کسی نے اپنی بیوی کو کہا " تو مجھ پر حرام ہے" تو کیا حکم ہوگا؟
سوال: زید نے اپنی بیوی سے دو مرتبہ کہا "تجھے طلاق ہے" اور تیسری مرتبہ کہا "تو مجھ پر حرام ہے" تو کیا صرف دو ہی طلاق پڑیں یا اس تیسرے جملے سے بھی طلاق ہوگئی؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
سائل: مولانا توصیف رضا، مونگیر، درجۂ فضیلت، جامعہ اشرفیہ
الجواب بعون الملک الوھاب: صورت مسئولہ میں زید کی بیوی پر تینوں طلاقیںپڑگئیں۔کیونکہ لفظ"حرام"طلاقِ صریح بائن ہے،اس سے بغیر نیت بھی طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے۔ لہذا اس کی بیوی اس پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی، نکاح ختم ہوگیا، اور اب دوبارہ نکاح بھی جائز نہیں سوائے اس کے کہ وہ عورت اپنی عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرے اور اس دوسرے شوہر سے صحبت ہوجائے، اس کے بعد وہ دوسرا شوہر طلاق دے دے یا بیوی طلاق لے لے یا وہ شوہر انتقال کر جائے، تو اس کی عدت گزار کر وہ دوبارہ زید سے نکاح کر سکتی ہے۔
ردالمحتار میں ہے "وإن كان الحرام في الأصل كناية يقع بها البائن لأنه لما غلب استعماله في الطلاق لم يبق كناية، ولذا لم يتوقف على النية أو دلالة الحال."(کتاب الطلاق، باب الکنایات، ج:3، ص:299، ط:سعید)
درمختار میں ہے"ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف."
اس پر رد المحتار میں ہے "(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية".(کتاب الطلاق، باب صریح الطلاق، ج:3، ص252، ط:سعید)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا."(کتاب الطلاق،فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1، ص:473، ط:دار الفكر بيروت)
و الله أعلم
كـتـبـه: سرور عالم المصباحي، المتدرب على الإفتاء بالجامعة الأشرفية
الجواب صحيح: المفتي بدر عالم المصباحي، رئيس الأساتذة و مفتي دار الإفتاء، الجامعة الأشرفية.
٨/جمادى الأولىٰ، ١٤٤٦
0 Comments