*اسلام اور سیاست*
__________________________________________
رشحات خامہ: محمد عسجد رضا رشیدی
متعلم: جامعہ اشرفیہ مبارک پور
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات اور نظام زندگی کا سرچشمہ ہے۔ یہ دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں مہد سے لے کر لحد تک کے ہر مسائل کا حل موجود ہے۔ جب اس دین میں ہر چیز کا علم موجود ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس میں سیاست شامل نہ ہو۔
یقیناً سیاست بھی دین کا ایک حصہ ہے بشرطیکہ وہ سچائی اور دیانت داری پر مبنی ہو۔ لغت کے مطابق سیاست” سَاسَ یا یَسُوْسُ“ سے مشتق ہے اس کے اصلی حروف سین واؤ سین (س و س) ہیں، جس کا *لغوی معنی* حکومت کرنا اور مملکت کی تدبیر کرنا ہے۔
*اصطلاح* میں سیاست اس فعل کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ اصلاح سے قریب اور فساد سے دور ہو جائیں۔
سیاست کے ذریعے ہی ظلم و جبر کا خاتمہ اور عدل و انصاف کا قیام صحیح معنوں میں وجود میں آتا ہے اگر یہ درست بنیادوں پر نہ ہو تو معاشرہ بد امنی اور افتراق انتشار کی نذر ہو کر رہ جاتا ہے، سیاست کے اصولوں کی سمجھ بوجھ اور ان پر گفتگو کے ذریعے معاشرتی نظام کو بہتر بنایا جاتا ہے؛ مگر افسوس کہ آج اسلام کے ماننے والوں کی ذہنیت کتنی بدل چکی ہے اور ان کے سوچنے کا انداز کیا سے کیا ہو گیا ہے؟ جو سیاست دین کا جز ہے، اُسے اسلام کے شیدائیوں نے اپنی فکری زبوں حالی کے سبب "اسلام اور سیاست" کو دو الگ چیزوں کا نام دے کر دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور اپنے خیالات کے مطابق دونوں کے لیے الگ الگ راستے از خود تجویز کرلیے اور دونوں کی ذمہ داریاں بھی الگ سمجھی جانے لگی؛ جس کی وجہ سے معاشرے میں اخلاقی بحران اور بد امنی، بے چینی اور نفرت کی سوداگری پیدا ہوتی چلی گئی۔ اس لیے امت مسلمہ کے ہر فرد پر ضروری ہے کہ اسلام اور سیاست کے مفہوم اور باہمی تعلق کو ٹھنڈے مزاج سے سمجھے اور اسلامی اصولوں کے مطابق سیاست کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہوجائے تاکہ معاشرہ اور سماج و سوسائٹی کا کھویا ہوا وقار بحال ہو سکے۔
*اسلام اور سیاست کا مفہوم اور باہمی تعلق:*
لفظ اسلام یہ ایک ایسا لفظ ہے جو دنیا اور آخرت دونوں کا مجموعہ ہے۔ مذہبی تعلیم کا وہ حصہ جو نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ، جنت و دوزخ، ثواب و عقاب اور قبر و حشر سے متعلق ہے اسے *آخرت* کہا جاتا ہے اور دینی تعلیم کا وہ حصہ جو عدل و انصاف، نظم و ضبط، فلاح و بہبود، خدمت خلق، اصول جہاں اور دنیاوی زندگی کے باہمی تعلقات اور حکمرانی سے متعلق ہے اسے "سیاست" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
مذکورہ بالا اقتباس سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ دنیا اور آخرت کو الگ الگ خانوں میں بانٹنا، دونوں کے درمیان تفریق پیدا کرنا اور دونوں کے راستے اور منزل الگ سمجھنا سخت نادانی ہے؛ بلکہ در حقیقت جس طرح اخروی زندگی کی کامیابی و کامرانی انسانیت کی معراج ہے، ٹھیک اسی طرح سے دنیاوی زندگی میں بھی عزت و عظمت اور رفعت و شوکت کے مینارہ پر "پرچم بلند کرنا" بھی اہل اسلام کی کامیابی کی دلیل ہے۔ اس سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ اسلام اور سیاست کے درمیان نہ کسی طرح کا کوئی اختلاف ہے اور نہ کوئی جھگڑا ہے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن نشین ہونی چاہیے کہ نہ دین سیاست سے الگ ہے اور نہ ہی سیاست دین سے ہٹ کر بقول شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال :
جلال بادشاہی ہو کے جمہوری تماشہ ہو
جدا ہو دین سے سیاست تو رہ جاتی ہےچنگیزی
*اسلامی تعلیمات اور سیاست کی بنیاد اہمیت اور عصر حاضر میں اس کی ضرورت:*
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں اسلام کے اصولوں کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ سیاست اسلام کے بنیادی اجزا میں شامل ہے؛ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: "ان الله يأمركم أن تؤدوا الامانات إلى أهلها و اذا حكمتم بين الناس ان تحكموا بالعدل"۔
بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرو اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔ یہاں آیت میں دو احکام بیان کیے گئے۔ پہلا یہ کہ امانتیں ان کے حوالے کرو جن کی ہیں اور دوسرا حکم یہ کہ جب فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو، یہ دونوں احکام اسلامی تعلیمات کے شاہ کار ہیں، امن و امان کے قیام اور حقوق کی ادائیگی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ آیت اسلامی سیاست کا بنیادی اصول فراہم کرتی ہے کہ حکمرانی انصاف پر مبنی ہونی چاہیے۔
