سوانح حیات صاحب توضیح علامہ صدر الشریعہ الاصغر علیہ الرحمہ
نام ونسب: آپ کا نام عبد الله ، لقب صدر الشریعہ الاصغر اور والد کا نام مسعود ہے۔ سلسلہ نسب یوں ہے: عبید اللہ بن مسعود بن تاج الشریعہ محمود بن صدر الشریعہ الاکبر احمد بن جمال الدین عبید اللہ بن ابراہیم بن احمد بن عبد الملک بن عمیر بن عبدالعزیز بن محمد بن جعفر بن خلف بن ہارون بن محمد بن محمد بن محبوب بن ولید بن عبادہ بن صامت انصاری۔
آپ کے پر دادا کا لقب صدر الشریعہ ہے، اس لیے امتیاز کی خاطر آپ کے لقب کے ساتھ اصغر یا ثانی کا اضافہ کیا جاتا ہے اور آپ کے پردادا کے لقب کے ساتھ اکبر یا اول کا لاحقہ لگایا جاتا ہے۔
تحصيل علم : اپنے دادا تاج الشریعہ محمود بن صدر الشریعہ الاکبر اور دوسرے علما و فقہا سے علوم عقلیہ و نقلیہ کی تحصیل و تکمیل کی ، آپ کے تلمذ کا زریں سلسلہ امام الائمہ، سراج الامہ ، کاشف الغمہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔
تلامذه: تحصیل علم سے فارغ ہونے کے بعد آپ درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے۔
آپ کی ذات سے اکتساب فیض کرنے والوں کی ایک بڑی جماعت ہے۔ ابو طاہر محمد بن محمد بن علی ظاہری اور محمد بن محمد البخاری المعروف بخواجہ پارسا آپ کے مشہور شاگردوں میں ہیں۔
جلالت علمی : آپ اپنے وقت کے امام، جامع منقول و معقول عظیم محدث، بے نظیر فقیہ، علم تفسیر، علم خلاف نحو ولغت ، ادب و کلام اور منطق وغیرہ میں امتیازی خصوصیات کے حامل تھے، آپ کی جلالت علمی کے حوالے سے ایک واقعہ یہاں نقل کیا جا رہا ہے: علامہ قطب الدین رازی آپ کے ہم عصروں میں تھے اور معقولات میں یگانہ روزگار تھے۔
ایک مرتبہ صدر الشریعہ الاصغر سے مباحثہ کرنا چاہا، پہلے انہوں نے اپنے ایک شاگرد مبارک علی شاہ کو حالات کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا ، مبارک شاہ نے وہاں پہنچ کر دیکھا کہ صدر الشریعہ الاصغر ابن سینا کی کتاب الاشارات اس طرح پڑھا رہے ہیں کہ نہ مصنف کی پیروی کرتے ہیں اور نہ کسی شارح کی۔ جب مبارک شاہ نے یہ کیفیت دیکھی تو علامہ قطب الدین رازی کے پاس لکھا کہ یہ آگ کا شعلہ ہے، آپ مقابلہ کرنے کے لیے ہرگز نہ آئیں ور نہ شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ قطب الدین رازی نے یہ بات سنی تو مباحثے کا خیال ترک کر دیا۔ آپ کی جلالت علم ، شان حفظ و ضبط اور فضل و کمال پر ارباب تاریخ وسیر کا اتفاق ہے۔ علامہ کفوی نے اپنی کتاب " اعلام الاخيار في طبقات فقهاء مذهب النعمان المختار “ میں آپ کی جلالت شان کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے: ”هو الام المتفق عليه والعلامة المختلف اليه ، حافظ قوانين الشريعة ، ملخص مشكلات الفرع والاصل ، شيخ الفروع والاصول ، عالم المعقول والمنقول، فقیه، اصولی خلافی، جدلی، محدث ، مفسر، نحوی، لغوی ،ادیب، نظار، متکلم، منطقی، عظیم القدر، جليل المحل، كثير العلم يضرب به المثل غذى بالعلم والأدب، وارث المجد عن اب فاب“ اور علامہ طاش کبری زادہ نے اپنی کتاب مفتاح السعادة میں یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے : " وقد كان بحر از اخرا لا يدرك له قرار و طرد ا شامخا لا يرتقى الى قنته ولا يصار، ولقد كان آية كبرى في الفضل والتدقيق ، وعروة وثقى في الاتقان والتحقيق" علم و عمل کا یہ آفتاب ۷۴۷ ھ میں غروب ہو گیا ، مگر آج بھی اس کے علمی جاہ و جلال، شوکت علم، جودت طبع، بلندی فکر و خیال اورکمال شعور و آگہی کا چر چا دنیاے مدارس میں ہو رہا ہے۔
تصنیفات: آپ ایک بلند پایہ اور مایہ ناز مصنف تھے ، آپ نے اپنی گراں قدر تصنیفات سے اسلام کے علمی خزانے کو زینت بخشی ، آپ کی مفید اور علمی کتابوں کو ہر دور میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا ، آپ کی کتابوں میں چند یہ ہیں ۔ (1) نقایه (۲) شرح وقایه (۳) تعديل العلوم (۴) شرح فصول الخمسين (۵) الوشاح (۶) تنقيح الاصول (۷) التوضيح في حل غوامض التنقيح. توضیح: یوں تو آپ کی تمام کتابیں گوہر یے بہا اور تحقیقات و تدقیقات سے بھری ہوئی ہیں مگر جو مقام توضیح کو حاصل ہوا وہ صاحبان علم و فضل سے مخفی نہیں ہے۔ صدر الشریعہ الاصغر علیہ الرحمہ نے پہلے تنقیح الاصول " نامی کتاب لکھی پھر اس کتاب کی شرح التوضیح في حل غوامض التنقيح “ کے نام سے بھی۔ یہ کتاب فن اصول فقہ میں ہے، اس کا شمار اس فن کی کتب متداولہ مبسوطہ میں ہوتا ہے۔ ایک طویل عرصے سے یہ کتاب نصاب کا ایک حصہ رہی ہے ، دن بدن اس کی شہرت و مقبولیت کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ واقعی یہ کتاب ان چند معیاری کتابوں میں سے ایک ہے جن سے درس نظامی کا وقار بلند و بالا اور اس کا علمی جا کا علمی جاہ و جلال قائم ہے۔ حسن تحریر طرز بیان، تقریر مسائل ، تشریح مشکلات توضیح معصلات نے اس کتاب کی خوبیوں میں چار چاند لگا دیا ہے۔ یہ کتاب ایسے قیمتی نکات اور مباحث و مسائل پر مشتمل ہے جن سے دوسری کتابوں کا دامن خالی ہے، جس کا اظہار صاحب كتاب " هذا مما تفردت به سے جابجا کرتے ہیں۔ اصحاب فضل و کمال اور ارباب علم و دانش نے متن و شرح یعنی تنقیح و تو صحیح دونوں کی اہمیت وافادیت کا برملا اعتراف کیا ہے۔ علامہ تفتازانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: وان كتاب التنقيح مع شرحه المسمى بالتوضيح للامام المحقق والتحرير المدقق علم الهداية عالم الدراية معدل ميزان المعقول و المنقول ومنقح أغصان الفروع والاصول صدر الشريعة والاسلام اعلی الله درجته في دار السلام كتاب شامل الخلاصة كل مبسوط واف ونصاب كامل من خزانة كل منتخب كاف و بهحر محيط بمستصفى كل مديد وبسيط وكنز مغن عما سواه من كل وجيزو وسيط فيه كفاية لتقويم ميزان الأصول وتهذيب أغصانها وهو نهاية في تحصيل مبانى الفروع وتعدیل ارکانها نعم قد سلك منها جا بديعا في كشف أسرار التحقيق واستولى على الأمد الاقصى من رفع منار التدقيق مع شريف زيادات ما مستها أيدى الأفكار ولطيف نكات ما فتق بها رتق آذانهم أولو الأبصار ولهذا طار كالأمطار فى الأقطار وصار كالأمثال في الأمصار ونال في الآفاق حظا و افرا من الاشتهار ولا اشتهار الشمس في نصف النهار“
یعنی تنقیح اپنی شرح توضیح سمیت۔ جس کے مصنف امام محقق ، بہت بڑے عالم اور مدقق ہیں ، ہدایت کے پہاڑ یا جھنڈے ہیں، جو فہم و درایت کے مستقل جہاں ہیں، معقول اور منقول کی ترازو کو برابر کرنے والے ہیں ، فروع واصول کی شاخوں کو صاف کرنے والے ہیں، اسلام و شریعت کے صدر ہیں، اللہ تعالی جنت الفردوس میں ان کے درجے کو بلند فرمائے۔ ایسی کتاب ہے جو ہر مبسوط و مفصل کتاب کے خلاصے کو شامل ہے ہر منتخب کفایت کرنے والی کتاب کے خزانے سے نصاب کامل ہے ، ایسا سمندر ہے جو بر طویل و عریض کتاب کے خلاصے کا احاطہ کرنے والا ہے، اور ایسا خزانہ ہے جو اپنے علاوہ ہر چھوٹی بڑی کتاب سے بے نیاز کرنے والا ہے، اصول و قواعد کی تر از وکو درست کرنے اور اس کی شاخوں کو صاف ستھرا کرنے کے لیے کافی ہے، فروغ کی بنیادوں کو حاصل کرنے اور ان کے ارکان کو درست کرنے میں انتہا کو پہنچی ہوئی ہے، ہاں تحقیق کے رازوں کو کھولنے میں مصنف علیہ الرحمہ نے ایک عجیب راستہ اختیار کیا اور تدقیق کے مینار کو بلند کرنے میں بہت اونچے مقام پر متمکن ہوئے۔ ان عمدہ زیادتیوں کے ساتھ جنہیں افکار کے ہاتھوں نے چھوا تک نہیں اور ایسے لطیف نکات کے ساتھ جن کے ذریعے عقل والوں نے اپنے کانوں کی بندش نہیں کھولی ، اسی وجہ سے بارش کی طرح اطراف واکناف میں اس کی خبر پھیل گئی ، اور امصار و بلاد میں ضرب المثل بن گئی۔ اور آفاق میں شہرت کا بہت بڑا حصہ حاصل کیا ، ایسی شہرت جو دو پہر کے وقت سورج کی شہرت جیسی نہیں تھی ( تلویی جی ۷ ) خطبہ تنقیح کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ صدر الشریعہ الاصغر علیہ الرحمہ نے تنقیح میں تین کتابوں سے خصوصی استفادہ کیا ہے: (۱) امام فخر الاسلام کی اصول فقہ جو اصول بزدوی سے معروف و مشہور ہے (۲) امام رازی کی المحصول (۳) علامہ ابن حاجب کی الاصول اول الذکر کتاب کے مسائل کی تنقیح فرمائی ہے اور اخیر کی دونوں کتابوں کے مباحث کی تلخیص فرمائی ہے۔ قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے کتب ثلاثہ اور ان کے مصنفین کا اجمالی تعارف ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
Biographies-of-Musannifeen / Tanqih-al-Tashrih Urdu Sharh-Al-Tawzeeh / تنقیح التشریح اردو شرح التوضیح و التلویح
0 Comments