hazrat Ayesha ka Nikah kab hua in Urdu / आयशा और मुहम्मद की कहानी / Hazrat Ayesha ki umar kitni thi / Hazrat Muhammad saw ki pehli shadi / Muhammad married her when he was fifty three years old and she was only six years old. / Marriage-Of-HazrateAisha


یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں سن ہجری کا آغاز نہیں ہوا اور سن عیسوی یا کسی اور سن کا عرب معاشرے میں تعارف یا چلن نہ تھا۔

اہل عرب کسی مشہور تاریخی واقعہ سے سالوں کا حساب کرتے تھے مثلاً واقعہ اصحاب فیل، سے اتنا عرصہ پہلے یا بعد وغیرہ۔ باقاعدہ سن ہجری کا آغاز حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  نے اپنے دور خلافت میں کیا اور اس کا آغاز سال ہجرت سے کیا۔

پہلی سن ہجری، دوسری سن ہجری، تیسری سن ہجری میں کم سے کم امکانی مدت۔ پہلی سن ہجری کا آخری دن یعنی 30 ذی الحجہ لیں اور دوسری سن ہجری کا پہلا دن یعنی یکم محرم، دو سنوں میں وقفہ ایک دن۔ دوسرے رخ سے دیکھیں پہلی سن ہجری کا پہلا دن یعنی یکم محرم، دوسری سن ہجری کا آخری دن یعنی 30 ذی الحجہ، کل مدت دو سال مکمل۔ دونوں صورتوں میں سن بدل گئے مگر ایک طرف ایک دن ملا اور دوسری طرف پورے دو سال۔ جب تک تاریخ اور مہینہ متعین نہ ہو یہ فرق باقی رہ کر ابہام پیدا کرتا رہے گا۔

آج کل پرنٹ میڈ یا کتنی ترقی کرچکا ہے مگر کتابوں میں، اخبارات میں، حد تو یہ کہ قرآن کریم کی طباعت و کتابت میں غلطی ہوجاتی ہے، پہلا دور تو ہاتھوں سے کتابت کا دور تھا، ممکن ہے ’’تسع عشر‘‘ انیس سال عمر مبارک ہو، مگر کتابت کی غلطی سے تسع یا تسعاً رہ گیا اور عشر کا لفظ کتابت میں ساقط ہوگیا ہو، تسع عشر انیس سال کی جگہ تسعاً یا تسع یعنی نو سال باقی رہ گیا اور آنے والوں نے نقل درنقل میں اسی کو اختیار کرلیا کہ نقل کرنے والے اعلیٰ درجہ کے ایماندار، پرہیزگار، علوم وفنون کے ماہر، صحیح و سقیم میں امتیاز کرنے والے، نہایت محتاط لوگ تھے۔ وجہ سقوط کچھ بھی ہونا ممکن نہیں۔ حقائق بہر حال حقائق ہوتے ہیں، ان کے چہرے پر گردو غبار تو پڑسکتا ہے مگر ہمیشہ کے لئے اسے مسخ نہیں کیا جاسکتا۔ احادیث کی تمام کتب میں ایسے تسامحات کا ازالہ کیا جانا چاہئے تاکہ بد اندیش کو زبان طعن دراز کرنے کی ہمت نہ رہے۔


*الجواب* 


*نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا  کی عمر پر ایک تحقیقی جائزہ*


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اسلامی تاریخ کی ورق گردانی اور سیر وسوانح کی کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) کا حضوراکرم کے ساتھ جس وقت نکاح ہوا، حضور  کی عمر اس وقت تقریباً پچاس سال اورحضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا)کی عمر(اکثر روایتوں کے مطابق)چھ سال تھی،جب کہ رخصتی کے وقت وہ نو برس کی تھیں، وہ خود فرماتی ہیں :أن النبی تزوجھا وھی بنت ست سنین، وبنی بھا وھی بنت تسع سنین۔ (بخاری، باب تزویج الأب ابنتہ من الإمام، حدیث نمبر: ۵۱۳۴)’’رسول اللہ  نے ان سے چھ سال کی عمرمیں نکاح اور نوسال کی عمرمیں زفاف فرمایا‘‘۔


مخالفینِ اسلام نے اس بدیہی واقعہ سے نہ صرف یہ کہ غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کی؛ بل کہ ذاتِ اقدس پربھی کیچڑا چھالنے کی سعی کی، جس کے جواب میں حامیانِ اسلام نے متفرق راستے اختیار کئے؛ چنانچہ بعض نے کم سنی کی شادی کاانکار کرکے اِن (مذکورہ) تاریخوں کوہی بدلنے کی کوشش کی، جب کہ بعض نے نویں سال کو زفاف کے بجائے صرف رخصتی کی عمر قراردیا۔


حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا)کی عمرکے سلسلہ میں بحث کی چنداں ضرورت نہ تھی کہ اس کاتعلق ایمان وعقیدہ سے نہیں ؛ لیکن بعض نام نہاد محققین اپنے اشتہاری مضامین، بیانات اور ویڈیوز کے ذریعہ سے ایک جائز اور مباح امر کو نادرست اور نامناسب قراردینے کی نامناسب کوشش میں مصروف عمل ہیں ؛ اس لیے قضیۂ ھذا کے صحیح خدوخال کو درج ذیل مضمون میں نکھارنے کی سعی کی گئی ہے۔



*تاریخی حقائق*


تاریخی اعتبارسے حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) کی عمر معلوم کرنے کے لیے مندرجہ ذیل تنقیحات پر غور کرتے چلیں:


۱-  تاریخ وسیر اور احادیث کی ساری کتابیں اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) رخصتی کے وقت نوسال کی تھیں ؛ چنانچہ حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) خود فرماتی ہیں : تزوجنی رسول الله ست سنین و بنی بی وأنا تسع سنین۔ (صحیح مسلم، باب تزویج الأب البکرالصغیرۃ، حدیث نمبر: ۱۴۲۲، صحیح بخاری، حدیث نمبر:۳۸۹۴، ۳۸۹۶،۵۱۳۴، ۵۱۵۸، ابوداود، حدیث نمبر: ۴۹۳۷، ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۱۸۷۶، سنن دارمی، حدیث نمبر: ۲۳۰۷، سنن نسائی، حدیث نمبر: ۳۳۷۸، صحیح ابن حبان، حدیث نمبر: ۷۰۹۷، مسند احمد، حدیث نمبر: ۲۴۸۶۷، ۲۵۷۶۹، ۲۶۳۹۷،مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: ۳۴۶۲۸، نیزدیکھئے:تاریخ کی کتابیں : الاستیعاب لابن عبدالبر: ۴ ؍ ۲۸۸، اسد الغابۃ: ۵ ؍ ۳۴۱-۳۴۴، الأربعین فی مناقب امہات المؤمنین لابن عساکر: ۱ ؍ ۴۱، الطبقات الکبری لابن سعد، ذکرأزواج النبی ﷺ: ۸ ؍ ۵۸، دیکھئے شروحات حدیث: شرح السنۃ للبغوی، باب تزویج الصغیرۃ: ۹ ؍ ۳۵، عمدۃ القاری، باب تزویج النبی ﷺعائشۃ: ۱۱؍۶۱۳،فتح الباری، باب تزویج النبی ﷺعائشۃ: ۹؍۹۷)’’رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے نکاح چھ سال کی عمرمیں اور زفاف نوسال کی عمرمیں فرمایا‘‘۔


2-  اسی طرح یہ بات بھی ان حضرات کے نزدیک متفق علیہ ہے کہ  حضور کی وفات کے وقت آپ (رضی اللہ عنہا) اٹھارہ سال کی تھیں ؛ چنانچہ حضرت عروہ حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) سے نقل کرتے ہیں : أن النبیﷺ تزوجھا وھی بنت سبع سنین وزفت إلیه وھی بنت تسع سنین، و لعبھا معھا ومات عنھا وھی بنت ثمان عشرۃ۔ (صحیح مسلم، باب تزویج الأب البکرالصغیرۃ، حدیث نمبر: ۱۴۲۲، نیز دیکھئے: مسند احمد، حدیث نمبر: ۲۱۴۵۲، مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: ۳۴۵۶۴، الآحاد والمثانی للشیبانی، حدیث نمبر: ۳۰۱۹، معرفۃ الصحابۃ لأبی نعیم: ۶ ؍ ۳۲۰۸، نسائی، حدیث نمبر: ۵۵۴۴، شروحات حدیث:عمدۃ القاری، باب تزویج النبی ﷺعائشۃ: ۱۱؍۶۱۳،فتح الباری، باب تزویج النبی ﷺعائشۃ: ۹؍۹۷، شرح صحیح البخاری لشمس الدین السفیر: ۷ ؍ ۱۷، رجال وتاریخ کی کتابیں : الاستیعاب لابن عبدالبر، عائشۃ بنت ابی بکرالصدیق: ۲؍ ۱۰۸، الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ: ۸ ؍ ۱۷، الثقات لابن حبان: ۳؍ ۳۲۳، رجال مسلم لأحمدبن علی الأصبہانی، ذکرالنسوۃ من أزواج النبیﷺ: ۲ ؍ ۴۱۳، شذرات الذہب: ۱؍ ۵۵، تاریخ بغداد للخطیب: ۱۱؍ ۲۷۵، سمط النجوم العوالی للعصامی، امہات المؤمنین وسراریہ: ۱؍ ۱۹۰، طبقات ابن سعد: ۸؍ ۶۰)’’رسول اللہ نے ان سے سات سال کی عمرمیں نکاح فرمایا اور نوسال کی عمرمیں اُنھیں  حضور کے پاس بھیجاگیا،(اس وقت)ان کے کھلونے ان کے ساتھ تھے اورجب آپ کاانتقال ہوا، اس وقت ان کی عمراٹھارہ سال تھی‘‘۔


ان دونوں متفق علیہ تاریخی حوالوں پرنظرڈالنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عائشۃ (رضی اللہ عنہا) حضورا کی صحبت میں نوسال رہیں : ومکثت عندہ تسعا۔ (بخاری، باب انکاح الرجل ولدہ الصغار، حدیث نمبر: ۵۱۳۳،مسند ابی عوانۃ، باب الاباحۃ للأب أن یزوج الصغیرۃ، حدیث نمبر: ۴۲۶۸)، اور نواورنو (9+9=18) کو جوڑ نے سے حاصل نتیجہ اٹھارہ نکل آتاہے، اس لحاظ سے حضرت عائشہ کی رخصتی نوسال کی عمرمیں اوراٹھارہ سال کی عمرمیں حضور کی وفات بالکل درست حساب کے ساتھ ہوجاتی ہے۔


