ختم ہوتا ہی نہیں، وہ ہے خزانہ تیرا
روز بٹنے پہ بھی گھٹتا نہیں باڑا تیرا
ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں مِلے صدقہ تیرا
واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا
’نہیں‘ سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
دہر ہے زیرِ نگیں جس کے وہ قریہ تیرا
منزلیں ڈھونڈتی ہیں جس کو وہ رستہ تیرا
انبیا فیض اٹھاتے ہیں وہ رتبہ تیرا
تارے کھِلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرّا تیرا
دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرا تیرا
تجھ کو مالک کہیں، مولا کہیں، آقا جانیں
رحمتِ حق تجھے ہم رحمتِ والا جانیں
ہم زمیں والے ہیں کم عقل، تجھے کیا جانیں
فرش والے تِری شوکت کا عُلو کیاجانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
چاہنے والا نہ اس جیسا، نہ تم جیسا حبیب
تم تو ایسے کے ہو محبوب جو ہے سب کا رقیب
غیریت آئے کہاں سے کہ ہو تم اتنے قریب
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و مُحب میں نہیں میرا تیرا
تیرے بیمار ہیں، کیوں اور مسیحا دیکھیں
تو جب اپنا ہے تو کیوں اور سہارا دیکھیں
تیرے منگتے ہیں کسی اور کا در کیا دیکھیں
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منھ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا
رحم کی بھیک دلادے کہ بہت خوار ہوں میں
اے کرم والے کرم ہو کہ خطا وار ہوں میں
لطف کی ایک نظر مجھ پہ کہ بیمار ہوں میں
خوار و بیمار و خطاوار و گنہ گار ہوں میں
رافع و نافع و شافع لقب آقا تیرا
ہاں خبر ہے کہ ہے دوزخ میں اذیّت کتنی
تاب اٹھا پاؤں جہنم کی سو ہمت کتنی
واں کھڑی ہوگی ترے نام پہ امت کتنی
ایک میں کیا مرے عصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارا تیرا
تیرے قدموں پہ ہی مٹ جائیں تبھی ہوں گے نہال
جاہ کی ہم کو تمنا ہے، نہ کچھ خواہشِ مال
تیرے منگتے ہیں کریں اور کہاں جاکے سوال
تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
تونے ایمان دیا، اپنی حمایت میں لیا
تونے قرآن دیا، اپنی کفالت میں لیا
ہر طرح تو نے ہمیں اپنی عنایت میں لیا
تو نے اسلام دیا اپنی جماعت میں لیا
تو کریم اب کوئی پھرتا ہے عطیہ تیرا
میرے سوکھے ہوئے دھانوں پہ جھڑی کردے، کہ ہے
میری قسمت کے اندھیروں کو جلی کردے، کہ ہے
جو سزائیں مجھے ملنی ہیں، کمی کردے، کہ ہے
میری تقدیر بری ہے تو بھلی کردے، کہ ہے
محو و اثبات کے دفتر پہ کڑوڑا تیرا
دور سے دیکھ کے جنت نے کیامیرا طواف
حشر کے روز مجھے مل ہی گیا ایسا غلاف
کہ ملائک بھی مجھے ڈھونڈتے ہیں چو اطراف
چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یاں اس کے خلاف
تیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا
دشمنِ جاں جو مِرے درپئے دَم ہیں وہ چلیں
جتنے ادبار ہیں چھائے ہوئے اب جلد ٹلیں
تیرے ہوتے ہوئے ہم غیر سے امداد نہ لیں
تو جو چاہے تو ابھی میل مِرے دل کے دھلیں
کہ خدا دل نہیں کرتا کبھی میلا تیرا
تم سے قرآن ملا اور تم ہی سے ایمان
سب رسولوں کی امامت ملی تم کو ذی شان
سب زمانے کریں اے جان تمہاری گن گان
آسماں خوان، زمیں خوان، زمانہ مہمان
صاحبِ خانہ لقب کس کا ہے تیرا تیرا
کس سے خوبی ہو بیاں تیری کہ ہے شانِ رفیع
مرتبہ ایسا ہے تیرا کہ کہیں اس کو وقیع
اک نظر اشرفِؔ خستہ پہ ہو للہ سمیع
تیری سرکار میں لاتا ہے رضاؔ اس کو شفیع
جو مِرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا
شاعر: سید محمد اشرف مارہروی
0 Comments