عصر حاضر میں سیاست کی ضرورت اس لیے بھی زیادہ ہے؛ کیوں کہ درج ذیل چیلنجز کا سامنا ہے۔
*عالمی امن کے مسائل:* دہشت گردی، جنگیں اور سیاسی تنازعات دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
*ماحولیاتی تبدیلی:* ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے عالمی اور قومی سطح پر پالیسیوں کی ضرورت ہے۔
*معاشرتی ناہمواری:* غریب اور امیر کے درمیان فرق معاشرتی پستی و تنزلی کا شکار ہوچکا ہے جسے سیاست کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔
*فرقہ وارانہ تشدد کا سد باب:*” جس کی لاٹھی اس کی کی بھینس“ اس کہاوت سے ہر ذی شعور واقف ہے۔ اسے مد نظر رکھتے ہوئے اگر آپ وطن عزیز کی تشویش ناک صورت حال پر طائرانہ نظر ڈالیں تو یہ واشگاف ہوجائے گا کہ جب سے متعصب ہندتوادی وادی جماعت یعنی RSS نواز، بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت آئی ہے، اس کے روز اول سے ان نام نہاد سناتنیوں کے حوصلے ان کی اوقات سے زیادہ بلند ہوگئے ہیں، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم مآب لنچنگ کے ذریعے کسی مسلمان کی جان و مال کو نشانہ بنائیں یا ان کے گھروں کو نذر آتش کردیں، بھگوا لَو ٹرپ کے ذریعے اسلام کی شہزادیوں کو اپنے دلدل میں پھنسا کر عبرت ناک انجام کریں یا لَوْ جہاد کے نام پر مسلم نوجوانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ انھیں سلاخوں کے پیچھے جانے پر مجبور کریں، ہمیں ہمارے آقا(جن کے اشاروں پر وہ ناچتے ہیں) بچا لیں گے، ہمارا سو خون بھی معاف ہوجائے گا، ہم لاکھ جرم کریں بعدہ BJP یا RSS کی رکنیت لے لیں گے ہمیں سارے جرائم سے پاک و صاف ہونے کی سند مل جائے گی۔ یہی وہ بنیادی اور اہم وجہ ہے جس کے سبب ان شر پسند عناصر کے حوصلے مرور ایام سے بلند ہوتے جارہے ہیں۔ اور انہوں نے اپنے قدم آگے بڑھاتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ان کی عبادت گاہوں اور مقامات مقدسہ اپنے باطل عزائم کی حصولیابی کا ذریعہ بنایا لیا ہے کہ کبھی بابری مسجد تو کبھی شاہی جامع ، کبھی متھورا تو کبھی کاشی، کبھی اجمیر معلیٰ تو کبھی دیگر مقامات مقدسہ پر مندر ہونے کا دعویٰ ٹھوکو، یاچکہ دائر کرو عدالتوں میں بیٹھے بندے تو ہم خیال ہیں، یاچکہ منظور ہوگا، سروے کے آدیش دیے جائیں گے، ہم مذہب مخالف نعرے لگائیں گے، مسلمانوں کے جذبات مشتعل ہوں گے، باہمی تصادم ہوگا، پھوٹ پڑے گی اور ہم اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوں گے” پھوٹ ڈالو حکومت کرو“ ابھی سنبھل کا واقعہ زندہ ثبوت ہے مسلمانوں کی عبرت کے لیے کہ سارے پروپیگنڈے منصوبہ طریق سے اسلام کے مخالف طاقتوں نے کیا اور جان و مال و نقصان اور گرفتاری صرف اور صرف لا الہ الا اللہ محمد رسول ﷺ کا صدا بلند کرنے والوں کی ہوئی، انھیں دنگائی، فسادی اور امن شانتی کا قاتل ٹھہرا دیا گیا اور ہو بھی کیوں نا کہ
وہی قاتل وہی شاہد وہی منصف ٹھہرے
اقربا میرے کریں قتل کا دعویٰ کس پر
لیکن بے چارے مسلمانوں کو کون سمجھائے یہ تو اپنے کو غدار اور غیروں کی مسیحائی کا ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ جب تک اپنے کو اپنا ماننے اور اس کی حمایت کا شعور پیدا نہ کریں گے یہ منظر نامہ ہرگز نہ بدلے گا کہ جب تک قوم اپنی حالت نہیں بدلتی رب عزوجل بھی اس کی حالت تبدیل نہیں فرماتا ہے، ارشاد ربانی ہے:
”اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْؕ“ ترجمہ: بےشک اللہ کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدل دیں۔
شاعر مشرق کی زبان میں
پہلے قوت فکر و عمل فنا ہوتی ہے
پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے
لب لباب یہ کہ اسلام اور سیاست میں تلازم کی نسبت ہے، اسلام میں سیاست کو دین کے تابع رکھا گیا ہے؛ تاکہ انسان کی اجتماعی زندگی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق منظم ہو سکے۔
اس لیے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بات کو سمجھیں اور اپنے معاشرتی و سیاسی نظام کو قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔
اس لیے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بات کو سمجھیں اور اپنے معاشرتی و سیاسی نظام کو قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔
ورنہ
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانو
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
0 Comments