۳-  شادی کس عمرمیں ہوئی؟اس سلسلہ میں ہمیں تین قول ملتے ہیں:


(الف)  چھ سال کی عمرمیں  جمہورامت اسی کے قائل ہیں اوراکثرروایتیں اسی کی موافق ہیں۔


(ب)  سات سال کی عمرمیں  یہ بعض روایتوں سے معلوم ہوتاہے؛ چنانچہ حضرت ہشام اپنے والد عروہ کے حوالہ سے حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی روایت نقل کرتے ہیں، وہ فرماتی ہیں : إن رسول الله تزوجنی وأنا بنت سبع سنین۔ (ابوداود، باب فی الأرجوحۃ، حدیث نمبر:۴۹۳۵) ’’رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے نکاح کیااس حال میں کہ میں سات سال کی تھی‘‘۔


(ج)  نوسال کی عمرمیں یہ بھی بعض روایتوں سے معلوم ہوتاہے؛ چنانچہ حضرت اسودفرماتے ہیں : تزوجہا وہی بنت تسع ومات عنہا وہی بنت ثمان عشرۃ۔ (الآحاد والمثانی، ومن ذکرأزواج النبیﷺ، حدیث نمبر: ۳۰۱۹، مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: ۳۳۸۶۳)’’رسول اللہ نے ان سے نکاح کیااس حال میں کہ وہ نو سال کی تھیں اورآپ کاانتقال اس وقت ہو، جب کہ وہ اٹھارہ سال کی تھیں ‘‘۔


*تینوں اقوال پرایک نظر*


چھ سال والی روایت توجمہورکی رائے کے موافق ہے اوریہی صحیح بھی ہے، جہاں تک سات سال والی روایت کا تعلق ہے تواس کے بارے میں تین باتیں کہی جاسکتی ہیں :


۱-  روایت کرنے میں راوی سے شک ہوگیا ہے؛ چنانچہ ابوداود میں صراحت ہے: عن ہشام بن عروۃ عن أبیہ عن عائشۃ قالت: تزوجنی رسول اللہ ا وأنابنت سبع، قال سلیمان: أو ست، ودخل بی وأنابنت تسع۔ (باب فی تزویج الصغار، حدیث نمبر: ۲۱۲۱)، اس روایت میں سات سال کوجزم اورچھ سال کو شک کے ساتھ نقل کیاگیاہے، جب کہ بعض روایتوں میں اس کے برخلاف ہے؛ چنانچہ ہشام بن عروہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں اوروہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتی ہیں :… فتزوجنی رسول اللہ ا متوفی خدیجۃ رضی اللہ عنہاقبل مخرجہ إلی المدینۃ بسنتین، وأنا ابنۃ ست سنین أوسبع سنین۔ (الآحاد والمثانی، حدیث نمبر: ۳۰۰۹، نیز دیکھئے: مسند الحمیدی، حدیث نمبر: ۲۳۱،)، اس روایت میں چھ سال کو جزم اورسات سال کوشک کے ساتھ نقل کیاگیاہے، عمومی روایتیں بھی اسی کی مؤیدہیں ؛ اس لیے چھ سال ہی کی روایت کوترجیح دی جائے گی۔


 ۲-  جس راوی (حضرت ہشام بحوالہ عروہ)سے سات سال کی روایت منقول ہے، انہی سے چھ سال کی روایت متعددطرق سے مروی ہے؛ چنانچہ حضرت وھیب(بخاری، باب تزویج الأب ابنتہ من الإمام، حدیث نمبر: ۵۱۳۴)،حضرت سفیان(بخاری، باب انکاح الرجل ولدہ الصغار، حدیث نمبر: ۵۱۳۳)، حضرت علی بن مسہر(بخاری، باب تزویج النبیﷺ عائشۃ، حدیث نمبر: ۳۸۹۴)،اورحضرت عبدۃ بن سلیمان(مسلم، باب تزویج الأب البکر الصغیرۃ، حدیث نمبر: ۱۴۲۲، ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۱۸۷۶)وغیرہم نے بھی حضرت ہشام بحوالہ عروہ چھ سال کی روایت کونقل کیاہے؛اس لیے چھ سال والی روایت ہی کوترجیح دی جائے گی؛ کیوں کہ کثرتِ رواۃ اسبابِ ترجیح میں سے ہے، حافظ عراقی نے علامہ حازمی کی کتاب’’الاعتبار‘‘سے نقل کرتے ہوئے اسبابِ ترجیح میں سب سے پہلاسبب ’کثرتِ رواۃ‘ کونقل کیاہے، لکھتے ہیں : وقد رأینا أن نسردہامختصرۃ: الأول: کثرۃ الرواۃ۔ (شرح التبصرۃ والتذکرۃ، مختلف الحدیث:۱؍۲۰۰)۔


۳-  اس بات کابھی امکان ہے کہ راوی کی مراد ساتویں سال کی ابتداء ہو؛ کیوں کہ یہ راوی بھی رخصتی کی عمر نوسال ہی کو قراردے رہے ہیں ؛ چنانچہ وہ حضرت عائشہ کی زبانی فرماتے ہیں :فأتی بی رسول اللہ ﷺ فبنی بی وأناابنۃ تسع۔ (ابوداود، باب فی الأرجوحۃ، حدیث نمبر:۴۹۳۵)۔


جہاں تک نوسال والی بات کاتعلق ہے تواس سلسلہ میں صاف طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ راوی کی مراد شادی نہیں ؛ بل کہ رخصتی ہے؛ کیوں کہ آگے جملہ میں خود راوی کی وضاحت مذکور ہے کہ  حضور کی وفات کے وقت حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا)کی عمر اٹھارہ سال تھی۔


مندرجہ بالا وضاحت سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ شادی کی اصل عمر حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی چھ سال، رخصتی نوسال اور بیوگی اٹھارہ سال ہے۔


۴-  وفات کے وقت حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) کی عمر کیاتھی؟ اس سلسلہ میں درج ذیل ا قوال ملتے ہیں :


(الف)  پینسٹھ(۶۵) سال۔(عمدۃ القاری، باب کیف کان بدء الوحی:۱؍۳۳،التوضیح لشرح الجامع الصحیح لابن الملقن، بدء الوحی: ۲؍ ۲۰۶)


(ب)  چھیاسٹھ (۶۶) سال۔ (شرح صحیح البخاری لشمس الدین السفیر: ۷؍ ۱۷)


(ج)  سرسٹھ(۶۷) سال۔ (البدایۃ والنہایۃ: ۸ ؍۱۱۶-۱۲۰)


(د)  ترسٹھ سال کچھ مہینے۔ (سیراعلام النبلاء، عائشۃ ام المؤمنین: ۳؍ ۴۳۴ ومابعدہا، ابوبکرالصدیق لعلی بن محمدالصلابی: ۳؍ ۷)


۵-  حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) کی وفات کس سن میں ہوئی؟ اس سلسلہ میں دوقول ملتے ہیں:


(الف)  ستاون (۵۷)ہجری میں، حافظ ابن حجر نے اسی کوصحیح قراردیاہے، وہ لکھتے ہیں : ماتت سنۃ سبع وخمسین علی الصحیح۔ (تقریب التہذیب، ص: ۷۵۰، طبقات ابن سعد: ۸؍ ۷۷، الاستیعاب لابن عبدالبر: ۴؍ ۲۸۸، اسد الغابۃ: ۵؍ ۳۴۱-۳۴۴)


(ب)  اٹھاون (۵۸) ہجری میں۔ (البدایۃ والنہایۃ: ۸؍ ۱۱۶-۱۲۰، طبقات ابن سعد: ۸؍ ۷۷، الاستیعاب لابن عبدالبر: ۴؍ ۲۸۸)


*وفات کے وقت عمراورسن پرایک نظر*

 حضور کی وفات کے وقت حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) کی عمراٹھارہ سال تھی(یہ متفق علیہ ہے)، جب کہ ان کی وفات(صحیح قول کے مطابق) ستاون ہجری میں ہے، اس لحاظ سے ان کی کل عمر چونسٹھ (۶۴)سال ہوتی ہے، جوترسٹھ سال کچھ مہینے کے قول کے(تقریباً) مطابق ہے،تاہم پیدائش اور وفات کے سالوں کوبھی لیاجائے تو پینسٹھ سال کی تکمیل ہوجاتی ہے، ایسی صورت میں یہ کہا جائے گاکہ کسور کو چھوڑ کرصرف عقود کوبیان کیاگیاہے؛کیوں کہ تاریخ بیان کرنے میں بسااوقات یہ صورت اختیارکرلی جاتی ہے؛ چنانچہ اس کی نظیرخود حضور کی عمرکی روایتوں میں ہمیں ملتی ہے، ایک روایت میں آپ اکی عمر ساٹھ (۶۰) سال (بخاری، باب الجعد، حدیث نمبر: ۵۹۰۰، مسلم، باب فی صفۃ النبی، حدیث نمبر:۲۳۴۷)، دوسری روایت میں ترسٹھ (۶۳)سال (بخاری، باب خاتم النبیین، حدیث نمبر: ۳۵۳۶، مسلم، باب کم سن النبیﷺ، حدیث نمبر: ۲۳۴۸)، جب کہ تیسری روایت میں پینسٹھ (۶۵) سال مذکورہے(مسلم، حدیث نمبر: ۲۳۵۳)، ان تمام روایتوں کے درمیان تطبیق دیتے ہوئے امام نویؒ  فرماتے ہیں : واتفق العلماء علی أن أصحہا ثلاث وستون، وتأولوا الباقی علیہ، فروایۃ ستین اقتصر فیہا علی العقود وترک الکسر، وروایۃ الخمس متأولۃ ایضاً۔(شرح النووی علی صحیح مسلم، باب قدر عمرہ ﷺ:۵؍۴۹۰،ط: المکتبۃ العصریۃ )’’علماء کااس بات پراتفاق ہے کہ ترسٹھ سال (کاقول) زیادہ صحیح ہے، باقی میں علماء نے تاویل کی ہے؛ چنانچہ ساٹھ سال والی روایت میں عقود(دہائی)پر اکتفاکیا گیاہے اورکسور(اکائی) کوچھوڑ دیاگیاہے‘‘، ملاعلی قاری لکھتے ہیں : وقیل خمس وستون، وجمع بأن من روی الأخیر(خمس وستون)عدسنتی المولدوالوفاۃ۔(جمع الوسائل فی شرح الشمائل، باب باب ماجاء فی خلق رسول اللہﷺ: ۱؍۱۵، نیز دیکھئے:


