السوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسائل ذیل کے بارے میں
زید، جو کہ سنی العقیدہ ہے، نے چند سال پہلے ایک دیوبندی لڑکی سے نکاح کیا تھا۔ اس نکاح سے ایک بچہ بھی پیدا ہوا۔ حالیہ تنازعات کے باعث زید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں کہا: "جا تجھے طلاق، طلاق، طلاق"۔
تو دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا زید کی بیوی پر طلاق واقع ہو گئی ہے؟
اگر طلاق واقع ہوئی ہے تو کیا یہ تین طلاقیں شمار ہوں گی؟ آیا زید اور اس کی بیوی کے درمیان دوبارہ نکاح جائز ہے؟
نیز یہ بھی بتائیں دیوبندی اور اہل سنت (سنی) کے درمیان نکاح کا کیا حکم ہے؟۔
المستفتی: مولانا تیمور حسین اشرفی
الجواب بعون الملك الوهاب: دیوبندی، وہابی، شان الوہیت و رسالت میں گستاخی کرنے کی وجہ سے کافر و مرتد ہیں۔
جن کے بارے میں علمائے حرمین شریفین نے یہ فتویٰ صادر فرمایا:
"من شك في كفره وعذابه فقد كفر"
یعنی "جس نے ان کے کفر اور عذاب میں شک کیا، وہ خود بھی کافر ہو گیا"۔
(حسام الحرمین)
فتاوی شامی میں ہے:
"اجمع المسلمون على ان شاتمه كافر من شك في عذابه وكفره كفر"۔
یعنی مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ نبی کی توہین کرنے والا کافر ہے جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔
(رد المحتار جلد 6 كتاب الجهاد)
"ان مرضو افلا تعود وهم وان ماتوا فلا تشهد وهم وان لقيتموهم فلا تسلموا عليهم ولا تجالسوهم ولا تشار بوهم ولا واكلوهم ولا تنكحوهم ولا تصلوا عليهم ولا تصلوا معهم"۔
یعنی بد مذہب اگر بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرو اگر مر جائیں تو ان کے جنازے میں شریک نہ رہو ان سے ملاقات ہو تو انہیں سلام نہ کرو ان کے پاس نہ بیٹھو ان کے ساتھ پانی نہ پیو ان کے ساتھ کھانا نہ کھاؤ ان کے ساتھ شادی بیاہ نہ کرو ان کے جنازے کی نماز نہ پڑھو نہ ان کے ساتھ نماز پڑھو۔
(المستدرک للحاکم جلد 3 صفحہ 632)
لہذا دیوبندی شان الوہیت و رسالت میں گستاخی کرنے کی وجہ سے کافر و مرتد ہوئیں اور کافر مرد و عورت سے کسی مسلمان مرد و عورت کا نکاح جائز ہی نہیں۔
فتوی عالمگیری میں ہے:
"لا يجوز نكاح للمرتدة ان يتزوج مرتدة ولا مسلمة ولا كافرة اصلية وكذلك لا يجوز نكاح المرتدة مع احد كذا في المبسوط"۔
لیکن یہ حکم ان دیوبندی مرد و عورت کے لیے ہے جو گنگوہی، نانوتوی، انبیٹھی، تھانوی کی ان کفریہ عبارتوں پر مطلع ہو کر صحیح جانیں۔
البتہ وہ دیوبندی افراد جو ان کے کفریہ عقائد سے ناواقف ہوں، محض اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہوں اور کلمہ طیبہ کے اقرار کے ساتھ عمومی مسلمان ہوں، وہ مسلمان شمار ہوں گے۔ ایسے افراد کے ساتھ اہلِ سنّت کے مرد و عورت کا نکاح جائز ہے۔ جیسا کہ علامہ شریف الحق امجدی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں: مرتد یا مرتدہ وہ دیو بندی مرد یا عورت ہے جو گنگوہی، نانوتوی ، انبیٹھی، تھانوی کی ان کفری عبارتوں پر مطلع ہو جن پر علماے اہل سنت نے ان کی تکفیر کی ہے۔ لیکن میرا تجربہ ہے کہ عوام الناس تو عوام الناس بہت سے پڑھے لکھے دیو بندی بھی ان عبارتوں سے واقف نہیں ہوتے، خصوصا عورتیں تو نا واقف ہوتی ہیں۔ اس لیے جب تک تحقیق سے ثابت نہ ہو جائے کہ یہ عورت ان کفری عبارتوں پر مطلع ہے، پھر ان عبارتوں کے لکھنے والوں کا اپنا پیشوا مانتی ہے یا مسلمان جانتی ہے۔ اس لیے عام دیو بندی کی لڑکیوں پر مرتدہ کا حکم لگانا درست نہیں۔
(فتاوی شارح بخاری جلد 3 صفحہ 287)
لہذا صورت مستفسرہ میں زید کی بی بی کے بارے جب تک تحقیق سے یہ ثابت نہ ہو کہ عورت دیوبندی عقائد کفریہ رکھتی ہے، اس سے نکاح شرعاً جائز ہے۔ تاہم، اگر شوہر ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دے، تو وہ طلاق مغلظہ شمار ہوگی اور وہ عورت شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جائے گی، جب تک کہ حلالہ کی شرعی صورت مکمل نہ ہو جائے۔ حلالہ کی صورت یہ ہوگی کہ عورت دوسرے مرد سے نکاح کرے، پھر ہمبستری کے بعد شوہرِ ثانی اسے طلاق دے۔ عدت گزارنے کے بعد وہ عورت پہلے شوہر کے لیے دوبارہ نکاح کے ذریعے حلال ہو جائے گی۔فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية"۔
(ج: 1، ص: 472، فصل فیما تحل بہ المطلقۃ
( أقول)
عوام دیوبندی جو کفری عبارت سے غافل ہیں ان پر کفر کا فتویٰ نہیں تاہم ان کے ساتھ رشتہ مناکحت قائم کرنے سے پرہیز کیا جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
كتبه اشرف الحسين المتخصص في الفقه
المتعلم: مخدوم اشرف مشن پنڈوا شریف
المصحح: مفتي محمد لقمان اشرفي
الجواب كفى وشفا والعلم بالحق عند اللہ جل وعلا
0 Comments