سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسائل ذیل کے بارے میں کہ وہابی دیوبندی اور غیر مقلد بد مذہبوں کی محفل میں شریک ہونا ان کی تقریریں سننا یا ان سے تعلیم حاصل کرنا از روۓ شرع کیسا ہے مدلل جواب عنایت کریں۔
المستفتی: محمد فتح علی سرکار
متعلم: الجامعۃ الجلالیۃ العلائیۃ الاشرفیۃ
الدرجۃ: الفضیلۃ
الجواب بعون الملک الوھاب: وہابی، دیوبندی اور غیر مقلد بد مذہبوں کی محفل میں شرکت کرنا اور ان کی تقریر سننا ان سے تعلیم حاصل کرنا ناجائز و حرام اور سنگین گناہ ہے۔ یہ عمل انسان کو بدمذہبی اور گمراہی کی طرف مائل کرنے والا ہے۔ اگرچہ ان کی تقاریر میں قرآنی آیات و احادیث مبارکہ شامل ہوں، حتی کہ اچھی باتیں چننے کی نیت سے بھی انہیں سننا جائز نہیں۔
گمراہ شخص عموماً قرآن و حدیث کی وضاحت کی آڑ میں اپنی بد مذہبی کی باتیں بھی شامل کر لیتا ہے، اور یہ باتیں سننے والے کے ذہن و دل میں اثر انداز ہو کر اسے گمراہ کر سکتی ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسی تقریریں سننے والے خود بھی گمراہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ہمارے اسلاف اپنے ایمان کے تحفظ کے معاملے میں بے حد محتاط تھے۔ اگرچہ ان کا عقیدہ مضبوط ہوتا تھا، پھر بھی وہ کسی گمراہ یا بد مذہب کی بات سننا گوارا نہ کرتے تھے، چاہے وہ شخص سو بار یقین دہانی کرواتا کہ وہ صرف قرآن و حدیث بیان کرے گا۔ یہی احتیاط آج بھی لازم ہے تاکہ ہمارا ایمان محفوظ رہے اور ہم گمراہی سے بچ سکیں۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے واعظ کے لیے چند شرطیں بیان فرمائی ہیں
پہلی شرط: واعظ کا مسلمان ہونا، دیوبندی عقیدے والے مسلمان ہی نہیں، ان کا وعظ سننا حرام ، اور دانستہ انہیں واعظ بنانا کفر۔ علمائے حرمین شریفین نے فرمایا ہےکہ:
"من شك في كفره وعذابه فقد كفر"
(جس نے ان کے کفر اور عذاب میں شک کیا، اس نے کفر کیا)
اسی طرح تمام وہابیہ غیرمقلدین۔
"فانهم جميعا اخوان الشياطين"
(کہ وہ سب شیطانوں کے بھائی ہیں)
دوسری شرط: واعظ کا سنی ہونا ۔ غیر سنی کو واعظ بنانا حرام ہے، اگرچہ بالفرض وہ بات ٹھیک ہی کہے۔ حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"ومن وقّر صاحب بداعة فقد اعان على هدم الاسلام"
(جس نے کسی بد مذہب کی توقیر کی، اس نے دین اسلام کے ڈھانے پر مدد دی)
(کنز العمال حدیث نمبر 1102)
تیسری شرط: واعظ کا عالم ہونا ۔ جاہل کو واعظ کہنا ناجائز ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
"اتخذ الناس رؤسا جهالا فاسألوه فافتوا بغير علم فضلوا واضلوا"
(لوگوں نے جاہلوں کو سردار بنا لیا، پس جب ان سے سوال کیا گیا، تو انہوں نے بغیر علم کے فتوے دیے، تو وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا)
(صحیح البخاری، کتاب العلم باب كيف يقبض العلم)
چوتھی شرط: واعظ کا فاسق نہ ہونا۔ تبین الحقائق وغیرہ میں ہے:
"لانه في تقديمه للامامة تعظيمه وقد وجب عليه يهانته شرعا"
( کیونکہ اسے امامت کے لیے مقدم کرنے میں اس کی تعظیم ہے، حالانکہ شرعاً مسلمانوں پراس کی توہین واجب ہے)
(تبین الحقائق، باب الإمامة والحدث في الصلاة)
اور جب یہ سب شرائط مجتمع ہوں ، سنی صحیح العقیدہ عالم دین متقی وعظ فرمائے تو عوام کو اس کے وعظ میں دخل دینے کی اجازت نہیں ، وہ ضرور مصالح شرعیہ کا لحاظ رکھے گا۔ ہاں اگر کسی جگہ کوئی خاص مصلحت ہو جس پر اسے اطلاع نہیں، تو پیش از وعظ اسے مطلع کر دیا جائے کہ یہاں یہ حالت ہے
(فتاویٰ رضویہ، جلد 29، صفحہ نمبر 70)
اور ان لوگوں سے علم دین حاصل کرنا بھی درست نہیں حدیث میں ہے کہ "ان هذا العلم دين فانظروا عمن تاخذون دينكم رواه مسلم" (مشكٰوة المصابيح كتاب العلم)
واللہ اعلم بالصواب
كتبه: محمد اشرف الحسين علائی
متعلم: مخدوم اشرف مشن
الدرجۃ: التخصص فی الفقہ، الافتاء الاول
0 Comments