شرح الشمائل لعبدالرؤوف المناوی علی ہامش جمع الوسائل) ’’اورکہاگیاہے: پینسٹھ سال، اس کی تطبیق یہ دی گئی ہے کہ جس نے پینسٹھ سال کہا، اس نے پیدائش اوروفات کے سالوں کوبھی شمارکیاہے‘‘، یہی تاویل حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) کی عمرکے سلسلہ میں بھی کی جائے گی —–  البتہ اگروفات اٹھاون ہجری میں تسلیم کریں (جیساکہ ایک قول بھی ہے) تو بغیر کسی تاویل کے پینسٹھ سال کی عمر مکمل ہوجاتی ہے، بہرحال!راقم کے نزدیک حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) کی وفات کاسن ستاون ہجری اورکل عمرترسٹھ اورچونسٹھ کے درمیان ہے، واللہ اعلم بالصواب۔


یہ توحضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) کی ذاتی عمرکے سلسلہ میں تاریخی بحث تھی، اب ذراحضرت اسماء (رضی اللہ عنہا)بنت ابوبکرصدیق کی عمرسے موازنہ کرتے ہوئے تاریخی حقیقت کوبھی جانتے چلیں کہ اِنھیں کی عمرسے موازنہ کرکے حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) کی متفق علیہ عمرکوتسلیم کرنے سے انکارکیا جاتا ہے۔


*حضرت اسماء کی عمرسے موازنہ*


حضرت اسماء (رضی اللہ عنہا)حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) کی بڑی بہن تھیں، ان کی ماں کانام قیلہ(یاقُتَیْلہ)تھا، مخالفینِ اسلام کے اعتراض کے جواب میں بعض حضرات نے ان کی عمرسے موازانہ کرکے سیروسوانح اوراحادیث وشروحات کی کتابوں میں مذکورنکاح ورخصتی کے وقت حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) کی عمر کاانکارکیاہے،

 آیئے ! ہم بھی صحیح خدوخال معلوم کرتے چلیں، اس سلسلہ میں درج ذیل تنقیحات پرغور کرناچاہیے:


۱- حضرت اسماء  کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل باتوں پر جمہور کا تقریباً اتفاق ہے:


(الف)  حضرت اسماء  ہجرت سے ستائیس(۲۷)سال پہلے پیداہوئیں۔


(ب)  ان کی پیدائش کے وقت حضرت ابوبکر اکیس(۲۱)سال کے تھے۔


 (ج)  ان کی وفات تہتر(۷۳)ہجری میں حضرت عبداللہ بن زبیر کے انتقال کے کچھ دنوں بعدہوئی۔


(د)  وفات کے وقت وہ(تقریباً) سوسال کی تھیں۔ (جامع المسانیدوالسنن لابن کثیر: ۱۵؍ ۲۰۱، تاریخ دمشق لابن عساکر: ۶۹؍۸، نمبرشمار: ۹۲۹۴،عمدۃ القاری، باب أجاب الفتیا؍باب مایقول بعد التکبیر: ۳؍ ۳۸۰،طبقات ابن سعد: ۸؍۲۵۵، اسدالغابۃ: ۵؍ ۲۰۹، البدایۃ والنہایۃ: ۸؍ ۴۲۰، سیراعلام النبلاء: ۳؍ ۲۸۰، المعلم بفوائدمسلم، اعلام النساء: ۲؍ ۴۹۸، سبل السلام، باب ازالۃ النجاسۃ: ۱؍ ۳۹)


۲-  درج ذیل امورمیں اختلاف ہے:


(الف)  حضرت اسماء اپنی بہن حضرت عائشہ سے کتنی سال بڑی تھیں ؟ اس سلسلہ میں تین ا قوال ملتے ہیں :


۱-  عبدالرحمان بن ابی الزناد فرماتے ہیں کہ دس سال بڑی تھیں۔ ( تاریخ دمشق لابن عساکر: ۶۹؍۸، نمبرشمار: ۹۲۹۴)اسی کوحافظ بن عبدالبر نے بھی نقل کیاہے؛ لیکن جزم کے ساتھ نہیں ؛ بل کہ شک کے ساتھ، فرماتے ہیں : وکانت أکبرمن عائشۃ بعشرسنین‌أونحوہا۔(الاستیعاب‌فی‌معرفۃ‌الأصحاب:۱؍۱۸۵)



۲-  مطلقاً بڑی تھیں، سال کی کوئی قیدنہیں، اکثرمؤرخین اسی کولکھتے ہیں۔ (اسدالغابۃ، اسماء بنت ابی بکر: ۱ ؍ ۱۳۰۹،تاریخ دمشق لابن عساکر: ۶۹؍۹، نمبرشمار: ۹۲۹۴، تہذیب الأسماء، حرف الألف: ۱؍ ۱۱۹، المعلم بفوائدمسلم، اعلام النساء: ۲؍ ۴۹۸)


۳-  دس سال سے بھی زیادہ بڑی تھیں۔ ( سیرأعلام النبلاء: ۳؍۵۲۶)



*اب آیئے مذکورہ امورکوجوڑکردیکھتے ہیں :*


۱-  حضرت ابوبکر کی عمرکے لحاظ سے حضرت اسماء وحضرت عائشہ رضی اللہ عنہماکی عمریں :  حضرت اسماء کی پیدائش کے وقت حضرت ابوبکرصدیق  اکیس(۲۱)سال کے تھے، ان کی پیدائش ۳؍ عام الفیل میں ہے، اس لحاظ سے نبوت کے وقت وہ سینتیس(۳۷) سال کے ہوئے، جب کہ ہجرت کے وقت ان کی عمرپچاس (۵۰)سال ہوئی۔


حضرت اسماءہجرت سے ستائیس(۲۷)سال پہلے پیداہوئیں، حضرت ابوبکرکی عمرکے اعتبارسے نبوت کے وقت ان کی عمرسولہ(۱۶)سال ہوئی؛ کیوں کہ ان کی پیدائش کاسن ۲۴؍عام الفیل بنتاہے، جب کہ ہجرت کے وقت ان کی عمر انتیس  (۲۹) سال ہوئی،چوں کہ ان کی وفات تہتر(۷۳)ہجری میں ہے، اس اعتبارسے وفات کے وقت وہ ایک سودو(۱۰۲)سال کی ہوتی ہیں۔


حضرت اسماء  کی اس عمر کے حساب سے (دس سال بڑی مان کر)حضرت عائشہ نبوت کے وقت چھ(۶)سال کی تھیں، جب کہ ہجرت کے وقت ان کی عمرانیس(۱۹) سال ہوئی، اس اعتبارسے نکاح سترہ(۱۷) سال کی عمرمیں (اگرہجرت سے دوسال قبل ماناجائے)اوررخصتی اکیس(۲۱)سال کی عمرمیں ہوگی، وفات چوں کہ صحیح قول کے مطابق ستاون (۵۷)ہجری میں ہوئی ہے؛ اس لیے وفات کے وقت ان کی عمرچھہتر(۷۶)سال ہوتی ہے۔


۲-  حضرت اسماء کی عمرکے لحاظ سے حضرت عائشہ کی عمر:  یہ بات پہلے گزرچکی ہے کہ حضرت اسماء ہجرت سے ستائیس سال پہلے پیداہوئیں، اس لحاظ سے نبوت کے وقت ان کی عمرچودہ(۲۷-۱۳=۱۴)سال تھی، جب کہ وفات پورے سوسال کی عمرہوتی ہے کہ وفات تہتر(۷۳)ہجری میں ہے۔



حضرت اسماء کی اس عمرکے حساب سے(دس سال بڑی مان کر)نبوت کے وقت حضرت عائشہ چارسال(۴) کی ہوتی ہیں، جب کہ ہجرت کے وقت ان کی عمرسترہ(۱۷)سال ہوجاتی ہے، اس اعتبارسے نکاح پندرہ(۱۵)سال (اگرہجرت سے دوسال قبل ماناجائے)اوررخصتی انیس (۱۹)سال، جب کہ وفات چوہتر(۷۴)سال کی عمرمیں واقع ہوگی۔


*حضرت فاطمہ کی عمرسے موازنہ*


*حضرت فاطمہ کی عمرکے لحاظ سے حضرت عائشہ کی عمر:* بعض حضرات حضرت فاطمہ  کی عمرکے حساب سے بھی حضرت عائشہ کی عمرکاحساب لگاتے ہیں، آیئے ہم بھی ایساکرکے دیکھتے ہیں:


حضرت فاطمہ  کی پیدائش حضرت عائشہ کی پیدائش سے پانچ سال پہلے ہوئی، جب کہ آں حضرت ا پینتیس(۳۵)سال کے تھے، اس لحاظ سے ہجرت کے وقت ان کی عمر اٹھارہ (۱۸)سال تھی، ان کی وفات گیارہ ہجری میں ہے، لہٰذا وفات کے وقت ان کی عمراٹھائیس سال ہوئی(الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ: ۸؍۵۴، الکامل: ۲؍۲۳۱)۔


اس لحاظ سے حضرت عائشہ نبوت کے سال ہی پیداہوئیں، ہجرت کے وقت وہ تیرہ(۱۳)سال کی تھیں تونکاح گیارہ (۱۱)سال اور رخصتی پندرہ (۱۵)سال کی عمر میں لازم ہوگی،جب کہ وفات کے وقت وہ ستر(۷۰)سال کی ہوجاتی ہیں۔


*عمروں سے موازنہ پرایک نظر*


حضرت عائشہ کی عمرکا موازنہ کرنے کے بعددرج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں :


۱-  حضرت ابوبکر کی عمرسے موازنہ کی صورت میں حضرت عائشہ کانکاح سترہ(۱۷)، رخصتی اکیس(۲۱)اوروفات چھہتر(۷۶)سال کی عمر میں لازم آتی ہے۔


