اگر کوئی شخص شادی شدہ لڑکی سے زنا کیا یا اس سے نکاح تو اس کا کیا حکم ہوگا

اگر کوئی شخص شادی شدہ لڑکی سے زنا کیا یا اس سے نکاح تو اس کا کیا حکم ہوگا

السوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسائل ذیل کے بارے میں کہ زید ایک شادی شدہ لڑکی کو بھگا کر گھر لایا اور تقریباً ایک ماہ اپنے گھر میں بی بی کی طرح رکھا ہوا ہے زید کے گاؤں کے ذمے داران کو واقعہ کا علم ہے پھر بھی ذمے داران کوئی کاروائی نہیں کی اور نہ ہی امام صاحب نے کبھی اس مسئلے کو بیان کیا بلکہ گاؤں ہی کے ایک مولانا صاحب نے ذمے داران و امام صاحب کو کاروائی کرنے کو کہا اس کے باوجود ذمے داران اور امام صاحب نے کچھ کاروائی نہیں کی۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ شریعت میں زید اور عورت کا حکم کیا ہے نیز ذمہ داران اور امام صاحب کا حکم بھی واضح کریں۔
المستفتی: محمد اختر حسین دار جلینگ بنگال۔

نکاح کے بغیر کسی مرد و عورت کا باہم ناجائز تعلقات قائم کرنا، شریعت کی رو سے سخت حرام اور سنگین گناہ ہے۔ زید کا کسی شادی شدہ عورت کو، اس کے شوہر کے ہوتے ہوئے، اپنے گھر میں بیوی کی طرح رکھنا یا اس سے نکاح کرنا، شریعت کے اصولوں کے سراسر خلاف ہے، اور یہ عمل زنا کے زمرے میں آتا ہے۔ ایسے تعلقات رکھنے والے دونوں افراد، کبیرہ گناہ کے مرتکب ہیں۔ دونوں پر لازم ہے کہ فوراً جدا ہو جائیں، اور اللہ کے حضور اعلانیہ توبہ کریں۔


الجواب بعون الملک الوھاب:
نکاح کے بغیر کسی مرد و عورت کا باہم ناجائز تعلقات قائم کرنا، شریعت کی رو سے سخت حرام اور سنگین گناہ ہے۔ زید کا کسی شادی شدہ عورت کو، اس کے شوہر کے ہوتے ہوئے، اپنے گھر میں بیوی کی طرح رکھنا یا اس سے نکاح کرنا، شریعت کے اصولوں کے سراسر خلاف ہے، اور یہ عمل زنا کے زمرے میں آتا ہے۔ ایسے تعلقات رکھنے والے دونوں افراد، کبیرہ گناہ کے مرتکب ہیں۔ دونوں پر لازم ہے کہ فوراً جدا ہو جائیں، اور اللہ کے حضور اعلانیہ توبہ کریں۔
البتہ، اس عورت کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، اور وہ اپنے شوہر کے لیے بدستور حلال ہے۔ عورت پر عدت بھی لازم نہیں، اگرچہ اس دوران زید سے ہمبستری کر لی ہو، کیونکہ یہ زنا ہے، اور زنا کی عدت نہیں۔ "در مختار" میں ہے: "لا عدۃ للزنا"
(باب العده، مطبع مجتبائی دہلی، جلد 1/255)۔
البتہ، شوہر کو چاہیے کہ ایک مرتبہ ماہواری گزرنے سے پہلے، جسمانی تعلقات قائم نہ کرے۔ "در مختار" میں ہے: "لا عدة لو تزوج امراة الغير و وطئها عالما بذلك وفي نسخ المتين ودخل بها ولابد منه وبه يفتي
(باب العدة، مطبع مجتبائي دہلی، جلد 256/1)۔
"فتویٰ ہندیہ" میں ہے: "لا تجب العدة على الزانية وهذا قول ابي حنيفة ومحمد كذا في شرح الطحابي"۔ (کتاب الطلاق، الباب الثالث عشر فی العدۃ)۔
اگر گاؤں کے ذمے داران اور امام صاحب کو اس واقعہ کا علم ہونے کے باوجود کوئی روک تھام کی کوشش نہیں کرتے، تو سب کے سب گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوں گے۔ ان سب پر بھی توبہ لازم ہے۔ گاؤں کے افراد اور امام صاحب پر ضروری ہے کہ وہ دونوں کے درمیان فوری تفریق کرائیں۔ اگر زید انکار کرے، تو سماجی بائیکاٹ کریں، تاکہ ایسے سنگین گناہ اور شریعت کے خلاف ورزیاں دوبارہ نہ ہوں۔
ارشاد خداوندی ہے:
"وَإِمَّا یُنسِیَنَّكَ ٱلشَّیۡطَـٰنُ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ ٱلذِّكۡرَىٰ مَعَ ٱلۡقَوۡمِ ٱلظَّـٰلِمِینَ
(الأنعام: 68)۔

والله اعلم بالصواب

 كتبه اشرف الحسين المتخصص في الفقه 
المتعلم: مخدوم اشرف مشن پنڈوا شریف

المصحح: مفتي محمد لقمان اشرفي
الجواب صحيح

Post a Comment

0 Comments