رام گیری پنڈت کی گستاخی کا شرعی و عقلی دلاٸل کی روشنی میں محاسبہ

رام گیری پنڈت کی گستاخی کا شرعی و عقلی دلاٸل کی روشنی میں محاسبہ

 🛑 *رام گیری پنڈت کی گستاخی کا شرعی و عقلی دلائل کی روشنی میں محاسبہ*


*✒️محمد ایوب رضا امجدی کلکتوی غفرلہ*


*_____________________________________*


*خلاصۂ اعتراض:* پیغمبر اسلام حضرت محمد(ﷺ) نے ایک کم عمر لڑکی(حضرت عائشہ صدیقہ) سے نکاح کیا جن کی عمر 6 برس کی تھی جو سراسر اس بچی پر ظلم تھا !! (رام گیری پنڈت)


*جواب:-* اس اعتراض کا میں دو جواب دینا چاہوں گا۔ پہلا جواب شرعی دلائل کی روشنی میں جو کہ اہل ایمان کےلیے کفایت کرے گا اور دوسرا جواب عقلی دلائل کی روشنی میں جو کہ Non-Muslims کے ذہن پر پڑے غبار کو صاف کرے گا۔ وباللہ التوفیق 


*شرعی دلائل کی روشنی میں جواب:* یہ ہے کہ ہمارے نبی پاک ﷺ کا ہر کام خدا ﷻ کی مرضی سے ہوتا ہے جیسا کہ اس پر قرآن پاک کی آیت کریمہ *وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡھَوٰی اِنۡ ھُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی*(ترجمہ کنز الایمان: *اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے، وہ تو نہیں مگر وحی جو انہیں کی جاتی ہے*) دلالت کر رہی ہے۔ نیز  بکثرت احادیث میں آیا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ سے فرمایا: ”میں تم کو دو بار خواب میں دیکھ چکا ہوں، میں نے دیکھا کہ ایک شخص ریشمی کپڑے میں تم کو میرے پاس لایا ہے اور کہہ رہا ہے: یہ آپ کی اہلیہ ہیں، اِن کا پردہ اُٹھا کر دیکھیے،  میں نے پردہ اُٹھا کر دیکھا تو تم تھیں۔ میں نے کہا: اگر یہ اللہ کے پاس سے ہے تو اللہ اِسے ضرور نافذ فرما دے گا۔“(بخاری)

لہذا یہ ثابت ہوا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے آپ ﷺ کا نکاح فرمانا اپنی خواہش سے نہیں بلکہ رب کریم کی مرضی سے ہوا تھا اب جبکہ یہ معلوم لگ گیا کہ آپ ﷺ نے یہ نکاح اللہ ﷻ کے حکم سے فرمایا تو اس پر آپ ﷺ کو معاذ اللہ ظالم یا شہوت پرست کہنا خود ظلم عظیم اور بہتان رجیم ہے۔ اب کوئی بدبخت یہ نہ کہے کہ پیغمبر اسلام نے نہ سہی لیکن اس کے خدا نے تو ظلم کیا(معاذ اللہ) تو اسے جاننا چاہیے کہ رب کریم اپنے محبوب بندوں پر ظلم تو بہت دور ہے اپنے عام بندوں پر بھی ذرہ برابر ظلم نہیں فرماتا کما قال تعالیٰ *اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظۡلِمُ مِثۡقَالَ ذَرَّةٍ‌* (ترجمہ کنز الایمان *اللہ ایک ذرہ بھر ظلم نہیں فرماتا*)


*عقلی دلائل کی روشنی میں جواب:* عقلی دلائل پیش کرنے سے قبل اتنا بتادوں کہ یہ بات درست ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے آپ ﷺ نے جس وقت نکاح فرمایا اس وقت ان کی عمر 6 سال تھی لیکن رخصتی 3 برس بعد ہوئی یعنی رخصتی کے وقت حضرت عائشہ صدیقہ کی عمر 9 برس کی تھی لہذا اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آج سے تقریباً 1450 سال پہلے کی 9 برس کی لڑکی کو آج کے 9 برس کی بچی پر قیاس کرنا صحیح ہوگا یا نہیں؟ آئیے اب اسے چند عقلی دلائل کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں:


*پہلی عقلی دلیل:* شادی کے لیے جس چیز کو سب سے اہم مانا جاتا ہے وہ عمر نہیں بلکہ زوجین کا ازدواجی تعلقات کے لائق ہونا ہے کہ وہ ان چیزوں میں فٹ ہے یا نہیں مثلاً وہ بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے یا نہیں وغیرہا اور اس میں اختلاف زمان و مکان کی وجہ سے بڑا فرق آتا ہے چونکہ آج ہم لوگ جس مسئلے پر گفتگو کر رہے ہیں اسے رونما ہوۓ تقریباً 1450 برس گزر چکے ہیں یعنی 1400 سال سے زائد پہلے کے ماحول کو آج ہم اپنی ناقص عقل سے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