۲-  حضرت اسماء کی عمرسے موازنہ کی صورت میں حضرت عائشہ کانکاح پندرہ(۱۵)، رخصتی انیس(۱۹) اوروفات چوہتر(۷۴)سال کی عمرمیں لازم آتی ہے۔


۳-  حضرت فاطمہ کی عمرسے موازنہ کی صورت میں حضرت عائشہ کانکاح گیارہ(۱۱)، رخصتی پندرہ(۱۵)اوروفات ستر(۷۰)سال کی عمرمیں لازم آتی ہے۔


لیکن ان باتوں کوتسلیم کرنامشکل ہے:


۱-  حضرت عائشہ کی کل عمرکے سلسلہ میں ترسٹھ سال سے لے کرسرسٹھ سال تک کے اقوال ملتے ہیں (جب کہ صحیح قول کے مطابق ان کی کل عمرچونسٹھ سال کے قریب رہی ہے)، موازنہ کی صورت میں ستر(۷۰) سے لے کرستتر(۷۷) تک جاپہنچتی ہے، جوان کی کل عمرکے خلاف ہے۔


۲-  حضرت اسما کی عمرسے موازنہ کے وقت پورے وثوق کے ساتھ دونوں بہنوں کے درمیان دس(۱۰)سال کاتفاوت بتایاجاتاہے؛ حالاں کہ اس کے اصل قائل عبدالرحمن بن ابی الزنادؒہیں، جواکثرحضرات کے نزدیک مجروح ہیں (دیکھئے:تہذیب الکمال للمزی، من اسمہ عبدالرحمن، نمبرشمار: ۳۸۱۶)، نیزدس سال سے زیادہ کی روایت بھی ہے ملتی ہے اورمطلق (تفاوت کی تعیین کے بغیر)بڑی ہونے کی روایت بھی،لہٰذا متفق علیہ روایتوں کوچھوڑکردس سال والی روایت کوچمٹائے رکھنادیانت کے خلاف بات ہے۔


۳-  حضرت عبدالرحمن بن ابی الزناد دس سال تفاوت کے قائل ہیں ؛ لیکن خود ان سے بھی نوسال میں رخصتی کی روایت منقول ہے، امام طبرانی نقل کرتے ہیں : حدثنایحیی بن أیوب العلاف وأبوزید القراطیسی قالا:ثنا سعید بن أبی مریم، ثناعبدالرحمن بن أبی الزناد عن ھشام بن عروۃ عن أبیہ عن عائشۃقالت: تزوجنی رسول اللہ ا وأنا بنت سبع سنین، وأدخلت علیہ وأنا بنت تسبع سنین۔ (المعجم الکبیر،ذکرأزواج النبیﷺ حدیث نمبر:۴۶،نیز دیکھئے: المعجم الأوسط للطبرانی،حدیث نمبر:۶۹۵۷)’’حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ  نے مجھ سے سات سال کی عمرمیں نکاح کیا اورمیں رخصت ہوکران کے پاس نوسال کی عمرمیں گئی‘‘، اب ظاہرہے کہ دونوں باتیں (دس سال تفاوت اورنوسال کی عمرمیں رخصتی) ایک ساتھ درست نہیں ہوسکتیں، لہٰذاکسی ایک بات کو ترجیح دینی ہوگی اورمتفق علیہ نوسال کی رخصتی ہے؛ اس لیے اسی کوترجیح دی جائے گی۔


۴-  کسی ایسے شخص کی عمرکااندازہ دوسرے شخص کی عمرسے موازنہ کرکے کرنا، جس کی عمرکی صراحت خود موجودہو، عقل وقیاس کے خلاف بات ہے، دنیا کی تاریخ میں کسی بھی شخصیت کے ساتھ ایسا نہیں کیاگیاہوگا، توپھرحضرت عائشہ کے ساتھ ایساکیوں کیاجائے؟



*حضرت ابوبکرصدیق کی ہجرت (حبشہ)سے استدلال*


جوحضرات حضرت عائشہ کی نابالغی کے نکاح کوتسلیم نہیں کرتے،وہ حضرت ابوبکرکی ہجرتِ حبشہ کے ارادہ کوبھی دلیل کے طورپرپیش کرتے ہیں، آیئے! اس دلیل پربھی ایک نظرڈالتے چلیں۔


حضرت امام بخاری نے حضرت عائشہ کی ایک روایت نقل کی ہے، جس میں وہ فرماتی ہیں : لم أعقل أبوی قط إلاوھمایدینان الدین، ولم یمرعلینا یوم إلایأتینافیه رسول‌اللهﷺ طرفی‌النھاربکرۃ وعشیۃ، فلماابتلی المسلمون خرج أبوبکرمہاجراقبل الحبشۃ۔ (بخاری، باب جوارأبی بکرفی عہدالنبیﷺ وعقدہ، حدیث نمبر: ۲۲۹۷)’’


وجہ استدلال یہ ہے کہ حضرت عائشہ کااپنے والدین کودین پرپانا،حضرت عائشہ کا  حضور کی روزانہ آمد ورفت اور حضرت ابوبکر کی ہجرتِ حبشہ کے ارادہ کوسمجھناان کے صاحب ہوش ہونے کی دلیل ہے اورہوش کے لیے پانچ چھ سال کاہوناضروری ہے؛ کیوں کہ حضرت ابوبکر نے حبشہ کی طرف ہجرت کاارادہ پانچ نبوی میں کیاتھا، اس لحاظ سے نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمرتیرہ چودہ سال ہوتی ہے، نہ کہ چھ سات سال۔


*اقول ( حافظ مشکات ) :*


اصل یہ ہے کہ یہ(ایک طویل) حدیث (ہے، جو)چارٹکڑوں سے مرکب ہے، ایک یہ کہ ’’میں نے جب سے اپنے والدین کوجاناپہچانا، ان کودین پرپایا‘‘، دوسراٹکڑا ’’روزانہ صبح وشام کی آمدورفت‘‘ کاہے، تیسرا’’حضرت ابوبکر کی ہجرت حبشہ کے ارادہ‘‘ کاہے اورچوتھاٹکڑا(جواس طویل حدیث کے آخرمیں ہے، وہ )’’مدینہ منورہ کی ہجرت‘‘ کاہے، یہ حدیث ابن شہاب زہری ؒ سے مروی ہے، ان کی عادت ہے کہ اخباروسیرکی روایات میں وہ ایک واقعہ کے مختلف واقعاتِ متعلقہ کوتسلسل کے لیے جوڑکربیان کرتے ہیں، تمام بڑے واقعات میں انھوں نے یہی کیاہے، مثلاً: حدیثِ آغازِوحی، حدیثِ سفیان وقیصرومصاحبینِ قیصر، حدیثِ واقعۂ افک اورآخری واقعہ میں جیسا کہ بخاری میں ہے اورکتبِ سیرمیں توہرجگہ انھوں نے اپنی اس روش کی تشریح کردی ہے۔


یہ حدیث کتبِ صحاح میں سے صرف بخاری میں ہے، امام بخاری نے اپنے دستورکے مطابق اس حدیث کوکہیں ایک ساتھ کہیں ٹکڑے کرکے مختلف ابواب میں درج کیاہے، مثلا: کتاب المساجد، کتاب الکفالہ، کتاب الأدب، باب غزوۃ الرجیع، کتاب الہجرۃ،  ہروہ شخص، جس کوامام بخاری کی تبویب اوراحادیث کے ٹکڑوں کی ترتیب کے سلیقہ کاعلم ہے، وہ جان سکتاہے کہ خاص قرائن کے بغیرمحض ترتیبِ اجزاء سے کسی مختلف‌الأجزاء حدیث سے کسی نتیجہ پراستدلال‌نہیں‌کیاجاسکتا،‌فریق‌کاسارااستدلال اسی وقت صحیح ہوسکتا، جب والدین کی شناخت، حضورکی روزانہ صبح وشام کی آمد کے بعدہی حضرت ابوبکر کی ہجرتِ حبشہ کے ارادہ کاہونامسلم ہو؛ مگرافسوس کہ ایسانہیں ہے؛ بل کہ ذراغورکرنے سے معلوم ہوجائے گاکہ روزانہ صبح وشام کے وقت آنے کاتعلق آپ کی ہجرتِ مدینہ کے خلافِ معمول آنے سے ہے، جیساکہ صحیح بخاری کتاب الأدب کی روایت (أن عائشۃ زوج النبیﷺ قالت: لم أعقل أبوی إلاوھمایدینان الدین، ولم یمرعلیھما یوم إلایأتینا فیه رسول الله ﷺ طرفی النھار بکرۃ وعشیۃ فبینما نحن جلوس فی بیت أبی بکرفی نحرالظھیرۃ قال قائل: ھذارسول اللهﷺ فی ساعۃ لم یکن یأتینا فیھا[باب ہل یزورصاحبہ کل یوم أوبکرۃ وعشیا،حدیث نمبر: ۶۰۷۹])اورنیزکتب سیرمیں ابن اسحاق کی سیرت میں ہے، الفاظ یہ ہیں :عن عائشۃ ام المؤمنین انھاقالت: کان لایخطی رسول اللهﷺ أن یأتی بیت ابی بکراحدطرفی النھار، إمابکرۃ وإماعشیا؛ حتی إذا کان الیوم الذی اذن فیه لرسول اللهﷺ فی الھجرۃ والخروج من مکۃمن بین ظھری قومه اتانارسول اللہ ﷺ بالھاجرۃ فی ساعۃ کان لایأتی فیھا۔ (سیرۃ ابن ہشام، حدیث ہجرتہ ﷺ إلی المدینۃ:۱؍۴۸۴)۔


*مذکورہ اقتباسات سے یہ بات معلوم ہوگئی:*


۱-  امام زہری سے منقول امام بخاری کی روایت کردہ حدیث(جس کوانھوں نے باب جوارأبی بکرفی عہدالنبیﷺ وعقدہمیں نقل کیاہے)سے یہ ثابت کرناکہ حضرت ابوبکرؓ کی ہجرتِ حبشہ کے وقت (پانچ نبوی میں )حضرت عائشہ سن تمییز(یعنی پانچ چھ سال)کی تھیں درست نہیں۔


۲-  یہ بات بھی درست نہیں کہ حضرت ابوبکر کی ہجرتِ حبشہ کے وقت حضورا روزانہ صبح وشام ان کے گھرآیاکرتے تھے۔


