مدارس کے محصلوں کی اجرت اور امانت میں تصرف کا شرعی حکم

مدارس کے محصلوں کی اجرت اور امانت میں تصرف کا شرعی حکم

اگر محصل کو رقم وصول کرنے کا کام دیا گیا ہے تو وہ رقم ان کے پاس ایک امانت ہے، اس رقم کو مدرسہ یا متعلقہ ادارے کی اجازت کے بغیر ذاتی طور پر خرچ کرنا شرعاً درست نہیں


کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسائل ذیل کے بارے میں کہ مدرسہ وغیرہ کے محصلوں کو متعین رقم دی جاتی ہے یہ جائز ہے یا نہیں نیز کوئی محصل اپنا وصول جمع کرنے سے پہلے خرچ کر ڈالے اور بعد میں اس کا حساب چکائے شریعت مطہرہ میں یہ جائز ہے یا نہیں دلائل کے ساتھ تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔

المستفتی: عبد اللہ

الجواب بعون الملک الوھاب:
مدرسہ وغیرہ کے محصّلوں کو متعین رقم دینے کے بارے میں علمائے کرام کی مختلف آراء ہیں، لیکن عمومی طور پر اس طرح کی رقم کا لینا دینا جائز قرار دیا جاتا ہے، موجودہ زمانے میں چندہ کرنے والے عموماً عامل نہیں ہوتے، چاہے مدرسہ کے سفیر ہوں یا اس کے علاوہ، ہاں اگر قاضی شرع انہیں زکوٰۃ وغیرہ کی رقم وصول کرنے پر مقرر کرے تو وہ عامل قرار پائیں گے، اور اگر سفیر فیصد پر چندہ کرے تو اجیر مشترک قرار پائیں گے، چاہے وہ 25 یا 30 فیصد پر کریں یا 40 اور 50 فیصد پر، کہ ان کی اجرت کام پر موقوف رہتی ہے، جتنا چندہ کریں گے اسی حساب سے اجرت کے حقدار ہوں گے۔

فتاویٰ شامی میں ہے: "الاجراء على ضربين مشترك وخاص فالاول من يعمل لا لواحد كالخياط ونحوه او يعمل له عملا غير مؤقت كان استاجره للخياطة في بيته غير مقيدة بمدة كان اجيرا مشتركا وان يعمل لغيره
(جلد 6، صفحہ نمبر 64)

بہار شریعت میں ہے: "کام میں جب وقت کی قید نہ ہو اگرچہ وہ ایک ہی شخص کا کام کرے یہ بھی اجیر مشترک ہے، مثلاً درزی کو اپنے گھر میں کپڑا سینے کے لیے رکھا اور یہ پابندی نہ ہو کہ فلاں وقت سے فلاں وقت تک سیئے گا اور روزانہ یا ماہانہ یہ اجرت دی جائے گی بلکہ جتنا کام کرے گا اسی حساب سے اجرت دی جائے تو یہ اجیر مشترک ہے"۔
(حصہ 4، صفحہ 144)

لہذا، ڈبل تنخواہ پر چندہ کرنے والوں کو ڈبل تنخواہ اور فیصد پر چندہ کرنے والوں کو جتنا فیصد مقرر ہو اس اعتبار سے اجرت دینا جائز ہے، چاہے وہ صدقہ واجبہ ہو یا صدقہ نافلہ، دونوں کی اجرت میں کوئی فرق نہیں، البتہ چندہ کرنے والوں پر ضروری ہے کہ فیصد مقرر کرتے وقت اس کا خاص خیال رکھیں کہ مدارس وغیرہ کا نقصان نہ ہو، جتنے بھی سفیروں کی ضرورت پوری ہو جائے اسی اعتبار سے فیصد مقرر کریں، اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔

(2) شریعت میں بنیادی اصول یہ ہے کہ امانت میں خیانت جائز نہیں ہے، اگر محصل کو رقم وصول کرنے کا کام دیا گیا ہے تو وہ رقم ان کے پاس ایک امانت ہے، اس رقم کو مدرسہ یا متعلقہ ادارے کی اجازت کے بغیر ذاتی طور پر خرچ کرنا شرعاً درست نہیں کیونکہ یہ خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔

فتاویٰ رضویہ میں ہے: "ذر امانت میں اس کو تصرف حرام ہے کہ ان مواضع میں ہے جن میں دراہم و دنانیر متعین ہوتے ہیں، اس کو جائز نہیں کہ اس روپیے کے بدلے دوسرا روپیہ رکھ دے اگرچہ بعینہ ویسا ہی ہو، اگر کرے گا امین نہ رہے گا اور تاوان دینا آئے گا"۔
(جلد 2، صفحہ 31)

کتبہ: اشرف الحسین علائی
المتخصص فی الفقہ
المتعلم: مخدوم اشرف مشن


المصحح: مفتي محمد لقمان اشرفي
الجواب صحیح

Post a Comment

0 Comments