دیکھو; اختلاف زمان (زمانے کے بدلنے) کی وجہ سے بہت ساری چیزیں بدل جاتی ہیں اور اختلاف مکان(جگہ کے بدلنے) کی وجہ سے بھی، اختلاف زمان چھوڑو پہلے ہم تمہیں اتحاد زمان و اختلاف مکان کے متعلق ہونے والا فرق سمجھاتے ہیں۔ آج بھی اگر ہم بہار، مدھیہ پردیش، اتر پردیش وغیرہا کے گاؤں، دیہات میں چلے جائیں ان علاقوں میں لڑکیوں کی شادی 15 سے 16 سال کی عمر میں کردی جاتی ہیں، اگرچہ یہ آئین ہند کے خلاف ہے مگر ایسا ہو رہا ہے کیونکہ وہ لڑکیاں ازدواجی تعلقات کے لائق ہوجاتی ہیں جبکہ دہلی، ممبئ، کلکتہ وغیرہ بڑے شہروں میں چلے جائیں تو وہاں کی لڑکیاں 18 سے 19 سال کے بعد ازدواجی تعلق کے لائق ہوتی ہیں اس لیے کہ ان دونوں کے کھان پان، آب و ہوا میں قدرتی طور پر فرق ہے جس کی بنا پر گاؤں کی لڑکیاں جسمانی طور پر مضبوط اور طاقتور ہوتی ہیں اور یہی جسمانی قوت شہر کی لڑکیوں میں 18 سال کے بعد پیدا ہو رہی ہے۔  ہم یہ اتحاد زمان و اختلاف مکان(زمانہ ایک اور جگہ مختلف) کی بات کر رہے ہیں، اب ہم آج سے 100 سال پہلے کا زمانہ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم لگے گا اس وقت گاؤں ہو یا شہر 14 سے 15 سال کی عمر میں عمومی طور پر لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی تھی اور اسے کوئی معیوب بھی نہیں سمجھتا تھا تو جب 100 سال کی قلیل مدت میں 3 سے 4 سال کا فرق آسکتا ہے تو آج سے تقریباً 1450 سال قبل مزید کچھ سال کے فرق کا آنا کون سی بڑی بات ہے۔ لہذا بات سمجھ میں آگئی کہ اصل Matter عمر کا نہیں بلکہ ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں فٹ اور اَن-فٹ ہونے کا ہے۔ نیز دیکھو; پہلے مردوں کے منی(sperm) اتنے گاڑھے ہوتے تھے کہ اسے موم کی طرح کھرچہ جا سکتا تھا مگر اب کسی کی منی میں ایسا گاڑھا پن نہیں پایا جاتا جو اس بات کی روشن دلیل ہے کہ اختلاف زمان کی وجہ سے نوع انسان میں جسمانی طور پر بہت فرق آیا ہے۔



*دوسری عقلی دلیل:* یہ ہے کہ گرم علاقوں کے لوگ دوسرے علاقوں کی بنسبت بہت جلد جوان ہو جاتے ہیں، ان کے جسم کی بالیدگی بہت تیز ہوتی ہے جسے عینی مشاہدہ کرنا ہو تو کبھی راجستھان یا دوسرے گرم علاقوں میں جاکر دیکھ لیں، اور یہ بات ہر کس و ناکس کو معلوم ہے کہ عرب ایک گرم ریگستانی علاقہ ہے جہاں کی خواتین دیگر ممالک کی بنسبت کم عمر میں ہی ازدواجی تعلق قائم کرنے کے لائق ہوجاتیں ہیں۔


*تیسری عقلی دلیل:* یہ ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے زمانے میں منافقوں کا ایک پورا گروہ تھا جو ہر وقت اس تلاش میں رہتے تھے کہ کہیں سے انہیں پیغمبر اسلام ﷺ کے حوالے سے کوئی نقص مل جاۓ جسے وہ Issue بنا کر ان کی شان میں بکواس کرسکیں لیکن تمہیں میں بتاؤں منافقوں کا کوئی ایک قول بھی ایسا پیش نہیں کیا جاسکتا جس میں انہوں نے یہ اعتراض کیا ہو کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے ایک کم سن لڑکی سے نکاح کرکے اس پر ظلم و زیادتی کی ہے جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس زمانے میں 9 سال کے عمر کی لڑکی ازدواجی تعلق قائم کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔


*چوتھی عقلی دلیل:* یہ ہے کہ کسی بھی لڑکی کی شادی کے حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ دار اس کا والد ہوتا ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے والد حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں جو کہ ایک ذہین، فطین، ہوشیار، عقل مند، دانش مند انسان تھے جسے کفار مکہ بھی تسلیم کرتے تھے نیز حضرت عائشہ صدیقہ خود ایک ذہین اور عقل مند لڑکی تھی جب انہوں نے اس نکاح میں کوئی اشکال ظاہر نہ کیا تو آج کے کم ظرف لوگوں کو کیا حق بنتا ہے کہ وہ اس معاملہ میں اشکال کریں؟

لہذا ان تمام تر شرعی اور عقلی دلائل سے یہ ثابت ہوا کہ اس زمانے کی 9 سال کی لڑکی کو آج کی 9 سال کی لڑکی پر قیاس کرنا محض باطل ہے۔ اس تفصیل کے بعد بھی اگر کسی کو یہ عقدہ سمجھ نہ آۓ تو اسے چاہیے کہ اپنی کم ظرفی پہ ماتم کرے۔ امید قوی ہے اس تحریر سے مسلمانوں کے دل ٹھنڈے اور شرپسندوں کے کلیجے مزید جل اٹھے ہوں گے۔ اللہ پاک ہمیں ناموس رسالت ﷺ پر مرٹنے کی توفیق سعید عطا فرماۓ، فقیر کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرماۓ اور اسے میرے، میرے والدین و اساتذہ کےلیے توشۂ آخرت بناۓ۔ آمین یارب العلمین بجاہ سید المرسلین و صلی اللہ علی نبی الکریم و علی الہ و صحبہ اجمعین الی یوم الدین ۔


*انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے*

*شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات*

Post a Comment

0 Comments