۳-  بل کہ  حضور  کے روزانہ صبح وشام حضرت ابوبکرکے گھرتشریف لانے کاتعلق ہجرتِ مدینہ سے قبل کے دنوں سے ہے۔


کیوں کہ خودامام زہری  کی روایت(جس کوامام بخاری نے کتاب الأدب میں نقل کیاہے)ان باتوں کی تردیدکرتی ہے، نیزسیرکی کتابوں میں مذکور واقعات کے بھی خلاف ہے؛ لیکن اگریہ تسلیم کرلیاجائے کہ واقعات کی وہی ترتیب درست ہے، جس کوامام بخاری نے باب جوارأبی بکرفی عہدالنبیﷺ وعقدہاور کتاب الہجرۃمیں نقل کیاہے توسوال یہ پیداہوتاہے کہ حضرت ابوبکر کی ہجرتِ حبشہ کے ارادہ کوکس بنیادپرپانچ نبوی ماناگیا، جب کہ حدیث میں اس کاذکربھی نہیں ہے؟دراصل حضرت ابوبکرکی ہجرتِ حبشہ کے ارادہ سے استشہادکرنے والوں کویاتوشبہ ہوگیاہے یاپھردیدۂ ودانستہ ہجرتِ حبشہ کی تاریخ سے صرف نظرکررہے ہیں ؛ کیوں کہ یہ بات توانھیں بھی معلوم ہے کہ حبشہ کی طرف ہجرت دومرتبہ ہوئی ہے، پہلی مرتبہ سن پانچ نبوی میں، پھر جب دوڈھائی مہینے کے بعدقریش کے اسلام لانے کی خبرملی تویہ حضرات مکہ واپس آگئے،ابن اثیرؒلکھتے ہیں : وکان مسیرھم فی رجب سنۃ خمس من النبوۃ وھی السنۃ الثانیۃ من إظھارالدعوۃ، فأقاموا شعبان وشھررمضان، وقدموافی شوال سنۃ خمس من النبوۃ۔ (الکامل:۲؍۵۲)، جب مکہ کے قریب پہنچے تو یہ خبرچھوٹی نکلی، لہٰذا کچھ لوگ چھپ کر، جب کہ کچھ دوسروں کی پناہ میں مکہ آئے،پھرسن چھ نبوی میں کافی مشقتوں اور مشکلوں کے بعد دوبارہ مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی؛ لیکن دونوں مرتبہ کی ہجرت میں حضرت ابوبکر شامل نہیں تھے(دیکھئے: الروض الأنف:۲؍۹۱ ومابعدہا)؛ بل کہ حضرت ابوبکر کی ہجرتِ حبشہ کاارادہ ان دونوں ہجرتوں کے بعدہے۔


چنانچہ حافظ ابن کثیر حضرت ابوبکر ہجرتِ حبشہ کے عزم کے واقعہ کولکھنے کے بعد لکھتے ہیں : کل ھذہ القصص ذکرھا ابن اسحق معترضا بھابین تعاقد قریش علی بنی ھاشم وبنی المطلب وکتاتبھم علیھم الصحیفۃ الظالمۃ وحصرھم إیاھم فی الشعب وبین نقض الصحیفۃ وماکان من أمرھا، وھی أمورمناسبۃ لھذاالوقت۔ (البدایۃ والنہایۃ: ۳؍۱۱۱) ’’ابن اسحق نے ان تمام قصوں کو بنوہاشم اوربنومطلب کے خلاف قریش کے معاہدہ، صحیفۂ ظالمہ کی مکاتبت اورشعب ابی طالب میں محاصرہ اورنقض صحیفہ کے درمیان کے واقعات میں شمارکیاہے اوریہی ان امورکامناسب وقت ہے‘‘، جب کہ محاصرہ سات نبوی میں اورنقض صحیفہ دس نبوی میں پیش آیا، نیز حافظ ابن حجر  حضرت عائشہ کی کم سنی کے نکاح کوتسلیم نہ کرنے والوں کے ایک جملۂ استشہاد ’’فلماابتلی المسلمون خرج أبوبکر مھاجرا قبل الحبشۃ‘‘ کی شرح میں لکھتے ہیں :أی بأذی المشرکین لماحصروا بنی ھاشم والمطلب فی شعب أبی طالب وأذن النبی ﷺ لأصحابه فی الھجرۃ إلی الحبشۃ کماتقدم بیانه(قولہ: خرج ابوبکر مھاجرا نحوأرض الحبشۃ) أی: لیلحق بمن سبقه إلیھا من المسلمین۔ (فتح الباری، باب ہجرۃ النبی ﷺ وأصحابہ إلی المدینۃ، حدیث نمبر:۳۶۹۲)’’مشرکین کی ایذارسانی کی وجہ سے جب ان لوگوں نے بنوہاشم اور بنو مطلب کو شعب ابی طالب میں محصور کردیا تو  حضور نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی تو ابوبکر بھی سبقت کرنے والے مسلمان بھائیوں سے مل جانے کاارادہ کیا‘‘۔



یہی بات مشہور سیرت نگار علی بن برہان الدین الحلبی لکھتے ہیں : (لماابتلی المسلمون بأذی المشرکین) أی: وحصروا بنی ہاشم والمطلب فی شعب أبی طالب وأذن ﷺ لأصحابہ فی الہجرۃ إلی الحبشۃ، وہی الہجرۃ الثانیۃ، خرج ابوبکر مہاجراً نحوأرض الحبشۃ…۔ (السیرۃ الحلبیۃ:۱؍۴۸۴)۔


بل کہ علامہ حلبی دوسری جگہ تاریخ کی تعیین کے ساتھ لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کی ہجرتِ حبشہ کاارادہ تیرہ نبوت کاواقعہ ہے : وفی السنۃ الثالثۃ عشرۃ من النبوۃ کانت بیعۃ العقبۃ الثانیۃ التی ھی الکبری، وبعضھم یسمیھا العقبۃ الثالثۃ وفی ھذہ السنۃ أراد ابوبکر أن یھاجرللحبشۃ، فلمابلغ برک الغماد ردہ ربیعۃ بن الدغنۃ سید القارۃ۔ (السیرۃ الحلبیۃ، باب بیان ماوقع من الحوادث من عام:۳؍۴۹۹)’’تیرہ نبوت میں عقبہ ثانیہ کی بیعت ہوئی، جس کوعقبۂ ثالثہ بھی کہتے ہیں … اوراسی سال حضرت ابوبکر حبشہ کی ہجرت کاارادہ کیا، جب ’برک الغماد‘تک پہنچے توقبیلۂ قارہ کے سردارربیعہ بن دغنہ نے واپس کیا‘‘۔


مذکورہ عبارتوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابوبکر کی ہجرتِ حبشہ کے ارادہ کاتعلق پانچ نبوی سے نہیں ہے؛ بل کہ شعبِ ابی طالب کے مقاطعہ کے وقت سے ہے اورشعب ابی طالب کامقاطعہ سن سات اوردس نبوی کے درمیان کاواقعہ ہے(یا علامہ حلبی کے بقول تیرہ نبوی کاواقعہ ہے) اوران سالوں میں حضرت عائشہ چارپانچ سال کی رہی ہوں گی( کہ ان کی پیدائش چاریاپانچ نبوی میں ماناجاتاہے) اوراس عمرکو بہت زیادہ تونہیں ؛لیکن یادداشت کی حدتک ہوش وحواس کی عمرکہاجاسکتاہے اوریہاں یہی مرادہے۔


*لفظ’’بِکْر‘‘سے استدلال*


بعض حضرات نے حدیث میں واردلفظ’’بکر‘‘سے استدلال کرتے ہوئے نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمرچھ اوررخصتی کے وقت نوسال کوماننے سے انکارکیاہے، حدیث کے الفاظ یہ ہیں : لماھلکت خد یجۃ جاء ت خولۃ بنت حکیم امرأۃ عثمان بن مظعون قالت: یارسول الله! ألاتتزوج ؟ قال: من؟ قالت: إن شئت بکرا، وإن شئت ثیباً، قال: فمن البکر؟ قالت: ابنۃ أحب خلق اللہ عزوجل إلیک عائشۃ بنت أبي بکر، قال: ومن الثیب؟ قالت: سودۃ ابنۃ زمعۃ۔ (مسندأحمد، حدیث نمبر: ۲۵۷۶۹)۔


وجہِ استدلال یہ ہے کہ حضرت خولہ بنت حکیم  نے حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد نبی کریم  کودوسری شادی کامشورہ دیا اورآپ ا کے دریافت کرنے پربتایاکہ ’’بکر‘‘ (ناکتخدا)اور’’ثیب‘‘(شوہردیدہ)دونوں طرح کی خواتین موجودہیں، حضرت خولہ نے ’ثیب‘ کے مقابلہ میں ‘بکر‘ کالفظ استعمال کیا، جواس بات پردلیل ہے کہ وہ ’بکر‘(حضرت عائشہؓ) چھ سات سال کی نہیں ؛ بل کہ اٹھارہ سال کی تھیں۔


یہ محض دعوی ہے، جس پرکوئی صریح دلیل موجودنہیں ؛ کیوں کہ نہ لغوی اعتبارسے یہ بات درست ہے اورناہی استعمال کے اعتبارسے؛ چنانچہ’’ بکر‘‘ کے لغوی معنی’’ایسی لڑکی، جس کی بکارت زائل نہ ہوئی ہو‘‘ کے ہیں، مرتضیٰ زبیدی لکھتے ہیں : البکر(بالکسر): وہی التی لم تقتض۔ (تاج العروس، باب الراء: ۱۰؍۲۳۹، تہذیب اللغۃ للأزہری، بکر: ۳؍۳۷۲)اورظاہرہے کہ زوالِ بکارت کاتعلق اٹھارہ سال سے قطعاً نہیں ؛ بل کہ واقعہ اس کے خلاف ہے۔



جہاں تک استعمال کے لحاظ سے اس کے معنی کاتعلق ہے توجاننا چاہیے کہ یہ لفظ جس طرح ثیب کے مقابلہ میں بولاجاتاہے، اسی طرح صغیرہ کے مقابلہ میں بھی استعمال ہوتاہے، علامہ ابن دقیق العیدؒ ’’لاتنکح البکرحتی تستأذن‘‘ کی شرح میں لکھتے ہیں : إماأن یحمل علی التحریم، وإماعلی الکراہۃ، فإن حمل علی التحریم تعین أحدالأمرین: إماأن یکون المرادبالبکر: ماعداالصغیرۃ۔ (إحکام الأحکام شرح عمدۃ الأحکام، کتاب النکاح: ۱؍۳۹۵)’’یاتوتحریم پرمحمول کیاجائے یاکراہت پر، اگرتحریم پرمحمول کیاگیاتودومعنوں میں سے ایک متعین ہوجائے گا، یاتوصغیرہ کے علاوہ…‘‘، حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں : قالوا: فھذا علی عمومه فی کل بکرإلاالصغیرات ذات الأب۔ (التمہید لابن عبدالبر، کتاب النکاح: ۱۹؍۱۰۰) ’’علماء کہتے ہیں کہ یہ ہرباکرہ کے سلسلہ میں عمومی حکم ہے؛ البتہ وہ صغیرہ مستثنیٰ ہے، جس کاباپ موجودہو‘‘—-  یہاں پردیکھئے صغیرہ کے مقابلہ میں ’بکر‘ کولایاگیاہے۔


لیکن اگر’ثیب‘کے مقابلہ میں ہی استعمال کریں تو کسی عورت کے’ثیب ‘ہونے کے لیے یہ کب ضروری ہے کہ اس کی عمراٹھارہ سال یااس سے زائد ہو؟ کیوں کہ ثیب کے معنی تو’’التی تزوجت وفارقت زوجھابأیّ وجه کان بعدأن مسّھا‘‘(لسان العرب، مادۃ: ثیب: ۱؍۲۴۸) ’’جوشادی کرے اور جماع کے بعدکسی وجہ سے شوہرسے جداہوجائے‘‘کے ہوتے ہیں، نہ کہ تحدید کے ساتھ اٹھارہ سال، معلوم ہواصرف لفظ بکرسے عمرکی زیادتی پراستدلال کرناکسی طوردرست نہیں۔


*معترضین کی طرف سے امام بخاری کی روایت کردہ حدیثوں پراعتراض*


حضرت عائشہ کی عمرکے سلسلہ میں جوروایتیں بخاری میں ہیں، وہ پانچ طرق (سندوں )سے آئی ہوئی ہیں :


۱-  حدثنی فروۃ بن أبی المَغراء، حدثنا علی بن مسھرعن ھشام عن أبیه عن عائشۃ۔۲-  حدثنی عبیدبن اسماعیل، حدثنا ابوأسامۃ عن ھشام عن أبیه قال:۔۳-  حدثنا معلی بن أسد، حدثنا وھیب عن ھشام بن عروۃ عن أبیه عن عائشۃ۔۴-  حدثنا قبیصۃ بن عقبۃ، حدثنا سفیان عن ھشام بن عروۃ عن عروۃ ۔۵-  حدثنامحمدبن یوسف، حدثنا سفیان عن ھشام عن أبیه عن عائشۃ …۔ اعتراض یہ ہے کہ تمام سندوں میں ایک ہی راوی عروہ ام المؤمنین حضرت عائشہ سے روایت نقل کررہے ہیں اورعروہ سے نقل کرنے والے بھی ایک ہی راوی ان کے بیٹے ہشام بن عروہ ہیں اوران سے روایت کرنے والے تمام کے تمام اہلِ عراق ہیں، جب کہ امام مالک نے ہشام کی سندسے اہل عراق کی روایتوں کومجروح قراردیاہے؛ چنانچہ عبدالرحمن بن یوسف بن خراش کہتے ہیں : کان مالک لایرضاہ، بلغنی أن مالکاً نقم علیہ حدیثه  لأھل العراق۔(میزان‌الاعتدال،نمبرشمار: ۹۲۳۳:۴؍۳۰۱،تہذیب الکمال، من اسمہ ہشام:۳۰؍۲۳۹،تاریخ بغداد للخطیب، باب الہاء: ۱۴؍۴۰)’’امام مالک ان کوپسندنہیں کرتے تھے، مجھے خبرملی ہے کہ وہ(امام مالک) ہشام کی سندسے اہل عراق کی روایتوں کومجروح قراردیتے تھے‘‘، لہٰذاحضرت عائشہ کی عمرکے سلسلہ میں امام ا بخاری کی روایتیں مجروح ہیں، ان سے استدلال کرکے نکاح کی عمرکوچھ اوررخصتی کی عمرکونوسال قراردینادرست نہیں۔


یہ اعتراض بظاہرقوی ہے اورامام مالک  کے قول سے اس کی قوت میں اضافہ بھی ہوجاتاہے؛ لیکن غورکرنے اورحضرت ہشام کے بارے میں اساطین علم کے اقوال کے بعدیہ اعتراض بے وزن ہوکررہ جاتاہے، اس سلسلہ میں پہلے چنداقوال نقل کئے جاتے ہیں :



1-  امام ابوحاتم ان کو’’حدیث کے امام اورثقہ‘‘ کہتے ہیں : ثقۃ إمام فی الحدیث۔


۲-  حضرت وہیب بن خالد فرماتے ہیں : قدم علینا ھشام بن عروۃ، فکان فینامثل الحسن وابن سیرین۔’’ہشام بن عروہ ہمارے پاس آئے توہمارے نزدیک حسن بصری اورابن سیرین کے مماثل تھے‘‘۔


۳-  حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ:ابن حبان نے ان کاشمارثقات میں کرنے کے بعدفرمایا: کان متقنا ورعاً فاضلاً حافظاً۔’’وہ متقی، پرہیزگار، فاضل اور حافظ تھے‘‘۔(تہذیب التہذیب، حرف الہاء: ۱۱؍۴۵-۴۶، تہذیب الکمال، من اسمہ ہشام: ۳۰؍۲۳۹)


۴-  امام ذہبی(جوائمۂ حدیث ورجال میں سے ہیں ) فرماتے ہیں : أحدالأعلام، حجۃ إمام؛ لکن فی الکبرتناقص حفظه، ولم یختلط أبداً۔ ’’وہ حجت وامام اوربڑے آدمی تھے؛ البتہ بڈھاپے میں حافظہ میں کمی آگئی تھی؛ لیکن ملاوٹ نہیں کی‘‘۔(میزان الاعتدال،نمبرشمار: ۹۲۳۳:۴؍۳۰۱)


۵-  امام دارقطنی نے اپنی سنن میں ذکرکرنے کے بعدفرمایا: وھشام وإن کان ثقۃ فإن الزھری أحفظ منه۔’’ہشام اگرچہ ثقہ ہیں ؛ لیکن امام زہری زیادہ یادرکھنے والے ہیں ‘‘۔(سنن الدارقطنی،باب فی المرأۃ تقتل إذاارتدت، حدیث نمبر: ۱۲۷)


۶-  حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : ثقۃ فقیہ، ربمادلس۔ ’’وہ ثقہ فقیہ ہیں، تاہم بسااوقات تدلیس کیاکرتے تھے‘‘۔ (تقریب التہذیب، ص: ۵۷۳، نمبرشمار: ۷۳۰۲)


مذکورہ اقوال سے معلوم ہوگیاکہ حضرت ہشام ایسے راوی نہیں ہیں، جن کی روایت مطلقاً ناقابل قبول ہو، ان اقوال کے بعداب درج ذیل وضاحتوں پربھی غورکریں :


۱-  عراق میں حضرت ہشام کی آمدتین مرتبہ ہوئی ہے اورحافظ ابن حجر کے بقول امام مالک  کے قول کاتعلق تیسری مرتبہ کی آمدسے ہے؛ چنانچہ وہ اپنی کتاب’’ہدی الساری، ص: ۷۰۲‘‘ میں لکھتے ہیں : مجمع علی تثبیته؛ إلاأنه فی کبرہ تغیر حفظه، فتغیرحدیث من سمع منه فی قدمتہ الثالثۃ إلی العراق’’ان کی ثقاہت متفق علیہ ہے؛ البتہ بڈھاپے میں حافظہ متغیرہوگیاتھا، جس کی وجہ سے ان کی تیسری مرتبہ عراق آمدمیں جنھوں نے حدیث سنی، اس کے اندربدلاؤ آگیا ‘‘، لہٰذا امام بخاری کی روایتوں میں پہلے یہ ثابت کرناپڑے گا کہ تمام راویوں نے حضرت ہشام کی تیسری مرتبہ آمدکے بعد روایتیں لی ہیں، ورنہ بخاری کی روایتیں مجروح قرارنہیں دی جاسکتیں۔


۲-  جن راویوں نے حضرت ہشام سے حضرت عائشہ کی عمرکے سلسلہ میں روایت نقل کی ہے،ان کی روایتیں بخاری میں تقریباًنوے (۹۰) ہیں، امام مالک کے قول کواگرمطلق ماناجائے توان تمام نوے روایتوں کومجروح قراردیناہوگا۔


۳-  حضرت عائشہ کی عمرکے سلسلہ میں روایتیں صرف حضرت ہشام ہی سے نہیں ہیں ؛ بل کہ ان کے علاوہ اوربھی حضرات سے منقول ہیں ؛ چنانچہ امام نسائی  اپنی سندسے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : حدثنااحمدبن سعد بن الحکم بن أبی مریم قال: حدثناعمی،قال: حدثنایحییٰ بن ایوب قال: أخبرنی عمارۃ بن غزیۃ عن محمدبن ابراھیم عن أبی سلمۃ بن عبدالرحمن عن عائشۃ قالت: تزوجنی رسول اللهﷺ وھی بنت ست سنین، وبنی بھا وھی بنت تسع۔ (سنن نسائی، البناء بابنۃ تسع، حدیث نمبر: ۳۳۷۹،السنن الصغریٰ، حدیث نمبر: ۳۳۴۴، السنن الکبریٰ، حدیث نمبر: ۵۳۸۰)


امام طبرانی اپنی سندسے بیان کرتے ہیں : حدثنا موسی بن ھارون، نااسحاق بن راھویه، أنا یحییٰ بن آدم، ثناابوبکربن عیاش عن الأجلح عن عبدالله بن أبی ملیکۃ عن عائشۃ أن النبی ﷺتزوجھا وھی بنت ست سنین، ودخل بھا وھی بنت تسع سنین۔(المعجم الأوسط، حدیث نمبر: ۸۱۱۶، السنن الکبریٰ للنسائی، حدیث نمبر: ۵۱۸۳)


ابوبکرشیبانی اپنی سندسے روایت کرتے ہیں : حدثنا الحسن بن علی، حدثنامحمدبن الحسن، حدثناسفیان الثوری عن سعد بن ابراھیم عن القاسم عن عائشۃؓ قالت: تزوج بی رسول اللهﷺ وأناابنۃست سنین، وبنی علی وأناابنۃ تسع سنین، وبنی علی فی شوال۔ (الأحادوالمثانی، حدیث نمبر: ۳۰۰۷)


یہ روایتیں حضرت ہشام کے علاوہ سے ہیں، جوحسن درجہ سے کم کی نہیں اور یہ حدیثیں حضرت ہشام کی حدیثوں کی مؤیدبھی ہیں، لہٰذا حضرت ہشام کی روایتوں کوکلیۃً مجروح قرارنہیں دیاجاسکتاہے۔


۴-  امام بخاری کی کتاب کوجمہورعلماء’’ أصح الکتاب بعدکتاب الله‘‘ قراردیتے ہیں اورأصحیت وأرجحیت میں دوسری روایتوں کے مقابلہ میں ان کی روایات کو ترجیح دی جاتی ہے؛ چنانچہ حافظ ابن حجرؒ رقم طراز ہیں : وقد صرح الجمھور بتقدیم ’صحیح البخاری‘فی الصحۃ، ولم یوجدعن أحدالتصریح بنقیضه۔ (نزہۃ النظر، ص: ۹۶) ’’جمہورنے صحت کے سلسلہ میں صحیح بخاری کومقدم کرنے کی صراحت کی ہے اوراس کے خلاف کسی کی صراحت نہیں ملتی‘‘؛ اس لیے امام بخاری  کی روایتیں ہی اس باب میں مستندمانی جائیں گی اور صرف امام مالک کے قول کی بناپر ان کی تمام روایتوں کومجروح نہیں قرار دیا جاسکتا۔



چندمعروضات


مذکورہ تصریحات کے بعداب راقم الحروف کے چندمعروضات پربھی غورکرناچاہیے:


۱-   حامیانِ اسلام کومخالفینِ اسلام کے جواب دینے میں حضرت عائشہ کی عمرکونکاح کے وقت اٹھارہ سال ثابت کرنے کے سلسلہ میں اس قدر مشقت اٹھانے کی قطعی ضرورت نہ تھی؛ بل کہ ان کاجواب اس طرح ہوناچاہیے تھا، جس طرح حضرت سلمان فارسی نے مشرکوں کے استہزاء کاجواب دیا تھا، حضرت سلمان فارسی فرماتے ہیں : قال لناالمشرکون: إنی أری صاحبکم یعلمکم؛ حتی یعلمکم الخراء ۃ، فقال: أجل، أنه نھاناأن نستنجي أحدنابیمینه، أویستقبل القبلۃ، ونھی عن الروث والعظام، وقال: لایستنجي أحدکم بدون ثلاثۃ أحجار۔(مسلم، باب الإستطابۃ، حدیث نمبر: ۲۶۲)’’مشرکین کہتے ہیں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے ساتھی تم لوگوں کو(ہرچیز کی)تعلیم دیتے ہیں ؛یہاں تک کہ قضائے حاجت کی بھی، انھوں نے کہا: ہاں ! وہ ہمیں دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے، قبلہ کی طرف رخ کرنے اور ہڈی یا گوبر سے استنجاء کرنے سے روکتے ہیں اوریہ بھی فرماتے ہیں کہ تم میں سے کوئی تین پتھروں سے کم سے استنجاء نہ کرے‘‘۔


ملاعلی قاری اس کی تشریح میں امام طیبی کاقول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :قال الطیبی: جواب سلمان من باب أسلوب الحکیم؛ لأن المشرک لمااستهزأ کان من حقه أن یهدد أویسکت عن جوابه؛ لکنه رضی الله عنه ماالتفت إلی ماقال ومافعل من الاستهزاء وأخرج الجواب مخرج المرشد الذی یلقن السائل المجد، یعنی لیس ھذامکان الإستهزاء؛ بل ہوجدوحق، فالواجب أن تترک العنادوتلزم الطریق المستقیم والمنہج القویم بتطھیرباطنک وظاھرک من الأرجاس والأجناس۔ (مرقاۃ المفاتیح، باب آداب الخلاء، حدیث نمبر:۳۷۰: ۲؍۷۷) ’’حضرت سلمان  کاجواب حکیمانہ اسلوب کے قبیل سے تعلق رکھتاہے؛ چنانچہ جب مشرک نے استہزاء کیاتو(جواب میں )وہ ڈانٹ سکتے تھے یاپھرخاموشی اختیارکرلیتے؛ لیکن انھوں نے مشرک کے قول اوراستہزاء کونظراندازکرکے ایک سنجیدہ سائل کو رہنمائی کرنے والاجواب دیتے ہوئے فرمایا: یہ استہزاء کامقام نہیں ؛ بل کہ حقیقت پسندی اورسنجیدگی کامقام ہے، تم پرضروری ہے کہ تم عنادوہٹ دھرمی کوچھوڑکرگندگیوں سے اپنے ظاہروباطن کوصاف کرکے سیدھے راستے کواختیارکرو ‘‘۔


ہمیں بھی احساسِ کمتری‌کا شکارہوکردفاعی راستہ اختیارکرنے کے بجائے حضرت سلمان فارسی کاطریقۂ جواب اختیارکرناچاہیے تھا، اگرایساکیا جاتاتوشایدیہاں تک نوبت ہی نہیں آتی۔


۲-  حضرت عائشہ کی کم سنی کی شادی پرمعترض ہونے کے بجائے ہمیں اس بات پرغورکرناچاہیے کہ کیااس زمانہ میں اس کومعیوب سمجھاجاتاتھایا اس کارواج تھا یانہیں ؟سیروتاریخ کی کتابوں کے مطالعہ سے اس کاجواب یہ ملتاہے کہ کم سنی کی شادی کو اس زمانہ میں معیوب نہیں سمجھاجاتاتھا، نیز یہ اس زمانہ کاایک مروج معاملہ تھا؛ بل کہ حیرت واستعجاب اس سے آگے ہمیں لے جاتاہے کہ ان کے یہاں حمل کابھی نکاح ہوجایاکرتاتھا، امام ابوداود نے اپنی کتاب میں اس سلسلہ میں ایک باب قائم فرمایاہے: باب فی تزویج من لم یولد’’پیدائش سے پہلے شادی کرانے کاباب‘‘، جس کے اندرایک طویل حدیث بیان کی گئی ہے، جس میں یہ بھی ہے کہ کردم ؓحجۃ الوداع کے موقع سے مسلمان ہوئے اور حضور سے بتایا: إنی حضرت جیش عثران، فقال طارق بن المرقع: من یعطینی رمحاً بثوابه، قلت: وماثوابه؟ قال: أزوجه أول بنت تکون لی۔(ابواداود، حدیث نمبر:۲۱۰۵، نیز دیکھئے:مسنداحمد، حدیث نمبر: ۲۷۰۶۴، السنن الکبری للبیہقی، حدیث نمبر:۱۳۸۲۴) ’’میں جنگ عثران میں شریک تھا؛ چنانچہ طارق بن مرقع نے کہا: مجھے عوض کے ساتھ نیزہ کون دے گا؟ میں نے پوچھا: عوض کیاہے؟ اس نے جواب دیا: اپنی پہلی ہونے والی بیٹی سے اس کی شادی کراؤوں گا‘‘،یہ حدیث سارہ بنت مقسم کے مجہول الحال ہونے کی وجہ سے سنداً اگرچہ کمزورہے؛ لیکن اتنی بات ضرورمعلوم ہوتی ہے کہ اس زمانہ میں اس طرح کے امورکومعیوب نہیں سمجھاجاتاتھا، ورنہ عوض میں کسی اورچیزکا ذکرکرتے۔


نیزکم سنی کی شادیوں کی کئی مثالیں بھی ہمیں تاریخ وسیر کی کتابوں میں ملتی ہیں، آیئے انھیں بھی دیکھتے چلیں :



۱-  ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب کے لیے حضرت عمر نے اس کی کمسنی ہی میں نکاح کاپیغام بھیجاتھا؛ چنانچہ ان کے حالات میں لکھاہے: خطبھاعمربن الخطاب وھی صغیرۃ۔ (سیراعلام النبلاء، ام کلثوم بنت علی:۵؍۲۲)’’حضرت عمر نے نکاح کاپیغام ان کی کم عمری میں بھیجا‘ابن الترکمانی ؒپیغام سے آگے بڑھ کرشادی کرنے کی بات لکھتے ہیں : وتزوج عمر ابنۃ علی صغیرۃ۔(الجوہرالنقی، باب انکاح الآباء الابکار: ۷ ؍ ۱۱۴) ’’(حضرت)عمرنے حضرت علی ایک چھوٹی بیٹی سے شادی کی تھی‘‘۔


۲-  قدامہ بن مظعون نے حضرت زبیر کی بیٹی (جس کانام صفیہ بتایاجاتاہے)سے اس کی پیدائش کے دن ہی نکاح کیا، ملاعلی قاری لکھتے ہیں : وتزوج قدامۃ بن مظعون بنت الزبیریوم ولدت مع علم الصحابۃنص فی فھم الصحابۃ عدم الخصوصیۃ فی نکاح عائشۃ رضی اللہ عنها۔ (مرقاۃ المفاتیح، باب الولی فی النکاح واستئذان المرأۃ: ۶؍۲۶۹، فتح القدیر: ۳؍۱۷۲)’’قدامہ بن مظعون نے زبیرکی بیٹی سے اسی دن نکاح کیا، جس دن وہ پیداہوئی، یہ بات صحابہ کے علم میں تھی، جواس بات پر واضح دلیل ہے کہ صحابہ کے فہم میں یہ(کم عمری کی شادی) حضرت عائشہ کی خصوصیت نہیں ‘‘۔


۳-  خود  حضور نے حضرت ام سلمہ کے بیٹے سلمہ کانکاح حضرت حمزہ کی بیٹی سے بچپن ہی میں کردیاتھا، مفسرقرآن ابوبکرجصاص رازی لکھتے ہیں : کان زوج رسول اللهﷺ  أم سلمۃ ابنهاسلمۃ، فزوجه رسول اللهﷺ بنت حمزۃ، وھماصبیان صغیران، فلم یجتمعا؛ حتی ماتا۔ (احکام القرآن للجصاص رازی، باب تزویج الصغار: ۲؍۷۵)’’رسول اللہ نے (حضرت)ام سلمہ کے بیٹے کی شادی (حضرت)حمزہ کی بیٹی سے اس وقت کرایاتھا، جب کہ وہ دونوں چھوٹے تھے؛ چنانچہ وہ دونوں موت تک نہیں ملے ‘‘۔



حضرت زبیر نے اپنی چھوٹی بچی کی شادی رچائی، امام شافعی فرماتے ہیں : وزوّج الزبیر رضی الله عنه ابنته صبیۃ۔ (الجوہرالنقی مع السنن الکبری للبیہقی، باب انکاح الآباء الابکار،حدیث نمبر: ۱۴۰۳۱)


یہ توکچھ مثالیں ہیں، ورنہ سیروتاریخ کی کتابوں میں تلاش کرنے سے اوربھی بہت ساری مثالیں مل جائیں گی، اسی لیے ابن الترکمانی لکھتے ہیں : وزوج غیرواحد من أصحاب‌النبی ﷺ ابنتہ صغیرۃ۔(الجوہرالنقی، باب انکاح الآباء الابکار: ۷ ؍ ۱۱۴)’’بہت سارے صحابہ نے اپنی کم عمربیٹیوں کی شادی کرائی‘‘۔


مذکورہ باتوں سے یہ معلوم ہوگیاکہ اس زمانہ میں کمسنی کی شادی کوئی معیوب بات نہ تھی، لہٰذاہمیں کیاحق پہنچتاہے کہ ہم ایک ثابت شدہ بات کاانکار کریں ؟نیزاس سےمزیدوہ‌دواشکالات‌بھی‌خودبخوددورہوجا تےہیں، جومعترضین کی طرف سے کئے جاتے ہیں :


(الف)   حضرت عائشہ کارشتہ مطعم بن عدی نے اپنے بیٹے(جبیر) سے پہلے ہی طے کررکھی تھی، جب کہ مطعم بن عدی کابیٹا(جبیر)جنگ بدر میں شریک رہاہے،اس سے معلوم ہواکہ جبیرعمردرازتھے، پھراس قدرچھوٹی عمرکی لڑکی سے اس کارشتہ کیسے طے ہوسکتاتھا؟ اس لیے حضرت عائشہ کی پیدائش کو نبوت سے پہلے مانناہوگا۔


(ب)   حضرت عائشہ سے حضور کانکاح حضرت خدیجہ کی وفات کے بعدعمل میں آیااوریہ بات معلوم ہے کہ آپ  کی جتنی اولاد ہیں، وہ سب حضرت خدیجہ سے ہے، ایسے وقت میں ایک چھ سات سال کی لڑکی سے نکاح کی ضرورت تھی یاایسی خاتون سے، جوگھرداری سنبھال سکے؟اس لیے یہی مانناہوگاکہ حضرت عائشہ چھ سات سال کی نہیں ؛ بل کہ اٹھارہ سال کی تھیں۔


مذکورہ پہلے اشکال کاجواب توآچکاہے کہ عمردرازکانکاح‌کم عمرسے بھی ہوجایاکرتاتھا، ورنہ حضرت عمر ام کلثوم بنت علی بن ابوطالب کے لیے پیغام نہ بھیجتے(بل کہ شادی نہ فرماتے)؛ اس لیے حضرت عائشہ کی پیدائش نبوت سے پہلے ماننالازم نہیں۔


جہاں تک دوسرے اشکال کاتعلق ہے تواس کاجواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ سے نکاح کامقصد صرف گھرداری نباہنانہیں تھا؛ بل کہ علمِ نبوت حاصل کرکے اس کی تبلیغ اوراس کی تقسیم تھی، جہاں تک گھرکے سنبھالنے کامسئلہ تھاتووہ حضرت سودہ سے پوراہوا، یہی وجہ ہے کہ نکاح کے بعدبھی حضرت عائشہ تقریباً چارسال تک کاشانۂ نبوت میں جانے کے بجائے اپنے میکہ میں رہیں۔


۳-  اس بات پربھی غورکرناچاہیے کہ کیانوسال کی عمربالغ ہونے کی عمرہے یانہیں ؟حضرت عائشہ فرماتی ہیں :إذابلغت الجاریۃ تسع سنین فہی إمرأۃ۔ (سنن الترمذی، باب ماجاء فی إکراہ الیتیمۃ علی التزویج،حدیث‌نمبر:۱۱۰۹)’’جب’جاریہ‘(بچی)نوسال کی عمرکوپہنچ جائے تووہ’إمرأۃ‘ (عورت) ہوجاتی ہے‘‘، یہی نہیں ؛ بل کہ حضرت لیث اپنے کاتب عبداللہ بن صالح کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں :أن إمرأۃ فی جوارھم حملت، وہی بنت تسع سنین۔(السنن الکبریٰ للبیہقی، باب السن الذی یجوزأن تحیض فیہ،حدیث نمبر: ۱۵۸۱۷)’’میرے پڑوس کی ایک عورت اس وقت حمل سے ہوگئی، جب وہ نوسال کی تھی‘‘، اسی لیے فقہائے احناف، فقہائے مالکیہ اورفقہائے شوافع اس بات کے قائل ہیں کہ’ ’لڑکی کے بالغ ہونے کی ادنیٰ عمرنوسال ہے‘‘۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ، لفظ: بلوغ: ۸؍۱۹۳)‌ جب لڑکی نوسال کی عمرمیں بالغ ہوجاتی ہے توپھرحضرت عائشہ کی نوسال کی رخصتی پراس قدرواویلامچانے کی کیاضرورت ہے؟


حضرت عائشہ نے کئی جگہوں پراپنی کم سنی کوظاہرکیاہے(دیکھئے:بخاری،حدیث نمبر:۲۶۶۱،مسلم، حدیث نمبر: ۱۲۱۱)؛ حتیٰ کہ ایک جگہ اس کم عمری کا اظہاراس طرح فرمایا: فاقدروا قدرالجاریۃ الحدیثۃ السن۔ (مسلم، حدیث نمبر:۲۰۶۴)، امام نووی  اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : معناہ: أنہا تحب اللہو والتفرج والنظرإلی اللعب حبا بلیغا وتحرص علی إدامتہ ماأمکنہا ولاتمل ذلک إلابعذرمن تطویل۔(شرح النووی علی مسلم، باب رخصۃ فی اللعب التی لامعصیۃ فیہ: ۲؍۴۸۹)’’اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کھیل کودکواورکھیل دیکھنے کوبہت زیادہ پسند کرتیں اورامکان بھراس کی حریص رہتیں اورصرف زیادہ دیرٹھہرنے (کی وجہ سے تکان پیداہونے)کے عذر سے ہی اکتاتیں ‘‘، اس سے بھی معلوم ہوتاہے کہ نکاح کے وقت وہ کم عمرہی تھیں۔


 اس پریہ اشکال ہوسکتاہے کہ عورتیں اپنی عمرکوچھپاتی ہیں، یہاں بھی یہی معاملہ ہے، اس کا جواب ایک تویہ ہے کہ حضرت عائشہ  جیسی خاتون کے بارے میں اس طرح سوچنابعیدازقیاس ہے، ورنہ پھران سے مروی بہت ساری روایتوں کوبھی ترک کرناپڑے گا، دوسراجواب یہ ہے کہ تھوڑی دیرکے لیے یہ تسلیم کرلیاجائے کہ عورتیں اپنی عمرچھپاتی ہیں، تویہ بات بھی تسلیم کرنی ہوگی کہ ایک عورت دوسری عورت کی عمرنہیں چھپاتی (؛ بل کہ بڑھاکربولتی ہیں )؛ لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے، دوسری خاتون بھی حضرت عائشہ کی کم عمری کی گواہی دیتی نظرآرہی ہیں ؛ چنانچہ حضرت بریرہ سے جب حضور نے واقعۂ افک کے موقع سے حضرت عائشہ کے بارے میں پوچھا توانھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا:لا، والذی بعثک بالحق إن رأیت منھاأمرا اغمصه علیھاقط أکثرمن أنھاجاریۃ حدیثۃ السن تنام عن العجین فتأتی الداجن فتأکله۔ (بخاری، باب تعدیل النساء بعضہن بعضا، حدیث نمبر: ۲۶۶)’’نہیں (کوئی شک والی بات نہیں )اس ذات کی قسم، جس نے آپ کوحق کے ساتھ بھیجاہے،میں نے ان کی جانب سے چشم پوشی کی جانے والی کوئی بات کبھی نہیں دیکھی ہے، سوائے اس کے کہ وہ کم عمرہیں، آٹایوں ہی رکھ کرسوجاتی ہیں اوربکری آکرکھالیتی ہے‘‘  —–  حضرت بریرہ کی اس شہادت سے بھی معلوم ہورہاہے کہ وہ حقیقتاً کم عمرہی تھیں۔


۵-  موجودہ زمانہ میں کتنے ایسے واقعات اخبارات کی زینت بن چکے ہیں (اورآج بھی انٹرنیٹ پرسرچ کیاجاسکتاہے؛ بل کہ وکی پیڈیامیں تو اس سلسلہ کی ایک طویل فہرست بھی دی ہوئی ہے، جوحضرات دیکھناچاہتے ہوں، وہ دیکھ لیں )، جن میں سات آٹھ سال کی بچی کااستقرار حمل ہواہے، ان باتوں کولوگ تسلیم بھی کرتے ہیں ؛ لیکن پتہ نہیں کیوں حضرت عائشہ کی چھ سال کی عمرمیں نکاح اورنوسال کی عمرمیں رخصتی کو تسلیم کرنے سے ہچکچاتے ہیں ؟



از ۔حافظ مشکات حضرت حافظ قاری مولانا مفتی عزیز الحمن خان قادری مصباحی شیخ الحدیث وصدر شعبہ افتا دارا لعلوم محبوبیہ اہل سنت شمع اسلام ڈہلمو شریف امبیڈ کر 12 ذیقعدہ 1443ھ

Post a Comment

0 Comments